محنت، جدوجہد اور کچھ کر گزرنے کے عزم پر مبنی یہ کہانی ہے،لیری ایلیسن کی، جن کی بیوی نے انہیں یہ کہہ کر طلاق دے دی تھی کہ ’’تم ایک غیر ذمہ دار شخص ہو، تمہاری زندگی میں کوئی منزل اور مقصد نہیں ہے۔‘‘ لیکن آگے چل کر یہی لیری ایلیسن دنیا کی سب سے بڑی ڈیٹا بیس کمپنی ’اوریکل کارپوریشن ‘ کے بانی بنے اور 2020میں انہیں دنیا کا 7واں امیر ترین انسان قرار دیا گیا۔
آج ان کی پاس اتنی دولت ہے کہ یہ پلک جھپکنے میں دنیا کی سب سے اونچی بلڈنگ برج خلیفہ جس کی مالیت 1.5ارب ڈالر ہے اور دنیا کی سب سے مہنگی رہائش گاہ یعنی بکنگھم پیلس(4.5 بلین ڈالر) بھی خرید سکتے ہیں۔ بلوم برگ بلین ایئر انڈیکس کے مطابق 2022 میں لیری ایلیسن کی دولت 90ارب ڈالر ہے۔
لیری ایلیسن کو ٹیکنالوجی انڈسٹری میں ایلون مسک اور بل گیٹس جیسی شخصیات کی طرح ایک عظیم شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
آپ ان کا لائف سٹائل دیکھیں تو دنگ رہ جائیں گے۔ان کے پاس اپنے ذاتی لگژری ہوائی جہاز ، پُرکشش گاڑیاں، قیمتی یاٹس، کروڑوں ڈالر کی مہنگی رہائش گاہیں، حتی کہ اپنے ذاتی آئی لینڈز بھی ہیں۔ لیکن لیری کی زندگی ہمیشہ سے اتنی شاہانہ نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے کسی ارب پتی گھرانے میں آنکھیں کھولیں، بلکہ یہ تو 1944 میں امریکا کے ایک پسماندہ ترین علاقے کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔
لیری کی بدقسمتی یہ رہی کہ ان کی پیدائش کے وقت ان کی ماںپھیپھڑوں کی انتہائی خطرناک عارضے میں مبتلا تھیں۔ ابھی یہ صرف 2برس کے تھے کہ ان کی والدہ نے بیماری کی وجہ سے ان کی پرورش کی ذمہ داری اپنی بہن کو دے دی۔ 15برس کی عمر تک لیری کے رضاعی والدین نے اِن سے یہ بات چھپائے رکھی کہ اِن کے حقیقی والدین تو اب اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔
لیری کے رضاعی والد اگرچہ ایک سرکاری ملازم تھے، لیکن کم تنخواہ اور زیادہ اخراجا ت کی وجہ سے اِن کے خاندان کی زندگی کسمپرسی میں گزری۔ یوں سمجھ لیں کہ لیری نے اس دنیا میں آنکھیں کھولنے کے بعد سے صرف غربت اور پریشانیاں ہی دیکھیں۔ لیکن ان کے لیے کبھی بھی غربت کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔
کیونکہ انہیں بچپن میں ہی اپنے اندر موجود ٹیلنٹ کا اندازہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے جب سکول میں داخلہ لیا تو ہر جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور جب یہ یونیورسٹی میں آئے تو یہاں پری میڈیکل میں کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ انہیں یونیورسٹی کی طرف سے ’سائنس سٹوڈنٹ آف دی ایئر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ لیری دوسرے طالب علموں سے مختلف ہیں اور ان میں وہ ٹیلنٹ موجود ہے، جو مستقبل میں انہیں ایک کامیاب انسان بنا سکتا ہے۔
یونیورسٹی نے لیری کو اسکالر شپ آفر کردی، لیکن اسی عرصے کے دوران ان کی رضاعی والدہ انتقال کر گئیں۔ والدہ کے انتقال کا انہیں اس قدر صدمہ پہنچا کہ انہوں نے یونیورسٹی ہی چھوڑ دی۔
لیکن لیری کی بیوی اور اِن کے والد چاہتے تھے کہ یہ اپنی میڈیکل کی تعلیم جاری رکھیں ، کیونکہ اس زمانے میں شکاگو کے جنوبی علاقے میں ڈاکٹر کا پیشہ بہت اہم اور پُرکشش خیال کیا جاتا تھا۔ اس علاقے میں جو ڈاکٹر بنتا تھا، اسے عزت، دولت اور شہرت سب ملتا تھا۔
اپنے خاندان کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے لیری نے شکاگو یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور کئی سال میڈیکلکی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اس پڑھائی میں اچھی کارکردگی نہ دکھا پائے اور حالات اس نہج تک آن پہنچے کہ جہاں ایک یونیورسٹی ،ماضی میں انہیں ان کی بہترین کارکردگی پر وظیفہ دینا چاہتی تھی، وہیں دوسری یونیورسٹی نے ان کی تعلیم میں عدم دلچسپی پر انہیں یونیورسٹی سے ہی نکال دیا۔
یہاں سے مایوس ہو کر اِنہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ان کی دلچسپی کس چیز میں ہے۔ جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ اُن کی تمام تر دلچسپیوں کا محور کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور پروگرامنگ ہے۔
اِن کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا، جب 22برس کی عمر میں انہوں نے اپنے خاندان اور گھر سے دور جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے کپڑے، ٹوٹھ برش، کمبل اور گیٹار لے کر شکاگو سے کیلیفورنیا کے شہر برکلے منتقل ہو گئے۔ یہاں آکر انہیں اندازہ ہوا کہ کیلیفورینا کے شہر برکلے میں وہ اس مقام پر کھڑے ہیں جو مستقبل قریب میں سلیکان ویلی بننے والا ہے۔
بس اپنے اسی اندازے کے مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے کمپیوٹر اور پروگرامنگ کی سکلز سیکھیں اور ساتھ ہی مختلف قسم کی عجیب و غریب نوکریاں بھی کرنا شروع کر دیں۔ یہ شام کو اپنی کمپیوٹر پروگرامنگ کی کلاس لیتے اور دن بھر راک کمبنگ اور گائیڈ کے طور پر نوکری کرتے۔ انہیں یہ نوکری کرنا پسند تو تھا، لیکن اس نوکری میں اتنے پیسے نہیں ملتے تھے کہ اِن کے گھر کا خرچا چل سکے۔
آخر جب ان کا پروگرامنگ کا کورس مکمل ہوا تو اِنہیں ایک سیلر sailer کی نوکری ملی گئی، اب انہیں یہاں سے اچھے پیسے بھی مل رہے تھے، اِن کی اپنی زندگی بھی اچھی گزر رہی تھی اور یہ کچھ پیسے اپنی بیوی کو بھی بھیج دیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی بیوی ان کے کام سے بالکل بھی خوش نہ تھی۔ بقول لیری ، اُن کی بیوی کو یوں لگتا تھا کہ اُن کا شوہر کالج سے فارغ ہونے والا ایک ایسا نوجوان ہے، جو فضول قسم کی نوکریاں کرتا ہے۔
اور آخر اِن کی بیوی نے تنگ آ کر خود ہی انہیں طلاق دے دی اور انہیں گھر سے باہر نکال دیا۔ لیکن لیری کی بیوی کو کیا معلوم تھا کہ یہ اِن کی زندگی کی ایک بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ جس شخص کو اُنہوں نے اُس کے مالی حالات کی وجہ سے طلاق دی ہے وہ مستقبل کا کھرب پتی بننے والا ہے۔
اپنی طلاق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لیری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’میں اُس وقت بالکل بھی مایوس نہیں ہوا، کیونکہ میری بیوی اور میرے خاندان کے خواب مختلف تھے، جبکہ میں نے کچھ اور ہی خواب دیکھ رکھے تھے اور میں اُن خوابوں کے تعاقب میں مصروف تھا۔ ‘‘
لیری نے جب اپنی کمپیوٹر پروگرامنگ کی سکلز کو استعمال کرنے اور اِس شعبے میں کوئی اچھی نوکری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں کئی ماہ تک مختلف بڑی کمپنیوں کی جانب سے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ وہ اپنے کام میں مہارت نہیں رکھتے۔ آخر مایوس ہو کر انہوں نے اپنے ایک دوست سے بھی رابطہ کیا ، جو ایک سافٹ ویئر کمپنی چلا رہا تھا، لیکن لیری کے دوست نے بھی انہیں ایک مالی بوجھ سمجھ کر نوکری دینے سے انکار کر دیا۔
جب لیری کو ہر طرف سے مایوسی کا چہرہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے اپنی ذاتی کمپنی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیری نے سیلنگ، راک کلمبنگ گائیڈ اور دیگر نوکریاں کر کے جو پیسے اکٹھے کیے تھے، وہ چند ہزار ڈالر بنتے تھے۔ ان پیسوں کو استعمال میں لاتے ہوئے لیری نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی کمپنی کی بنیاد رکھی، جس کا نام انہوں نے ’سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ لیبارٹریز‘ رکھا۔
اس کمپنی میں لیری اور اِن کے پارٹنرز ایک طویل عرصے تک کام کرتے رہے، لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ یہاں تک لیری دن میں نوکری کرتے اور رات میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر کمپنی کے معاملات چلاتے ۔ اس دوران اِن کا گزارا مشکل ہو گیا ، یہاں تک کہ اِن کے گھر کے معمولی اخراجات بھی بمشکل پورے ہوتے۔ جب یہ کئی ہزار ڈالر کے مقروض ہو گئے تو اِن کے تمام قریبی دوستوں اور رشتے داروں نے بھی ان کی مدد سے صاف انکار کر دیا۔
لیکن لیری نے زندگی کے اِن کٹھن ترین لمحات سے مایوس ہونے کے بجائے آگے بڑھنے اور اپنا بوجھ خود اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ آخر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جانب سے لیری کی کمپنی ’سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ لیبارٹریز‘ کو ایک کمپیوٹر ڈیٹا بیس بنانے کا پروجیکٹ مل گیا۔
لیری معروف ٹیکنالوجی کمپنی آئی بی ایم کے کمپیوٹر سائنٹسٹ ایگر ایف کوڈ کی تھیوریز سے کافی متاثر تھے، جو کہ ری لیشنل ڈیٹا بیس سے متعلق تھیں۔ یہ ڈیٹا بیس ایک ایسا سسٹم تھا، جس کے ذریعے کمپیوٹر میں معلومات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے اور اس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیری ایلیسن نے اپنے ٹیلنٹ اور محنت کے بل بوتے پر آئی بی این کے سائنٹسٹ کی تھیوری کو حقیقت میں بدل دیا اور سی آئی اے کو ایسا مضبوط اور طاقتور ڈیٹا بیس تیار کر کے دیا کہ بڑی بڑی سافٹ ویئر کمپنیز بھی اِنہیں داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔
اُس زمانے میں لیری کے تیار کردہ ڈیٹا بیس کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب کے طور پر دیکھا گیا۔ دنیا بھر سے بڑے بڑے کمپیوٹر سائنٹسٹ لیری ایلی سن کی جانب متوجہ ہوئے کہ کیسے ایک نوجوا ن لڑکے نے صرف اپنی پروگرامنگ کی سکلز کا استعمال کر کے وہ ڈیٹا بیس تیار کر لیا، جو اُس زمانے میں بڑے بڑے سائنسدان بھی نہ بنا سکے تھے۔
آج اِس ڈیٹا بیس کو دنیا بھر کے تمام کمپیوٹر صارفین روزمرہ زندگی میں کمپیوٹر میں معلومات کو محفوظ کرنے اور اس تک رسائی پانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ ٹیکنالوجی آج دنیا کے جدید ترین کمپیوٹرز میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس ڈیٹا بیس کو لیری نے اوریکل کا نام دیا ۔
لیری نے اپنے ڈیٹا بیس کی کامیابی ہی کی وجہ سے اپنی نئی کمپنی کا نام ’اوریکل‘Oracle رکھا۔ اوریکل کی بنیاد رکھتے ہوئے لیری نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکا کے سب سے بہترین سافٹ ویئر انجینئرز اور پروگرامرز کی ایک ایسی ٹیم بنائیں گے، جنہیں قدرت نے خداداد صلاحیتوں سے نواز رکھا ہو۔
قسمت کا کرنا کیا کہ ہوا کہ لیری کو اپنے مقصد میں غیر معمولی حد تک کامیابی ملی۔ انہوں نے اُس زمانے کے بہترین پروگرامرز کو اوریکل کمپنی کی ایک چھت تلے اکٹھا کر لیا۔ ان پروگرامرز نے اوریکل کمپنی کیلئے ایسے ایسے شاندار اینالیٹکس، ڈیٹا بیس کلاؤڈ سروسز، انٹیلی جنس بوٹس، کمپیوٹر سافٹ ویئرز اور ایپلی کمیشنز تیار کیں کہ کمپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتی چلی گئی۔
آج وہی لیری ایلیسن جنہیں کوئی کمپنی پروگرامنگ کی نوکری دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھی، اُن کی اپنی کمپنی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد پروگرامرز، سافٹ ویئر انجینئر ا ور کمپیوٹر سائنٹسٹ کام کر رہے ہیں۔ اوریکل کمپنی اپنی 178ارب ڈالر مالیت کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ مارکیٹ کپیٹل رکھنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ 2010 میں لیری نے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہوئے پیپلز سافٹ کمپنی 10.3بلین ڈالر کی بھاری لاگت میں خرید لی۔ یہی نہیں بلکہ لیری نے دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی، گوگل، ایپل، سیم سنگ ، سپیس ایکس اور ٹیسلا میں بھی حصص خرید رکھے ہیں۔
لیری ایلیسن اپنی بے روزگاری کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ زندگی میں لیے گئے ہر ناکامی سے نقصان اور ہر رسک سے فائدہ ہی حاصل کریں، بعض اوقات ناکامی سے آپ کچھ نیا سیکھتے ہیں ، جو ساری زندگی آپ کے کام آتا ہے، اسی طرح رسک سے پریشانیاں بھی آپ کا مقدر بن سکتی ہیں۔
لیکن یہاں ضروری یہ ہے کہ آپ نے اپنی ناکامی سے کچھ نیا سیکھا یا نہیں۔ اگر آپ نے اپنی ناکامی سے کوئی بھی ایسا سبق سیکھ لیا جو کاروبار کا آغاز کرنے میں آپ کے کام آئے تو سمجھ لیں، آپ کی ناکامی اب کامیابی میں بدل گئی ہے۔
The post لیری ایلیسن…کمپیوٹر پروگرامنگ کی دنیا کا جادوگر appeared first on ایکسپریس اردو.