خواتین پر تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون تشدد کی کسی نہ کسی صورت کا شکار رہی ہے۔
اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جانب سے 1991ء میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے 16 روزہ آگہی مہم کا آغاز کیا گیا جسے ہر سال دنیا بھر میں 25 نومبرسے لے کر 10 دسمبر تک چلایا جاتا ہے۔
اس عالمی مہم کا مقصد دنیا بھر میں خواتین پر ہونے والے تشدد پر آواز اٹھانا، لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا اور تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے پر زور دینا ہے۔
پاکستان میں بھی نہ صرف یہ دن منایا جاتا ہے بلکہ 16 روزہ عالمی مہم کے تحت سرکاری و نجی سطح پر مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی صورتحال ، ان پر ہونے والے تشدد اور اس کی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ’’16روزہ عالمی آگہی مہم‘‘ کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
رافعہ کمال
(چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی)
خواتین پرتشدد کے خاتمے کا قانون 2016ء میں بنا جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کیے گئے۔ پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام بھی خواتین کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کیا گیا، اس کے اقدامات سے خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔
میرے نزدیک خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے بہت پہلے قانون سازی ہوجانی چاہیے تھی تاہم دیر سے ہی سہی، اس پر کام ہونا حوصلہ افزا ہے۔
اس میں یقیناسول سوسائٹی، این جی اوز و دیگر کا اہم کردار ہے۔ خواتین کے حوالے سے جائزہ لیں توگزشتہ 10 برسوں میں خواتین کے حقوق و تحفظ پر بہت زیادہ بات ہوئی ، پارلیمان میں بحث ہوئی، پالیسی سازوں نے سوچا اور حکومتوں نے اس پرخاطر خواہ کام کیا ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین کے حوالے سے اراکین اسمبلی اور دیگر نے اپنی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر، ملک و قوم کی ترقی و بقاء کی خاطر کام کیا۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے قانون میں اچھی گائیڈ لائنز دی گئی ہیں جن پر کام ہورہا ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام ، انصاف اور تحفظ یقینی بنانے کیلئے سب سے پہلے ملتان میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر بنایا گیا جہاں ایک ہی چھت تلے متاثرہ خاتون کو تمام سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے جن میں کیس کا اندراج، تفتیش، میڈیکولیگل و دیگر سہولیات شامل ہیں۔
قانون کے مطابق یہ سینٹرز پنجاب کے تمام اضلاع میں بننے تھے مگر بجٹ و دیگر مسائل اور پھر کرونا وباء کی وجہ سے ان میں تاخیر ہوئی۔ حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے ان سینٹرز کے حوالے سے ترمیم منظور کی گئی جس کے بعد تمام اضلاع میں پہلے سے موجود دارالامان کو ’وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز‘ میںتبدیل کیا جارہا ہے، اس سے کم وسائل میں زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ان دارالامان کا انفراسٹرکچر دیکھتے ہوئے ایک ہی چھت تلے جتنا ممکن ہوا سہولیات دی جائیں گی، جہاں ممکن نہ ہوا وہاں کے قریبی تھانے اور ہسپتال میں خصوصی ہیلپ ڈیسک قائم کر دیے جائیں گے جہاں متاثرہ خاتون کو فوری سہولت دی جائے گی۔
دارالامان کے منیجرز کو ڈسٹرکٹ پروٹیکشن آفیسر مقرر کیا جائے گا تاکہ معاملات کو بہتر انداز میں آگے بڑھایا جاسکے۔ ان سینٹرز کے حوالے سے سٹاف کی تربیت کا آغاز ہوچکا ہے، جلد صوبے بھر میں کام مکمل ہوجائے گا۔
ملتان میں موجود وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرکی ہیلپ لائن 1737ہے، تمام اضلاع میں دارالامان کووائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز میں تبدیل کرنے کے ساتھ اس ہیلپ لائن کا اجراء بھی کر دیا جائے گا۔
خواتین پر تشدد کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے ہم ضلعی سطح پر ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں بنانے جا رہے ہیں جن کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کریں گے جبکہ متعلقہ سرکاری محکموں، سول سوسائٹی، سماجی کارکن و دیگر ماہرین کو اس میں شامل کیا جائے گا، یہ ان کرائسس سینٹرز کی کارکردگی کو مانیٹر بھی کریں گے۔
حکومت اپنا کام کررہی ہے، میڈیا، تعلیمی اداروں، این جی اوز سمیت سب کو آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا اور لوگوں کو آگاہی دینا ہوگی۔ خواتین کے حقوق و تحفظ یقینی بنانے میں آگاہی بہت اہم ہے، اس کے ذریعے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔
معاشرہ مرد اور عورت، دونوں مل کر بناتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی سوچ اورطرز زندگی تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں سب برابر ہوں، سب کو حقوق ملیں، تحفظ حاصل ہو اور زندگی گزارنے کیلئے سازگار ماحول بھی ہو۔
سامعہ خان
(فوکل پرسن AIG جینڈر پنجاب پولیس )
محکمہ پولیس ترجیحی بنیادوں پر خواتین کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کام کر رہا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی پنجاب کی سربراہی میں آئی جی آفس میں ایک سینٹر جینڈر کے حوالے سے کام کر رہا ہے ۔
پنجاب کے تمام اضلاع میں جینڈ بیسڈ وائلنس کو ایڈریس کرنے کیلئے ضلعی سطح پر ایک خاتون سب انسپکٹر کو GBV فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔
کسی بھی واقعہ کی صورت میں یہ فرسٹ رسپانڈنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں اور جائے وقوعہ پر بھی پہنچتی ہیں اور متاثرہ خاتون کے پاس جاتی ہیں۔ بہتر کوارڈینیشن ، مسائل کی نشاندہی اور حل کیلئے واٹس ایپ گروپ بھی موجود ہے جس میں AIG جینڈر، GBV فوکل پرسنز، این جی اوز کے نمائندے و دیگر شامل ہیں۔
خواتین کے خلاف جرائم کے بہت سارے کیسز ہوتے ہیں جو حل کر دیے جاتے ہیں، مگر چند ایک جو ہائی لائٹ ہوجاتے ہیں ان کی وجہ سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے پولیس کوئی کام نہیں کر رہی، ہم دن رات لوگوں کے تحفظ کیلئے کام کرتے ہیں، ہر شکایت پر پہنچتے ہیں اور مسئلہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
محکمہ پولیس کو جینڈر کے حوالے سے کوئی اضافی وسائل نہیں ملے، ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے، اپنی مدد آپ کے تحت، خدمت کے جذبے سے خود آگے بڑھ کر اس پر کام کر رہے ہیں۔ تحفظ اور تفتیش ہمارا کام ہے مگر ہم اس سے آگے بڑھ کر آگاہی بھی دے رہے ہیں، ہم نے سکولوں میں بچوں کو گڈ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں آگاہی دی، خواتین کے حوالے سے بھی ہمارے آگاہی پروگرامز جاری ہیں۔
پولیس کی ویمن سیفٹی ایپ بہترین ہے، 15پر بھی فوری رسپانس دیا جاتا ہے، ڈولفن پولیس موقع پر پہنچتی ہے، آئی جی آفس میں 15 پر کالز کا ڈیش بورڈ بنا ہوا ہے، جس کے ذریعے ان کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جاتا ہے اورجہاں خرابی ہو اسے بہتر کیا جاتا ہے۔ پولیس جینڈر بیسڈ کرائم کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کام کر رہی ہے، خواتین کے تحفظ میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔
سمعیہ یوسف
(نمائندہ سول سوسائٹی)
صنفی تشدد عالمی مسئلہ ہے جو ترقی یافتہ ممالک کو بھی درپیش ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں یہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ اعداد و شمار کی بات کریں تو عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر تین میں سے 1 خاتون کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا شکار ہوتی ہے جو تشویشناک ہے۔
پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے لہٰذا ہمارے ہاں خواتین کے مسائل پیچیدہ ہیں اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہماری کارکردگی میں بہتری نہیں آئی۔
جینڈر گیپ رپورٹ 2022ء کے مطابق خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی انتہائی افسوسناک ہے، 156 ممالک میں ہم آخری نمبروں پر ہیں، ہمارے بعد صرف افغانستان ہے۔ خواتین کی سیاسی شمولیت کی بات کریں تو 156 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 145ہے جو باقی حقوق کی نسبت قدرے بہتر ہے مگر اس میں بھی مختلف پہلو ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
عالمی رپورٹس میں پاکستان کو خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے خطرناک ملک قرار دیا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں آئے روز خواتین پر جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، زیادتی و دیگر جرائم کے افسوسناک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن سے ملک کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق و تحفظ و دیگر حوالے سے بہت قانون سازی ہوئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ قانون سازی کے باوجود خواتین کے مسائل حل کیوں نہیں ہوئے؟ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں قوانین تو بن جاتے ہیں مگر محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہتے ہیں۔
ان کے رولز آف بزنس نہیں بنتے اور نہ عملدرآمد کا کوئی میکنزم بنایا جاتا ہے جس کے باعث مسائل سنگین ہوجاتے ہیں اور لوگوں کے لیے ماحول سازگار نہیں رہتا، ان کی زندگیاں مشکلات سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
پاکستان نے چونکہ عالمی معاہدوں اور کنونشنز کی توثیق کر رکھی ہے، اس لیے دنیا کو دکھانے کیلئے قانون سازی کر دجاتی ہے کہ ہم نے معاہدے پر عمل کر لیا مگر حقیقی معنوں میں قانون سازی سے اگلے مراحل طے نہیں کیے جاتے، اگر حکومتیں اپنی ترجیحات درست کرلیں تو خواتین سمیت تمام شہریوں کے مسائل بخوبی حل کیے جاسکتے ہیں۔
بدقسمتی سے نامسائد حالات عورت کی بقاء کیلئے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔آئین پاکستان ریاست کو خواتین کا تحفظ یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے، امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی اور برابری کو فروغ دیتا ہے۔ آئین کی روح پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے سے خواتین کیلئے محفوظ اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
خواتین کے مسائل سنگین ہیں جنہیں کوئی بھی حکومت یا ادارہ اکیلے حل نہیں کر سکتا، اس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا، حکومت سب کو آن بورڈ لے اور خرابیوں کو دور کیا جائے۔
ہمارے نصاب میں انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کو شامل نہیں کیا گیا، ہمارے تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے تربیت بھی نہیں دی جارہی لہٰذا ہمیں لوگوں کے رویے بدلنے اور نوجوان نسل کی ذہن سازی کیلئے انسانی حقوق کو نصاب میں شامل کرنا ہوگا، ان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کو خصوصی اہمیت دی جائے۔
حکومتی اقدامات اپنی جگہ، میرے نزدیک ہمیں اس مشکل صورتحال میں’کمیونٹی بیسڈ، کمیونٹی لیڈ‘ اقدامات کی ضرورت ہے، لوگوں کو آگاہی دے کر موبلائز کرنا ہوگا۔
عنبرین فاطمہ
(نمائندہ سول سوسائٹی)
دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کی صورتحال افسوسناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت پڑی اور صرف یہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی جانب سے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر آگاہی مہم بھی شروع کی گئی جس سے لوگوں کو آگاہی ملی اور ریاستوں کو قانون سازی کرنے میں مدد۔ یہ باعث افسوس ہے کہ خواتین پر بدترین تشدد ہورہا ہے۔
ہماری لڑکیاں تشدد کا شکار ہورہی ہیں، بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ بدقسمتی سے عورت تعلیم، صحت، خوراک، آگے بڑھنے اور اپنی زندگی آزادی سے گزارنے جیسے حقوق سے محروم ہے ۔
عورت پر تشدد کے خاتمے کیلئے 1991ء میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی جانب سے 16 روزہ آگہی مہم کا آغاز کیا گیا تھا، جو ہر سال 25 نومبر سے 10 دسمبر تک منائی جاتی ہے۔ رواں برس بھی اسے دنیا بھر میں منایا گیا جس کا مقصد لوگوں کو خواتین پر تشدد کے خاتمے سے روکنا، آگاہی دینا اور صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل بنانا ہے۔
پاکستان میں بھی سرکاری و نجی سطح پر یہ مہم چلائی جاتی ہے،ا س حوالے سے اشتہارات دیے جاتے ہیں، سیمینارز، واک و دیگر سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کو ہر ممکن آگاہی دی جاتی ہے۔
ہمارا ادارہ 2009 ء سے خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے کام کر رہا ہے، ہم چاہتے ہیںکہ اچھی قانون سازی ہو اور ایک ایسی طاقت ہو جو خواتین پر ہونے والے تشدد اور ان کے استحصال کو روکے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں محض قوانین بنادیے جاتے ہیں لیکن عملدرآمد کا میکنزم نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ سے خواتین کے مسائل سنگین ہورہے ہیں۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کا قانون بہترین ہے۔
اس کے تحت وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز بنائے گئے، اس کے علاوہ دارالامان، دستک جیسے ادارے بھی موجود ہیں، ہم حکومت اور ان اداروں کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
خواتین کی رہنمائی کیلئے پنجاب ویمن ہیلپ لائن1043 موجود ہے جوبہترین کام کر رہی ہے، کسی بھی مسئلے کی صورت میں خاتون کو فوری اس پر کال کرنی چاہیے۔
اس کے علاوہ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کی جانب سے بنائی گئی ’ویمن سیفٹی ایپ‘ بھی مشکل صورتحا ل میں خواتین کی مدد کیلئے اہم ہے، اس میں فوری مدد کے ساتھ ساتھ مختلف فیچرز موجود ہیں جو خواتین کی رہنمائی، آگاہی، سیفٹی اور شکایات کے ازالے کے لیے اہم ہیں، رہنمائی کیلئے خواتین 15 پر بھی کال کر سکتی ہیں۔
The post خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنا ہوگا! appeared first on ایکسپریس اردو.