دہشت گردی کی پھنکار، جرائم کی بھرمار، تشدد کی یلغار، ہر سو قہر، ہر سو بگاڑ!
نعیم صادق اِس گمبھیر صورت حال کے ماخذ تک پہنچ گئے ہیں، انتشار کے بنیادی سبب کا تعین کرلیا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ ملک بھر میں پھیلا اسلحہ ہے، جس نے زندگی کو ارزاں کردیا، شرح اموات بڑھنے لگی۔ بہ قول اُن کے، جس کے پاس اسلحہ ہوگا، وہ ’’برداشت‘‘ جیسا بنیادی سماجی رویہ ترک کر دے گا، مکالمے کے رجحان کو کچل کر طاقت کی زبان استعمال کرنے لگے گا۔ اور ہمارے ہاں کچھ ایسا ہی ہوا۔
نعیم صادق کا اصل میدان انڈسٹریل انجینئرنگ ہے، ایک کنسلٹنٹ فرم چلا رہے ہیں۔ یہ بہتر سماج کا خواب تھا، جس کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بگاڑ کے اصل سبب تک پہنچے۔ اسلحے کے عدم پھیلاؤ کو اپنا مقصد بنالیا۔ تحقیق کی۔ مضامین لکھے۔ تحریریں اُن کی ملک کے معتبر انگریزی اخبارات و جراید میں شایع ہوئیں۔ کچھ ہم خیال دوست بھی آن ملے۔ کئی سیمینارز اور ورک شاپس میں شرکت کر چکے ہیں۔ 2013 میں ایک گروپ ’’سٹیزن ٹرسٹ اگینسٹ کرائم‘‘ (CTAC) تشکیل دیا۔ مشتاق چھاپرا اس کے چیئرپرسن ہیں۔
Deweaponization کے مدعا پر گذشتہ دنوں اُن سے خصوصی گفت گو ہوئی، جو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
٭ ایکسپریس: میدان آپ کا انجینئرنگ، پھر Deweaponization کے لیے کام کرنے کا خیال کیوں کر سوجھا؟
نعیم صادق: دس بارہ برس پہلے، جیسے جیسے پاکستان میں عسکریت پسندی اور جرائم بڑھے، ہم نے سوچنا شروع کیا کہ اِسے روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ رواں برس صرف کراچی میں 70 سے زاید پولیس اہل کار قتل ہوچکے ہیں۔ دنیا کے کسی اور ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی۔
برطانیہ میں، گذشتہ کئی برس میں کسی پولیس اہل کار کا ’’ٹارگیٹڈ مرڈر‘‘ نہیں ہوا۔ میرا تعلق انڈسٹریل انجینئرنگ سے ہے۔ حادثے سے قبل اُس کی روک تھام ہماری ذمے داریوں میں شامل ہے۔ تو غور کیا کہ معاشرے میں حادثہ، یعنی تشدد روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ سمجھ میں آیا، فقط ایک ہی طریقہ ہے، آپ معاشرے کو ہتھیاروں سے پاک کر دیں۔ یہی خیال مجھے اِس طرف لایا۔
٭ ایکسپریس: اور آپ نے قلم کو اپنا ہتھیار بنالیا؟
نعیم صادق: جی ہاں۔ میں نے انگریزی اخبارات اور رسائل میں مضامین لکھنے شروع کیے، مگر ایک پیشہ وَر مضمون نگار کی حیثیت سے نہیں، بلکہ عام شہری کی حیثیت سے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک شہری کی حیثیت سے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔
٭ ایکسپریس: تحقیق کا سلسلہ شروع کب ہوا؟
نعیم صادق: میں نے اپنے طور پر تحقیق کی۔ حقائق جاننے کے لیے معلومات اکٹھی کیں۔ ’’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘‘ سے بہت استفادہ کیا۔ اِس ایکٹ کے تحت ایک شہری حکومتی اداروں سے انفارمیشن لے سکتا ہے۔ پھر یہ لکھنا شروع کیا کہ معاشرے میں اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اسلحہ پھیلتا رہا، تو ایک ایسا مرحلہ آئے گا، جب قوت کے استعمال کا اختیار دیگر گروہوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا، کیوں کہ وہ حکومت جتنے طاقت وَر ہوجائیں گے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اِس وقت دو کروڑ ہتھیار ہیں۔ اب ذرا سوچیں، اگر دو کروڑ افراد اسلحہ اٹھائے سڑک پر آجائیں، تو حکومت کیا کر لے گی۔
٭ ایکسپریس: اِس تعداد میں لائسنس یافتہ اور غیرلائسنس یافتہ ہتھیاروں کی تفریق ہے؟
نعیم صادق: تفریق تو ہے۔ 70 لاکھ لائسنس یافتہ اور ایک کروڑ 30 لاکھ غیرلائسنس یافتہ ہیں، مگر یہ فرق غیرمتعلقہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ ملک کی بڑی آبادی عورتوں، بچوں اور بوڑھے پر مشتمل ہے۔ انھیں نکال دیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دوسرے آدمی کے پاس اسلحہ ہے۔
جب دو آدمیوں میں اختلاف ہوتا ہے، تو کبھی کبھار جھگڑا بھی ہوجا تا ہے۔ جب آپ کے پاس اسلحہ ہوگا، تو آپ مکالمے کے بجائے اسلحے کے استعمال سے اختلافات کا حل ڈھونڈیں گے۔ برطانیہ میں Weapon سے قتل کرنا اب مشکل ہے۔ اگر کسی کو قتل کرنا ہے، تو چاقو استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ اُنھوں نے وہاں ہتھیار ختم کردیے۔ یہاں تو آپ کھل کر بات بھی نہیں کرسکتے، سامنے والے کو آپ کی بات پسند نہیں آئی، تو وہ اسلحہ اٹھالے گا۔ اب میرے پاس تو Weapon نہیں۔
ہاں، ایک لائسنس یافتہ بندوق تھی، جو میں نے حکومت کو دے دی، کیوں کہ ہمارا نظریہ ہے کہ کسی شہری کے پاس اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ اب پاکستان میں 70 لاکھ افراد کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ لائسنس کون دیتا ہے؟ لائسنس حکومت دیتی ہے۔ حکومت کی ایسی کون سے مجبوری تھی، جو اُس نے 70 لاکھ اجازت نامے جاری کردیے۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس تشدد، عسکریت پسندی اور جرائم کی سب سے بڑی سرپرست خود حکومت پاکستان ہے۔
٭ ایکسپریس: کیا سیاسی مفادات اِن لائسنسز کے اجرا کا سبب بنے؟
نعیم صادق: معاملہ سیاسی ہی ہے۔ بہت سے لائسنس اپنے سیاسی مفادات اور استحکام کے لیے جاری کیے گئے۔ اگر آپ کی کارکردگی ناقص رہی ہو، تو آپ اپنی عسکری قوت بڑھانے لگتے ہیں۔ سندھ کے ایک سابق منسٹر نے ٹی وی پر آکر کہا:’’میں نے اپنے لوگوں کو تین لاکھ لائسنس دیے ہیں۔ اور یہ ہتھیار نیوایئر کے موقع پر فائرنگ کرنے کے لیے نہیں دیے۔‘‘ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ حکومت کو اپنے حواریوں کو خوش کرنا ہوتا ہے، تو اُنھیں اسلحے کے لائسنس دے دیے جاتے ہیں۔ اب یہ بھی نوازنے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔
٭ ایکسپریس: کچھ تجزیوں کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ اسلحہ سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ آپ کی ریسرچ کیا کہتی ہے؟
نعیم صادق: جی ہاں، ہماری قومی اسمبلی ایک Heavily Armed گروپ ہے۔ دنیا کی کسی اور پارلیمنٹ کے 342 ارکان کے پاس اتنا ممنوعہ بور کا اسلحہ نہیں۔ ہمارے ارکان پارلیمنٹ، جن کا اصل کام قیام امن کے لیے قوانین بنانا، وہ خود 69473 ممنوعہ بور کے ہتھیاروں کے مالک ہیں۔
دیکھیں، جب امن ہوگا، تو سب برابر ہوجائیں گے۔ مجھے آپ کی بات سننی پڑے گی، اور آپ کو میری۔ اگر پاکستان میں امن لانا ہے، تو اسلحہ سرینڈر کرنا پڑے گا، لیکن جب ارکان پارلیمنٹ ہی اتنا اسلحہ رکھتے ہوں، تو اِس کا بھلا کیا امکان رہ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں، اگر امن چاہیے، تو ہر شخص سے اسلحہ لینا ہوگا۔ قانون سب کے لیے یک ساں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مضبوط طبقہ تو اسلحہ رکھے، اور دوسروں سے لیا جائے۔
٭ ایکسپریس: کیا موجودہ صورت حالات میں معاشرے کو اسلحے سے پاک کرنا ممکن ہے؟
نعیم صادق: اِس کا ایک امکان تو ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ملک کے بااثرترین افراد، جیسے ارکان پارلیمنٹ، اپنا اسلحہ سرینڈر کردیں۔ آغاز یہاں سے کیا جائے۔ پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے لوگ یہ بات سمجھ نہیں رہے۔ دشمن یہاں وہ نظام لانا چاہتا ہے، جو جبر پر مبنی ہے۔ اور اُن کے حامی شہروں میں بھی پھیلے ہیں۔ اگر جنگ ہوئی، تو فقط پہاڑوں پر نہیں ہوگی۔ فوج پہاڑوں میں تو لڑ لے گی، مگر کیا وہ شہروں میں، گلی محلوں میں لڑ سکے گی؟ ایسے حالات پیدا کرنا عقل مندی نہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ پہلے آپ پاکستان کو اسلحے سے پاک کریں۔
حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ ہر شہری، چاہے وہ پشاور میں رہتا ہو یا کراچی میں، اپنا اسلحہ سرینڈر کرے۔ اور ایسی مثالیں موجود ہیں۔ سری لنکا میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ اُن کے دشمن کے پاس تو ہوائی اور بحری جہاز بھی تھے، مگر اُنھوں نے ایک فیصلہ کیا، اور اِس مسئلے پر قابو پالیا۔ پاکستان کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ ملک نہ صرف اِس مرض کا شکار ہے، بلکہ یہاں کے اہل اقتدار اِسے پھیلانے کا سبب بھی رہے۔ 69473 ہتھیار؛ یہ تعداد خود وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں بتائی۔
٭ ایکسپریس: عوام سے اسلحہ لے لیا گیا، سیاست دانوں نے بھی سرینڈر کر دیا، مگر ریاست سے برسرپیکار گروہ تو اسلحہ رکھنے کے لیے تیار نہیں!
نعیم صادق: ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی۔ مگر یہ ایک تیکنیکی معاملہ ہے۔ پہلے مرحلے میں حکومت یہ کہے کہ ہر شخص اسلحہ جمع کروائے۔ حکومت اسے باقاعدہ قیمت ادا کرے گی۔ اب ایک غریب آدمی، جو ڈکیت بن گیا، اُس نے بیس ہزار روپے کی پسٹل خریدی ہے۔
یہ اس نے سرمایہ کاری کی۔ اس کی مدد سے وہ لوگوں کو لوٹتا ہے۔ آپ کہیں، ہم تمھاری پسٹل کے بیس نہیں، پچیس ہزار روپے دیں گے۔ حکومت کے پاس پیسے کی کمی نہیں۔ حکومت سندھ کے پاس 27 ہزار سرکاری گاڑیاں ہیں، جو برسوں ہمارے حکم راں رہے، یعنی برطانوی، اُن کی کابینہ کے پاس کُل 85 گاڑیاں ہیں۔ تو پہلے مرحلے میں یہ اعلان کیا جائے کہ لوگ اپنا اسلحہ جمع کروائیں، انھیں قیمت ادا کر دی جائے گی۔ جو نہ دے، اگلے مرحلے میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
٭ ایکسپریس: کیا گذشتہ 65 برس میں کبھی اسلحے کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے گئے؟
نعیم صادق: جب معین الدین حیدر گورنر ہوا کرتے تھے، سی پی ایل سی میں جمیل یوسف صاحب تھے، اس زمانے میں کچھ عرصے اِس معاملے پر کام ہوا، مگر پھر اِسے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ دراصل ہمیں بڑی عوامی مہم کی ضرورت ہے۔ ہم ہر سوموار میٹروپول ہوٹل (کراچی) کے سامنے پُرامن مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہوتا ہے کہ معاشرے کو اسلحے سے پاک کیا جائے، اور پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے۔ یہ ایک کوشش ہے۔ اگر حکومت ابھی یہ مطالبات نہیں مانے گی، تو کوئی بیرونی قوت اُنھیں مجبور کر دے گی۔ اور یہ کوئی اچھی صورت نہیں ہوگی۔
٭ ایکسپریس: کچھ عرصے پہلے آپ نے ایک گروپ CTAC تشکیل دیا۔ اِس سے متعلق کچھ فرمائیں؟
نعیم صادق: یہ میری طرح چند شہریوں پر مشتمل ہے۔ اس کے قیام سے ہماری کوششوں کو تقویت ملی ہے۔ ہم نے چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری اور آئی جی پولیس سے کئی میٹنگز کیں۔ انھیں خط لکھے۔ مگر ہمیں لگتا ہے کہ کسی وجہ سے وہ اِس کام کی طرف مائل نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، چار پانچ ماہ پہلے ایک اشتہار اخباروں میں آیا تھا۔ شہریوں سے اسلحہ جمع کروانے کی اپیل کی گئی۔ تشہیری مہم پر لگ بھگ تین کروڑ خرچ ہوئے۔ اور کتنے افراد نے اسلحہ جمع کروایا؟ فقط پندرہ افراد نے۔ لوگ جانتے تھے کہ اس طرح کی اپیل کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔ جب میں نے تھانے جا کر اسلحہ جمع کروایا، تو اُنھوں نے کہا؛ ہمارے پاس تو شہریوں سے اسلحہ لینے کا کوئی آرڈر ہی نہیں۔ پھر میں جاکر وہ آرڈر لایا، تب انھوں نے مجھ سے ہتھیار لیا۔ اسی سے آپ عدم دل چسپی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
٭ ایکسپریس: آپ نے ’’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘‘ کا تذکرہ کیا۔ عام شکایت ہے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود شہریوں کو معلومات کے حصول میں دقت پیش آتی ہے؟
نعیم صادق: بات درست ہے۔ ہمیں بھی ہمیشہ دقت پیش آئی۔ پاکستان میں قانون تو بنائے جاتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اس ایکٹ سے متعلق سیکڑوں سیمینار ہوچکے ہیں۔ کروڑوں روپے خرچ ہوئے، مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شاید میں انفرادی حیثیت میں اس ایکٹ کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والا شہری ہوں۔
وزیراعظم سے محکمۂ تعلیم، سندھ تک؛ ہم نے درجنوں اداروں سے معلومات مانگیں۔ اور فقط دس پندرہ فی صد ہمیں کام یابی ملی۔ عام طور سے ہماری عرضی کا جواب ہی نہیں آتا۔ پھر ہم طریقۂ کار کے مطابق صوبائی یا وفاقی محتسب اعلیٰ کو ایک خط لکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہماری کوششوں کے نتیجے میں ادارے تھوڑی بہت معلومات بھیج دیتے ہیں۔ کبھی وہ آدھی اور کبھی غیرمتعلقہ ہوتی ہے۔
ایک بار میں نے سندھ انوائرنمینٹل ایجینسی سے پوچھا؛ کراچی میں ایسی کتنی انڈسٹریز ہیں، جو انوائرنمینٹل قوانین پر عمل درآمد کرتی ہیں۔ متعدد کوششوں کے بعد ان کا ایک خط آیا، جس میں لکھا تھا؛ سکھر میں 35 صنعتیں ہیں۔ اِسی سے آپ غیرسنجیدگی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
٭ ایکسپریس: ہمارے ہاں کارخانوں میں حادثات عام ہیں۔ آپ کی کنسلٹنٹ فرم صنعتوں کو صحت، تحفظ اور ماحولیات کے میدان میں بہتری کے لیے سروسز فراہم کرتی ہے۔ تو آپ کا پاکستان کی صنعتوں سے متعلق کیا تجربہ رہا؟
نعیم صادق: صحت اور تحفظ یقینی بنانا پاکستانی انڈسٹری کی ترجیح نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد ایک بڑا حادثہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں یا تو قوانین موجود نہیں، یا اگر ہیں، تو اُن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں لیبر کو انسان کے طور پر نہیں، بلکہ ایک مشین کے ٹکڑے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ البتہ جو اچھے ادارے ہیں، وہ دھیرے دھیرے اِس طرف مائل ہو رہے ہیں۔
حالات زندگی
سن پیدایش؛ 1947۔ جائے پیدایش؛ ضلع جہلم۔ والد، محمد صادق ملک۔
پانچ بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ اسکول درخت تلے۔ بیٹھنے کو زمین۔ تختی صاف کرنے کو جوہڑ کا پانی۔ اِس تجربے نے زمین کے قریب کر دیا۔ والد تبادلوں کی زد میں رہے۔ مختلف شہروں میں بچپن گزرا۔ ایڈورڈ کالج، پشاور سے انٹر کرنے کے بعد 69ء میں کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ، کراچی سے گریجویشن کیا۔
برطانیہ سے انڈسٹریل انجینئرنگ میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پیشہ ورانہ سفر کا آغاز بہ حیثیت انجینئر پاک فضائیہ سے کیا۔ کچھ عرصہ پی آئی اے کے ٹریننگ سینٹر میں پرنسپل رہے۔ 95ء میں ’’کوالٹی کنسرنس‘‘ کے نام سے ایک فرم شروع کی، جو صنعتوں کو صحت، تحفظ اور ماحولیات کے میدان میں سروسز فراہم کرتی ہے۔ لگ بھگ 200 ادارے اب تک اُن کی خدمات سے استفادہ کرچکے ہیں۔