افغانستان پر طالبان حکومت قائم ہوئے ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ نئے حکمرانوں کے بارے میں دو مختلف آرا ظاہر ہورہی ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اپنے پچھلے دور حکومت سے مختلف انداز میں حکمرانی کر رہے ہیں ، جبکہ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ نہیں، وہ اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے معروف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ طارق حبیب افغانستان پہنچے۔
انھوں نے وہاں طالبان کے ماتحت افغانستان دیکھا ، طالبان کی اعلیٰ قیادت ، دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، اہم کاروباری شخصیات سے ملے۔ اس دوران میں مضمون نگار طالبان کے افغانستان کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور اس سب کچھ کا احوال تحریر کیا۔ یہ سفرنامہ افغانستان کا آخری حصہ ہے۔ ( ادارہ )
٭٭٭٭٭
آخری قسط
کابل میں آج کا دن اس حوالے سے اہم تھا کہ آج اپنی ہی ’برادری‘ کے لوگوں سے ملاقاتیں کرنا تھیں۔ صبح ہوٹل سے روانگی ہوئی تو ہماری منزل افغانستان کے معروف ٹیلی ویژن چینل ’’ شمشاد‘‘ کا دفتر تھا۔ ذکراللہ خادم ہمیں خوفزدہ کردینے کی حد تک اپنی ڈرائیونگ کی مہارت دکھا رہے تھے۔
ان کی ڈرائیونگ سے میں اتنا ’’ متاثر ‘‘ ہوا کہ گاڑی بدل لی۔ اب میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک افسر کی گاڑی میں تھا۔ ہم کابل کے علاقے حضوری چمن میں پہنچے جہاں وسیع و عریض عمارت کا ایک حصہ ’ شمشاد ‘ ٹی وی کے پاس تھا جبکہ بقیہ عمارت کو اس کے مالک نے افغانستان میوزیم کا نام دے دیا تھا۔
اس میوزیم میں افغانستان وزارت دفاع کی جانب سے جنگ میں تباہ شدہ اشیاء رکھی گئی تھیں۔ اس عمارت میں داخل ہوتے وقت جس طرح چیکنگ کے مراحل سے گزرنا پڑا وہ یقینی طور پر کسی حساس ترین عمارت میں داخلے سے کم نہیں تھا۔ جب اس قدر سخت سکیورٹی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ اس ٹی وی چینل پر دو بار خود کش حملے ہوچکے ہیں۔
اس عمارت میں داخل ہوئے تو ’ شمشاد ‘ ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز عابد احساس ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہمارے وفد کا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور عمارت کا دورہ کرانے کے بعد ایک ہال میں قہوہ، چائے کے ساتھ ہلکی پھلکی ریفرشمنٹ کرائی گئی۔ اس دوران عابد احساس ٹی وی چینل کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے رہے۔
’ شمشاد ‘ ٹی وی کے صحافی دوستوں نے بتایا کہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد بڑٰی تعداد میں میڈیا ہاؤسز بند ہوگئے تھے اور صحافیوں کو روزگار کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس حوالے سے جب میں نے سوال کیا کہ ’ شمشاد ‘ ٹی وی کیوں بند نہیں ہوا تو بتایا گیا کہ ’ شمشاد ‘ ٹی وی کے مالکان کے تمام کاروبار قانونی ہیں اور وہ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔ ماضی میں اس حوالے سے مغربی میڈیا بھی کافی پروپیگنڈہ کرچکا تھا کہ طالبان حکومت صحافیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے افغان صحافی ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ دوسری جانب متعدد معروف افغان صحافی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر ٹوئٹر پر طالبان حکومت پر سخت تنقید کر رہے تھے۔
اس معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے جب ہم نے ایک افغان صحافی سے علیحدگی میں ذرا تفصیلی گفتگو کی اور اپنی ریسرچ کی بنیاد پر مخصوص سوالات کیے تو پتا چلا کہ افغان طالبان کی جانب سے میڈٰیا ہاؤسز بند کرانے کا پروپیگنڈہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھا۔ معاملہ دراصل کچھ یوں ہے کہ بیرون ملک خاص طور پر یورپی ممالک سے صحافتی اداروں اور انفرادی طور پر صحافیوں کو بڑے پیمانے پر فنڈنگ کا سلسلہ جاری تھا ۔
صحافتی ادارے اور صحافی غیرملکی اداروں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے تھے اور افغان مفادات کے خلاف کام کر رہے تھے ۔ جب افغانستان میں طالبان حکومت آئی تو یورپی ممالک کے افغانستان میں مفادات کو ٹھیس پہنچی اور صحافتی اداروں اور صحافیوں کے بھیس میں ان ممالک کی مقامی کٹھ پتلیوں کے لیے بھی کام مواقع بند ہوگئے جس کے بعد بیرون ملک سے ملنے والا امداد کا سلسلہ رک گیا اور غیر ملکی فنڈ پر پلنے والے صحافی بھی افغانستان چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔
ان صحافیوں کی بڑی تعداد اب غیر ملکی فنڈ نہ ملنے کی وجہ سے بیرون ملک بیٹھ کر افغان طالبان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ اسی طرح جو نیوز چینلز بند ہوئے ان میں بڑی تعداد ایسے نیوز چینلز کی تھی جو مقامی جنگجو جتھوں کے زیر اثر تھے اور وہ اپنی منفی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ چینلز استعمال کر رہے تھے۔ منشیات اسمگلنگ بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور اس طرح کے دیگر سنگین جرائم کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سے یہ چینلز چلائے جا رہے تھے۔
جیسے ہی طالبان حکومت آئی اور ان جرائم پیشہ جتھوں کے دھندے بند ہوئے تو ساتھ ہی ان کے تحت چلنے والے صحافتی ادارے بھی بند ہوگئے۔ اس طرح بعض خبر رساں ادارے طالبان مخالف جنگجو کمانڈرز اور سیاسی مخالفین بھی چلا رہے تھے جو طالبان حکومت کے قیام کے بعد بیرون ملک چلے گئے اور ابتداء میں انھوں نے بیرون ملک بیٹھ کر ادارے چلانے کی کوشش مگر پھر وسائل کی کمی کے باعث ادارے بند کردئیے جس سے بڑی تعداد میں صحافی بے روزگار ہوئے۔
ان اداروں میں سے چند کا تذکرہ کیا جائے تو ’ اے ٹی وی‘ یا اسے ’ آئینہ ٹی وی‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ افغانستان میں طالبان کا قتل عام کرنے والے بدنام زمانہ کمانڈر عبدالرشید دوستم کا تھا۔ سب سے زیادہ دوستم نے سب سے زیادہ سفاکی کا مظاہرہ 2002 ء میں اُس وقت کیا جب سینکڑوںطالبان قیدیوں کو شہر کے جنوب میں شپنگ کنٹینر میں بند کر دیا گیا اور وہ شدید گرمی کے موسم میں کنٹینر کے اندر جھلستے رہے۔
دوستم کے اس ظلم و ستم کو ’افغان میساکر: دی کنوائے آف ڈیتھ‘ نامی دستاویزی فلم میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ عبدالرشید دوستم پر طالبان نے چھوٹے اور بڑے پانچ حملے کیے جن میں سے تین حملوں میں وہ شدید زخمی ہوا مگر بچ گیا تھا۔ جب طالبان حکومت قائم ہوئی تو عبدالرشید دوستم افغانستان سے فرار ہوگیا۔
اس کا چینل جو افغانستان میں اس کے دھندوں کی وجہ سے چل رہ تھا ، بند ہوگیا۔ اسی طرح ایک اور چینل ’ اصلاح ٹی وی ‘ افغانستان کے سابق نائب صدر کریم خلیلی کا تھا۔
وہ طالبان کے آنے کے بعد اپنے چینل کے لیے وسائل پیدا کرنے میں ناکام رہا اور بالآخر اسے چینل بند کرنا پڑا۔ اسی طرح دیگر چینلز میں ’ نورین ٹی وی‘ افغانستان کے سابق نائب صدر استاد محقق کا تھا جبکہ ’ ہواد ٹی وی ‘ حامد کرزئی کے بھائی قیوم کرزئی کا اور ’ زوادان ٹی وی‘ ایک قوم پرست لیڈر اسماعیل یون کا تھا۔ اسی طرح کئی دوسرے چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز بھی وار لارڈز کے تھے جو افغان طالبان کے آنے کے بعد ملک سے فرار ہوگئے ، یوں ان کے غیرملکی فنڈز پر بنائے گئے ادارے لاوارث ہوگئے۔
غیر ملکی فنڈنگ ، اسمگلنگ ، منشیات کی فروخت اور دیگر منفی سرگرمیوں سے چلنے والے خبررساں اداروں کی بندش سے جب صحافی بے روز گار ہوئے تو مغربی میڈیا کی جانب سے شور مچ گیا کہ طالبان نے میڈیا پر شب خون مارا اور نیوز چینلز بند کردئیے ہیں۔ اس حوالے سے جب ہم نے انعام اللہ سمنگانی سے پوچھا تو ان کا جواب خاصا دلچسپ تھا ۔
انھوں نے افغانستان یونین آف جرنلسٹس کے دفتر میں نصب ٹی وی اسکرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں ’ طلوع ٹی وی‘ کی اسکرین!! واضح رہے طلوع ٹی وی افغانستنان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ٹی وی چینل سمجھا جاتا ہے، اس کی شہرت طالبان مخالف میڈیا ادارے کی ہے۔ سمنگانی صاحب نے کہا کہ ’ طلوع ‘ ٹی وی کے گزشتہ چند ماہ کے ٹاک شوز نکلوا لیں اور ان کا جائزہ لیں۔
اس چینل پر مسلسل طالبان حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے، ہمارے نمائندوں اور رہنماؤں کو بطور مہمان بلا کر بیرون ملک بیٹھے نام نہاد افغان صحافیوں سے تنقید کے نام پر تذلیل کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کے باوجود طلوع ٹی وی نہ صرف چل رہا ہے بلکہ ہمارے نمائندے باقاعدگی سے پروگراموں میں شریک ہوکر اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ سمنگانی صاحب کے اس موقف کے حوالے سے جب ہم نے موقع پر موجود افغان صحافیوں سے جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے انعام اللہ سمنگانی کی بات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں طالبان اس بار بہت بدل چکے ہیں اور غیر معمولی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
’ شمشاد ‘ ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز عابد احساس نے بتایا کہ طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد چھبیس صحافی ہمارے ادارے سے چلے گئے تھے جن میں سات لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
جبکہ آٹھ لڑکیوں سمیت 28 لوگ شمشاد ٹی وی کو جوائن بھی کرچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے خواتین صحافیوں کو نقاب کرنے کے لیے نہیں کہا جاتا بلکہ محض اسکارف کے ذریعے سر ڈھانپنے پر زور دیا جاتا ہے۔ نشست کے اختتام پر ’ شمشاد ‘ ٹی وی کے ذمہ داران ہمیں الوداع کہنے کے لیے مرکزی دروازے تک آئے۔ اس موقع پر ہمارے وفد نے بھی ’ شمشاد ‘ ٹی وی کے صحافیوں سمیت دیگر افغان صحافیوں کو پاکستان دورے کی دعوت دی۔ عمارت کے بیرونی حصے میں پہنچے تو وہاں میوزیم کے احاطے میں کئی اشیاء موجود تھیں۔ وفد میں شامل افراد یادگار کے طور پر تصاویر بناتے رہے۔
اس دورے کے بعد ہماری اگلی منزل پاکستانی سفارت خانہ تھی جہاں ہمیں ظہرانے پر مدعو کیا گیا تھا۔ ایک دفعہ پھر اپنے افغان میزبانوں کی ڈرائیونگ کی مہارت کا لطف لینے کے دوران ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب ہم کابل میں وسیع و عریض رقبے پر پھیلے پاکستانی سفارت خانے کی سفید عمارت تک پہنچ چکے تھے۔
سفارت خانے کے دوہرے دروازے سے گزر کر جب عمارت کے مرکزی حصے میں داخل ہوئے تو کابل میں پاکستانی سفیر منصور علی خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد قائم مقام سفیر کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ملک اسد عباس ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔کابل میں محمد علی جناح اسپتال میں ہونے والی ملاقات کے بعد یہ ان سے یہ دوسری ملاقات تھی۔ جناب اسد عباس کے ساتھ ہم سفارت خانے کی عمارت کے اندرونی حصے کی جانب روانہ ہوئے اور مختلف کمروں سے ہوتے ہوئے ہال میں آکر بیٹھ گئے۔
اس موقع پر سفات خانے کے دیگر افسران بھی موجود تھے۔ کھانے کے بعد عمارت کا دورہ کیا اور اس کے عقبی حصے کی جانب سے کابل کے خوبصورت نظاروں کو موبائل کیمروں میں محفوظ کرلیا۔ سفارت خانے کے افسران سے بات چیت کے دوران افغانستان اور طالبان حکومت کی صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔
سفارتی اہلکاروں کی بات چیت سے پتا چلا کہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغانستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ ماضی میں جو طالبان حکومت آئی تھی وہ پورے افغانستان پر نا صرف یہ کہ قابض نہیں ہوسکی تھی بلکہ اسے مختلف مقامات پر مخالفین کی جانب سے سخت مسلح مزاحمت کا سامنا بھی رہا تھا مگر اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے۔
افغان طالبان پورے افغانستان پر قابض ہیں اور پنج شیر میں احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی سربراہی میں سر اٹھانے والی مسلح مزاحمت کو بھی کچل دیا گیا، جبکہ داعش بھی محض معمولی مزاحمت کے قابل ہی رہ گئی ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان پچانوے فیصد مخالفین پر قابو پاچکے ہیں اور افغانستنان پر مکمل طور پر قابض ہیں۔ ان کا طرز حکومت، طریقہ کار، علاقائی و بین الاقوامی معاملات کو سنبھالنے کا طرز عمل مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اب کوئی انھیں اپنی پراکسی سمجھ کر استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔
افغان طالبان وقت اور حالات سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کابل نہایت آرام سے اپنے وسیع و عریض کمپاؤنڈز میں رہ رہے ہیں۔ اگر طالبان نرمی کا رویہ اختیار نہ کرتے تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ یہاں رہ سکتے۔
اسی طرح اب طالبان پڑوسی ممالک سے تعلقات کے درمیان سب سے پہلے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں روپوش کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف بڑی کارروائیاں نہیں کی جا رہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ گروہ افغان طالبان کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے لگ جائیں۔
اسی طرح افغان طالبان بھارت سے تعلقات کو یکسر ختم نہیں کر رہے بلکہ وہ ماضی کی حکومت میں جاری بھارت کے زیر تکمیل منصوبے مکمل کروانے کے لیے بھارت کو دعوت دے رہے ہیں۔
سفارت خانے کی اہم شخصیات کی زبانی ہی معلوم ہوا کہ اب افغان طالبان خود کو کسی کا ایجنٹ کہلوانا گوارا نہیں کرتے اور اس حوالے سے بہت حساس ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے سے سوچنا ہوگا ، زبردستی بڑا بھائی بننے سے گریز کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ برادر پڑوسی ملک کے طور پر طالبان حکومت کی مدد کرنی ہوگی اور افغان عوام کے ساتھ گہرے اور دور رس روابط پیدا کرنے ہوں گے۔
ابتدائی طور پر پاکستان کی جانب سے بڑے پروجیکٹس شروع کیے جاچکے ہیں ، متعدد ابھی پائپ لائن میں ہیں جو یقینی طور پر دونوں ملکوں کے عوام میں قریبی روابط کو فروغ دیں گے۔
اسی طرح پاکستان افغانستان سے25 ہزار میٹرک ٹن یومیہ کوئلہ درآمد کر رہا ہے۔ مستقبل قریب میں اس کی مقدار ساٹھ ہزار یومیہ تک کیے جانے کا امکان ہے جس کے لیے پاکستان کی کوششیں جاری ہیں۔ اس طرح پاکستان افغانستان کے بجٹ کا بڑا حصہ کور کرے گا جبکہ پاکستان کو کوئلہ ملائشیا کی نسبت سستا ملے گا۔ سفارت کاروں سے بات چیت کے بعد ہم نے سفارت خانے کا تفصیلی دورہ کیا اور پھر اگلی منزل کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔
اب ہمارا اگلا ٹھکانہ افغانستان فیڈریشن آف جرنلسٹس کے چیئرمین حجت اللہ مجددی کا ڈیرہ تھا۔ ان کے ٹھکانے پر پہنچتے ہوئے ہمیں رات دیر ہوچکی تھی۔ جب ہم ان کے ساتھ بیٹھے تو عین اسی وقت وہاں افغان طالبان کے نائب ترجمان انعام اللہ سمنگانی بھی پہنچ گئے اور پاکستان اور افغانستان کے صحافیوں کے درمیان بیٹھ گئے۔
حجت اللہ مجددی کے ڈٰیرے میں بنے لان میں دری بچھا کر زمین پر بیٹھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ طالبان کے نائب ترجمان کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے صحافیوں کے درمیان طویل نشست ہوئی جس میں حجت اللہ مجددی نے اپنے تمام تحفظات کھل کر بیان کیے اور ساتھ ہی واضح کیا کہ اتنے کھلے انداز میں وہ ماضی کی حکومتوں کے دوران بھی بات نہیں کرسکتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ رپورٹس کے مطابق جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو افغانستان میں 550میڈیا ادارے تھے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد آہستہ آہستہ 220 خبررساں ادارے بند ہوگئے تھے۔
7000 میڈیا ورکرز بے روزگار ہوئے تھے۔ سبب یہ تھا کہ گزشتہ دور میں بین الاقوامی ادارے، این جی اوز میڈیا کی فنانشل سپورٹ کرتی تھی، انٹرنیشنل مارکیٹ سے بھی اشتہار مل رہا تھا ، لوکل مارکیٹ سے بھی اشتہار مل رہے تھے، لیکن طالبان کے آنے کے بعد معاشی پابندیاں لگائی گئیں اور بین الاقوامی سطح پر اثاثے منجمد کئے گئے۔
لوکل مارکیٹ بھی متاثر اور اشتہارات کم ہوئے۔سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں تباہی آتی ہے نظام خراب ہوتا ہے، الحمدللہ گزشتہ دور کے مقابلے میں حالات بہتر ہیں۔ طالبان کے پہلے ایام میں ان سے موقف لینے میںکچھ مشکلات تھیں لیکن اب امارت نے تمام اداروں کے ترجمان مقرر کئے، میڈیا انفارمیشن سینٹر فعال کردیا ہے۔ تاہم اب بھی معلومات تک رسائی میں کچھ مشکلات ہیں۔
طالبان حکومت نے جرنلسٹ پروٹیکشن کمیٹی فعال کر دی ہے، صحافی کو کچھ مسائل ہوں تو یہ کمیٹی حل تلاش کرتی ہے۔ اگر عام آدمی کو صحافیوں سے کوئی مسئلہ ہو تو وہ اس کمیٹی میں جا سکتا ہے ۔
اس گفتگو کے اختتام پر ہمارے وفد میں شامل لاہور پریس کلب کے سیکریٹری عبدالمجید ساجد اور حجت اللہ مجددی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ، دونوں صحافتی تنظیموں نے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔ اس موقع پر لاہور پریس کلب کے سیکریٹری کی جانب سے حجت اللہ مجددی اور ان کی فیڈریشن کے دیگر صحافیوں کو لاہور پریس کلب کے دورے کی دعوت بھی دی گئی۔
اس نشست کے بعد ہم اپنے ہوٹل پہنچے اور سیدھا اپنے کمروں میں پہنچ کر دم لیا۔ وجہ یہ تھی کہ اگلے روز ہم نے پاکستان واپسی کے لیے نکلنا تھا جس کے لیے طور خم باڈر تک بذریعہ کابل جلال آباد ہائی وے جانے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ اس تجربے کے مشاہدات سے مستفید ہونے کیلیے ضروری تھا کہ وفد کے اراکین چند گھنٹوں کی نیند ضرور لیں۔
اگلی صبح جب ہم روانگی کے لیے تیار ہوئے تو ہمیں پتا چلا کہ ہمارے افغان میزبانوں نے طور خم تک ہمیں چھوڑنے کے لیے انتظامات کررکھے ہیں۔ کابل جلال آباد ہائی وے پر میں دو سے تین بار پہلے بھی سفر کرچکا ہوں ، اب پھر کرنے جارہا تھا۔
میں اسی طرح پرجوش تھا جس طرح پہلی بار تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ہائی وے پر جسے دنیا کی خطرناک ترین ہائی ویز میں شامل کیا جاتا ہے، موجود سنگلاخ پہاڑ میرا عشق ہیں، ان کا سحر مجھے جکڑ لیتا ہے۔ میں جب بھی اس راستے سے گزرا مجھے لگا ، اپنا آپ وہیں چھوڑ آیا ہوں۔
اس ہائی وے پر جگہ جگہ نئی داستانیں ملتی ہیں، لوگ لوک کہانیاں سناتے ہیں۔ یہاں دلکش مناظر نظر دیکھنے والے کو یوں اپنی خوبصورتی میں گم کر لیتے ہیں کہ اسے پلٹنے کا خیال تک نہیں آتا۔ ہمارا یہ ڈرائیور بھی ذکراللہ خادم کا شاگرد لگ رہا تھا۔ ہائی وے کے آغاز پر ہی فروٹ والے قطار کی صورت فروٹ بیچتے نظر آئے۔ ہم نے ایک جگہ رک کر کابلی انگور لیے اور ان کا لطف لیتے ہوئے سفر جاری رکھا۔
کابل سے نکلنے کے بعد ماہیر نامی ایک مقام پر مچھلی ملتی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ملنے والی مچھلی عمومی طور پر پاکستان سے آتی ہے۔اسی ہائی وے پر ضلع سروبی بھی آتا ہے جو ایک موقع پر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ سروبی وہ ضلع ہے جہاں سے روس اور امریکہ دونوں عالمی طاقتوں کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔
یہاں کے ڈرائیور سروبی کے ایک پہاڑی راستے کو جادو کے زیر اثر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس راستے پر گاڑیوں کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور باوجود ریس دینے کے رفتار میں اضافہ نہیں ہوتا۔ جلال آباد پہنچے تو تھوڑی دیر رک کر ریفرشمنٹ کی، نماز ادا کی اور پھر روانہ ہوگئے۔
جلال آباد سے طور خم کی جانب جاتے ہوئے گاڑی کی سائیڈز میں پیچھے کی سمت دوڑنے والے مناظر پر نظر ڈالی تو ایسا محسوس ہوا جیسے لاہور سے بذریعہ ملتان روڈ اوکاڑہ کی جانب سفر کیا جا رہا ہے۔ طور خم کی جانب جاتے ہوئے ہمیں سینکڑوں ایسے ٹرالر ملے جو فروٹ لے کر پاکستان جا رہے تھے۔
جب ہم طور خم پہنچے توسامان کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ ایک جنگلہ نما راہداری میں طے کرنے کے بعد مسکراتے طالبان اہلکاروں سے اپنے پاسپورٹ پر اسٹمپ لگوائیں اور اسی پنجرہ نما راہداری میں مزید آگے کی جانب چل دیے۔ ایک بار پھر تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ ایک قطار میں طے کرنا پڑا۔ اس بار ہمیں رش میں نیا تجربہ ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ اس راہداری میں بچوں کی کثیر تعداد موجود تھی جنھوں نے اپنی کمر پر بڑے بڑے پیکٹس بیگ کی طرح لٹکائے ہوئے تھے۔
پتا چلا کہ یہ بچے مقامی چھوٹے اسمگلرز کے ہرکارے ہیں جو سکیورٹی اہلکاروں کی نگاہوں میں دھول جھونک کر سامان ادھر سے ادھر کردیتے ہیں۔ بچے اور بچیاں چھلاوں کی طرح حرکتیں کررہے تھے۔ کبھی وہ گرل کے اوپر سے کود کر پاکستان سے افغانستان کی جانب جانے والی راہداری میں داخل ہو جاتے اور افغانستان سے پاکستان جانے والوں میں شامل ہوجاتے تھے۔
ہم نے نوٹ کیا کہ افغان طالبان تو انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پاکستانی اہلکار انھیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ راہداری کے اختتام پر ایک بار پھر اور آخری دفعہ طالبان اہلکاروں سے سامنا ہوا۔ انھوں نے ہماری تفصیلی تلاشی لی ، پاسپورٹ چیک کیے اور کمروں کی جانب جانے کی اجازت دیدی۔ ایک طالبان اہلکار نے مسکراتے ہوئے پشتو میں کچھ کہا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔
میں نے خیبر ٹی وی کے اپنے ساتھی وقاص شاہ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ طالبان اہلکار کہہ رہا ہے کہ اس کی خواہش ہے کہ اگلی بار جب ہم افغانستان آئیں تو ان کی طرح شلوار قمیض پہن کر آئیں ۔ میں نے طالبان اہلکار کو مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے بعد محض چند قدم اٹھائے اور ہم پاکستان میں داخل ہوگئے۔
پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی ہمیں پاکستانی اہلکاروں نے گھیر لیا۔ ہمارے سامان سے ایک ایک چیز نکلوا کر چیکنگ کی گئی اور جب تقریباً آدھ گھنٹہ کی چیکنگ کے عمل سے گزر گئے تو چیکنگ کرنے والے افسر نے بتایا کہ اسکینر مشین خراب ہے۔
جب اس سے پوچھا کہ جب مشین خراب ہے تو تم نے چیکنگ کیوں کی؟ کہنے لگا : ’’ میری مرضی‘‘۔ اسی دوران میں میرے ساتھ چیکنگ کے مراحل سے گزرنے والے غیر ملکی خبررساں ادارے سے منسلک صحافی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔
جب اس سکیورٹی اہلکاری کی بد تمیزی کچھ زیادہ بڑھی تو پھر ہم نے اسے اپنا تعارف کرایا جس کے بعد وہ بالکل معذرت کرنے پہ آگیا۔ اس کے بعد ہم نے قطار میں کھڑے ہوکر پاکستان میں داخلے کی اسٹمپ لگوائی مگر اس دوران جس تذلیل اور ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑا ، اس نے یہ بات سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہمارے اہلکار ہم سے صحافی ہونے کے باوجود یہ سلوک کر رہے ہیں تو افغانوں سے کیا کرتے ہوںگے۔ محض چند روپے کے حصول کے لیے ایسی حساس جگہوں پر تعینات اہلکار ملک کی بد نامی کا باعث بن رہے ہیں جس کا حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہے۔
The post ماضی کے برعکس موجودہ طالبان حکومت پورے ملک پر موثر کنٹرول رکھتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.