شہد کی مکھیاں اور امراض کی تشخیص ؟ ہے نہ حیرت انگیز بات مگر یہ سچ ہے ۔گزشتہ برس آئنڈہوون میں ’’ڈچ ڈیزائن ویک‘‘ کی تقریب کے دوران پرتگالی ڈیزائنر سوسن سوارز نے ایک آلہ متعارف کروایا جو شہد کی مکھیوں کے ذریعے کینسر اوردیگرامراض کی تشخیص میں مددکرسکتا ہے۔
دراصل شہد کی مکھیوں میں سونگھنے کی حس غیرمعمولی حدتک تیز ہوتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کو امراض سے متعلق جراثیم کی مخصوص خوشبو پہچاننے کیلئے بھی سدھایا جاسکتا ہے۔
مثلاً جلد ، پھیپھڑوں، لبلبے کا کینسر اور تپ دق وغیرہ۔ یہ آلہ دو خانوں پرمشتمل ہے۔ چھوٹے خانے کو تشخیصی خانہ بھی کہا جاسکتا ہے جس میں لوگ اپنا سانس سے بھرتے ہیں اورنمی کی صورت میں سانس شیشے کی دیواروں پر ظاہر ہوجاتا ہے۔ بڑے خانے میں پہلے سے سدھائی ہوئی مکھیاں موجود ہوتی ہیں ۔
جو مخصوص خوشبو کو پہچان کر چھوٹے خانے کی طرف لپکتی ہیں۔ خمدار بیرونی ٹیوب مکھیوںکو اندرونی چیمبر سے پرے رکھتی ہے۔ اس مقصد کیلئے مکھیوں کو ’’پیولو ریفلیکس‘‘ کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے 10منٹ کے قلیل عرصہ میں سدھایا جاسکتا ہے۔ اس طریقے میں مخصوص خوشبو کو پہچاننے پرمکھیوں کو چینی ملے پانی کا محلول بطورانعام دیا جاتا ہے۔ مکھیوں کیلئے یہ ایک ایسا انعام ہے کہ جس کو وہ اپنی چھ ہفتہ پرمشتمل زندگی میں ہمیشہ یادرکھتی ہیں۔
سائنسدانوں کو یقین ہے کہ مکھیاں خاص طورپرانسانی صحت کا راز بتانے والے غدودوں سے خارج ہونے والے کیمیائی مواد اور کئی امراض کی ابتدائی علامات کی درست تشخیص کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ ادویات کی دنیا میں میں شہد کی مکھیوں کو بطوربائیوسنسرز اورسکریننگ ٹیسٹ کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
انجکشن کو خدا حافظ
یورپ کے متعدد ملکوں میں انجکشنوں کے ذریعے دو اکے استعمال کا رجحان تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ طبی ماہرین نے منہ کے ذریعے دوا کے استعمال کو زیادہ محفوظ قرار دیا ہے۔
لیبون مانیٹرنگ باڈی کے ایک تازہ سروے کے مطابق انجکشنوں کے ذریعے دوا لینے کے رجحان میں کمی کی بڑی وجہ سرنجوں کے ذریعے HIV وائرس کے پھیلاؤ کے خطرات ہیں۔ چنانچہ 2002ء سے لے کرآج تک انجکشنوں کے ذریعے دوا لینے میں 65 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے اور 10ممالک میں پہلی مرتبہ ڈاکٹروں نے انجکشن نسخوں میں لکھنا چھوڑ دیئے ہیں۔ یورپی یونین کے 12 ممالک میں بذریعہ سرنج انجکشن کا استعمال2.5فیصد کم ہو چکا ہے۔
اب نسخوں میں کیپسول اور گولیاں تجویز کی جانے لگی ہیں۔ سرنجوں کے ذریعے نشے اور دیگر غیر محفوظ ادویات کے استعمال کئے جانے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انجکشنوں کو خیر باد کہنے کی سوچ اور علاج کا متبادل طریقۂ کار اپنا لیا ہے۔
بیکٹیریا کے خلاف مدافعت کرنے والے قدرتی اینٹی بائیوٹکس
سر الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928ء میں سب سے پہلے اینٹی بیکٹریل طاقت کو دریافت کیا، جو اس وقت ایک کامیاب فطری علاج تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ متعدد فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ریسرچ سے اینٹی بائیوٹک دریافت کئے گئے لیکن حال ہی میں سامنے آنے والی نئی تحقیق نے بیکٹریا سے لڑنے والے 6 طرح کے قدرتی اینٹی بائیوٹکس کا انکشاف کیا ہے ۔
جن کو اگر روز مرہ خوراک میں شامل کیا جائے توامراض کے خلاف یہ ایک قدرتی ڈھال ثابت ہوتے ہیں ۔ ویسے ان کا حصول روزمرہ کھانے پینے کی اشیاء سے پہلے ممکن ہو رہا ہے۔
لہسن
دنیا بھر میں کئی ہزارقبل سے آج تک لہسن کو مختلف امراض کے علاج و معالجہ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
جدید تحقیق اس امر کی تصدیق کر رہی ہے کہ لہسن میں ایسے اینٹی بائیوٹک قدرتی طور پر شامل ہیں جو نہ صرف دشمن بیکٹیریا کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ مدافعتی نظام کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔
گل پنج بزاری (امریکی جڑی بوٹی)
صدیوں سے استعمال ہونے والی یہ جڑی بوٹی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے بلکہ متعدد بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی فراہم کرتی ہے۔
عام طور پر اس جڑی بوٹی کا استعمال زخموں کے بھرنے، ٹوٹی ہڈی جوڑنے، خون سے زہر چوسنے سمیت مختلف بیکٹیریا کے خاتمے کیلئے ہوتا ہے۔ یہ جڑی بوٹی نزلہ اور زکام کی صورت میں بھی نہایت مفید سمجھی جاتی ہے۔
ادرک
قدرتی اینٹی بائیوٹک سے بھرپور ادرک کا استعمال تاریخی طور پر سانس لینے کے عمل میں انفیکشن کے دوران کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ منہ کی مختلف بیماریوں کے لئے بھی نہایت فائدہ مند ہے۔ مثلاً منہ سے آنے والی ناگوار بدبو دور کرنے کیلئے یہ بہت مفید ہے۔
شہد
دنیا بھر میں اینٹی بیکٹریل علاج کے لئے شہد کا استعمال اس وقت سے کیا جا رہا ہے جب مارکیٹ میں مصنوعی اینٹی بائیوٹک دستیاب نہیں ہوتے تھے۔
شہد کے اندر موجود اینٹی بائیوٹک معدے کے السراور جگر سمیت متعدد بیماریوں کے لئے مفید اور اکثیر ہے۔
لیموں
آج تک متعدد تحقیقات لیموں میں اینٹی بائیوٹک کی موجودگی کو ثابت کر چکی ہیں۔
برٹش جرنل آف فارماکالوجی کے مطابق لیموں کا استعمال متعدد بیماریوں کو پیدائش سے قبل ہی مار دیتا ہے۔ لیموں ایک ایسا قدرتی اینٹی بائیوٹک ہے جو علاج کے دوران اندرونی و بیرونی دونوں سطحوں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
محمر غذاء
آج کل ڈاکٹروں کی ایک کثیر تعداد ایسی خوراک کے زیادہ استعمال پر زور دے رہی ہے، جو دوست بیکٹیریا میں اضافہ کا سبب بنے اور اس کے لئے محمر سبزیاں اور مشروبات کا استعمال نہایت مفید ہے۔
آم کیوں کھائے جائیں
گرمیاں آ چکی ہیں اور بازار میں آم بھی دستیاب ہیں۔ پھلوں کے بادشاہ آم کے بارے میں نئی تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں پانچ ایسی وجوہات بتائی گئی ہیں کہ ہم آم کیوں کھائیں؟۔
(1) آم مختلف قسم کے اینزائم پر مشتمل ہوتا ہے۔
جو پروٹین کی زیادتی کے عمل کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، اسی وجہ سے لوگ عام طور پر کھانے کے بعد آم کھاتے ہیں۔ مختلف وٹامنز، منرلز اور ریشوں سے بھرپور یہ پھل نظام انہضام کو بہتر بناتا ہے۔
(2) آم میں موجود خاص غذائی جُز (گلاسیمک انڈکس) کھانا کھانے سے فوری بڑھنے والی شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے۔
(3) آم میں میں پایا جانے والا وٹامن سی اور سفیدہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو بڑھنے سے روکتا ہے۔
(4)آم کے اندر موجود وٹامن اے آنکھوں کے لئے نہایت مفید ہے۔ اس پھل کے استعمال سے انسان ’’رات کا اندھا پن‘‘ جیسی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
(5) آم میں قدرتی طور پر شامل وٹامن ای نظامِ تولید کی پختگی اور تحریک کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے اور یہ مرد و خواتین دونوں کے لئے یکساں مفید ہے۔
بصارت اور کینسر کی دوا
حالیہ تحقیق کے مطابق مختلف قسم کے سرطان سے محفوظ رکھنے والی دوا سے ضعیف العمر افراد کی بصارت کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
مثلاً اولسٹن سے عمر رسیدگی کے باعث ہونے والے آنکھوں کے مہلک امراض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس دوا کو تاحال آنکھوں کے امراض کے علاج کے لئے باقاعدہ لائسنس جاری نہیں کیا گیا تاہم بعض ڈاکٹر ان افراد کو یہ دوا تجویز کرنے لگے ہیں جن کی بینائی رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی دواء سے آنکھوں کے امراض سے تحفظ پایا جانا ممکن ہے۔ اس تحقیق میں لندن کے مور فلیڈآئی ہسپتال سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے برطانیہ کے تین مزید آئی سنٹرز کے ماہرین کی معاونت میں طبی مطالعہ کیا جس میں انہوں نے 131 ایسے مریضوں کو زیر تحقیق رکھا جن کی عمریں 80 سال سے زائد تھیں ۔ جن افراد کو اولسٹن کے انجکشن لگائے گئے تھے ان کی بصارت معمولی سی زائل ہوئی جبکہ بہت سے افراد کی بینائی تیز ہو گئی اور آئی ٹیسٹ کے دوران انہوں نے لفظوں کے چارٹ کو بالکل صحیح طریقے سے شناخت کیا۔
زیادہ دیر بیٹھناسگریٹ نوشی جیسے مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے
پٹسبرگ میں کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کرنے کی عادت انسانی صحت پر سگریٹ نوشی جیسے مضر اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ عمومی طور پر مختلف دفاتر میں ایک ملازم 5گھنٹے اور 40 منٹ سیٹ پر ضرور بیٹھ کر کام کرتا ہے۔
یہ تحقیق ایک امریکی ڈاکٹر مائیکل جینسن اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق لوگوں کو چہل قدمی کی زیادہ ضرورت ہے۔
ڈاکٹر جینسن کا کہنا ہے کہ ایک یا آدھے گھنٹے کے لئے جم جا کر ورزش کرنے سے زیادہ دیر تک بیٹھنے کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ورزش آپ کو زیادہ دیر تک بیٹھنے سے پیدا ہونے والے موٹاپے کے مضر اثرات سے نہیں بچا سکتی۔
محقق کے مطابق زیادہ دیر کر بیٹھنے سے دل کی بیماری اور شوگر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے بتاتے ہوئے ڈاکٹر جینسن اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کام کے دوران چہل قدمی یا کھڑے ہو کر کام کرنے سے ہم زیادہ بیٹھنے کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ تحقیق میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ بریسٹ کینسر کے 49 ہزار اور بڑی آنت کے کینسر کے 43 ہزار کیسز کی وجہ زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کرنا ہے۔