’’تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ تم نے تو مجھ سے بہت سے وعدے کیے تھے ناں۔ اب کیسے مکر سکتے ہو؟‘‘
18 سالہ رمشا نے زارو قطار روتے ہوئے کہا۔
امجد اس کی سہیلی کا بھائی تھا۔ ثانیہ اس کی کلاس فیلو تھی۔ وہ دونوں ایک ہی وین میں اسکول جاتی تھیں۔ جہاں سے آہستہ آہستہ وہ رمشا کے دل میں جگہ بنانے لگا۔ امجد نے اپنی بہن سے اس کا فون نمبر لے لیا اس طرح بات محبت اور شادی تک پہنچ گئی۔ امجد ایک آوارہ اور نوسر باز قسم کا نوجوان تھا۔اسے لڑکیوں کے جذبات سے کھیلنا بہت پسند تھا۔ ثنا اس کی زندگی میں کوئی چوتھی، پانچویں لڑکی تھی جس سے وہ پیار، محبت کے دعوے کر رہا تھا۔
’’امی جان! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘
ثنا نے نک سک تیار اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اف، بھئی ابھی میرے پاس وقت نہیں میں آکر تم سے بات کروں گی۔‘‘
انھوں نے اپنے پرفیوم کا چھڑکاؤ کیا اور یہ تیزی سے باہر نکل گئیں۔ دراصل ثنا کی امی جان کا ’سوشل سرکل‘ ہی بہت وسیع تھا۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے پاس بیٹھ کر کوئی بات کرتیں۔ ثنا کو ایک ’رانگ کال‘ بہت پریشان کر رہی تھی۔ اس کے ابو رات گئے آتے تھے، تب وہ سو چکی ہوتی تھی اور امی بھی صبح کی نکلی رات کو آتی تھیں۔ ڈر اور خوف سے ثنا نے اپنا موبائل بند کر دیا تھا، لیکن یہ مستقل حل نہیں تھا۔ اب وہ کسے بتائے؟ کون اس کی پریشانی حل کرے؟
کیا دوسرے ہمارے لیے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ ہم اپنے قریبی رشتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن کیوں؟ میرا سوال سب ماؤں سے ہے۔ بیٹیاں تو نازک آبگینے ہوتے ہیں۔ انھیں ہمارے وقت،محبت اور شفقت کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ماؤں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ جب بچیاں بچپن کی دہلیز سے نکلنے لگیں، تو ہر قدم پر ان کی راہ نمائی کریں۔ انھیں مکمل وقت دیں۔
ان کے احساسات اور جذبات کا خاص خیال رکھیں۔ انھیں سہیلیوں کے انتخاب کے لیے بھرپور مدد دیں۔ یہ نازک کلیاں امجد جیسے اوباشوں کے ہاتھ نہ لگیں۔ صحیح، غلط کی پہچان کرانا ایک ماں کی ذمہ داری ہے۔ یہ آپ کے گلشن کے پھول ہیں، انھیں غلط ہاتھوں میں لگنے سے بچا لیں۔ جب ماں اچھی سہیلی بن جائے، تو یہ نو عمر خود ہی اپنے سارے خیالات باہر کی دنیا سے بانٹنے کی بہ جائے گھر آکر ماں سے کرتی ہیں۔آپ اپنی بچیوں کے لیے نہ صرف آئیڈیل ہیں، بلکہ پرسکون دنیا کا واحد ستارہ ہیں، جس کی روشنی سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں گی۔ کوئی ان کے جذبات سے کھیلتے ہوئے دس بار سوچے گا۔
بیٹیاں جب گھر میں کسی سے اپنے جذبات نہ بانٹ سکیں، تو وہ باہر کی رنگینی تلاش کرنے لگتی ہیں اور کبھی کبھار تو وہ اس فریبی میں اس بری طرح پھنس جاتی ہیں کہ انھیں کوئی بھی اس دلدل سے نہیں نکال پاتا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو بہتر بنایا جائے اپنے رویے میں لچک پیدا کریں۔ دوستانہ لب و لہجہ اپنائیں اور کسی معاملے میں سختی بھی کریں۔
بچیوں کی سہیلیوں اور حلقۂ احباب کی انھیں بتائے بغیر جانچ پرکھ کریں۔ اگر کسی لحاظ سے آپ کو محسوس ہو کہ فلاں سہیلی کے گھر کا ماحول آپ کے مطابق نہیں تو اپنی بیٹی کو پیار سے سمجھائیں اور اسے مستقبل کی پریشانیوں سے ڈرائیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے مائیں اپنی لاعلمی کی وجہ سے یا بچوں پر مکمل توجہ نہ دینے کی وجہ سے بگڑتے معاملے کو شوہر سے لا علم رکھے کی سنگین غلطی کرتی ہیں۔ ثنا جیسی بہت سی بچیاں ماں، باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے جب تھک جاتی ہیں، تو مایوس ہو کر خدانخواستہ جانے ان جانے میں کسی اندھیر نگری میں قدم رکھنا شروع کر دیتی ہیں اور اکثر وہ ’نگری‘ انھیں نگل جاتی ہے!
خدارا کچھ وقت نکالیں اور اس بارے میں سوچیں کہ کس طرح اپنی بچوں کی خاص طور پر اسکول اور کالج جانے والی بچیوں کی پرورش کرنی ہے۔ ان کے موبائل فون پر نظر رکھیں کہ وہ کس سے اور کب بات کرتی ہیں، انھیں سہیلیوں کے گھر اکیلے نہ بھیجیں۔ جب ان کی کلاس فیلو گھر آئیں تو کچھ دیر پاس بیٹھیں ان کی گفتگو سنیں اور ان کے مزاج کا اندازہ لگائیں۔ اپنی پری جیسی بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اس دور میں بہت ضروری ہوگیا ہے۔ ابھی وقت ہے آپ بہت کچھ تبدیل کر سکتی ہیں۔
The post ابھی وقت ہے۔۔۔ کچھ سوچیں ! appeared first on ایکسپریس اردو.