یکم سے چار دسمبر 2022ء تک شہرِقائد کے قلب میں بلاتعطل 15 برسوں سے منعقد ہونے والی ’عالمی اردو کانفرنس‘ سجائی گئی۔۔۔ پچھلے کئی برسوں کی طرح اس برس بھی ہم نے اس میں بھرپور شرکت کی اور دوسری عالمی کانفرنس 2009ء سے بطور ’سند یافتہ رضا کار‘ کے جڑنے والے اپنے اس رشتے اور تعلق کو اور مضبوط کیا۔۔۔ یہاں ہم نے کیا دیکھا، کیا سنا اور محسوس کیا، یہ سب آپ اگلی سطروں میں ملاحظہ فرمائیے۔۔۔
’’بانیٔ اردو کانفرنس!‘‘
’پندرھویں عالمی اردو کانفرنس‘ کی افتتاحی نشست میں پچھلی اردو کانفرنس کے ساتھ آرٹس کونسل کا مفصل خلاصہ دکھایا گیا، جس میں سندھی، بلوچی، گلگتی سے لے کر کوریائی اور چینی ثقافت تک کے مختلف پروگرام اور اس میں صدر ’آرٹس کونسل آف پاکستان‘ کراچی کے صدر محمد احمد شاہ کا کردار دکھایا گیا، جس کے اختتام پر انور مقصود نے بے ساختہ کہا کہ ’حاضرین، آپ فلم دیکھ رہے تھے ’’آرٹس کونسل کا مولا جٹ۔۔۔!‘‘اس محفل کی خاص بات یہ بھی تھی کہ سابق سیکریٹری اور موجودہ صدر آرٹس کونسل احمد شاہ کو ’بانی اردو کانفرنس‘ قررا دیا گیا، پھر انھیں ’’جدید آرٹس کونسل‘‘ کا بانی بھی کہا گیا۔
زہرا نگاہ کی صدارت اور ڈاکٹر ہما میری کی نظامت میں ہونے والی اس محفل کی شروعات مہمان خصوصی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر ثقافت سردار شاہ کی آمد کے بعد ہوئی۔ برطانیہ میں آغا خان یونیورسٹی کی عربی لہجوں کی محقق ایلیکس بیلم نے اردو اور سندھی میں شکریہ ادا کرکے داد ضرور وصول کی، لیکن ان کے انگریزی مقالے میں اردو کے حوالے سے کوئی ساجھے داری نہ تھی۔ اسی طرح ناصر عباس نیر کے وقیع مقالے میں بھی براہ راست اردو کا عنصر موجود نہ تھا، لیکن اس میں موجود عمیق فکری اظہاریے کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔
انھوں نے آج کی اطلاعات کے ڈیجیٹل ہونے پر خوب بات کی اور ’ڈیجیٹل نوآبادیات‘ بن جانے کی طرف توجہ دلائی کہ جو واقعتاً اس وقت کا ایک نہایت اہم مسئلہ بن چکا ہے، انھوں نے وزیراعلیٰ سندھ کی موجودگی میں یہ بھی کہا کہ ہمیں مسندیں اور اعزاز بانٹنے والوں سے بھی دور رہنا چاہیے۔۔۔!
خطبہ استقبالیہ میں صدر احمد شاہ نے پہلے وزیراعلیٰ سندھ اور پھر زہرا نگاہ، اسد محمد خان، پیرزادہ قاسم اور دیگر مہمانان گرامی کے نام لے کر اظہرتشکر کیا، پھر آرٹس کونسل کے لیے ’حکومت سندھ‘ سے امداد ملنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ملک کے سارے ثقافتی ادارے ذوالفقار علی بھٹو نے بنائے، آج ہمارے ’’ینگ چیئرمین‘‘ کی سوچ بھی یہی ہے۔ آرٹس کونسل کے انتخابات میں کتنے ہی لوگوں نے (مقابل لانے کے لیے) کوششیں کیں۔
انور مقصود کو سامنے لانے کے لیے ایک ایسی جماعت نے کہا، جسے انکار کرنے کا مقصد سوئم کی تیاری کرنا ہوتا تھا۔ اپنے خطاب میں احمد شاہ نے فیضی رحمین آرٹ گیلری کی عمارت ’آرٹس کونسل‘ کو دینے پر اصرار کیا، بعد میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ ’بلدیۂ کراچی‘ سے بات کریں گے۔ احمد شاہ نے کہا ’نئی کراچی‘ میں 10 ایکڑ زمین پر آڈیٹوریم بنا رہے ہیں، جہاں پہلے بوری بند لاشیں گرا کرتی تھیں!
انور مقصود نے احمد شاہ کی جانب سے گوادر، اسلام آباد اور گلگت وغیرہ میں مختلف ادبی کانفرنسوں کے اعلان پر کہا کہ دراصل احمد شاہ کی بیگم ان جگہوں پر گھومنے جانا چاہتی ہیں۔ خطبۂ صدارت میں زہرا نگاہ نے باضابطہ طور پر وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کیا اور کہا بڑھتی مہنگائی اور گرتی ساکھ نے انسانوں کا غرور توڑ کے رکھ دیا ہے۔ یہ کانفرنس ہماری قومی زبان سے متعلق ہے، لیکن ملک کی دیگر زبانوں سے بھی ہمارا سلوک منصفانہ نہیں، راہ بران قوم کا روشن پہلو زبان درازی کا رہ گیا ہے، روکنے کی کوشش دست درازی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ذاتی منفعت کی وبا بڑھ چکی ہے، جو اجتماعی منفعت کو کھاجاتی ہے۔
’’اقبال کا فارسی کلام چھُٹ گیا!‘‘
عالمی اردو کانفرنس میں ’اقبال اور قوم‘ کے حوالے سے نشست میں میں ’فکراقبال‘ کی تشریح اور اقبال کے مختلف زبانوں اور فلسفے پر عبور پر بات کی گئی، لیکن یہ بیٹھک اپنے عنوان ’قوم‘ کے حوالے سے بہت زیادہ مرکوز نہ رہ سکی۔ سہیل عمر نے خیالات اور الفاظ کی طلب کو بڑی بھوک سے تعبیر کرتے ہوئے اقبال کی ہر عہد کے لیے معنویت پر بات کی۔ نعمان الحق گویا ہوئے کہ اقبال وطنیت کے خلاف تھے، جا بہ جا ان کے اشعار اس کی نشان دہی کرتے ہیں۔
صدر محفل ڈاکٹر تحسین فراقی نے اقبال کو عطیہ خداوندی قرار دیا اور تشویش ظاہر کی کہ ہمارے فارسی چھوڑنے سے بہت نقصان ہوا، تبھی آج ہم اقبال کے فارسی کلام سے دور ہوگئے، جس کے بغیر ہم اقبال کو جان نہیں سکتے۔ ناصرہ اقبال نے بہت خوب صورتی سے علامہ اقبال کے حب رسول ﷺ پر روشنی ڈالی، پھر نہایت عقیدت سے اپنے حالیہ عمرے کا تذکرہ بھی کیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ آج ہم اقبال کی مذکورہ قوم ہیں یا ہجوم؟
خشک عُروض پر رئوف پاریکھ کی مترنم شبنم!
پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز ’’اردو کے نظام عروض‘‘ کے حوالے سے پُرمغز اور اِس فن سے روشناس کراتی ہوئی ایک مفید بیٹھک سے ہوا، جس میں آفتاب مضطر نے فرمایا کہ شعر میں کیا کہا یہ فکر ہے اور کس طرح کہا، یہ فن ہے۔ بہت سے لوگ عُروض سیکھ کر بھی درست شعر نہیں کہہ پاتے، جب کہ کچھ احباب بنا سیکھے بھی شعر کہہ لیتے ہیں۔ رخسانہ صبا نے اعلیٰ تعلیمی مدارج میں عروض کی کٹھنائیاں پار کرنے کے تجربے کو بیان کیا، جب کہ تسنیم حسن نے کہا کہ تاثر یہ ہے کہ بگڑا ہوا شاعر ماہرعروض بن جاتا ہے۔
ایاز محمود نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا آزاد نظموں میں بھی عروض کی سختیوں کی پاس داری لازم یا کوئی رخصت موجود ہے؟ پھر بہت سے شاعر ایک ہی بحر سے مخصوص ہوجاتے ہیں یا ان کی فطری مناسبت ہوجاتی ہے۔ پھر باری آئی صدر محفل ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی، انھوں نے اردو شاعری کے عروض جیسے خشک سمجھے جانے والے موضوع کو اپنے روایتی پرلطف انداز میں بیان کیا اور اسے براہ راست موسیقیت سے منسلک قرار دیا کہ اس کی روانی اسی کی دین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد نظم میں بھی وزن ہوتا ہے۔ ’’صبا، گل، چمنی‘‘ ان تین الفاظ میں سارے بحر آسکتے ہیں، ہم نے عُروض کو ہوّا بنا رکھا ہے۔ ہم آواز الفاظ پر وزن استوار ہوسکتا ہے، اس کے لیے یک ساں اور قربتِ املا پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، الطاف حسین حالی بھی اسے بے جا قرار دیتے ہیں۔
قافیوں کی ایسی بندش سے خیال لفظوں کا تابع ہوجاتا ہے ، جب کہ لفظ کو خیال کے تابع ہونا چاہیے، جب کہ یہاں عالم یہ ہے کہ مشاعروں میں آوازیں کَسی جاتی ہیں کہ الف گر رہا ہے، ع گر رہا ہے! عروض ضروری ہیں، لیکن بنیادی شرط نہیں۔ نثری نظم میں بھی ایک آہنگ ہوتا ہے۔ بہت سی نثر بھی بحر میں ہوتی ہے، لیکن وہ شعر نہیں، بہت سے شعر بھی نثر لگتے ہیں، شعر کی تعریف پرانی ہوچکی ہے، ہمارے یہاں عربی اور فارسی سے زیادہ پابندیاں ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے مترنم طریقے سے عروض کے قواعد بیان کیے ، جسے حاضرین کی خوب پذیرائی ملی۔
’’علاماتِ کربلا سب سے زیادہ افتخار عارف کے ہاں!‘‘
’اکیسویں صدی میں تقدیسی ادب‘ کے عنوان سے سجنے والی نشست میں حمد ونعت سے لے کر رثائی ادب تک گفتگو ہوئی۔ طاہرقریشی نے خیال آفاقی کے مجموعے ’’یا سیدی‘‘ کے تناظر میں مسدس کی نئی جہت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے رثائی ادب کی آن لائن اشاعت اور ترتیب کے حوالے سے جامع گفتگو کی۔
فراست رضوی نے بتایا کہ تحقیق کے مطابق علامات کربلا کے استعمال میں افتخار عارف کو اولیت حاصل ہے۔ حمد کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ایک عرصے تک اس پر ’تنقید‘ کو بے ادبی شمار کیا گیا، لیکن پھر بعد میں یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ حمد کی فنّی شعری اور جمالیاتی پرکھ پر بات ہے ، اس سے حمد کے احترام میں قطعی کوئی رخنہ ڈالنا ہر گز نہیں ہے۔
’صدرِ مجلس‘ افتخار عارف نے کہا کہ تقدیسی ادب پر ثواب کا معاملہ اپنی جگہ، اور معیار کا معاملہ جدا، اگر معیار نہیں ہے، تو اسے ماننے میں مجھے تامل ہے۔ نعت بطور صنفِ ادب صرف اردو ہی میں قائم ہو سکی۔ اکیسویں صدی میں اتنے مرثیے لکھے گئے کہ اتنے پوری فارسی میں بھی نہ ہوں گے، تنگی وقت کے سبب اس نشست کی ’مجلس صدارت‘ کی دوسری رکن ڈاکٹر عالیہ امام سے معذرت کرلی گئی۔
جنرل یحییٰ کے سبب چھے ماہ تک میرا نام نہیں رکھا گیا!
’’یادرفتگاں‘‘ کے عنوان سے آراستہ ہونے والی بیٹھک کی نظامت ممتاز صداکار رضوان زیدی نے کی، جس میں فرہاد زیدی کے حوالے سے حسن زیدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے والد کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھا کہ ان پر ان کا ہی بیٹا گفتگو کرے۔ وہ طاقت وروں سے دور رہتے تھے، حتیٰ کہ میرا نام یحییٰ رکھنا چاہتے تھے، مذہبی طریقہ کار کے مطابق بھی یہی نام موافق آرہا تھا، لیکن چوں کہ جنرل یحییٰ خان کا اقتدار آگیا تھا، اس لیے چھے ماہ تک انھوں نے میرا کوئی نام ہی نہیں رکھا۔
انھیں نوائے وقت سے وابستگی کے دوران ایک سیاسی جماعت میں بطور مخبر شمولیت کی ہدایت کی گئی، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اس نشست میں شمیم حنفی، فاروق قیصر، امداد حسنی اور دیگر کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔
’’اردو صحافت کی دو صدیاں‘‘
یہ پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کی ایک اور اہم بیٹھک تھی، جس کی نظامت ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کی۔ ممتاز صحافی محمود شام نے خواہش ظاہر کی کہ اس کا اہتمام ’اے پی این ایس‘ کو کرنا چاہیے تھا۔ ہندوستان میں اس حوالے سے تقریبات ہو رہی ہیں۔ ہماری صحافت ’آلۂ کار‘ بنی ہوئی ہے، ’نامہ نگار‘ اخبار سے زیادہ اپنی ’بیٹ‘ (خبری موضوع) سے مخلص ہوگئے ہیں، کیوں کہ وہاں سے زیادہ تنخواہ مل رہی ہے۔ مالکان نے ٹی وی پر توجہ کرلی ہے۔ بڑے اخباروں میں کاغذی اشاعت سے ماورا ہونے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اخبار کے ڈِپو کی رونقیں ماند پڑ رہی ہیں۔
اردو خبر ایجینسی آنے سے ترجمے کی روایت اٹھ گئی، سب اخبار میں ایک ہی جیسی خبر ہے۔ جنرل ضیا الحق نے کالم نگاروں کو براہ راست ساتھ لے جانا شروع کیا، ورنہ پہلے مدیر کے توسط سے بات ہوتی تھی۔ جتنے ترقی پسند اردو میں رہے، اتنے انگریزی میں نہیں رہے۔ قارئین کے رجحانات پر نظر رکھیں تو مستقبل اندھیر نہیں۔
ادارتی صفحات سے وابستہ ممتاز صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’کالم‘ رائے عامہ کے لیے اہم ہیں، ’ادارتی صفحہ‘ ہماری مستقبل کی سیاست کا نقشہ ہے، اسے اور بہتر ہونا چاہیے۔ آج کالموں میں بس تعریف اور مذمت مقصد ہوتا ہے، نئے کالم نگار اچھا لکھ رہے ہیں، علامتی کالم سمجھ میں دیر سے آتے ہیں، اس لیے ہضم ہوجاتے ہیں، صحافت کا ایجنڈا سچ اور آگاہی ہونا چاہیے۔
کالموں پر قارئین کے ردعمل سے ہم رجحان اور کالموں کی پسندیدگی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے مسئلے کے بعد اردو صحافت میں لبرل ازم بڑھا ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ تاب ناک ہے۔ سیاست کے سوا صرف صحافت ہی نے جانیں دی ہیں۔ اخبار کی شکل اور معیار بدلنا چاہیے، خبروں میں بیانات سے ہٹ کر عالمی معیار سے مطابقت پیدا کریں۔
ممتاز صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ’پریس ریلیز‘ کو جبراً ’اسٹاف رپورٹر‘ کرنے کا دبائو ہوتا تھا۔ اخبار ایک سنجیدہ صحافت ہے، انھی کی بنیاد پر ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں۔ اگر رپورٹر کو تنخواہ نہیں دیں گے، تو کہیں اور سے پیسے لے گا۔ اخبارات کا اگر ایجنڈا ہے، تو اعلان کریں، غیرجانب داری کہہ کر کے ’جانب داری‘ نہ دکھائیں۔
’جنگ‘ کے مدیر محمود مدنی نے بتایا تھا کہ پانچ جولائی 1977ء کے لیے دو اداریے لکھ کر رکھے تھے کہ اگر حکومت رہی تو یہ، اور مارشل لا لگا تو اسے خوش آمدید کہنے کو دوسرا اداریہ۔۔۔! پہلے پتا تھا کہ صحافت میں پیسہ نہیں، یہ ذمہ داری ہے۔ آج سندھی صحافی زیادہ نظریاتی ہیں۔ انگریزی اخبار کا ’مدیر‘ جیسے رپورٹر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ایسا اردو میں نہیں ہوتا۔ ’پریس ریلیز‘ موقف ہے، اس موقف کو خبر میں شایع ہونا چاہیے۔ ہمیں اردو اخبارات میں نئے رجحانات لانے ہوں گے، جس سے قارئین دوبارہ متوجہ ہو سکتے ہیں۔
اگر ’میڈیا‘ میں پیسہ نہ ہوتا، تو ایک مالک کے پانچ، پانچ چینل نہ ہوتے، اور وہ فلمیں نہ بناتے۔ جنرل ضیا سے اکتوبر 1977ء کے انتخابات ملتوی کرانے کے لیے مجیب الرحمٰن شامی، صلاح الدین اور دیگر گئے، نوائے وقت کے مدیر مجید نطامی کے ہمراہ لاہور میں میٹنگ ہوئی، جس میں جنرل ضیا نے عوامی ردعمل کا خدشہ ظاہر کیا، تو انھیں بتایا کہ اگر انتخابات کرائے، تو باہر دیکھ لیجیے، نصرت بھٹو کا جلسہ ہورہا ہے! اگر ملتوی کردیں گے، تو پھر عوامی رائے ہم بنائیں گے!
اس اجلاس میں ہندوستان سے سعید نقوی نے ’آن لائن‘ شرکت کی اور کہا دنیا بدل رہی ہے، جو آپ کو بدل دے گی، ہمارے پاس صلاحیت نہ ہونا بڑا خلا ہے۔ اخبارات کے پاس پیسے نہ ہونا جھوٹ ہے۔
جتنی بے وزن شاعری، اتنی ہی بے وزن داد!
’’اکیسویں صدی میں اردو شاعری‘‘ کے عَلم تلے جگمگانے والی اس مفید بیٹھک کی صدارت افتخار عارف نے کی، جس میں اشفاق حسین نے مغربی دنیا کے حوالے سے کہا کہ وہاں بھی اردو شاعری یہیں کی ایک توسیعی صورت ہے، وہاں والے خیال رکھتے ہیں کہ یہاں کی ادبی رو سے ہٹ کر نہ لکھیں، احمد مشتاق کی وجہ سے غزل کی آبرو برقرار ہے۔
ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر اور دیگر نے بھی اس سنجیدہ گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔ افتخار عارف نے شاعری کے زمین سے جڑنے پر زور دیا، اور کہا کہ اپنے لوگوں سے منسلک ہوئے بغیر شاعری آگے نہیں بڑھ سکتی، اب اردو کے علاقے وسیع ہوگئے ہیں، مگر دائرہ سکڑ گیا ہے۔ اردو کا نئے علاقوں کی زبانوں، روزمرہ اور واقعات کا منعکس ہونا ضروری ہے۔ انٹرنیٹ پر اردو شاعری بڑھی ہے، لیکن وہاں جتنا بے وزن شاعری ہو اتنی ہی بے وزن داد ملتی ہے۔
’’اَپرچیونٹی‘‘ سے ’’اِنکریج‘‘ تک۔۔۔!
محمود شام کی زیر صدارت ’’اکیسویں صدی میں بچوں کا ادب‘‘ پر سلیم مغل نے کہانیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس نشست کو تو اگر بچوں کی کہانیوں تک محدود کیا جاتا تو اچھا تھا، کہانی سننا اور پڑھنا اہم ہے، کہانی دیکھنے سے اس کا تخیل دم توڑ دیتا ہے یا اس کا دَم ضرور گھٹنے لگتا ہے۔ میرے ایک چینی دوست نے بتایا کہ وہ کہانی اس لیے لکھ رہے ہیں کہ ان کا بچہ سوچتا ہوا بڑا ہو۔
نوجوان شاعر اور مدیر عبدالرحمٰن مومن نے کہا کہ بچوں کے رسائل کے ذریعے بہت سے لکھنے والے کم سن قارئین تک پہنچ سکے۔ ان کہانیوں میں اصلاح کا پہلو زیادہ رہا۔ اس بیٹھک سے ڈاکٹر ثناء غوری، سیما صدیقی اور دیگر نے بھی اظہارخیال کیا۔ اپنے صدارتی خطبے میں محمود شام نے کہا کہ کتابوں کے نہ پڑھنے اور مایوسی کی باتیں 20، 25 برس پہلے بھی کی جاتی تھیں، لیکن ذمہ داران پر بات نہیں کی جاتی۔
ایک سوال کے جواب میں سیما صدیقی نے بتایا کہ ایک اسکول میں بچوں کو تعطیلات میں ایک کتاب پڑھنے کے لیے دی جاتی ہے، جس کے سوالات امتحانی پرچے میں شامل ہوتے ہیں۔ ایک بچی نے اردو سے رشتہ مضبوط کرنے کے سوال کے آخر میں ’تھینک یو‘ کہا تو اس کے جواب میں بڑوں کا بچے سے اردو بول چال کا رشتہ مضبوط کرنے کے ساتھ اردو کی ’’اپرچیونٹی‘‘ میسر کرنے اور انھیں ’’انکریج‘‘ کرنے کی تاکید نے ساری حقیقت حال بیان کر دی۔ ’آن لائن‘ بچوں کی کہانیوں کے سوال پر ڈاکٹر ثناء غوری نے ’ہمدرد‘ کی کتب کی جَلد انٹرنیٹ پر دست یابی کا مژدہ سنایا۔
بچے اردو پڑھ نہیں پاتے۔۔۔!
اشفاق حسین (کینیڈا) کی زیرصدارت ’اردو کی نئی بستیاں‘ کے زیرعنوان بیرون ملک اردو کی صورت حال پر بھی بات ہوئی۔ تہمینہ رائو نے آسٹریلیا میں اردو سامعین کی کمی کا تذکرہ کیا، اور بہت سے بچون کے دادا دادی سے اردو میں بات نہ کرسکنے کا شکوہ بھی کیا۔ اکرم قائم خانی نے برطانیہ میں اردو کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے کام کی خبر دی۔ عشرت معین سیما نے جرمنی میں اردو کے پھلنے پھولنے کی نوید سنانے کے ساتھ نئی نسل کو اردو لکھنے پڑھنے سے متعلق اپنی عملی کاوشوں کے بارے میں بتایا۔
امریکا سے آئے ہوئے سعید نقوی نے کہا وہ وہاں مشاعروں سے بڑھ کر اردو تحقیق، ادب اور ترجمے پر کام کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اب اردو کی یہ بستیاں نئی نہیں، اب وہیں سے تخلیقی سفر شروع کرنے والے بھی سامنے آرہے ہیں، انھوں نے بتایا ان کی بیٹیاں اردو بول تو لیتی ہیں، لیکن پڑھ نہیں پاتیں۔ اشفاق حسین نے اپنے صدارتی خطبے میں بتایا کہ 42 برس پہلے کینیڈا اردو دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھا، یہ لندن کے ’اردو مرکز‘ کے سہارے پروان چڑھا، تب اردو سننے کے لیے پاکستانی قونصلیٹ جانا پڑتا تھا، اب صورت حال بہت بہتر ہے۔
آج کے ’’مہذب‘‘ بدّوئوں سے زیادہ پست!
اردو کانفرنس کی ایک پروقار نشست عکسی مفتی کی سیرت پر کتاب کی تقریب رونمائی تھی، جس کی نظامت سلیم مغل صاحب نے کی، عکسی مفتی نے کہا یہ کوئی مذہبی کتاب نہیں، میں تو خود مغربی علوم پڑھا ہوا ہوں۔ دراصل انٹر نیٹ پر نبی اکرم ﷺ سے متعلق انتہائی بے ادبانہ چیزیں جمع ہیں، تب کے بدّو نے وہ نہ کیا، جو آج کی نام نہاد تہذیب یافتہ دنیا کر رہی ہے! ان سب کا جواب دینا آسان نہ تھا، کیوں کہ مغربی ہتھیار بہت خطرناک ہے۔
انھوں نے جدید علوم کے سہارے بہت خطرناک وار کیے ہیں، اور بہتان اور گستاخی کی حدوں کو چھو گئے ہیں۔ اس لیے مجبوری میں یہ کتاب Muhammad PBUH In modren times لکھی، وہ اسم مبارک، جس کے معنی ہی تعریف کے ہیں! میری یہ کتاب دراصل ان منکرین کے لیے ہے، اور انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ہے۔
سرکاری افسر اور کبھی سرکار کی تعریف نہ کی
اس ’جشنِ اردو‘ میں ایک خوب صورت بیٹھک ممتاز مزاح نگار سید محمد جعفری پر بھی تھی، جس میں ان کے بیٹے احمد جعفری کے ساتھ انور مقصود بھی موجود تھے، انور مقصود نے سید محمد جعفری کی زندگی کے واقعات سنائے اور کہا کہ وہ سرکاری افسر رہے لیکن کبھی سرکار کی تعریف نہیں کی، مشاعروں میں شاعر مجھ سے کہتے کہ جعفری سے پہلے پڑھوا دینا کیوں کہ اس کے بعد تو انھیں مجمع اترنے ہی نہیں دیتا۔
مشاعروں میں تین ’ج‘ مشہور جگر، جالب اور جعفری مشہور رہے۔ سید محمد جعفری کے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی میں بھی گہری حس مزاح موجود ہے، جب کہ احمد بھی شاعری کرتے ہیں!
تعلیم کی ’’سورتحال‘‘
تعلیم جیسے اہم موضوع کی بیٹھک نے منچ کے عقب کی ’برقی پردے‘ پر جو عنوان ابھارا، اس نے صورت حال کو ’سورتحال‘ لکھ کر اچھا خاصا مزہ کرکرا کر دیا۔ اس بیٹھک کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا تعلیم کی جوں کی توں پستی اب سیلاب کے باعث ابتر ہوگئی ہے۔ انجم ہالائی نے کہا کہ انگریزکے تعلیمی نظام کا مقصد جی حضوری تھا۔
آج فلسفہ اور دیگر سماجی علوم کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، ہمیں انھیں سائنس کے ساتھ مربوط کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر یوں گویا ہوئے کہ تعلیم سے تنقیدی نگاہ پیدا ہونی چاہیے۔ شاہد صدیقی کا خیال تھا کہ استاد براہ راست نظام اور نصاب سے منسلک ہوتا ہے، اس لیے وہ بہتر ہونا چاہیے، وہ زیادہ اہم ہے۔
اردو اور سپریم کورٹ کی ’’توہین عدالت‘‘
’پاکستان آج اور کل‘ کے عنوان سے ممتاز ٹی وی میزبان حامد میر سے گفتگو بھی اردو کانفرنس کا حصہ تھی۔ ابصا کومل نے ان کی میزبانی کی۔ حامد میر نے ببانگ دہل کہا کہ بس ظالم ومظلوم کی تقسیم ہے اور وہ مظلوم کے ساتھ ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے پر جنرل ایوب خان نے اس شہر کے لوگوں پر گولیاں چلائیں اور نفرت کے بیج بوئے۔
1971ء میں سیاسی شکست ہوتی، تو جنرل نیازی کی جگہ سیاست داں ہتھیار ڈالتا۔ بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی کی کتاب پڑھیں تو پتا چلے گا انتخابی نتائج پر جنرل یحییٰ نے جنرل عمر سے کہا وہ لوگ کہاں گئے، جنھیں ہم نے پیسے دیے تھے! صدارتی نظام کا مقصد ایک صوبے کی حکومت قائم کرنا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت لا کر آمریت کے مقابلے کے قابل بنیں۔
حامد میر اس حوالے سے داد کے مستحق ہیں کہ عالمی اردو کانفرنس کے منچ پر انھوں نے آئین کی پاس داری کی بات کرتے ہوئے نہ صرف اس کی دفعہ 251 پر عمل نہ ہونے کا حوالہ دیا، بلکہ توجہ دلائی کہ سپریم کورٹ نے 2015ء میں تمام فیصلے قومی زبان اردو میں لکھنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ خود اس پر عمل نہ کرکے ’توہین عدالت‘ کر رہی ہے! کراچی کی سیاسی گھٹن پر سوال کے باوجود انھوں نے کھل کر بات کرنے سے گریز کیا، تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیاست دانوں کے حوالے سے وہ حسب روایت بات کرتے رہے۔
پہلے ’غزل گو‘ ہوتا تھا، اب ’’غزل گا‘‘ ہوتا ہے!
’’اکیسویں صدی میں اردو تنقید‘‘ کے عنوان تلے استوار اس محفل کی نظامت سنیئر صحافی اور افسانہ نگار اقبال خورشید نے کی، جس میں مقررین نے جدید غزل میں تصوف اور عشق کے بہ جائے سرمایہ دارانہ عناصر کے آنے کا تذکرہ کیا۔ ناصر عباس نیر اظہارخیال کے بعد رخصت لے کر ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ سچائیاں الگ الگ نہیں ہو سکتیں، سچ ایک ہی ہوگا۔ ہمارے ہاں پہلے علی گڑھ کی وجہ سے مغرب کا اثر تھا، وہ حسن ظن رکھتے تھے۔ انگریزی تنقید سے پہلے مشرق میں تنقید موجود تھی، مشاعروں میں ترنم کے رواج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے غزل گو ہوتا تھا، اب غزل گا ہوتا ہے۔ صدرِ دوم ڈاکٹر تحسین فراقی کچھ یوں گویا ہوئے کہ تخلیق ایک پراسرار عمل ہے، اچھا تخلیق کار اچھا نقاد ہوتا ہے، لیکن اس خیال کے خلاف بھی دلائل موجود ہیں۔ متن اصل چیز ہے، متون تک دل سوزی سے پہنچا جا سکتا ہے۔
اچھے شعر میں معانی تہہ در تہہ ہوتے ہیں۔ ’ایچ ای سی‘ دراصل تعلیم پر تیزاب چھڑکنے کا کام کرتا ہے، تحقیقی پرچے میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک دے کر مقالے شایع ہوتے ہیں اور اس کے بعد پرچے ایک طرف ڈال دیے جاتے ہیں۔ ’آئی ایم ایف‘ اور سرمایہ داریت نے سب کچھ کچل کر رکھ دیا ہے۔
ایک قسط، سیکریٹری کی تنخواہ جتنا محنتانہ!
اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر کی صدی کی مناسبت سے ’’شوکت صدیقی کے سو سال‘‘ پر بھی ایک مجلس بیٹھی، جس میں شوکت صدیقی کے بیٹے ظفر صدیقی نے اپنے والد سے اپنے تعلق پر روشنی ڈالی۔ ممتاز صحافی نذیر لغاری نے شوکت صدیقی کے ناول ’جانگلوس‘ کو منجھے ہوئے صحافی کی رپورٹنگ اور بڑے ادیب کی تحریر قرار دیا اور کہا کہ یہ شاید پہلا ناول ہے کہ جس کی ایک قسط کا معاوضہ ایک کمشنر سے زیادہ سیکریٹری کی تنخواہ کے برابر دیا گیا۔
آج بھی ایسا نہیں ہوتا کہ لکھنے والے کو اتنا معاوضہ دیا جائے کہ وہ صرف لکھے اور کوئی کام نہ کرے۔ محمود شام نے شوکت صدیقی کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے آگاہی دی اور کہا کہ جریدے ’الفتح‘ کے اداریے یک جا کر لیے گئے ہیں، اکادمی کے معماران ادب میں خصوصی اشاعت، مارچ 2023ء میں اخبارات اور ادبی جرائد میں خصوصی اشاعت اور خصوصی مضامین کی بات کی، خصوصی ڈاک ٹکٹ کی بات کی۔
اردو دنیا کے مایہ ناز مدیر، ادیب اور مشہور زمانہ ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ کے بانی جناب شکیل عادل زادہ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ’جانگلوس‘ پی ٹی وی پر نشر ہوا تو بے نظیر بھٹو کو کہا گیا کہ یہ جاگیرداروں کے خلاف ہے، اس لیے اُسے 17 قسطوں کے بعد بند کردیا گیا، لوگ اُسے ’سب رنگ‘ کے مقدمے کا اثر سمجھے۔ اب ’جیو‘ ٹی وی نے یہ ناول خرید لیا ہے، لیکن ان کا بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ابھی وہ یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک احمد شاہ مائیک لیے آگئے، کہنے لگے کہ ہم یہاں مقدموں کی بات کرنے کے لیے تو جمع نہیں ہوئے، غالب کے بھی مقدمے تھے، ہم اس کا ذکر تو نہیں کرتے، ہم یہاں شوکت صدیقی کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے ہیں۔‘ ان کے اس اندازِ تخاطب اور شکیل عادل زادہ جیسی بلند پایہ شخصیت کی بے ادبی پر اردو ادب کے قارئین نے نہایت دکھ اور گہرے افسوس کا اظہار کیا۔
آخر جب کسی بھی شخصیت پر بات ہوتی ہے، تو اس سے جڑی ہوئی یہ باتیں در آہی جاتی ہیں، سعادت منٹو اور جالب کے تذکرے میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، اور ایسی قطعی کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کہ یہ مداخلت کی گئی!
’’اردو میں لوک کہانی نہیں!‘‘
’اکیسویں صدی میں فنون کی صورت حال‘ کے موضوع پر پروگرام سے امریکی محقق اسٹیفن ایم لیون نے اردو زبان میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یہاں 20 سال میں تبدیلیاں دیکھیں، جیسے خواتین نے پردہ کرنا چھوڑ دیا اور مرد وزن کے باہمی تعلقات وغیرہ، یہ میڈیا کے ذریعے ہوا۔ عکسی مفتی نے کہا ہم آگے بڑھنے کے چکر میں اپنی چیزیں چھوڑتے چلے گئے، ہمارے راگ مرگئے، 36 مغلیہ فنون سنگ تراشی اور خطاطی، دست کاری وغیرہ ختم ہوگئے۔ مٹی کے برتن اور ایسے بے شمار چیزیں اب ناپید ہو رہی ہیں، کیوں کہ اس میں پیسہ نہیں۔ لوری سنانے والے نہیں رہے۔ کیمرا آیا تو کہا، اب خوب صورت لڑکی چاہیے۔
فریدہ خانم کو کہتے ہیں کہ کھڑے ہو کر اچھل کود کرکے غزل گائیے تو ہم عکس بند کریں گے۔ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی سے معافی۔ آگے بڑھنے کے شوق میں اگر پچھلا چھوڑا تو ہم بے چہرہ ہوجائیں گے۔ شاہد رسام نے کہا کہ ہمیں پچھلے کا ماتم نہی کرنا چاہیے، بلکہ آج اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ بی گل کا کہنا تھا کہ اردو کے لیے لکھنے والوں کی اکثریت پنجابی تھی، اور پنجابی کا ’لوک ورثہ‘ تھا، اردو میں کوئی ’لوک‘ نہیں! اصغر ندیم سید نے کہا کہ اب زبانوں کا قتل ہو رہا ہے اور اب انگریزی کے ٹکڑے لگی ہوئی زبان ’نوجوانوں کی زبان‘ قرار دی جاتی ہے۔
انگریزی دعوت نامے کی بازگشت
پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے انگریزی دعوت نامے کی بازگشت اس کے اختتامی تقریب میں بھی سنی گئی، جب گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ یہ قرارداد بھی منظور کرلیجیے کہ آئندہ اردو کانفرنس کا دعوت نامہ بھی انگریزی کے بہ جائے اردو میں ہوگا۔
اختتامی تقریب میں حسب روایت انور مقصود نے اپنا مضمون پڑھ کر سنایا، جس کا عنوان ’’اکیسویں صدی کا پاکستان‘‘ تھا، انھوں نے کہا کہ یہاں پاکستان کے ادب پر بات ہوئی، جب کہ پاکستان کا ادب سے کوئی تعلق نہیں، یہاں بندوق کی زبان قومی زبان ہے، مجھ سے احمد شاہ نے کہا آپ کے پاس 30 منٹ ہیں، میں نے پوچھا کس ڈاکٹر نے کہا۔۔۔؟
پاکستان پر ایک تصوراتی فلم کا نقشہ کھینچتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس کا ہدایت کار پنجاب، جب کہ ’شوٹنگ‘ بلوچستان میں ہوئی۔ نئے آرمی چیف کے حوالے سے کہا کہ وہ بچپن میں گلی ڈنڈا کھیلتے تھے اب گِلّی کسی اور کے پاس رہ گئی اور ڈنڈا اُن کے پاس ہے۔
The post بزمِ اردو۔۔۔ جشنِ اردو appeared first on ایکسپریس اردو.