کوٹ مومن: انسان اور جرم کا رشتہ صدیوں پرانا ہے، انسان لالچ میں کیا کچھ کر جاتا ہے؟ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
کوٹ مومن کے نواحی علاقے الف 8 چک کے رہائشی محمد صادق نے 2003 میں اپنی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے ماجد حسین سے کی تھی۔ شادی کے بعد نازیہ اور ماجد خوش وخرم زندگی بسر کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں یکے بعد دیگرے دو بیٹے فرحان ماجد اور حنان ماجد عطا فرمائے، جن کی پیدائش سے ان کا گھر خوشیوں سے بھر گیاتھا لیکن انہیں ایک بات ستائے جارہی تھی کہ ان بچوں کا مستقبل کیسے تاب ناک بنایا جائے؟ ایک معمولی ڈرائیور کس طرح اپنے بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے کر سکتا تھا۔
بہت سوچ بچار کے بعد ماجد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کرے اور انہیں اچھے اسکولوں میں پڑھائے۔ جب اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی بیگم نازیہ سے کیا تو یہ بات اس پر بجلی بن کر گری، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اسے چھوڑ کر بیرون ملک جائے لیکن بالآخر اس کو بھی تسلیم کرنا ہی پڑا کہ بچوں کے مستقبل کے لیے قربانی دیتے ہی بنے گی۔ خاصی بھاگ دوڑ کے بعد ماجد کو سعودی عرب میں ڈرائیوری کا ویزا مل گیا اور وہ اپنا جنت نظیر گھر چھوڑ کر دور دراز سعودی عرب میں جا کر محنت مزدوری کرے لگا۔ اس نے بہت جان ماری، کمپنی کی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر فاضل اوقات میں بھی کام کرتا اور کوشش کرتا کہ زیادہ سے زیادہ بچت کر کے گھر بھیجے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کو کیا منظور ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ بندہ تو بس آنکھیں بند کر کے اچھے دنوں کے سپنے ہی دیکھ سکتا ہے، تعبیر کی کیا صورت ہو گی، اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ ماجد دل و جان سے نہ صرف اپنے بچوں بل کہ اپنے سارے اہل خانہ کے حالات بدلنے کی جد و جہد میں مصروف تھا اور ادھر اس کے وطن میں کوئی اور نہیں، اس کے اپنے اہل خانہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور کھیل رہے تھے۔ وہ اس کی بیوی نازیہ کو ماجد کے خون پسینے کی کمائی میں سے صرف اتنا ہی دیتے جس سے اس کی گذر بسر ہو سکے اور بہ قولِ کسے دودھ پر سے بالائی خود اتار کر خود ہڑپ کر جاتے۔ سادہ لوح نازیہ سارا وقت یہ ہی سمجھتی رہی کہ پردیس گیا اس کا پیا روپیا پیسا اپنی تحویل میں رکھ کر جمع کر رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں تو بس بچوں کے سنہرے مستقبل کے سہانے سپنے سجے ہوئے تھے۔
یہ تو ادھر یوں سرشار تھی اور ادھر ہونی کے ہونے کا وقت آن لگا، ماجد ایک دن ناگاہ، کار کے حادثے میں چل بسا۔ نازیہ کی ہنستی بستی دنیا دم کے دم میں اجڑ کر رہ گئی، سپنے دیکھتی آنکھیں یک بہ یک ویران ہو گئیں، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا، جوان جہان زندگی، ناخدا رہا نہیں اور دنیا کا بپھرا ہوا سمندر، کشتی بری طرح منجدھار میں گھر گئی۔ جس تس نے سنا، دکھی ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اتنی سی عمر میں اس کی بیوگی نے اس کے والدین کو بھی نڈھال کر دیا تاہم کیا کرتے، بچی کو دلاسے دیا کیے۔ خیر ! کمپنی نے ماجد کی نعش پاکستان بھجوا دی، آنسوؤں اور آہوں کے جِلو میں اسے قبر میں اتار دیا گیا اور۔۔۔۔۔۔ ابھی اس کا کفن میلا بھی نہ ہونے پایا ہوگا کہ زندگی کا افسانہ ایک اور خطرناک موڑ پر آن کھڑا ہوا۔
ماجد سعودی عرب کی جس کمپنی میں کام کرتا تھا، اس کی جانب سے اس کی بیوہ نازیہ کو چالیس پچاس لاکھ روپیہ ملنا تھا، اس امر سے اس کے سسرالی آگاہ ہوئے تو بس پھر کیا تھا، زر کی ہوس نے حواس چھین لیے، چالیس پچاس لاکھ روپے کی لالچ کا زہر جسم میں یوں دوڑا کہ خون سفید ہو گیا۔ شب و روز یہ ہی ریشہ دوانیاں! کہ کیسے یتیموں اور بے آسرا بیوہ کے مال پر ہاتھ صاف کیا جائے اور جائداد میں سے ان کا جائز حصہ بھی ہڑپ کر لیا جائے؟ نازیہ بیوہ ہو کر سونے کی چڑیا بن چکی تھی، گھر بھر دام ہم رنگِ زمیں بچھائے ہوئے تھا۔
پایانِ کار سب نے اس پر صاد کیا کہ چھری کو شہد لگا لیا جائے لہٰذا انہوں نے اس کے والدین کو چکنی چپڑی باتوں سے رام کرنا اور خدشات سے خوف زدہ کرنا شروع کر دیا کہ نازیہ پہاڑ جیسی زندگی کیسے گزار پائے گی، بہتر یہ ہے کہ اس کی شادی اس کے جیٹھ یعنی ماجد کے بڑے بھائی عبدالواحد سے کر دی جائے۔ یہ اور اس طرح کی دل جوئی کی میٹھی میٹھی باتوں سے وہ اس کے والدین کو شیشے میں اتارنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔ نازیہ نے پہلے تو مزاحمت کی لیکن پھر والدین کی بھیگی آنکھوں اور بچوں کے مستقبل کے آگے ہتھیار ڈال بیٹھی۔ نکاح کی سادہ سی رسم ادا کرکے وہ عبدالواحد کی زوجیت میں آ گئی۔ یہ شادی ظاہر ہے کسی نیک نیت سے تو کی نہیں گئی تھی، مقصد تو بس سمندر کنارے ریت کی دیوار ہی کھڑی کرنا تھا، جس کا مقدر سوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ پہلی لہر پر ڈھے جائے، تو ایسا ہی ہوا۔
شادی کے کوئی مہینہ بھر بعد سعودی عرب کی کمپنی نے ادائی کردی اور ڈرامے کا ڈراپ سین؛ نازیہ کو طلاق دے کر بچوں سمیت یک بینی دو گوش نکال باہر کر دیا گیا، جیسے مکھن میں سے بال۔ بد نصیب نازیہ کیا کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ بابل کے گھر اٹھ آئے۔ عرصہ ہی گذر لیا، پنچایت کے فیصلے پر اسے متوفی شوہر کا مکان تو دے دیا گیا لیکن اس کی زندگی جبر مسلسل بنا دی گئی، آنے بہانے تو تکار، لڑائی جھگڑے۔ چند روز قبل بھی نازیہ کے جیٹھ محمد نواز اور گھر کے دوسرے افراد نے نازیہ سے جھگڑا کیا۔ نازیہ نے اب تک والدین کو غالباً بے خبر ہی رکھا ہوا تھا تاہم اس بار اس نے کہ دیا کہ وہ اپنے والدین کو بلوائے گی اور برادری کو اکٹھا کر کے اس بے رحمانہ سلوک پر سے پردہ اٹھائے گی، اس پر یہ نودولتیے آگ بگولہ ہوگئے۔
انہوں نے اپنی ممانی پروین بی بی کو منگھوال گجرات فون کیا اور اپنے سسرالیوں جنید، رخسار عرف روی اور افتخار عرف افی کو بلوالیا۔ کلہاڑیوں، ڈنڈوں سے لیس اس ’لشکر‘ نے عبدالواحد کی سپہ سالاری میں نازیہ کے والد کے ہوٹل پر دھاوا بول دیا۔ اس وقت وہاں قسمت کے مارے محمد ارشد اور نازیہ کے چچا محمد صابر ہتھے چڑھ گئے، بے دردی سے کلہاڑیاں برسائی گئیں، دونوں بے چارے ادھ موئے ہو گئے، نتیجہ یہ کہ محمد صابر تو زخموں کی تاب نہ لاکر آگے سدھارا، محمد ارشد شدید زخمی تھا۔
نازیہ تو بے چاری ڈوب ہی گئی، ماجد حادثے کا شکار، با دل نہ خواستہ عقدِ ثانی، اس پر بھی طلاق، جائز حق سے محرومی اور اب شفیق چچا بھی ظالموں نے چھین لیا۔ ایس ایچ او کوٹ مومن انسپکٹر شبریز حسین نے رابطہ کرنے پر بتایا ’’کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ اب تک صرف ایک ملزم عبدالواحد کو گرفتار کیا جاسکا ہے۔