ماں بننے کا احساس کیسا ہوتا ہے۔۔۔ یہ وہ ابھی تلک نہیں جان پائی تھی۔ حالاں کہ ایسا نہ تھا کہ اس میں مامتا نہ تھی یا اسے بچے پالنے کا شوق نہ تھا۔ ارے وہ تو سراپا محبت، بلکہ شفقت میں ڈھلی ہوئی تھی۔ جب ہی تو شوہر بھی اس ’مادرانہ الفت‘ سے بیزار ہوگئے تھے۔
ان کو بھی طلب ہوتی کہ گھر والی ناز انداز دکھائے، کبھی نخوت سے ناک سکوڑ کر ان سے فرمائشیں کرے، کبھی پان آئسکریم کھانے کی چاہ کرے کبھی شاپنگ جانے کی لیکن ان کو تھی ملی تھی پرشفیق بیوی جو صبر شکر کر کے اب تلک بَری و جہیز کے جوڑے ہی گھس رہی تھی، نخرے تو بہت دور کی بات ہے، دفتر سے آتے تو ان کی ناز برداریاں شروع کر دیتی۔
کبھی سر دبا رہی ہیں، جوتے اتار کر پاؤں پھیلا دیتیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈا شربت پیش کر دیتیں۔ شروع میں تو میاں جی کو یہ چاؤ اچھے لگے، لیکن بعد میں اس بلاوجہ کی مامتا سے وہ چڑنے لگے۔ اب جب وہ چائے کا پوچھتی تو وہ منع کر دیتے، جوتے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی تو جھنجھلاکر وہ اٹھ کھڑے ہوتے۔ وہ لاکھ پوچھتی رہتی کہ کیا کوئی بات غلط سرزد ہوگئی۔ اب میاں کیا سمجھاتے کہ بیوی کو کبھی کبھار محبوبہ والے اطوار بھی اپنانے چاہیے اور ویسے بھی کوئی لے پالک اولاد نہ تھے، شوہر تھے۔
اب سلمیٰ خاتون کو یہ بات کیسے سمجھ آتی وہ تو گندھی ہی شفقت اور محبت سے تھیں ان کو دیکھ کر بناسپتی گھی کا اشتہار یاد آجاتا تھا۔ جہاں مامتا وہاں سلمی۔۔۔ خیر بات کہاں سے کہاں جاپہنچی۔ سلمیٰ خاتون کی ممتا اپنی اماں کے آٹھ بچے پال کر بھی نہ ختم ہوئی۔ آٹھ برس اکلوتی رہیں اور جب منتوں سے بھائی آیا تو سلمیٰ خاتون سب سے زیادہ خوش بھائی کو اپنے ساتھ کھلانا، منہ صاف کرنا، جب گھٹنوں چلتا، تو پیچھے پیچھے بہنا بھی حفاظت کرتی چلتی، سلمیٰ خاتون نے ماں کو ایسا بے فکر بنادیا کہ اماں پھر امید سے ہوکر پلنگ پر بیٹھی اور پھر تو جیسے یہ سلسلہ چل پڑا، ہر سال سلمیٰ خاتون کی مامتا کو قرار دینے کے لیے ایک ننھے کا اضافہ ہوتا گیا۔
اماں تو سلمیٰ کو ایسا بھول بیٹھیں کہ جب سلمی سے 10 سال چھوٹی بیٹی کے رشتے آنے لگے، تو سلمیٰ خاتون کے پھیکے اور بدرونق چہرے پر غور کیا۔ اس کے ہاتھ گھر کے کام کاج کرتے کرتے۔۔۔ بھائیوں کو گرم روٹیاں پکا پکا کر کھلاتے کھلاتے کٹے پھٹے اور بھدے ہو چلے تھے۔ لیکن سلمیٰ خاتون نے کبھی شکوہ ہی نہیں کیا۔ چھوٹی بیٹی کے ساتھ بیٹے کی بہو بھی بیاہ لائیں۔ سال بھر میں سلمی خاتون کی گود میں بھتیجا بھی آگیا۔ کلیجے سے لگائے لگائے پھرتیں، پھر چھوٹا خود ہی دلہن گھر لے آیا تو اماں کو حقیقت میں سلمیٰ خاتون کے بیاہ کی فکر ہونے لگی۔
رشتے ڈھونڈے جانے لگے، رشتے داروں آس پڑوس میں تذکرہ کیا تو انور احمد، سلمیٰ خاتون کے لیے امیدوار بن کر چلے آئے۔ انور احمد سرکاری محکمے میں کلرک تھے، جہانگیر روڈ پر سرکاری کوارٹر تھا، والد نہ تھے بس والدہ اور انور احمد۔
سب کو ہی یہ رشتہ بھایا اور رخصتی کی تاریخ طے ہوگئی۔ اب سلمیٰ خاتون کو خواب میں بھی گل گوتھنا سا وجود نظر آتا، سرخ سفید چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں، کبھی خواب میں قلقاریاں گونجتیں، تو وہ شرما جاتیں۔ بیاہ کر انور احمد کے گھر چلی آئیں۔ ان کے وجود سے انور احمد کا گھر نکھر تو گیا، لیکن اس کی خاموش دیواریں ویسے ہی سونی تھیں۔ انور احمد کی اماں بھی ایک دن اس خاموشی سے گھبرا کر آنکھیں موند گئیں۔
سلمیٰ خاتون ویسی ہی مامتا سے لبریز، لیکن بس اب خاموشی زیادہ پر اسرار ہوگئی تھی، چھوٹے چھوٹے سوئٹر بنتی رہتی کہ چھوٹے بھائی کے گھر خوش خبری تھی۔ گیلی آنکھیں صاف کرتی پھر اون سے نئے جال بننے لگتیں۔
پھر ایک روز ننھی پری کی خبر آئی، تو وہ بھتیجی سے ملنے انور احمد کے ساتھ ابا کے گھر جاپہنچی۔ بچی بھی ایسی سرخ انار، جیسے جاپانی گڑیا، سیاہ گھنگریالے بال، سلمیٰ خاتون کی ساری مامتا جیسے انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی۔ اسے گود میں لے کر دیوانہ وار چومنے کا جی چاہنے لگا۔ سینے میں جیسے آگ جل اٹھی جو بچی کو کلیجے سے لگاکر ہی بجھ سکتی۔ اچانک دلار میں وجاہت سے بے ساختہ کہہ بیٹھیں کہ بچی مجھے دے دو، میں پالوں گی۔
سب مسکرانے لگے، بھاوج نے بھی سلمیٰ خاتون سے کہا جی آپ کی بھتیجی ہے، جی بھر کر ناز اٹھائیے گا، جب بھی ہمارے گھر آئیں۔
’’نہیں وجاہت اسے مجھے دے دو۔‘‘ اب سب چونک گئے۔ بھاوج نے بھی ابرو چڑھالیے۔ بھائی بھی کچھ حیران سا ہوگیا۔ دے دو گے ناں، مجھے انھوں نے چھوٹے بھیا کا دامن پکڑ لیا۔ ارے سلمیٰ آپا کیا ہوا بھاوج تیوری چڑھائے گھورنے لگی۔ یہ اولاد ہے میری، میں نے اسے جنم دیا ہے، مشقت اٹھائی ہے، کیا صرف اس لیے کہ اسے کسی کو دے دوں۔ اولاد ہے میری۔۔۔ کوئی پالنے سے ماں تو نہیں بن جایا کرتا۔
سلمی خاتون کا چہرہ تو جیسے سفید ہوگیا۔ مامتا کا خون ہوگیا۔ انور احمد نہ تھامتے تو شاید گر پڑتیں وہیں۔ دھندلی آنکھوں سے نظر نہیں آرہا تھا۔ انور احمد کاندھوں سے تھام کر گاڑی تک لائے بٹھایا، گھر تک سارا سفر خاموشی سے کٹا۔ کمرے تک ہاتھ تھام کر لائے اور ہاتھ کی پشت تھپتھپا کر تسلی دی۔ ماتھا چوما تو سلمی خاتون کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے بھی دو بے جان بچوں کو جنم دیا، ساری مشقت جھیلی، انھیں محسوس کیا، لیکن اپنی مامتا نہ نچھاور کر سکی۔ کیا آپ مجھے کہیں سے ایک بچہ لادیں گے؟ سلمی خاتون کی سسکیاں گونج رہیں تھیں۔ آج وہ پہلی بار فرمائش کر رہی تھیں، ضد کر رہی تھیں، انور احمد سے۔۔۔ لیکن وہ چپکے بیٹھے تھے۔ وہ سلمی کی خواہش پوری نہیں کر سکتے تھے۔
انور احمد نے پیار سے چمکارا، پانی پلایا اور سر سہلا کر سلمی خاتون کو مسہری پر لٹا دیا۔ چائے بناکر لائے، ساتھ سر درد کی گولی بھی، سلمیٰ والی مامتا ان میں نہ جانے کہاں سے ابل پڑی تھی۔ پاؤں سیدھے کیے، سلمیٰ خاتون کے تو جیسے برف۔۔۔! شانے ہلا کر سلمیٰ کو جگانے لگے، تو سلمیٰ کی مامتا کے ساتھ اس کا وجود بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ بے جان کوکھ والی میں اب جان نہ رہی تھی۔
The post ’’درد رسیدہ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.