Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

’’لیاقت علی خان کو گولی پشت سے ماری گئی، قاتل سید اکبر نہیں!‘‘

$
0
0

تحریک آزادی، قیام پاکستان، ’بانیانِ پاکستان‘ اور اُن سے جڑے ہوئے بنیادی نوعیت کے مسائل اور مختلف تنازعات اور واقعات۔۔۔ بنیادی طور پر ہماری ساڑھے تین گھنٹے سے متجاوز یہ علمی ’بیٹھک‘ انھی موضوعات کے درمیان سفر کرتی رہی، پہلو در پہلو اور تہہ در تہہ۔۔۔ بُہتیرے انکشافات سے لے کر کئی دنگ کردینے والی سچائیاں۔۔۔ اور آشکار ہونے والے ان گنت نئے حقائق۔۔۔ وہ بھی ایسے، کہ جو ’جامعہ کراچی‘ کی رہایشی کالونی میں واقع ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کے دولت کدے پر اُس روز مہمان ہونے والے اِس ’طالب علم‘ کے لیے بھی یک سر نئے اور حیران کُن تھے۔۔۔ سو اسے ’سنڈے ایکسپریس‘ کے قارئین کے لیے بہت احتیاط اور پوری صحت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ تاریخ کے پَنّوں پر پڑی ہوئی دَبیز گَرد جھاڑنے کا یہ اَمر آپ کے تاریخی ذوق کی خوب آب یاری کا باعث ہوگا، ہمارے بہت سے نظرانداز پہلو اُبھریں گے اور ان کے ایک مختلف موقف اور عین منطقی استدلال سے کئی ایک مسائل پر تصویر کے دوسرے رخ بھی بہ خوبی واضح ہو سکیں گے۔۔۔

ہمارے باقاعدہ سوال جواب سے پہلے انھوں نے اپنا قابل رشک ’کتب خانہ و مطالعہ گاہ‘ دکھائی، اپنی کتاب مع دستخط ہمارے نام کی، پھر مہمان گاہ میں آتے آتے باقاعدہ سوال جواب سے پہلے ہی گفتگو تاریخی بھول بھلیوں میں چل نکلی تھی۔ الگ ملک ’متحدہ بنگال‘ کے مجوزہ منصوبے کے حوالے سے ڈاکٹر محمد رضا کاظمی بتاتے ہیں:

’’کیبنٹ مشن‘ کے ناکام ہونے کے بعد حسین شہید سہروردی، شنکر رائے، حمیدالحق چوہدری اور سرش چندر بوس وغیرہ نے ’ری پبلک آف بنگال‘ کی تجویز پیش کی۔ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ تھا کہ دو جون 1947ء کو برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے امریکی صدر کو لکھا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ تقسیم کے بعد دو کے بہ جائے تین مملکتیں ابھریں۔ سہروردی جناح کے پاس آئے اور جناح مان گئے، میرے پاس اس کا چشم دید گواہ بھی ہے، لیکن میں دستاویز پر ہی بات کروں گا، ایچ پی ہاٹسن اور شیخ مجیب نے بھی اپنی خودنوشت میں لکھا ہے۔‘‘

’’اُدھر مکمل بنگال اور اِدھر موجودہ پاکستان؟‘‘

’’جی، خیال یہ تھا کہ اپنے لیے دو الگ ملک مانگیں گے، تو نہیں ملیں گے، تو سوچا کہ اسے پھر بعد میں آپس میں طے کرلیں گے، گاندھی اس کے حق میں تھے، نہرو اور پٹیل نہ مانے۔ نہرو نے ’ٹرانسفر آپ پاور پیپر‘ 10 میں صفحہ 1013 میں لکھا ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہندو ایک مستقل مسلم اقتدار میں رہیں۔

کیوں کہ وہاں ہندو 45  اور مسلمان 55 فی صد تھے، نہرو کا یہ موقف بھی تو دو قومی نظریہ ہی ہے! اسی کے صفحہ نمبر تین پر نہرو نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا مشرقی بنگال پاکستان کو تنگ کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ شیخ مجیب نے لکھا کہ سردار پٹیل نے سبھاش چندر بوس کو ڈانٹا تھا کہ ’ہمیں کلکتہ چاہیے!‘ اگر کلکتہ پاکستان میں آجاتا یا ہندوستان سے الگ رہتا تو تاریخ بہت مختلف ہوتی۔‘‘

’’یعنی بنگال بٹوارے کے وقت ہی پھر پاکستان سے الگ ہوتا؟‘‘

’’بالکل، جب انگریز آئے تھے، تو پہلے ’حکومت بنگال‘ قائم کی تھی، جو سنگاپور تک تھی۔ یہاں مسئلہ زبان کا ہوا، پہلے کبھی اس لیے نہیں ہوا کہ ہندی کا خوف تھا۔ نوین چندر رائے اور بپن چندر بوس بنگلا کے ادیب ہونے کے باوجود ہندی زبان کی حمایت کرتے تھے۔ ہم نے یہ تیاری کی تھی ادھر بنگال اور ادھر پاکستان الگ ہوگا۔ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی تین سال میرے ہم جماعت رہے۔

میں کہتا تھا کہ میں ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا، لیکن ووٹ تمھیں ہی دوں گا۔ پیپلزپارٹی مشرقی پاکستان کے صدر مولانا نور الزماں تھے، جو اسلام کو وطن پر فوقیت دیتے تھے، لیکن وہاں اسلام کو اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا، وہاں مسلمان والدین اپنی بچیوں کو رقص سکھواتے تھے، ہمارے ہاں یہ تصور نہیں، تو آپ کیسے ایک ساتھ رہ سکتے تھے۔

نہرو اور پٹیل تیار نہ ہوئے، تو جناح کی رضا مندی کے باوجود الگ ریاست ’متحدہ بنگال‘ کی تجویز ختم ہوگئی۔ ’کیبنٹ مشن‘ سے چار روز پہلے جناح نے بھی صوبوں کے تین گروہوں میں صرف مشترکہ دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کی تجویز پیش کی تھی، جس میں ’کیبنٹ مشن‘ میں ’مشترکہ مقننّہ‘ کا اضافہ ہوگیا، اس تجویز کو بھی جناح نے لیاقت کے تحریری اختلاف کے باوجود قبول کرلیا، جب کہ جواہر لعل نہرو کہتا تھا کہ جناح کی انا کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا۔

قائداعظم کے مجوزہ صوبوں کے گروپ کے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اس میں پورا پنجاب اور پورا بنگال مع آسام تھا، لیکن مسلم اکثریتی ’سلہٹ‘ بنگال سے ملا کر آسام کو الگ کیا گیا۔ بِہار میں آج بھی ایک مسلم اکثریتی ضلع ہے، جسے بنگال میں شامل نہیں کیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا موقف ہے کہ ’’میں ’اثنا عشری‘ ہونے کے باوجود ہر گز اس بات پر تیار نہیں ہوں کہ ایران کے ’رہبر اعلیٰ‘ کو اپنا رہبر مان لوں، کیوں کہ وہ اپنے ملک کو ہمارے ملک پر مقدم کریں گے، مسلمان الگ قوموں سے ہو سکتے ہیں۔‘‘ ہم نے بے ساختہ استفسار کیا ’’تو پھر دو قومی نظریہ۔۔۔؟‘‘ وہ گویا ہوئے:

آپ کا یہ سوال بالکل برحق ہے۔ یہ ثابت کرنا بہت آسان ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قوم ہیں، لیکن یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ سب مسلمان ایک قوم ہیں۔

بنگالی اور ہم ایک قوم نہیں، لیکن ہندو کے مقابلے میں ایک قوم ہیں۔ قوم کی تعریف کی رو سے قوم نہیں۔ جناح نے تو اِس دو قومی نظریے پر بھی سمجھوتا کیا، لیکن نہرو نے اِسے ثابت کیا۔ اب اسے نصاب سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اگر دو قومی نظریہ صرف جناح اور سرسید نے پیش کیا ہوتا تو ہم نصاب سے نکال دیتے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی طبیعات پڑھاتے ہیں، یہ بتائیں کہ اگر ہم نصاب سے ’کششِِ ثقل‘ نکال دیں گے، تو کیا زمین پر رکھی ہوئی میز اوپر چلی جائے گی؟‘‘

1970ء میں ذوالفقار بھٹو کے شیخ مجیب کے ووٹوں کو نہ ماننے کے فیصلے کے درست ہونے کے سوال کا جواب انھوں نے کچھ اس طرح دیا:

’’شیخ مجیب نے یکم مئی 1970ء کو تقریر کی کہ یہ انتخابات حکومت نہیں، آئین وضع کرنے کے لیے ہو رہے ہیں، اور وہ چھے نکات کی بنیاد پر دستور چاہتے تھے، جو نیم وفاق (کنفیڈریشن) کی بنیاد پر تھے، جس میں ہر اِکائی کی اپنی اکثریت ہوتی۔ جنرل یحییٰ خان نے حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے کہا کہ میں نے مجیب کو ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے لیے کہا تھا، تو اس نے اسے بہت مضحکہ خیز کہہ کر رد کر دیا۔

وہ شیخ مجیب الرحمٰن کے ’پاکستان بچانا چاہتا ہوں‘ کے بیان کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صرف بنگلا دیش کا نام لیتے تھے، اور انھوں نے نشتر پارک کراچی میں تو کوئی جلسہ ہی نہیں کیا۔

پاکستان بنا تو سب کہتے کہ چھے ماہ میں دیوالیہ ہو جائے گا، پھر یہ بھی تصور تھا کہ مسلمان کاروبار نہیں کر سکتا، جب کہ لیاقت علی خان نے تو یہ ملک ایسا چلایا کہ برطانیہ نے جنگ کے بعد اپنی کرنسی کی قدر کم کی، ہندوستان نے بھی کی، لیکن پاکستان نے انکار کیا، جس پر پاکستان کے سکے کی قیمت ہندوستان سے زیادہ ہوگئی!

مشرقی بنگال میں ’پٹ سن‘ اگتی تھی، لیکن اس کے سارے کارخانے مغربی بنگال میں تھے! دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ تقسیم کے بعد بحران پیدا ہوا، تو لیاقت علی خان ڈھاکا گئے اور کاشت کاروں سے کہا کہ اگر کوئی آپ سے فصل نہیں خریدتا، تو حکومت پاکستان خرید لے گی، آپ مغربی بنگال ہر گز نہ بھیجیے۔

چناں چہ انھوں نے وہاں اپنی ’پٹ سن‘ بنا کر بیچی، دوسری جانب مغربی بنگال کی پٹ سن کی صنعت تباہ ہوگئی۔ وہاں موجودہ حالت یہ ہے کہ ’پٹ سن‘ کی کاشت کے لیے بھی وافر پانی چاہیے، مگر وہ چاول کی فصل کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ہندوستان نے ان کا پانی روکا ہے۔ پہلے مجیب الرحمٰن کہتے تھے کہ پاکستان ہندوستان سے ہمارے تعلقات خراب کرانا چاہتا ہے، اب یہ سب کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر رضا کاظمی اپنے والد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں ہمارے والد موسِی کاظمی ’جوٹ کمیشن‘ کے رکن تھے۔ ’پٹ سن‘ کے حوالے سے ان کی خدمات کے لیے انھیں 1955ء میں کلکتے بھیجا گیا، اور پھر 1957ء میں انھیں یہاں ’پاکستان جوٹ مل ایسوسی ایشن‘ کے لیے بلا لیا گیا۔

اس زمانے میں ’کے ویزا‘ ہوتا تھا، جو کچھ وقت کام کرنے جانے کے لیے کارآمد ہوتا تھا۔ والد یہاں کما رہے تھے، اُدھر ہمارے معاشی حالات بہت خراب تھے، مگر پیسہ گھر کیسے بھیجیں، وہ اس اس سے ناواقف تھے، والدہ نواب خاندان سے تھیں، والد انھیں اپنی زمیں داری کا پیسہ نہیں دیتے تھے، وہ اسے جائز ہی نہیں سمجھتے تھے، کسی طرح وہاں پیسے بھجوائے، تو ہم نے اپنا کچھ بندوبست کیا اور پھر ہم یکم نومبر 1958ء کو ڈھاکا پہنچے۔

ہندوستان میں تعلیم کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ والد کے کلکتے جانے سے تعلیم کا حرج ہوا تھا، مگر ڈھاکا میں ٹیٹوریل ہوم تھا، جہاں اسکول سے دُگنی تعلیم دی جاتی تھی، وہاں سے میٹرک کیا۔ پھر ڈھاکا کالج اور ڈھاکا یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہا۔

ڈاکٹر رضا کاظمی بتاتے ہیں کہ 1968ء کی بات ہے، جب ڈھاکا میں ایک اسماعیلی لڑکی نے اپنے بنگالی ڈرائیور سے شادی کرنا چاہی، اسے راتوں رات کراچی پہنچا دیا گیا، بنگالیوں نے اُس خاتون کے غیربنگالی ہونے کا غصہ بہاریوں پر نکالا اور چٹاگانگ میں 30 ہزار بہاری مار دیے! یہاں تک کہ پھر غیربنگالی گھرانوں کو یہ دھمکی دی جاتی تھی کہ نکل جاؤ، ورنہ تمھارا وہی حشر کریں گے، جو چٹاگانگ میں کیا۔

پھر آغا خان نے ان کا سمجھوتا کرایا اور بعد میں جب بہاری مارے جا رہے تھے، تو اسماعیلی اپنی شناخت دکھا کر امان پاتے تھے۔ مصنف شرمیلا بوس، سبھاش چندر بوس کے رشتے کی پوتی ہیں، انھوں نے یہ حقیقت لکھی ہے کہ بنگالی مظلوم نہیں، بلکہ پہلے انھوں نے بہاریوں کا خون کیا۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے 1996ء میں لیاقت علی خان کے تحریک آزادی کے کردار پر ڈاکٹر ایس ایچ ایم جعفری (1938ء تا 2019ئ) کی زیرنگرانی ’ڈاکٹریٹ‘ کیا، جو انگریزی میں ’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ (جامعہ کراچی) اور پھر ’اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس‘ (کراچی) سے شایع ہوا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’لیاقت علی خان بطور وزیراعظم پاکستان‘‘ کا موضوع دستاویز نہ ملنے کے سبب چھوڑا۔ پھر جناح بطور گورنر جنرل پر کرنا چاہا، تو پتا چلا کہ اس پر حسن عسکری رضوی کا ’ایم فل‘ کا مقالہ موجود ہے، سکندرحیات اور فاروق ڈار نے بھی جناح پر کام کیا، جب کہ یہاں کے دانش وَر بتاتے ہیں کہ قائداعظم پر ’پی ایچ ڈی‘ کرنا منع ہے!‘‘

وہ لیاقت علی خان سے ہماری ’دانش وروں‘ کے عمومی سلوک پر شدید نالاں ہیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ ’’لیاقت علی کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔ ’قرارداد مقاصد‘ پر سرش چندر اوپادھیا کے اعتراض کے جواب میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ عوام ہی کو اصل اختیار حاصل ہے، ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے ’تھیوکریسی‘ قائم کر دی اور جیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملے، اور ان کے کہنے سے یہ سب کیا۔ بھئی اگر سید مودودی کی بات مانتے تو، انھیں جیل میں کیوں رکھتے۔ ’قراردادمقاصد‘ میں اقلیتوں کو بھی اپنی عبادات اور سرگرمیوں کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔

’شہید ملت‘ کے دورۂ امریکا کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’راجا غضنفر ایران میں پاکستان کے سفیر تھے، لندن میں پرائم منسٹرز کانفرنس سے لوٹتے ہوئے جب لیاقت علی کا طیارہ تہران میں رکا، تو ایران میں روسی سفیر کے ذریعے انھیں دورے کی دعوت دی گئی۔

لیاقت علی نے کہا ہم تمام دنیا سے خیرسگالی چاہتے ہیں، انھیں پروگرام کے مطابق 18 اگست 1949ء کو روانہ ہونا تھا، لیکن روس نے تاریخ قبل ازوقت15 اگست کو کردی، یعنی بہ جائے آگے کی تاریخ دینے کے تین روز جلدی بلایا، دوسری بات یہ تھی کہ یہ قائداعظم کے بعد ہمارا پہلا یوم آزادی تھا، اس لیے بھی ’قائد ملت‘ کی ملک میں موجودگی ضروری تھی۔‘‘

15 اگست کو یومِ آزادی کا تذکرہ ہوا، تو ہم نے بھی یوم آزادی 14 یا 15 اگست کا جھگڑا پوچھ لیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، آزادی ہند کا ایکٹ 15 اگست کو نافذ ہوا، لیکن ماؤنٹ بیٹن یہاں 14 اگست کو آئے، تو اس لیے یہاں 14 اگست ’یوم آزادی‘ ہوگئی، اب یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ اسی تاریخ کو لے کر بیٹھ جائیں!‘‘ انھوں نے پھر دوبارہ اپنے موضوع کی طرف رجوع کیا:

’’اس دوران امریکا سے دعوت نامہ آگیا، اور وہاں جاتے ہوئے بھی لیاقت علی نے صحافیوں کو جواب دیا کہ جب وہ (روس) تاریخ مقرر کریں گے، تو چلا جاؤں گا۔ امریکا پہنچ کر بھی انھوں نے یہی جواب دیا۔ پھر واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر پوچھا گیا کہ کشمیر کے لیے روس کی مدد کیوں نہیں لیتے، تو انھوں نے کہا میں تو تیار ہوں۔

لیاقت علی نے دورے کی نئی تاریخ کے حوالے سے کہا کہ یہ ہمارا یوم آزادی ہے، ہم نے ان سے دوسری تاریخ مانگی ہے، لیکن انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا، جیسے ہی تاریخ آئے گی روانہ ہوجاؤں گا۔‘ اب آپ دیکھیے جواہر لعل نہرو تو لیاقت سے بھی پہلے امریکا چلے گئے اور وہ روس، لیاقت علی کے دورۂ امریکا کے بھی بہت بعد گئے، لیکن ہندوستان روس کے تعلقات خراب نہ ہوئے ہمارے ہوگئے!‘‘

انھوں نے سوالیہ انداز میں گفتگو میں توقف کیا، پھر گویا ہوئے کہ ’’وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے روسی سفیر کو کہا تھا کہ اگر آپ کشمیر کے مسئلے پر ہماری مدد کریں، تو ہم امریکا سے تمام معاہدے ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسرے دن سہروردی کی یہ پیش کش جواہرلعل نہرو کی میز پر تھی۔۔۔!‘‘

حسین شہید سہروردی کے تذکرے پر ہمارا دھیان ان کے لیاقت علی خان سے اختلاف کی جانب گیا، ہم نے لیاقت علی کی جانب سے سہروردی کے لیے نازیبا زبان کے استعمال کا سوال کیا تو انھوں نے کہا ’’کی ہوگی، تب قانون بنا کہ دستور ساز اسمبلی کا رکن وہی شخص رہ سکتا ہے، جو پاکستان کا مستقل رہائشی ہو۔

لیاقت علی نے کہا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ یہ قانون سہروردی کو باہر رکھنے کے لیے بنایا جا رہا ہے، وہ چاہیں، تو کل سے یہاں مستقل رہائش اختیار کرلیں۔ جواب میں حسین شہید سہروردی نے ہندوستان میں رہتے ہوئے یہاں کی دستور ساز اسمبلی کی رکنیت پر اصرار کیا۔‘‘

’’سہروردی کیوں نہیں آنا چاہ رہے تھے؟‘‘ اس سوال پر ڈاکٹر رضا نے کہا کہ اگر وہ بنگال میں نہ ہوتے، تو وہاں پنجاب جیسی خوں ریزی کا خدشہ تھا۔ بعد میں کرن شنکر رائے پاکستان آگئے، لیکن سہروردی نہیں آئے۔‘‘

ڈاکٹر رضاکاظمی محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی کے اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

’’25 دسمبر 1947ء کو قائداعظم کی سال گرہ پر لیاقت علی نے وزیراعظم ہاؤس میں پارٹی رکھی۔ فاطمہ جناح کے برعکس رعنا لیاقت سرعام نہیں ’پیتی‘ تھیں، جس پر ان کی فاطمہ جناح سے تلخی ہوئی، جناح نے رعنا لیاقت علی کو ڈانٹا، جس پر لیاقت علی نے وزارت عظمیٰ سے استعفا دے دیا، لیکن پھر بعد میں جناح صاحب نے لیاقت علی کو کہا کہ خواتین کی لڑائی میں ہم اپنے تعلقات خراب نہ کریں۔‘‘

ڈاکٹر رضا کاظمی کے بقول ’’لیاقت علی کا استعفا سرکاری دستاویز میں موجود ہے، یہ خبر اخبار میں نہیں آئی تھی۔ 2005ء میں، اُسے منظر عام پر لایا۔ انگریز محقق راجر ڈی لانگ (Roger D Long) بھی لیاقت علی خان کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، یہاں انھیں تو دستاویزات دے دی گئیں، لیکن وہ دستاویزات جب میں نے مانگی تھیں، تو رسائی نہیں ملی۔ دراصل انگریزوں کے لیے سب ہے یہاں، ہمارے لیے نہیں!‘‘

ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ لیاقت علی ناتجربے کار تھے۔ وہ تو اتنے ماہر تھے، کہ ’متحد ہندوستان‘ کا بجٹ بغیر سیکریٹری کے پیش کیا۔ غلام محمد، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے پیسے تو نہیں بنائے، لیکن خرابیاں پیدا کیں، دوسری طرف کرپشن روکنے کے لیے آنے والے جنرل ایوب خود بدعنوانی میں ملوث ہوئے۔

ہماری اِس طویل بیٹھک میں لیاقت علی خان کی شہادت پر گفتگو کا نہایت اہم مرحلہ تھی، اس حوالے سے ڈاکٹر رضا کاظمی نے کہا:

’’سید اکبر بے گناہ تھا، وہاں اس کے ساتھ 18 سالہ بیٹا تھا، جو ابھی حیات ہے، ابھی اس کی بیوہ کی موت کی خبر آئی، میری نگرانی میں ایک طالبہ لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ پر تحقیق کر رہی ہے، میں نے اس سے سید اکبر کے بیٹے کا انٹرویو کرایا۔ اس نے یہی بتایا کہ گولی میرے والد نے نہیں چلائی!

سید محمد ذوالقرنین زیدی نے ’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ کے رسالے میں ایک مضمون لکھا اور مجھے بھی بعد میں ثبوت ملا، کہ لیاقت علی کو گولی سامنے سے نہیں، بلکہ پشت سے لگی اور وہاں نجف خان نے گولی چلنے کے ساتھ ہی سید اکبر کو مار ڈالا۔ کیا کوئی قتل کرنے جائے گا، تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر جائے گا!‘‘

’’پیچھے سے کس نے گولی ماری۔۔۔؟ نامعلوم افراد۔۔۔؟‘‘ ہم نے استعجابی انداز میں ٹٹولا۔

’’نامعلوم افراد‘ نے۔۔۔! ڈاکٹر صفدر محمود نے اردو کالج کے رسالے کے ’لیاقت نمبر‘ میں لکھا تھا کہ لیاقت علی خان کو غلام محمد اور مشتاق گورمانی نے مروایا۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔

’’مگر قاتل کون تھا۔۔۔؟‘‘ ہمارے اس استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ نہیں پتا چلا، لیکن قتل کے ذمے دار یہ دونوں تھے۔ سید اکبر کا جائیداد کا کوئی مسئلہ تھا، اسے لیاقت علی سے ملاقات کہہ کر جلسے میں آئے۔‘‘ انھوں نے دیگر تفصیلات ظاہر کیں۔

’’لیاقت علی خان کے حوالے سے دستاویزات کہاں دست یاب ہیں؟‘‘

ہمارے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ ’یوپی‘ اسمبلی میں اور یہاں پنجاب اسمبلی میں، کیوں کہ ’ون یونٹ‘ کی وجہ سے یہ دستاویز ’مغربی پاکستان اسمبلی‘ چلی گئیں، پہلے کابینہ کی کارروائیاں بھی ’سربند‘ تھیں، اب کھول دی گئی ہیں۔ لیاقت علی خان پنجابی النسل تھے، مگر مادری زبان اردو تھی، وہ پنجاب اسمبلی کا انتخاب ہار گئے، تاہم ’یوپی‘ میں کم فرق سے جیت گئے۔

جب ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کی طرح کسی ’لیاقت اکادمی‘ کے قیام کی بات کی تو وہ دُکھی دل کے ساتھ کہنے لگے کہ ’’اکادمی بنے گی، تو یہاں لوگ انھیں اور گالیاں ہی دیں گے!‘‘

’’ہم نے کہا جناب، جب حقائق سامنے آئیں گے تو کیوں کر دیں گے؟‘‘

وہ بولے ’’بھئی جسے پاکستان نہیں پسند، اسے لیاقت علی نہیں پسند۔۔۔!!‘‘

تحریک آزادی اور قومی تاریخ کے بہت سے پہلو آشکار کرتی ہوئی اس گفتگو میں ڈاکٹر محمد رضا کاظمی یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ قائداعظم اپنی جگہ نواب بھوپال سر حمید اللہ کو گورنر جنرل بنانا چاہتے تھے۔ انعام عزیز نے لکھا ہے کہ جولائی 1947ء کے اجلاس میں جناح نے کہا دیکھیے کوئی سپاہ سالار جب فتح حاصل کرتا ہے، تو وہ اپنا اختیار سول حلقوں کو منتقل کرتا ہے۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ وہاں حسرت موہانی کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کسی اور کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، پھر لیاقت علی اور دیگر نے بھی جناح کے گورنر جنرل بننے کی تائید کر دی۔ یہ بات لارڈ مانوٹ بیٹن اور سب کو پتا تھی کہ گورنر جنرل نواب بھوپال کو بنانا ہے، لیکن کونسل کے اجلاس میں حسرت موہانی نے قائداعظم کو نام زد کر دیا۔

ہم نے گفتگو کے اس دل چسپ موڑ پر حسرت موہانی کے واپس ہندوستان جانے کا ذکر کیا، تو انھوں نے کہا کہ ’’بھئی طے یہ تھا کہ راجا محمود آباد، محمد علی جناح اور چوہدری خلیق الزماں یہ سب وہیں رہیں گے!‘‘

’’جناح بھی۔۔۔! پھر وہ کیسے آگئے؟‘‘ ہمارے لیے یہ بات نہایت حیرت انگیز تھی، وہ گویا ہوئے کہ ’’حالات لے آئے، ڈاکٹر افضل اقبال نے لکھا ہے کہ راجا محمود آباد کا جہاز کراچی میں رکا، تو اینٹیلی جنس والے انھیں زبردستی جناح کے پاس لائے۔ راجا صاحب پہلے تو انھیں چچا کہتے تھے، مگر آج ساری وضع داری بھول کر جناح پر چیخنا شروع ہوگئے، اور خلاف طبع قائداعظم نے خاموشی سے سنا۔ جب راجا صاحب نے توقف کیا تو بولے ’’امیر، میں یہاں غداروں میں گھِرا ہوا ہوں، میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتا!‘‘

’’غدار کن کو کہا تھا؟‘‘ہم نے فوراً منطقی استفسار کیا، تو ڈاکٹر رضا گویا ہوئے ’’لیاقت کو تو نہیں کہا تھا۔۔۔! ’یونینسٹ پارٹی‘ اور غلام محمد اور چوہدری محمد علی کی طرف اشارہ تھا۔‘‘

’’اس سے لیاقت علی کو الگ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو انھوں نے استدلال کیا کہ کوئی غدار کبھی اپنے عہدے سے استعفا نہیں دیتا، وہ چمٹا رہتا ہے اور لیاقت علی نے استعفا دیا تھا۔‘‘

’’اور راجا صاحب کس بات پر برہم تھے؟‘‘

ہمارے اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے، وہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے، لیکن جناح اس سے قیام پاکستان کو خطرے میں نہیں لا سکتے تھے۔ جب 1946ء میں صوبے ’بِہار‘ میں فسادات ہوئے، تو راجا صاحب نے درہ آدم خیل سے اسلحہ خریدا، وہ اقلیتی علاقوں کے ہندوستانی مسلمانوں کو اسلحہ دینا چاہتے تھے۔ جناح نے روک دیا۔ ان معاملات پر اختلافات تھے۔‘‘

ہم نے ڈاکٹر محمد رضا کاظمی سے شہید ملت لیاقت علی خان کی غلطیوں کا سوال بھی پوچھا، جس کے جواب میں انھوں نے صرف پہلی بیوی چھوڑنے ہی کو ان کی واحد غلطی قرار دیا۔

مہاجروں کی ٹرین بھر کر واپس ہندوستان بھیجی گئی!

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ انھوں نے یہاں 20 سال تحریک پاکستان کو گالیاں دیں، یوم آزادی منانے سے روکا اور پاکستان کو ایک جذباتی فیصلہ کہا۔

وہ بتاتے ہیں 9 جون 1947ء کو مسلم لیگ کونسل کی میٹنگ میں ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی بات ہوئی کہ ان کا کیا ہوگا؟ غلام حسین ہدایت اللہ نے کہا کہ ہم مسلم اقلیتی علاقوں سے مسلمانوں کو بلائیں گے، صنعت کاری کریں گے۔ البتہ یہ نہیں کہا تھا کہ سب کو بلائیں گے۔

مسئلہ یہ ہوا کہ ہم نے پنجابی کو حقیر نہیں سمجھا، سندھی کو حقیر سمجھا، یہی رویہ ہمارے لیے دوسری طرف سے بھی ہوا، جو سندھ کے چھوٹے شہروں میں رہے، جب کہ مسجد منزل گاہ (سکھر) کا مسئلہ ہوا تو جی ایم سید نے کہا تھا کہ وہاں کے مسلمان یہاں آئیں اور ہم کو نجات دیں۔ بس یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔

’ٹرانسفر آف پاور پیپرز‘ میں لکھا ہوا ہے کہ غلام حسین ہدایت اللہ نے کہا کہ سندھ میں سندھی اور دوسروں کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، مگر وہ بھی قائد کے ایک ماہ بعد ہی گزر گئے۔ پاکستان بننے کے دو مہینے کے اندر ’سندھ مسلم لیگ‘ حزب اختلاف میں بیٹھ گئی کہ کراچی کو دارالحکومت کیسے بنایا؟ اور ایک حکومت جس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس سے ’تلافی‘ مانگ رہی ہے، جس پر قائد بیچ میں پڑے کہ جیسے ہی پیسے آئیں گے، تمھیں پیسے مل جائیں گے۔

’’کون پیسے مانگ رہا تھا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’سندھ مسلم لیگ، حکومت سندھ۔۔۔!‘‘ انھوں نے بتایا پھر گویا ہوئے:

’’شروع میں کہا کہ ایک لاکھ سے زیادہ مہاجر نہیں لیں گے، اب کابینہ کی چیزیں ’ڈی کلاسیفائیڈ‘ ہو رہی ہیں، تو سب چیزیں سامنے آرہی ہیں، لوگ کتابیں بھی لکھ رہے ہیں، پھر انھیں دو لاکھ لینے پر راضی کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے تو پوری ایک ٹرین مہاجروں کی بھر کر واپس ہندوستان بھیجی!‘‘

ہمیں یاد آیا کہ اس زمانے میں مہاجرین کی ہندوستان واپسی کے منصوبے کا اعلان ہوا تھا، تو انھوں نے اضافہ کیا کہ یہ کہا گیا کہ اب وہاں حالات معمول پر ہیں، جو واپس جانا چاہے، تو چلا جائے! ہم نے پوچھا کہ یہ سب ’سندھ مسلم لیگ‘ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا گیا؟ تو انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔

ہم نے دریافت کیا کہ یہ مسئلہ پنجاب میں نہیں ہوا؟ تو انھوں نے کہا سندھ کے علاوہ کوئی اور صوبہ مہاجروں کو لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہم نے کہا پنجاب میں بھی بہت سارے ہجرت کرنے والے آئے، تو وہ کہنے لگے ’’وہ پنجابی مہاجر تھے‘‘، ہم نے کہا وہاں اردو بولنے والے بھی کافی گئے، تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی۔ ’’وہاں ’یونینسٹ پارٹی‘ آج بھی مری نہیں ہے، انھی کے دانش وَر آگے ہیں۔‘‘

ہجرت کرنے والوں کی مشکلات کے ذکر پر ڈاکٹر رضا کہتے ہیں کہ ’’پنجاب میں آپ کی ریل رکنے نہیں دی، سرحد میں بھی ٹھیرنے نہیں دیا۔ جب بھٹو دور میں یہاں لسانی مسئلہ ہو رہا تھا، تب قیوم خان نے سرحد اسمبلی کی کینٹین میں ولی خان سے کہا ’’ولی تم مجھے ہر چیز کا ذمہ دار ٹھیراتے ہو، دیکھو اگر میں نے ایک بھی ٹرین یہاں آنے دی ہوتی، تو آج یہاں بھی وہی صورت حال ہوتی جو آج سندھ میں ہے! یہ سب انعام عزیز نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی چَھپی ہوئی ایک کتاب تھی، جس میں یہاں سے وہاں جانے والے سندھی ہندوؤں کے رجواڑوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔

یہاں جنرل ایوب خان کے زمانے میں ٹکا خان نے سندھی زبان کی تدریس بند کرا دی۔ گورنر رحمٰن گل نے دیہی اور شہری سندھ کوٹا نافذ کیا، جس بات پر دونوں لڑ رہے ہیں، وہ نہ سندھی نے کیا اور نہ مہاجر نے۔ اپنی دو سالہ پوتی آمنہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ اب یہ بچی کوٹا سسٹم کی اور اپنے ساتھ ناروا سلوک کی شکایت بھی نہیں کرے گی!‘‘

۔۔۔

ووٹ بھی صرف موجودہ پاکستانی علاقوں سے لیتے!
ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کا حلقۂ انتخاب کیا تھا؟ میں اس کا جواب دیتا ہوں کہ ’’تحریک پاکستان۔۔۔!‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ جانتے ہیں، میں ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ہوں۔

اسلام آباد کے ایک پروگرام میں میں نے بنگالی راہ نما اے کے فضل الحق پر تقریر کی تو ایک دانش ور نے اعتراض کیا کہ پاکستان میں یہاں کے مسلمانوں کے کارنامے بیان نہیں کیے جاتے۔ میں نے کہا کہ اگر یہی جذبات ہیں، تو پھر پاکستان کے لیے بھی صرف یہیں کے علاقوں سے ووٹ لے لیتے، ہندوستانی علاقوں سے نہ لیتے۔ وہ چپ ہوگئے، جب کہ وہاں تلخ حقائق خلاف توقع بنگالی دانش وروں نے بہت پسند کیے۔

والد نے سر سلطان احمد کا خط قائداعظم کو پہنچایا
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں انگریز حکومت کی حمایت کے لیے جناح اور تلک نے ہندوستانی فوجیوں کے لیے ’رائل کمیشن‘ کا مطالبہ کیا، تب گاندھی نے کہا یہ ایسا وقت نہیں ہے اور انگریزوں سے غیرمشروط تعاون کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب گاندھی نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک چلائی، تو جناح نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ جناح نے کہا کہ عدم تعاون نہیں کر رہے، لیکن تعاون بھی نہیں کر رہے۔

اِدھر مسلم لیگ میں شمولیت کے باوجود ’یونینسٹ پارٹی‘ تو تھی ہی انگریزوں کی، یہاں سر سکندر حیات نے ’رائلٹی ریزولیشن‘ لانا چاہا، تو لیاقت علی اور راجا صاحب محمود آباد نے ’یونینسٹ پارٹی‘ کو مسلم لیگ پر حاوی ہونے سے روک دیا۔ یہیں سرسلطان احمد، بیگم جہاں آرا شاہ نواز اور اے کے فضل الحق کو جنگ میں تعاون کرنے پر مسلم لیگ سے نکالا گیا۔ میرے والد کانگریسی نہیں تھے، لیکن مسلم لیگی بھی نہیں تھے۔

وہ بمبئی میں رہتے ہوئے کبھی جناح سے نہیں ملے، لیکن والد کے خالو سرسلطان احمد کنبے کے سربراہ تھے، انھیں جناح نے مسلم لیگ سے نکالا، تو میرے والد کے ہاتھ سر سلطان نے جناح کو خط بھجوایا۔ لندن میں یہ وہ واحد ملاقات تھی جو والد نے جناح صاحب سے کی۔

’ایم کیو ایم‘ کے لڑکوں نے مجھ پر فائرنگ کی!
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی دسمبر 1943ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے، دستاویزات پر پیدائش یکم نومبر 1945ء درج ہے، لیکن انھوں نے حقیقی عمر سے بھی پہلے ریٹائرمنٹ لے لی۔ آبائی تعلق بِہار سے ہے، سب سے بڑی بہن تھیں، جو ادبی رسالہ ’خیابان‘ بھی نکالتی تھیں، چار بھائی تھے، اب دو حیات ہیں۔

والد موسِی رضا کاظمی ’جوٹ ٹیکنالوجسٹ‘ تھے۔ جدید تعلیم سے عیسائی ہوجانے کے خدشے پر انھیں باقاعدہ مذہبی تعلیم دی گئی۔ 1958ء میں ہندوستان سے ڈھاکا اور پھر حالات خراب ہوتے ہوئے دیکھ کر 1969ء میں کراچی آگئے، 1967ء میں جامعہ ڈھاکا سے ’تاریخ اسلام‘ میں ’ایم اے‘ کیا۔ بنگالی بولنا جانتے تھے، لکھنے سے ناواقف رہے۔ کہتے ہیں کہ جب یہاں جناح کے نام کے نیچے ’بابائے قوم‘ پڑھتا تو ہنستا کہ وہ تو گاندھی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ سوچ میں تبدیلی آئی۔

کراچی آنے کے بعد کا احوال یوں بتاتے ہیں کہ چھے مہینے ’امریکن لائف انشورنس‘ میں کام کیا، وہاں موٹر سائیکل سواروں کو پالیسی دینے جانے پر اعتراض ہوا تو مستعفی ہوگئے، پھر 1970ء میں ایک بینک اور عبداللہ کالج سے بہ یک وقت ساڑھے تین سو روپے تنخواہ کے عوض ملازمت کی پیش کش ہوئی، انھوں نے کالج کا انتخاب کیا۔

1973ء میں ’سینٹ پیٹرکس کالج‘ شام کی شفٹ میں آگئے۔ یہاں ظہیر عالم امروہوی کو ’تاریخ اسلام‘ انگریزی میں پڑھانے میں دشواری تھی، ان سے باہمی تبادلہ کرایا۔ یہاں انورمنصور خان اور میر شکیل الرحمٰن وغیرہ ان کے شاگرد رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ کالج کی راہ داری خالی کرانے پر ’ایم کیو ایم‘ کے لڑکوں نے مجھ پر فائرنگ کی، وہ چاہتے تو جان سے مار سکتے تھے، لیکن بس ڈرانے کے لیے ’مس فائر‘ کیا، تاہم ’راہ داری‘ خالی کر دی۔

اس واقعے کا سن حتمی طور پر یاد نہیں۔ ’اے پی ایم ایس او‘ کے لڑکے بورڈ سے آنے والی مارکس شیٹ لے لیتے تھے، جسے چاہتے دیتے ہیں اور جسے چاہتے نہیں دیتے تھے۔ ان کی ’’معصومیت‘‘ مجھ پر عیاں ہے۔ 1995ء میں نیشنل کالج چلا گیا، اور پھر پانچ سال بعد 2000ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور ’اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس‘ میں بطور ادارتی مشیر شامل ہوا، جہاں فروری 2013ء تک رہا، وہاں دیکھا تو ہمارے دانش وَر اور مورخین مذہبی ہستیوں کے خلاف انتہائی نازیبا کلمات لکھ رہے ہیں، جیسے اسلام کو خطرناک مذہب کہنا، وغیرہ یہ میں وہاں کیسے جانے دیتا، اسی سبب تلخی ہوئی، تو پھر میں نے استعفا دے دیا۔ پھر ’ایریا اسٹڈی سینٹر یورپ‘ (جامعہ کراچی) میں بطور وزیٹنگ پروفیسر فلسفہ پڑھایا، وہاں ہڑتالوں اور سیاست کی وجہ سے تدریس متاثر ہوئی تو چھوڑ دیا۔ انصار زاہد خان (مرحوم) کو امریکا جانا تھا وہ ’’کوارٹرلی جرنل آف پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ کی ادارت سونپ گئے۔ یہ ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ کی درجہ بندی میں ’وائے‘ زمرے میں شامل ہے، پہلے ’ایکس‘ تھا، بعض انتظامی غلطیوں کی بنا پر تنزل ہوا۔

سفرِ حج کے حوالے سے ڈاکٹر محمد رضا کہتے ہیں کہ وہاں کی زیارتوں سے اسلامی تاریخ کا تصور بہت واضح ہوتا ہے۔ 1973میں شادی ہوئی، اہلیہ ڈاکٹر انجم بانو آج کل ’اقرا یونیورسٹی‘ سے وابستہ ہیں۔ صاحب زادے محب رضا ’اپلائیڈ کیمسٹری‘ جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

 ابو الکلام آزاد بھی ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ میں رہے!
ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہمارا شہر بمبئی جناح صاحب کا اور کلکتہ ابو الکلام آزاد کا شہر ہے۔ بٹوارے کے بعد ابتدائی 10سال ہندوستانی مسلمانوں پر بہت کڑے تھے، کیوں کہ زمیں داری وغیرہ بھی ختم ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا ہے، 1947ء میں دلی کے فسادات پر مسلمان جناح کو برا بلا کہہ رہے تھے، تو مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا کہ ’’دیکھیے ہمارا اور جناح صاحب کا مقصد ایک تھا، راستے جداگانہ تھے۔

میں سمجھتا تھا کہ پاکستان نہیں بنتا، تو مسلمانوں کے لیے بہتر ہوتا، وہ سمجھتے تھے بنے گا تو بہتر ہوگا۔ مگر اب پاکستان بننے کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اگر پاکستان پر کوئی آنچ آئی، تو یہاں کے مسلمان 200 سال تک سر نہیں اٹھا سکیں گے!‘‘ ابو الکلام آزاد تو جناح سے بھی 10 دن پہلے مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے! اور وہ ڈھاکا میں بھی تھے، جب مسلم لیگ قائم ہوئی۔

ابوالکلام آزاد اور ’مسلم لیگ‘۔۔۔! ہم اس انکشاف پر بہت زیادہ حیران ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آزاد 1913ء تا 1928ء ’نہرو رپورٹ‘ آنے تک مسلم لیگ میں رہے، لیکن انھوں نے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘
لیاقت علی نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی سے انکار کیا
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی بتاتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر مونس احمر اپنی کتاب ’ماضی کے تعاقب میں‘ رقم طراز ہیں کہ ہندوستان نے مارچ 1948ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی، اپریل میں یہاں کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے یہ تجویز کابینہ میں آئی، تو لیاقت علی نے پابندی لگانے سے انکار کر دیا اور آج یہی لوگ انھیں ہی گالیاں دیتے ہیں!

1948ء میں لاہور میں ’انجمن ترقی پسند مصنفین‘ کی کانفرنس میں سجاد ظہیر نے کشمیریوں کی حق خودارادیت پر قرار داد پیش نہیں ہونے دی اور کہا کہ ہر انصاف پسند انسان یہی چاہے گا کہ کشمیر کا الحاق ہندوستان سے ہو۔ خواجہ احمر عباس نے نہرو کی سوانح عمری لکھی، وہ لکھتے ہیں کہ نہرو نے سجاد ظہیر کے پاکستان جانے کا سن کر کہا ’’وہ سندھیوں، پنجابیوں اور بلوچوں کو کمیونزم پڑھانے گیا ہے۔‘‘ سرحد کا نام یوں نہیں لیا کہ یہاں ڈاکٹر خان کی حکومت تھی۔

جب شوکت علی نے قائداعظم پر ہاتھ اٹھانا چاہا۔۔۔
ڈاکٹر رضا کاظمی نے انکشاف کیا کہ ناگ پور کانفرنس میں علی برادران نے مسز رتی جناح کے لباس کو غیرمناسب کہہ کر اجتماع گاہ سے باہر بھیج دیا تھا، وہیں گاندھی جی کی عدم موالات کی مخالفت کرنے پر مولانا شوکت علی جناح پر ہاتھ اٹھانے آگے بڑھے تھے۔

شیلا ریڈی نے کتاب ’مسٹر اینڈ مسز جناح‘ میں بھی یہ لکھا ہے، جناح کو موتی لعل نہرو ہی نے مخالفت کی تحریک دی، لیکن کانفرنس میں جواہر لعل نے اپنے والد کو گاندھی کی مخالفت نہ کرنے دی، یہی وجہ ہے وہ کانگریس سے الگ ہوگئے، لیکن جواہر لعل نہرو جھوٹ بولتے رہے کہ جناح عوامی سیاست کے قائل نہیں، اس لیے کانگریس چھوڑی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس سے دو سال قبل انھوں نے بمبئی میں جلوس نکالا، ہڑتال کی، وہ اور ان کی بیوی نے لاٹھیاں کھائیں، جب گورنر لاڈر ولنگٹن کو بھیجا جا رہا تھا۔

اس واقعے کی یاد میں وہاں ’پیپلز جناح ہال‘ بنا، جو آج بھی ہے، لیکن نام ہٹا دیا۔ جو ہڑتال اور جلوس کر رہا ہو تو وہ عوامی سیاست ہی تو ہے۔ بات یہ ہے کہ جناح مغرور اس لیے دکھائی دیتے تھے کہ وہ بمبئی کے تھے۔ بمبئی والے انگریزی لباس پہنتے اور انگریزی بولتے اور محفل میں مادری زبان بولنا کمتر سمجھتے تھے۔

راجا صاحب محمود آباد نے پاکستان کے اخراجات اٹھائے!
ڈاکٹر محمد رضا کے بقول ’معماران پاکستان‘ میں سے انھوں نے راجا صاحب محمود آباد (امیر احمد خان) کو قریب سے دیکھا۔ آج یہ بتایا نہیں جاتا کہ انھوں نے پاکستان کے اخراجات اٹھائے۔ 1937ء میں جب مسلم لیگ انتخابات ہار گئی تھی اور لکھنئو میں مسلم لیگ کی میٹنگ بلائی گئی، اس وقت راجا صاحب نے مسلم لیگ کے اکتوبر 1937ء کے صرف ایک جلسے پر 30 لاکھ روپے خرچ کیے تھے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ دیا۔ اب لوگوں کو اجتماعیت کا احساس ہوگیا، ورنہ خواجہ ناظم الدین تک مسلمانوں کے لیے علاقائی جماعتوں کو درست کہتے تھے۔
ڈاکٹر رضا، قائداعظم اور راجا صاحب کے اختلاف کی وجہ ’اسلامی ریاست‘ نہ بنانا بتاتے ہیں، جناح کہتے تھے کہ اس طرح ہر فرقہ سامنے آئے گا اور پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ جناح ’لبرل مسلم ریاست‘ چاہتے تھے، تاکہ ہندوسستان میں جو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ کچھ نہ ہو۔ انگریز نے مسلمانوں کی تعلیم سے ہاتھ روک لیا، بنارس کی ’ہندو یونیورسٹی‘ بنا دی، ہمارے علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی بنا کر نہ دیا۔ کشمیر کے بارے میں تقسیم سے پہلے یہی فیصلہ ہوگیا تھا۔ کرشنا مینن نے خط لکھا کہ اگر پاکستان کو کشمیر دے کر مضبوط کیا تو ہندوستان اور برطانیہ کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

قائداعظم کی خراب ایمبولینس کو غلط رنگ دیا گیا
ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ قائداعظم کے ’اے ڈی سی‘ نور احمد حسین نے قائداعظم سے منسوب اس جملے کہ ’’پاکستان بنانا میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی۔‘‘ کی سخت تردید کی اور (نوراحمد حسین نے) کہا جب زیارت میں قائداعظم اور لیاقت علی کی ملاقات ہوئی تو الٰہی بخش اور ہم سب نیچے تھے، بعد میں الٰہی بخش نے یہ سب کیسے جان لیا؟ نور احمد حسین نے ’ڈان‘ میں لکھا تھا کہ الٰہی بخش نے یہ باتیں سستی شہرت کے لیے پھیلائی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انھوں نے لیاقت علی کے لیے یہ کہا ہو کہ ’یہ دیکھنے آئے ہیں کہ کب تک بچتا ہوں؟‘ انسان ہیں، بدگمانی ہوجاتی ہے۔

11 ستمبر 1948ء کو ’ماری پور‘ سے آتے ہوئے قائداعظم کی خراب ایمبولینس کے ذکر پر ڈاکٹر رضا کاظمی نے بتایا کہ ’’قائداعظم نے ملٹری سیکریٹری سے کہا تھا کہ آمد کا ذکر نہ کیا جائے۔ ان کے ملٹری سیکریٹری ہی نے ان کے لیے ایمبولینس لی، وہ واپسی پر اتفاقاً خراب ہوگئی، کوئی بھی گاڑی خراب ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے ہاں اس واقعے کو بھی غلط رنگ دیا گیا، اور یہ نہیں بتایا کہ دوسری ایمبولینس منگانے پر جب لیاقت علی کو قائد کی آمد کی خبر ہوئی، تو وہ بھی ایمبولینس کے ساتھ ساتھ پہنچے تھے۔

The post ’’لیاقت علی خان کو گولی پشت سے ماری گئی، قاتل سید اکبر نہیں!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles