دسمبر22 ء کے دوسرے ہفتے خبر آئی کہ کراچی کی بندرگاہ پر پیاز سے بھرے ڈھائی سو کنٹینر پھنسے پڑے ہیں…کیونکہ حکومت کے پاس اتنے ڈالر ہی نہیں کہ انھیں امپورٹروں کو دے سکے اور وہ اپنا مال چھڑوا سکیں۔۔نتیجہ یہ کہ پاکستانی منڈیوں میں پیاز کم ہونے کے سبب اس عام سبزی کی قیمت پونے دو سو روپے سے بڑھ کر سوا دو سو روپے ہو گئی۔
یاد رہے، شدید سیلاب نے پیاز کی بیشتر پاکستانی فصلیں تباہ کر دی تھیں۔اس خبر سے واضح ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی افواہ میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے۔
ڈالر کے ذخائر
پچھلے چند ماہ کے دوران سابق وزیراعظم پاکستان، عمران خان نے بارہا دفعہ دعوی کیا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھال کر قومی معشیت تباہ کر دی اور اب وطن عزیز خدانخواستہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف یہ دعوی جھٹلاتے ہوئے کہتے رہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں معیشت کا بیڑا غرق ہوا جسے نئی گورنمنٹ درست کررہی ہے اور یہ کہ پاکستان کبھی دیوالیہ نہیں ہو سکتا۔یاد رہے، ایک ملک اس وقت دیوالیہ ہوتا ہے جب اس کے پاس ڈالر کے ذخائر نہ رہیں اور وہ اپنے امپورٹروں اور قرض خواہوں کو ڈالر نہ دے سکے۔یہ امریکی کرنسی سب سے اہم تجارتی کرنسی ہے لہذا عالمی تجارت میں اسی کا سّکہ چلتا ہے۔
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ یہ سطور قلمبند ہونے تک سٹیٹ بینک پاکستان کے پاس5.8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔خاص بات یہ کہ اس ذخیرے میں دوارب ڈالر امارات کے ہیں۔
یہ ڈالر پاکستانی حکومت اپنے ذخیرے میں رکھ تو سکتی ہے، انھیں استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتی۔دوست ملکوں نے اسے یہ ڈالر اس لیے فراہم کیے کہ پاکستان کے ذخائر ڈالر توانا نظر آئیں۔گویا حقیقتاً سٹیٹ بینک پاکستان محض 3.8 ارب ڈالر رکھتا ہے۔
یہ کافی تشویش ناک بات ہے۔ڈالروں کی کمی کے باعث بینک نے امپورٹروں کو ڈالر فراہم نہیں کیے۔چناں چہ بیرون ممالک سے خام مال کی آمد بھی کم ہو گئی ۔اس لیے صنعتی وتجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔جبکہ جنوری تا مارچ 23ء پاکستان کو کم ازکم ساڑھے پانچ ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔
تسّلی بخش صورت حال نہیں
پاکستان کے کمرشل بینک6.116 ارب ڈالر کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔مگر یہ تسّلی بخش صورت حال نہیں کیونکہ ان کے ذریعے صرف ڈیرھ دو ماہ تک ہی امپورٹ ہو سکتی ہے۔
عالمی اصول یہ ہے کہ ایک ملک کے پاس اتنے ڈالر ضرور ہونے چاہیں کہ وہ چھ ماہ تک امپورٹ کا خرچ برداشت کر سکیں۔اس لحاظ سے پاکستان کے پاس کم از کم 100 ارب ڈالر تو ہونے چاہیں۔سری لنکا مارچ 22ء میں اسی لیے دیوالیہ ہوا کہ اس کے پاس بیرون ممالک سے مال منگوانے کو ڈالر نہیں رہے تھے۔
جب اپریل 22ء کے دوسرے ہفتے موجودہ پی ڈی ایم حکومت اقتدار میں آئی تو سٹیٹ بینک کے پاس 17.5 ارب ڈالر موجود تھے۔کمرشل بینک بھی دس ارب ڈالر سے زائد رقم رکھتے تھے۔یہ قابل اطمینان ذخیرہ نہ تھا مگر خطرے کی بھی بات نہیں تھی۔
یہ ذخائر کم کرنے میں پی ڈی ایم حکومت کی پالیسیوں نہیں بیرونی عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا۔اول روس و یوکرین جنگ شروع ہو چکی تھی۔اس نے ایندھن و خوراک کی قیمتوں میں دگنا تگنا اضافہ کر دیا۔ لہذا زیادہ ڈالر دے کر یہ دونوں اشیا خریدی جانے لگیں۔ پھر شدید سیلابوں نے پاکستانی زراعت کو بہت نقصان پہنچایا۔ چناں چہ بیرون ممالک سے زیادہ خوراک درآمد کرنا پڑی جس پہ مذید ڈالر خرچ ہوئے۔
کمی کی وجوہ
دوم امریکی حکومت نے اپنی کرنسی کی شرح سود تقریباً صفر سے بڑھا کر چار فیصد کے قریب پہنچا دی۔چناں چہ بیشتر پاکستانی اپنے ڈالر پاکستان بھجوانے کے بجائے بیرونی بینکوں میں رکھنے لگے کیونکہ اب وہ بہتر منافع دے رہے تھے۔
سوم روس یوکرین جنگ نے مغربی ممالک کو معاشی زوال میں گرفتار کرا دیا۔پاکستان کا اہم تجارتی ساتھی، چین کوویڈ وبا سے نبردآزما رہا۔ اس بنا پر پاکستان کی ایکسپورٹ گھٹ گئی اور پاکستان میں کم ڈالر آ ئے۔چہارم پاکستان قرض اتارنے اور سود دینے کے سلسلے میں ڈالر میں ادائیگیاں کرتا رہا۔اس عمل نے بھی پاکستانی ذخائر ڈالر گھٹا دئیے۔
پنجم وطن عزیز میں سیاسی انتشار بھی ڈالر کا ذخیرہ کم کرنے کا سبب بنا۔اپریل 22ء سے پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اقتدار کی خاطر رسہ کشی شروع ہو گئی۔اس سیاسی دنگل نے قومی معیشت پر کافی منفی اثرات مرتب کیے۔معاشی سرگرمیاں سست پڑ گئیں اور غیرملکی سرمایہ کاری بھی آدھی رہ گئی۔اس وجہ سے بھی ڈالر پاکستان کا رخ نہیں کر سکے۔
افسوس ناک اور صدمہ انگیز دن
پی ڈی ایم حکومت کوشش کررہی ہے کہ آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے ڈالر کے نئے قرض لے کر دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹال دے۔
وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔خاکم بدہن ، وطن عزیزاگر دیوالیہ ہوا تو اس کا ذمے دار حکمران طبقہ ہی ہو گا۔اس کی لا پروائی، خودغرضی اور قومی کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی لت سے ہی پاکستان اور قوم کو یہ افسوس ناک اور صدمہ انگیز دن دیکھنا پڑے گا۔
قابل ذکر بات یہ کہ دیوالیہ ہونے سے پاکستانی عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ وجہ یہ کہ ڈالر نہ ہونے سے حکومت کم ایندھن خریدے گی۔
یوں نایاب ہونے سے ایندھن کے دام مذید بڑھ جائیں گے۔ اسی طرح بیرون ممالک سے جو خوراک آتی ہے، گندم، دالیں، سبزیاں، مسالے وغیرہ ، وہ بھی کمیابی کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔یہ دو عمل پاکستان میں مہنگائی بڑھا دیں گے جو پہلے ہی کافی زیادہ ہے۔
پاکستان کے دس تا پندرہ فیصد کھاتے پیتے لوگ تو یہ مہنگائی برداشت کر لیں گے، بقیہ نوے تا پچاسی فیصد باشندوں کی زندگیاں مہنگائی بڑھنے سے مذید کٹھن و دشوار گذار ہو جائیں گی۔تیل مہنگا ہونے سے بجلی کی قیمت بھی بڑھے گی کیونکہ پاکستان میں بیشتر بجلی درآمدی ایندھن سے بنتی ہے۔ غرض دیوالیہ ہونا عوام پہ نیا بم پھوڑ کر انھیں ادھ موا کر دے گا۔
پالیسیاں نہیں بنائیں
پچاس سال قبل پاکستان خوراک میں خودکفیل تھا کیونکہ آبادی صرف چھ کروڑ تھی۔بجلی کی ضرورت بھی ڈیم بخوبی کر دیتے۔تیل بھی سستا تھا ، صرف تین ڈالر فی بیرل جو اب اسّی تا سو ڈالر کے مابین رہتا ہے۔ایکسپورٹ اور امپورٹ کے حجم میں بھی کافی کم فرق تھا۔
اسی طرح قرض ملک وقوم پر بوجھ نہیں بنا تھا۔اس وقت ہمارے حکمران طبقے کو چاہیے تھا کہ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسی جامع پالیسیاں تشکیل دیتا کہ وہ بُرے دنوں کو اچھے طریقے سے نکال سکیں۔مگر اس کی توجہ مستقبل کے چیلنجوں نہیں حال کے اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے پر مرکوز رہی۔اس نے مملکت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
کئی ممالک مثلاً چین، ملائشیا، جنوبی کوریا، سنگاپور، تائیوان، انڈونیشیا وغیرہ پاکستان کے ساتھ ہی معرض وجود میں آئے۔ان کی حکومتوں نے جامع وبہترین معاشی پالیسیاں ترتیب دیں جن کی وجہ وہ یہ ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔حتی کہ ہماری آزادی کے کئی عشروں بعد جنم لینے والے ویت نام اور بنگلہ دیش بھی معاشی طور پہ ہم سے طاقتور ہو چکے۔
ہم ایٹمی قوت ضرور بن گئے مگر اپنی معیشت مضبوط نہیں بنا سکے۔لہذا آج دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہمارے سروں پہ منڈلا رہاہے۔ہر مملکت کی بقا کا دارومدار قوی دفاع کے ساتھ ساتھ مضبوط و مستحکم معیشت پر بھی ہوتا ہے۔ہمارا دفاع تو اللہ تعالی کے کرم سے عمدہ ہے مگر معیشت کا بُرا حال ہو چکا۔اور ہمیں بُرے حالوں میں حکمران طبقے ہی نے پہنچایا۔
ٹرانسپورٹ کا نظام ناقص
مثال کے طور پہ فی الوقت پاکستان 28ارب ڈالر کا ایندھن امپورٹ کر رہا ہے۔اس کی سالانہ ایکسپورٹ چوبیس تا ستائیس ارب ڈالر کے مابین رہتی ہے۔
گویا ہمارے صرف درآمدی ایندھن کا بل ہی ہماری برآمدات سے بڑھ چکا۔وجہ یہی کہ ایک تو آبادی تئیس کروڑ سے زائد ہو چکی۔دوم ہم ایندھن بے دردی سے ضائع کر رہے ہیں۔مثلاً کسی بھی سڑک پہ نکل جائیے۔وہاں آپ کو نوے فیصد گاڑیاں ایسی نظر آئیں گی جن میں صرف ایک دو افراد سوار ہوں گے۔بیشتر لوگوں کو اس لیے کار استعمال کرنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کا نظام بہت ناقص ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام بسوں اور ریلوں پر مشتمل ہے۔ وہاں ریل وبس اسٹیشنوں کے باہر وسیع وعریض کارپارکنگ بنے ہیں۔قرب وجوار کے باشندے وہاں آتے اور اپنی کاریں کارپارکنگ میں کھڑی کرتے ہیں۔
بقیہ سفر پھر وہ بس یا ریل سے کرتے ہیں۔یوں بسیں اور ریلیں ہزارہا مسافروں کو بیک وقت منزل تک پہنچا دیتی ہیں۔
اس طرح سالانہ لاکھوں گیلن ایندھن کی بچت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شہری بس یا ریل میں سفر کرنے کو اپنی توہین یا ذلت نہیں گردانتا۔ پاکستانی حکومت کو خصوصاً بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام متعارف کرانا چاہیے تاکہ ایندھن کی بچت ہو سکے اور ہمارا امپورٹ بل کم ہو۔مگر ہمارے حکمران طبقے یہ نظام متعارف کرانے پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔
کوئلہ بیکار پڑا رہا
پاکستان میں درآمدی ایندھن بجلی بنانے یا ٹرانسپورٹ میں استعما ل ہوتا ہے۔وطن عزیز میں چالیس سال قبل کوئلے کے بھاری ذخائر دریافت ہوئے تھے مگر حکمران طبقے نے کبھی ان سے فائدہ اٹھانے کا نہیں سوچا۔اس کے سبھی ارکان کرسیاں بچانے، اعلی عہدے پانے، تجوریاں بھرنے اور اپنے مفادات پورے کرنے کے کھیل میں لگے رہے۔
جب بجلی کی کمی ہوئی تو کوئلے سے چلنے والے نہیں کرائے کے بجلی گھر لگا دئیے گئے۔ملکی وٖغیرملکی دانشور دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح حکمران طبقے نے کمیشن کھایا اور اپنا ضمیر چند ٹکوں کی خاطر بیچ ڈالا۔
اس وقت پوری دنیا میں قدرتی متبادل ذرائع ایندھن یعنی سورج، ہوا ، پانی وغیرہ کے ذریعے ایندھن بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔سبھی حکومتیں ٹرانسپورٹ بھی پٹرول و ڈیزل نہیں بجلی سے چلانا چاہتی ہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ مگر نرالا ہے۔لاہور تا خانیوال ریلیں بجلی سے چلتی تھیں۔ہماری برزجمہر بیوروکریسی نے یہ عمل وسیع کرنے کے بجائے اسے ختم ہی کر دیا۔چناں چہ اب ساری ریلیں درآمدی ایندھن پر چلتی ہیں جو مہنگے سے مہنگا تر ہو رہا ہے۔شہباز شریف حکومت نے ’’گرین انرجی ‘‘منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو مستحسن قدم ہے۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ منصوبے عملی جامہ پہن پائیں گے؟
غذاؤں کی پاکستان میں قلت
نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ پاکستانی حکومت ڈالر پانے کے لیے خوراک ایکسپورٹ کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
اگر پاکستان میں وافر غذائیں پیدا ہوتیں تو یہ اقدام درست کہلاتا۔لیکن ہمیں معلوم ہے کہ وطن میں بنیادی خوراک مثلاً گندم، چاول، دالوں، مسالوں، پھلوں اور بیشتر سبزیوں کی قلت بڑھ رہی ہے۔اسی سبب وہ مہنگی ہو رہی رہی ہیں۔
لہذا خوراک کی مہنگائی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ غذاؤں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔دنیا کے سبھی ممالک ایسا کرتے ہیں۔مگر یہاں بقول شخصے باوا آدم نرالا ہے کہ خوراک کی قلت کے باوجود اس کی برآمد جاری ہے۔یہ غریبوں پہ ظلم ہے جو مہنگی خوراک خریدنے پر مجبور ہو چکے۔
ہر حکمران طبقے کو احساس ہونا چاہیے کہ عوام میں بھوک کا پھیلنا بہت خطرناک بات ہے کیونکہ اس کیفیت میں انسان تمام اخلاقیات بھلا بیٹھتا ہے۔دنیا میں جتنے بھی عوامی انقلاب آئے ہیں، انھیں جنم دینے میں بھوک نے اہم کردار ادا کیا۔لہذا پاکستان میں بھوک بڑھتی گئی تو حکمران طبقے کے لیے اپنی کرسیاں، تخت و تاج اور محل بچانا مشکل ہو جائے گا۔
بھوکے عوام غم وغصّے کی حالت میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔انقلابوں کی ماں، فرانسیسی انقلاب کو جنم دینے میں بھوک کا بنیادی حصہ تھا۔تب فرانس پر بھی بے حس و عوامی مسائل سے ناآشنا حکمران طبقہ موجود تھا۔حتی کہ ایک شہزادی یہ کہتی پائی گئی کہ لوگ روٹی نہیں کھا سکتے تو کیک کھا لیں۔بقول عارف شفیق
غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیر ِشہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
’ٹریڈ انوائسنگ لی لعنت
بدقسمتی سے کرپٹ پاکستانی ایکسپورٹر اور امپورٹر ایک غیر اخلاقی و قانونی عمل’’ٹریڈ انوائسنگ‘‘(Trade Invoicing)کے ذریعے اپنے ہی وطن کو ڈالروں سے محروم کر دیتے ہیں۔اس فراڈ کا قصّہ یہ ہے کہ بالفرض ایک پاکستانی ایکسپورٹر نے دس لاکھ ڈالر کا مال امریکا بھجوایا۔اگر وہ بے ایمان ہے تو امریکا میں بیٹھے اپنے دلال کی مدد سے حکومت پاکستان کو پانچ لاکھ ڈالر کا انوائس دے گا۔
بیرونی دلال امریکی پارٹی سے دس لاکھ ڈالر ہی وصول کرے گا۔مگر وہ پانچ لاکھ ڈالر پاکستان بھجواتا اور بقیہ پانچ لاکھ ڈالر غیرملکی اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتا ہے۔یوں پاکستان کو پانچ لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ نہیں مل پاتا۔
شعبہ امپورٹ میں بھی لالچی ودھوکے باز پاکستانی یہی عمل اپناتے اور چند ٹکوں کے لیے اپنا دین وآخرت برباد کرتے ہیں۔بالفرض ایک پاکستانی امپورٹر نے دس لاکھ ڈالر کا سامان بیرون ملک سے منگوایا۔مگر وہ باہر بیٹھے اپنے دلال کی مدد سے انوائس میں پندرہ لاکھ ڈالر لکھ کر اپنی حکومت کو دیتا ہے۔یوں پاکستانی امپورٹر نے جو پانچ لاکھ ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوائے، وہ اس کے غیرملکی اکاوئنٹ میں جمع ہو جاتے ہیں۔
اس طرح پاکستان مذید پانچ لاکھ ڈالر سے محروم ہو گیا۔یہی نہیں، انڈر و اوور انوائسنگ کے ذریعے جو رقم ہڑپ کی جاتی ہے، اس پر لگنے والے ٹیکس بھی پاکستانی ریاست کو حاصل نہیں ہو پاتے، گویا دہرا نقصان!
اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کے مختلف سرکاری ونجی ادارے عالمی سطح پر جاری ’’ٹریڈ انوائسنگ ‘‘کے عمل پر نظر رکھتے اور تحقیق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملک ’’سب سے زیادہ ‘‘اسی غیر قانونی عمل کے باعث اپنے قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوتے ہیں۔
مثلاً پاکستان کو لیجیے۔اگر ٹریڈ انوائسنگ سے پاکستان سالانہ دس تا پندرہ ارب ڈالر سے محروم ہو جاتا ہے تو یہ اسے پہنچنے والا بڑا مالی نقصان ہے۔یہ رقم زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔بنگلہ دیش ہر سال 52 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے۔کیا ہم پاکستانی اس سے بھی گئے گذرے ہو چکے؟
اقوام متحدہ کے ماہرین کی رو سے ٹریڈ انوائسنگ حکمران طبقے میں شامل لالچی جونکوں کی مدد سے انجام پاتی ہے جنھیں اس دھندے میں اپنا ’’حصّہ ‘‘ملتا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں کرپٹ سیاست داں، سرکاری افسر، جرنیل، جج ،صنعت کار اور تاجر عموماً ٹریڈ انوائسنگ کی مدد ہی سے کرپشن سے حاصل کردہ رقم باہر بھجوا کر اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس میں جمع کراتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلے تیس برس کے دوران ریاست پاکستان پر چڑھے قرضوں کی مجموعی رقم تقریباً ساڑھے باسٹھ ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی؟
عوام کے لیے رقم نہیں
جب پاکستانی حکومت کے پاس کم ڈالر رہ جائیں تو وہ آئی ایم ایف، دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ڈالر بطور قرض لیتی ہے۔بارہا قرضے لینے سے پاکستان اپنے سٹیٹ بینک کی رو سے 98ارب ڈالر کا مقروض و ہو چکا۔جبکہ ساڑھے اکتیس ہزار روپے مقامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کا ہے۔اب ان قرضوں کا سود دینے اور انھیں اتارنے پر پاکستانی حکومت کی بیشتر آمدن صرف ہو جاتی ہے۔چناں چہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔
حال یہ ہے کہ ملک بھر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکیں مگر حکومتوں کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ ان کی مرمت کر سکے۔عوامی خدمات فراہم کرنے والے دیگر سرکاری اداروں کا بھی بُرا حال ہے۔
درآمدی اشیا کی لت
معیشت ِپاکستان خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم درآمدی یا امپورٹیڈ اشیا بہت زیادہ استعمال کرتی ہے۔جبکہ حکومت انہی درآمدی اشیا پر متفرق ڈیوٹیاں و ٹیکس لگا کر اپنی بیشتر آمدن پاتی ہے۔
گویا بالخصوص خواص اور حکومت، دونوں درآمدات پر انحصار کرنے کے عادی ہو چکے۔یہی وجہ ہے، پاکستان کی امپورٹ تقریباً اسّی ارب ڈالر تک پہنچ چکیں۔جبکہ برآمدات پچیس چھبیس ارب ڈالر کے مابین رہتی ہیں۔اس انتہائی غیر متوازن تجارت سے پاکستان وافر ڈالر کیسے پا سکتا ہے؟اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈالر نہ بھجوائیں تو پاکستان جلد دیوالیہ ہو جائے۔
جامع منصوبے بننے چاہیں
معیشت پاکستان مضبوط بنانے اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ہماری حکومت کو فوری طور پہ جامع منصوبہ بنانا چاہیے۔اول وہ ایسے بجلی گھر تعمیر کرے جن میں مقامی کوئلہ استعمال ہو سکے۔نیز متبادل ذرائع توانائی کے منصوبے شروع کرے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دھوپ اور ہوا کی قدرتی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر پچاس ساٹھ ہزارمیگاواٹ بجلی باآسانی بنا سکتا ہے۔اس طرح نہ صرف درآمدی تیل و گیس پر انحصار کم ہو گا بلکہ مہنگے ایندھن سے بھی نجات مل جائے گی۔
دوم ٹرانسپورٹ کو بھی بتدریج بجلی پر منتقل کیا جائے۔ترقی یافتہ ممالک میں تو اب مائع ہائیڈروجن سے بسیں وٹرک چلنے لگے ہیں۔امریکا اور یورپی ملکوں میں الیکٹرک گاڑیاں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔وجہ یہی کہ رکازی ایندھن(تیل، گیس، کوئلے)نے ایک دن ختم ہو جانا ہے۔تب متبادل ذرائع توانائی سے پیدا شدہ بجلی ہی عالمی صنعت وتجارت کو رواں دواں رکھے گی۔
لہذا پاکستانی حکمران طبقے کو چاہیے، وہ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر تیل نہیں بجلی بنانے کی بنیاد پر شعبہ توانائی کی پالیسیاں تشکیل دے۔مقصد یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں خوشگوار و مطمئن زندگی گذار سکیں۔
سوم کسانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ پکانے کا تیل بنانے والے بیجوں کی فصلیں وسیع پیمانے پر اگائیں۔یہ تیل امپورٹ کرنے پر بھی پاکستان کے پانچ چھ ارب ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔جبکہ ہماری مٹی میں کنولہ، پام، تل، سورج مکھی اور سرسوں کی فصلیں زیادہ تعداد میں اگ سکتی ہیں۔یہ فصلیں اگانے سے نہ صرف کسانوں کو مالی فائدہ ہو گا بلکہ وطن عزیز پکانے کے تیل میں خودکفیل ہو سکے گا۔
پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔لہذا فوڈ سیکورٹی بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا۔یہ اشد ضروری ہے کہ کھیتوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے سے روکا جائے۔اگر یہ چلن جاری رہا تو ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ پاکستان کو بیشتر غذائیں امپورٹ کرنا پڑیں گی۔
یوں عوام کے لیے مہنگی خوراک خریدنا کٹھن مسئلہ بن جائے گا جس سے معاشرے میں انتشار وبے چینی جنم لے گی۔آج کے ہمارے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
چہارم حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مقامی وعالمی سطح پر خدمات (سروسز) فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پھل پھول سکیں اور وطن عزیز میں قیمتی زرمبادلہ لائیں۔بھارت عالمی طور پہ صرف آئی ٹی کی سروسز فراہم کر کے تقریباً نوے ارب ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔
پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری نمو پذیر ہے۔اس ضمن میں سرکاری ونجی اداروں میں اشتراک ضروری ہے۔مقصد یہ کہ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کی بڑھوتری ہو اور وہ بھی عالمی سطح پر اپنی خدمات فراہم کر کے بیس پچیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما کر سکے۔وطن عزیز میں افرادی قوت وافر دستیاب ہے۔لہذا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔یوں لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار میسر آئے گا۔
معیشت پاکستان درست کرنے کی خاطر حکومت کو یہ اہم قدم بھی اٹھانا چاہیے کہ وہ درآمدی خام مال پر لگی ڈیوٹیاں اور ٹیکس کم کر ے۔وجہ یہ کہ اسی درآمدی خام مال کو درست طریقے سے استعمال کرنے پر برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے چین، ملائشیا، تائیوان، ویت نام اور بنگلہ دیش کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے درآمدی خام مال سے نت نئی اشیا بنائیں ، انھیں برآمد کیا اور معاشی قوت بن گئے۔
آج درج بالا ممالک دنیا کے بڑے ایکسپورٹر بن چکے۔خاص بات یہ کہ انھوں نے درآمدی خام مال پر ڈیوٹیاں اور ٹیکس کم سے کم رکھے تاکہ ان سے مقامی طور پہ سستی اشیا تیار ہوں اور بیرون ملک ان کی مانگ بڑھ جائے۔لہذا ان ممالک کو مسلسل ڈالر ملتے رہتے ہیں اور دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔انھیں ترقی کرنے اور خوشحال بننے کا عمدہ طریقہ مل گیا ہے جس پہ وہ کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔
ٹیکس کم کیے جائیں
پاکستان میں تو خصوصاً پی ٹی آئی حکومت دور سے ہر قسم کے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ جاری ہے اور نئے ٹیکس بھی لگا دئیے گئے۔آئی ایم ایف مسلسل پاکستانی حکمران طبقے پہ دباؤ ڈالتا ہے کہ نئے ٹیکس لگاؤ۔چناں چہ یہ طبقہ ہمہ وقت ایسی ’’جگاڑ‘‘تلاش کرتا ہے جو اس کی آمدن میں اضافہ کر سکے۔مگر یہ چلن قومی معشیت کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے کیونکہ بے پناہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی معیشت کبھی نہیں پنپ پاتی۔نیز لوگ بھی اس ظالمانہ ٹیکس نظام سے بچنے کی جگاڑ نکال لیتے ہیں۔
اسی لیے پاکستانی حکومت اب ان ڈائرکٹ ٹیکسوں پر انحصار کرنے لگی ہے ، مثلاً درآمدی خام مال پہ لگے ٹیکس۔اس قسم کا ٹیکس نظام عوام دشمن ہوتا ہے کہ وہ مہنگائی میں اضافہ کرتا ہے۔اس باعث پاکستان کا شمار دنیا کے ان بیس ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں مہنگائی سب سے زیادہ ہے۔
ٹیکسوں کا وہ نظام بہترین ہے جس میں زیادہ کمائی کرنے والا ہی زیادہ ٹیکس دے۔ترقی یافتہ ملکوں میں یہی عوام دوست ٹیکس سسٹم رائج ہے۔یہ نظام مملکت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے میں ممد ومعاون بنتا ہے۔جبکہ ان ڈائرکٹ ٹیکسوں پہ مبنی نظام ریاست میں غربت، ناانصافی اور بھوک پروان چڑھاتا ہے۔
معشیت پاکستان اور ریاست کی استحکام ک خاطر ضروری ہے کہ قومی ٹیکس نظام میں اصلاحات لائی جائیں تاکہ اسے عوام دوست اور منصفانہ بنایا جا سکے۔دنیا بھر کے ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ جس ملک میں ان ڈائرکٹ ٹیکس زیادہ ہوں، وہ کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں بن سکتا۔
پاکستانی ٹیکس نظام اس لیے بھی غیر منصفانہ ہے کہ اس کے ذریعے کاروباری وتجارتی کمپنیوں اور بعض اداروں مثلاً سٹاک مارکیٹ پر تو بھاری ٹیکس لگا دئیے گئے مگر کچھ شعبوں پہ کم ٹیکس عائد ہیں جیسے رئیل اسٹیٹ، سونے کی خریدوفروخت، زراعت، ریٹیل اور ہول سیل تجارت۔اس تقاوت کی وجہ سے بھی ان شعبوں کے افراد ٹیکس چوری کی طرف مائل ہوتے ہیں جن پہ بھاری ٹیکس لگے ہوں۔
معیشت ِپاکستان دولت مند یا ایلیٹ طبقے کو دی جانے والی مراعات کے بوجھ تلے بھی دبی ہے۔ اپریل 21ء میں اقوام متحدہ کے ادارے، یو این ڈویلپمنٹ پروگرام نے ’’نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ برائے پاکستان‘‘ جاری کی تھی۔
اس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی ایلیٹ طبقے میں شامل جاگیرداروں، سیاست دانوں، کارپوریٹ سیکٹر اور ملٹری کو سالانہ17.4 ارب ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں۔ ان مراعات کی وجہ سے پاکستان میں امیر اور غریب کے مابین فرق بڑھ رہا ہے۔امیر ، امیر تر ہونے لگا ہے۔یواین ڈویلپمنٹ پروگرام کی صدر، کانی وگارجا نے تب کی پی ٹی آئی حکومت پر زور دیا تھا کہ ایلیٹ طبقے کو دی جانے والی مراعات کم سے کم کی جائیں۔اس طرح معیشت پاکستان منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو سکے گی۔
The post جب ریاست دیوالیہ ہوجائے! appeared first on ایکسپریس اردو.