’’ہر پردے کے پیچھے ایک ہاتھ چھپا ہوتا ہے۔‘‘اس نے کہا ’’اور ہر ہاتھ میں خنجر دبا ہوا۔‘‘(امریکی ادیب، ریمنڈ فیسٹ کے ناول، ڈوٹر آف دی ایمپائر سے اقتباس)
٭٭٭
پاکستان میں 2021ء سے موبائل فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، وڈیو کارڈ اور دیگر متعلقہ آلات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔پچھلے ڈیرھ دو برس میں الیکٹرونکس اشیا کی قیمتوں میں کئی ہزار روپے اضافہ ہو چکا۔
یہ رجحان پوری دنیا میں دیکھا گیا۔آخر قیمتوں میں یہ تیز رفتار اضافہ کیوں ہوا؟اس سوال کا جواب بظاہر چھوٹی سی معمولی شے’’چپ‘‘(Chip)میں پوشیدہ ہے جو دنیاکی دو سب سے بڑی معاشی قوتوں، امریکا اور چین کے مابین وجہ تنازع بن چکی۔بلکہ اب تو اس کی خاطر دونوں ملکوں کے مابین کھلم کھلا جنگ شروع ہے۔
یہ مگر بڑی اچھوتی لڑائی ہے …اس جنگ میں میزائیل ، بم اور اور راکٹ نہیں چل رہے بلکہ تجارتی پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ جنگ بہرحال امریکا نے چھیڑی ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اس کے ذریعے مختلف مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ان میں سرفہرست یہ ہے کہ چین سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت تامہ حاصل نہ کر سکے کیونکہ ایسی صورت میں وہ امریکا کی جگہ دنیا کا نیا تاجدار بن جائے گا۔فی الوقت معاشی طور پہ امریکا وچین ہم پلّہ ہیں مگر سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکا اور اس کے ہمنوا ممالک کا پلّہ بھاری ہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ یہی فوقیت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
ترقی وخوشحالی کا انجن
جدید سائنس وٹیکنالوجی میں ’’چپ‘‘کو بہت اہمیت حاصل ہو چکی۔وجہ یہ کہ دور حاضر میں انسان کے زیراستعمال جتنی بھی الیکٹرونکس اشیا ہیں اور جن چیزوںسے وہ کئی اہم کام انجام دیتا ہے، مثلاً موبائل فون، کمپیوٹر،نیٹ ورکنگ، کار، موٹرسائیکل، بجلی گھر، انٹرنیٹ کے سرور، فریج، تیل صاف کرنے والی ریفائنریاں وغیرہ ، ان سب میں چپ کہیں نہ کہیں دوران کام استعمال ہوتی ہے۔
گویا اس کے بغیر دنیا میں بنی نوع انسان کی ترقی وخوشحالی کا انجن تقریباً جام ہو جائے گا اور سبھی کام ٹھپ!خاص بات یہ کہ اب جتنے بھی نئے ہتھیار بن رہے ہیں، پستول سے لے کر ایٹم بم اور ہائڈروجن بم تک، ان سب میں چپ کا استعمال وسیع پیمانے پر کیا جانے لگا ہے کیونکہ یہ اسلحہ بنانے میں مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ میں بھی مدد کر رہی ہیں۔
مصنوعی ذہانت مستقبل کی سب سے طاقتور (مثبت اور منفی ، دونوں لحاظ سے) ٹیکنالوجی ہے۔اور اس ٹیکنالوجی کا مرکز چپ ہے۔چپیں ہی مل کر ایک معمولی آلے سے لے کر سپر کمپیوٹر، روبوٹ اور بھاری بھرکم ہوائی وبحری جہازوں کو کام کرنے کے قابل بناتی ہیں۔گویا یہ چھوٹی سی شے ہر ملک کے لیے دنیاوی ترقی کا بہترین آلہ اور دماغ بن چکی۔ یہ اب سونے اور تیل سے بھی زیادہ قیمتی سمجھی جا رہی ہے۔
ماضی میں افیون نے برطانیہ اور چین کی جنگ کرائی تھی۔اب چپ کی وجہ سے امریکا اور چین آمنے سامنے ہیں۔چپ کا اصطلاحی نام ’’اینٹی گریٹیڈ سرکٹ(Integrated circuit)ہے۔یہ سرکٹ عموماً سلیکون سے بنے مادے،سیمی کنڈیکٹر پر نصب ہوتا ہے۔
اس سرکٹ میں ضرورت کے حساب سے کئی سو تا کئی ہزار ٹرانسسٹر (Transistors)لگے ہوتے ہیں۔ہر چپ احکامات کا معین سیٹ رکھتی ہے جن کے مطابق ٹرانسسٹر اپنا کام بجا لاتے ہیں۔تکنیکی زبان میں یہ کام ’’پروسیس‘‘ کہلاتا ہے۔ ایک الیکٹرونک شے میں سائز کے لحاظ سے ایک دو تا کئی سو چپیں نصب ہوتی ہیں۔انہی چپوں کے ذریعے ہر الیکٹرونک شے مثلاً کمپیوٹر یاموبائل فون اپنا کام انجام دیتی ہے۔
مسلمان مصری سائنس داں
جدید چپ 1950ء کے بعد امریکا میں بنائی گئی۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس کی تیاری میں ایک مسلمان مصری سائنس داں ،محمد عطااللہ (وفات 2009ئ)نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔امریکا میں تحقیق وتجربات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے کوریائی ساتھی، دون کیہنگ کے ساتھ ٹرانسسٹر کی ایک خصوصی قسم ’’موسفٹ‘‘(metal–oxide–semiconductor field-effect transistors)ایجاد کی۔
انہی ٹرانسسٹروں کی ایجاد کے بعد ممکن ہو گیا کہ انھیں سیمی کنڈیکٹر مادے میں نصب کر کے چپ بنائی جا سکے۔یہ 1959ء کی بات ہے۔محمد عطااللہ اور دون کیہنگ کے بنائے ٹرانسسٹروں نے ’’چپ انقلاب‘‘کی بنیاد رکھ دی۔تب سے سائنس داں اور انجینئر چھوٹے سے چھوٹے ٹرانسسٹر اور چھوٹی سے چھوٹی چپیں بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔وجہ یہ کہ ایک ٹرانسسٹر جتنا چھوٹا ہو گا،کم جگہ پر اتنے ہی زیادہ ٹرانسسٹر لگ سکیں گے۔یوں چپ چھوٹی ہونے کے باوجود زیادہ تیزی اور طاقت سے کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
چھوٹی چپیں اور ٹرانسسٹر
چھوٹی چپ بنانے کی تحقیق وتجربات میں جاپان کے ماہرین سب سے آگے ہیں۔فروری 2022ء میں جاپانی کمپنی، ہٹاچی کے ماہرین ایسی چپ بنانے میں کامیاب رہے جو محض 0.15ملی میٹر (0.006انچ)لمبی چوڑی اور7.5مائکرومیٹر (0.004انچ)موٹی ہے۔
ویسے موجودہ الیکٹرونکس اشیا میں زیادہ بڑی چپیں نصب ہوتی ہیں۔اصل بات چھوٹے سے چھوٹا ٹرانسسٹر بنانا ہے کیونکہ احکامات کی تعمیل تو وہی کرتے ہیں۔ایک الیکٹرونک شے میں جتنے زیادہ ٹرانسسٹر ہوں، وہ اتنی ہی زیادہ تیز و قوی ہوتی ہے۔سائنس داں اب تک 5 نینو میٹر قطر رکھنے والے ٹرانسسٹر ایجادکر چکے۔جبکہ 2، 3 اور 4 نینومیٹر قطر والے ٹرانسسٹروں پہ تحقیق وتجربات جاری ہیں۔
چھوٹے ٹرانسسٹروں کی تحقیق میں تائیوان اور جنوبی کوریا کی کمپنیاں سب سے آگے ہیں۔ان میں تائیون کی ٹی ایس ایم ایس(Taiwan Semiconductor Manufacturing Company)اور جنوبی کوریا کی سام سنگ نمایاں ہیں۔تازہ خبروں کی رو سے سام سنگ 3 نینومیٹر والے ٹرانسسٹر تیار کرنے لگی ہے۔
وہ اتنے چھوٹے ٹرانسسٹر بنانے والی دنیا کی واحد کمپنی ہے۔اطلاع ہے کہ ٹی سی ایم سی بھی عنقریب 3 نینومیٹر پروسیس والے ٹرانسسڑ بنانے لگے گی۔واضح رہے، نینو میٹر لمبائی کی پیمائش کا پیمانہ ہے۔یہ ایک میٹر کا ارب واں حصہ ہے۔نہایت چھوٹی اشیا کی لمبائی وچوڑائی نینومیٹر میں بتائی جاتی ہے۔مثلاً انسان کا بال 80 ہزار سے ایک لاکھ نینومیٹر چوڑا ہوتا ہے۔آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ ایک سیکنڈ میں ہمارے ناخن جتنا بڑھتے ہیں، وہی لمبائی ایک نینومیٹر ہے۔
عالمگیریت اپنے جوبن پر
دنیا میں ہر سال 600 ارب ڈالر کی چپیںفروخت ہوتی ہیں۔اور چپ کی مارکیٹ مانگ میں اضافے کے باعث تیزی سے پھیل رہی ہے۔خیال ہے کہ 2030ء تک اس منڈی کی مالیت 1500 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔دنیا میں سب سے زیادہ چین میں کام کرنے والی کمپنیاں چپیں خریدتی ہیںجن کی مالیت 2021ء میں 190 ارب ڈالر تھی۔مگر چین پر امریکاکے ٹیکنالوجیکل حملے کے بعد یہ عدد نیچے جائے گا۔
چپ بنانے کے مراحل مختلف ممالک میں انجام پاتے ہیں۔گویا اس سلسلے میں عالمگیریت(globalization)اپنے جوبن پر نظر آتی ہے۔سب سے پہلے امریکا میں چپ ڈیزائن ہوتی ہے۔پھر اسے بنانے کے لیے مشینیں اور متعلقہ آلات یورپی ممالک فراہم کرتے ہیں۔
ان مشینوں کی مدد سے پھر مشرقی ایشیا(تائیوان اور جنوبی کوریا)میں چپیں تیار ہوتی ہیں۔تیار شدہ چپوں کی سب سے بڑی مارکیٹ چین ہے کہ وہی الیکٹرونکس اشیا بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔چپ وجود میں لانے کی اس زنجیری سلسلے یا سپلائی چین کو مگر امریکا نے اپنی پابندیوں کی بدولت درہم برہم کر دیا۔
چین ترقی نہ کرے
امریکا کو دراصل خطرہ ہے کہ محض چپ ہی نہیں مجموعی طور پہ چین سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے نکل گیا تو قدرتاً دنیا کی سب سے بڑی قوت بن جائے گا۔دور حاضر میں علم(سائنس وٹیکنالوجی)ہی ہے جو کسی بھی مملکت کو ترقی یافتہ، طاقتور اور خوشحال بنا سکتا ہے۔
اگر چین سپرپاور بن گیا تو عالمی معاملات میں مغرب کااثرورسوخ کم ہو جائے گا جس کا لیڈر امریکا ہے۔تب مغربی حکمران اپنے مفادات کی تکمیل نہیں کر سکیں گے۔چناں چہ دنیا پہ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی خاطر امریکا چاہتا ہے کہ چین سائنس و ٹیکنالوجی شعبے میں اس سے پیچھے ہی رہے اور سب سے بڑی طاقت نہ بن سکے۔
چپ چونکہ سائنس وٹیکنالوجی کا دماغ بن چکی لہذا امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اسی کو نشانہ بنایا۔مدعا یہ تھا کہ جدید ترین چپیں چین کی دسترس سے دور ہو جائیں۔یوں چین کی الیکٹرونکس صنعت ہی نہیں سائنس وٹیکنالوجی کے پورے شعبے کو کاری نقصان پہنچانا مقصود ہے۔
ظاہر ہے، اگر چینی الیکٹرونکس کمپنیوں کو جدید چپیں میّسر نہ آئیں تو وہ نت نئی اشیا نہیں بنا سکیں گی۔یوں ان کا کاروبار متاثر ہو گا اور اشیا کی فروخت کم ہو جائے گی۔سب سے بڑھ کر چین کا دفاع کمزور ہو گا کہ اس کے حریف جدید ترین چپوں کی مدد سے زیادہ تباہ کن ہتھیار بنا لیں گے۔
مستقبل کی بڑی اہم ٹیکنالوجی
مثال کے طور پر چین اور امریکا نے ایک جیسے ایٹمی میزائیل تیار کرلیے۔مگر امریکی میزائیل میں 2 نینومیٹر کی چپیں نصب ہیں ۔جبکہ چینی میزائیل میں 5 نینو میٹر کی چپیں استعمال کی گئی ہیں۔تب امریکی میزائیل ہر لحاظ سے کارکردگی میں بہتر ہو گا۔اس کے نشانے تک پہنچنے کا زیادہ امکان ہے۔
امریکا یہی چاہتا ہے کہ فرسودہ چپوں کی وجہ سے چین زیادہ عمدہ اور خطرناک ہتھیار نہیں بنا سکے اور کمتر عسکری طاقت رہے۔ مصنوعی ذہانت مستقبل کی بڑی اہم ٹیکنالوجی ہے۔
یہ کئی لحاظ سے دنیا بدل دینے کی قدرت رکھتی ہے۔چپ ہی اس نئی انقلابی ٹیکنالوجی کا قلب ومرکز ہے۔کیونکہ ہر مشین یا کمپیوٹر چپوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ جس ملک نے مصنوعی ٹیکنالوجی میں مہارت تامہ پا لی، وہی دنیا کا حقیقی سرتاج ہو گا۔اس لیے بھی چپ عالمی سطح پر بہت اہم ہو چکی۔
دنیا کی بڑی مارکیٹ
حیران کن بات یہ کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا میں چند قوم پرست رہنماؤں نے مہم چلائی تھی کہ چپ بنانے کی امریکی ویورپی ٹیکنالوجی چینی کمپنیوں کو منتقل نہ کی جائے۔مگر 2000ء تک چین الیکٹرونکس اشیا بنانے والی دنیا کی بڑی مارکیٹ بن چکا تھا۔رفتہ رفتہ کئی امریکی ویورپی کمپنیوں نے چین میں دفاتر وکارخانے بنا لیے۔وجہ یہی کہ چین سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
وہاں سوا ارب انسان بستے تھے۔پھر چین میں زمین، افرادی قوت اور بجلی سستی تھی۔یعنی مصنوعات بناتے ہوئے کم لاگت آتی۔اسی لیے دنیا بھر کی کمپنیوں نے وہاں کارخانے قائم کر لیے۔اسی چلن نے چین کو دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ یا ایکسپورٹر بنا دیا۔رفتہ رفتہ امریکی چینی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار بن گئے۔
ہر سال چار پانچ سو ارب ڈالر کا مال چین سے امریکا آنے لگا۔جب کہ امریکا سے دو ڈھائی سو ارب ڈالر کا سامان ہی چین جا پاتا۔یوں باہمی تجارت میں امریکا کو کافی خسارہ ہونے لگا۔چونکہ دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار تھے لہذا یہ خسارہ تنازع کی وجہ نہیں بن سکا۔اختلافات نے 2013ء کے بعد جنم لیا جب شی جن پنگ چین کے صدر بنے۔
چینی حکومت پھر بتدریج امریکا سے عالمی امور میں اختلاف کرنے لگی۔اس نے کئی معاملات میں امریکا کے حریف،روسی صدر پوٹن کا ساتھ دیا۔اس طرح معاشی وعسکری لحاظ سے دنیا کی دو بڑی طاقتوں، امریکا اور چین کے مابین کشمکش کا آغاز ہو گیا۔
تجارتی جنگ چھڑ گئی
2018ء میں ایک کاروباری، ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر بن گیا۔وہ چین سے باہمی تجارت میں خسارہ کم کرنا چاہتا تھا۔چناں چہ اس نے چین سے آنے اور وہاں جانے والی مصنوعات پہ ٹیکس بڑھا دئیے۔چین نے بھی جواباً امریکا سے آنے جانے والی اشیا پہ مزید ٹیکس لگائے۔
اس طرح دونوں سپرپاورز کے مابین تجارتی جنگ چھڑ گئی۔2019ء سے ٹرمپ حکومت نے چین کے خلاف ٹیکنالوجیکل جنگ کا بھی اعلان کر دیا ،گو اس نے صرف ایک چینی کمپنی کو نشانہ بنایا۔2019ء تک ہواوے ٹیلی کمیونکیشن، الیکٹرونکس اور نیٹ ورکنگ آلات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بن چکی تھی۔اس نے پھر امریکی کمپنی ایپل اور جنوبی کورین سام سنگ کو بھی کئی شعبوں میں پیچھے چھوڑ دیا۔اب وہ 5 جی موبائل ٹیکنالوجی شروع کرنے کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہی تھی۔یہ چینی کمپنی چین کے سائنس دانوں، انجینئروں اور ہنرمندوں کی زبردست مہارت، محنت و اہلیت کا استعارہ بن گئی۔اسی لیے امریکی ٹیک کمپنیاں اور حکومت امریکا اس سے خائف ہو گئیں۔
چینی کمپنی پہ وار
امریکی اسٹیبلشمنٹ نے تب ہی یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ چینی کمپنی اپنے آلات میں جاسوسی کرنے والے پرزہ جات چوری چھپے نصب کرتی ہے۔مدعا یہ کہ امریکا و یورپی ممالک کے سرکاری خفیہ راز چینی حکومت تک پہنچ جائیں۔اس الزام کی آڑ لے کر جون 2019ء میں ٹرمپ حکومت نے اعلان کر دیا کہ دنیا میں جو کمپنی اپنی مصنوعات کی تیاری میں امریکی ٹیکنالوجی یا آلات استعمال کرتی ہے۔
وہ انھیں چینی کمپنی کو فروخت نہ کرے۔ان مصنوعات میں سرفہرست چپ تھی۔یہ ایک چینی کمپنی پر زبردست ٹیکنالوجیکل حملہ تھا جو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے انجام دیا۔جیسا کہ بتایا گیا، چپ کی ڈیزائنگ وتیاری میں امریکی ویورپی ممالک کا بنیادی کردار ہے۔لہذا انھوں نے عملی طور پہ چینی کمپنی کو جدید ترین چپیں حاصل کرنے سے روک دیا۔
حتی کہ چینی کمپنی کے ساختہ موبائل فون اب امریکی کمپنی، گوگل کی ایپلیکشنز بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔چناں چہ حسب توقع چینی کمپنی کے عالمی کاروبار کو کافی نقصان پہنچا اور وہ زوال پذیر ہو گئی۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کا مدعا بھی یہی تھا کہ چینی کمپنی کے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا دے۔
تاہم متاثرہ چینی کمپنی چین کی کمپنیوں کی ساختہ چپوں کے ذریعے اپنا کاروبار بحال رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔اس نے ایک ایسا سافٹ وئیر متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے گوگل ایپلیکشنز انسٹال کرنا ممکن ہو چکا۔
امریکی پابندیوں کو مرحلہ وار لگنا تھا۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی کمپنی زیادہ سے زیادہ چپیں خریدنے لگی تاکہ انھیں ذخیرہ کر لے۔اس مہم میں دیگر چینی کمپنیاں بھی شامل ہو گئیں۔انھیں یہ خوف تھا کہ امریکی پابندیاں ان کو بھی نشانہ بنا لیں گی۔چینی کمپنیوں کی زبردست خریداری کے باعث مارکیٹ میں چپیں کم ہو گئیں۔اس امر نے ان کی قیمتیں بڑھا دیں۔اور اسی اضافے نے پاکستان اور سبھی ملکوں میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، وڈیو کارڈز وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھائیں۔
اس اضافے کو اب آ کر بریک لگی ہے کیونکہ چین کی کمپنیاں مقامی ساختہ چپیں اپنی الیکٹرونکس اشیا میں استعمال کرنے لگی ہیں۔مگر جدید ترین چپوں کی خاطر وہ اب بھی تائیوان و جنوبی کورین کمپنیوں کی محتاج ہیں اور جن کی چپیں امریکی پابندیوں کی وجہ سے ان کی دسترس میں نہیں رہیں۔
اب کھلی جنگ…
ٹرمپ حکومت ختم ہوئی تو چینی کمپنیوں کو امید تھی کہ بائیڈن حکومت کا رویّہ ان کے ساتھ نرم ہو گا۔مگر معاملہ صدر کے ہاتھوں سے نکل چکا کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کر چکی، چین کو سائنسی وعسکری طاقت بننے سے ہر صورت روکنا ہے۔اور چین کوعالمی قوت بنانے میں بظاہر چھوٹی سی شے، چپ کا اہم کردار ہے۔
گویا چپ پہ دونوں سپرپاورز کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔چین کی کمپنیوں اور حکومت کا خدشہ حقیقت بن گیا۔اکتوبر 2022ء میں بائیڈن حکومت نے اعلان کر دیا کہ دنیا بھر میں چپ کے کاروبار سے منسلک جو کمپنیاں کسی بھی قسم کی امریکی ٹیکنالوجی یا آلات استعمال کرتی ہیں، اب وہ اپنی کوئی بھی مصنوعہ یا ٹیکنالوجی چین کو فروخت نہیں کریں گی۔
امریکا نے یہ بھی حکم دیا کہ چپ کی چینی کمپنیوں میں جو امریکی شہری کام کر رہے ہیں، وہ اپنی ملازمت چھوڑ دیں ورنہ امریکی شہریت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔بائیڈن حکو مت نے ساتھ ہی اعلان کیا کہ امریکا کی چپ ساز کمپنیوں کو 52 ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی۔
مقصد یہ ہے کہ وہ کمپنیاں اب اپنا سارا سیٹ اپ چین یا دوسرے ممالک سے امریکا میں منتقل کر دیں۔گویا امریکی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ اب چپ بننے کے سارے مراحل امریکا ہی میں انجام پائیں۔
امریکا نے چین پہ یہ وار اسی لیے کیا کہ چینی کمپنیاں جدید ترین چپیں حاصل نہ کر سکیں اور ان کی تمام برقی مصنوعات فرسودہ ہو جائیں۔یاد رہے، فی الوقت صرف جاپان ایسا ملک ہے جو ضرورت پڑنے پہ مقامی ذرائع سے مکمل چپ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ورنہ امریکا اور چین، دونوں جدید چپ مکمل حالت میں تیار نہیں کر سکتے۔کسی نہ کسی مرحلے پہ انھیں دیگر ملکوں کے مال کی ضرورت پڑتی ہے۔
امریکا اب اربوں ڈالر کا زرکثیر خرچ کر کے یہی خامی دور کرنا چاہتا ہے۔چین کا حکمران طبقہ بھی مگر خاموش نہیں بیٹھا۔درحقیت چینی حکومت پچھلے چند سال سے سائنس وٹیکنالوجی کی تحقیق وتجربات(آر اینڈڈی)پہ سالانہ چارپانچ سو ڈالر کا زرکثیر خرچ کر رہی ہے۔یہ پوری دنیا میں آراینڈڈی کے لیے مختص سب سے بڑی رقم ہے۔اور اس رقم کا بڑا حصہ جدید ترین چپیں بنانے کی تحقیق وتجربوں پہ صرف ہو رہا ہے۔
چین کی حکمران جماعت کا حال ہی میں اجلاس ہوا تھا۔اس میں چینی صدر نے واشگاف الفاظ میں کہا:’’چین جدید ٹیکنالوجی پانے کی خاطر کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔‘‘گویا چینی حکومت جدید ترین چپیں بنانے کے لیے بڑی سے بڑی رقم خرچ کرنے کو تیار ہے۔
چین فائدے میں
سائنس وٹیکنالوجی پہ بھاری رقم خرچ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ چپ ٹیکنالوجی و آلات کی نقل وحمل پہ امریکی پابندیاں چین کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتیں…بلکہ ماہرین کے نزدیک ان سے چین کو فائدہ ہو گا۔
پابندیوں کی وجہ سے چین اب ہر ممکن سعی کر رہا ہے کہ جدید چپیں مکمل طور پہ بنانے کا نظام تیار کر لے۔گویا امریکی پابندیوں نے چینی قوم کو خودانحصار ہونے کا راستہ دکھا دیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اگلے پانچ سے دس سال میں جدید چپیں بنانے لگے گا۔دراصل چینی حکومت نے دوراندیشی وتدبر کا مظاہرہ دکھاتے ہوئے 2000ء میں چپ بنانے کی ایک سرکاری کمپنی، سمک(Semiconductor Manufacturing International Corporation)قائم کر دی تھی۔
یہ اب چین میں چپیں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بن چکی۔بیس ہزار افراد اس سے وابستہ ہیں۔چند ماہ قبل کمپنی کے ماہرین نے 7 نینو میٹر والے ٹرانسسٹر بنا کر تاریخی کارنامہ انجام دیا۔اب کمپنی کی تجربہ گاہوں میں 5 نینومیٹر کا ٹرانسسٹر تیار ہو رہا ہے۔خیال ہے کہ تحقیق و تجربات سے چینی ہنرمند 2025ء تک اسے بنا لیں گے۔
سچ یہ ہے کہ چپ ٹیکنالوجی پہ پابندی لگانے سے امریکا کو زیادہ نقصان ہوا۔بہت بڑا مالی نقصان ان امریکی ویورپی کمپنیوں کو اٹھانا پڑا جو چین کو چپ بنانے کے سلسلے میں مختلف مال فروخت کرتی تھیں۔مشہور رسالے،اکنامسٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک برس امریکی کمپنیاں پابندیوں کے باعث بیشتر سامان چین نہیں بھجوا سکیں۔
چناں چہ انھیں 1500 ارب ڈالر کا خسارہ ہو گیا۔مالی خسارہ کم کرنے کی خاطر انھیں کئی ملازمین برخاست کرنا پڑے۔دوسری طرف چین میں چپ کی ڈیزائنگ، تیاری اور فروخت سے منسلک کئی نئی کمپنیاں وجود میں آ رہی ہیں۔ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔یوں چین میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور ملک وقوم کو ترقی دینے والا نیا کاروباری شعبہ بھی وجود میں آ گیا۔
حکومت چین ویسے بھی شعبہ چپ سے وابستہ کمپنیوں کو کئی مراعات دے رہی ہے تاکہ انھیں قدم جمانے میں آسانی رہے۔سرکاری سرپرستی کی وجہ سے چین میں شعبہ چپ بہت پھل پھول رہا ہے۔اگر یہی چلن رہا تو دس سال کے اندر اندر چین بھی جاپان کے مانند مکمل چپ تیار کرنے کی صلاحیتیں پا لے گا۔
صورت حال سے واضح ہے کہ چپ ٹیکنالوجی کی منتقلی پہ امریکی پابندیاں لگنے سے چینی کمپنیوں اور چین کو وقتی نقصان ضرور پہنچے گا۔پھر امریکا، جنوبی کوریا اور یورپی ملکوں کی کئی چپ ساز کمپنیاں چین میں اپنے دفاتر یا کارخانے بند کر دیں گی۔نیز چینی کمپنیاں اپنے الیکٹرونکس آلات میں 5 نینومیٹر اور ان سے چھوٹے ٹرانسسٹر استعمال نہیں کر سکیں گی۔
اس بنا پہ چینی اشیا امریکی و یورپی الیکٹرونکس اشیا کے سامنے فرسودہ ہو جائیں گی۔لیکن طویل المعیاد لحاظ سے یہ پابندیاں چین کو یوں فائدہ دیں گی کہ وہ خودانحصاری کی راہ پہ چل نکل گا۔ابھی تو چینی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تیاری میں دیگر ممالک کی محتاج ہیں۔لیکن خودانحصاری کی راہ اپنانے پہ چینی ایک نہ ایک دن دوسروں کی مدد کے بغیر معیاری اشیا بنانے کے قابل ہو جائیں ۔
خصوصی مشین
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ 10 نینومیٹر سے چھوٹے ٹرانسسٹر ایک خصوصی مشین، ایکسٹریم الٹراوائلٹ لیتھوگرافی کے ذریعے تیار ہوتے ہیں۔پوری دنیا میں صرف ہالینڈ کی کمپنی، اے ایس ایم ایل یہ مشین تیار کرتی ہے۔چونکہ ہالینڈ امریکا کا اتحادی ہے۔
لہذا امریکی حکومت کے دباؤ پہ ولندیزی کمپنی اب چینی کمپنیوں کو اپنی مشین فروخت نہیں کرتی۔مشینوں کی ایک اور قسم، ڈیپ الٹراوائلٹ لیتھوگرافی سے بھی 10 نینومیٹر سے چھوٹے ٹرانسسٹر بن سکتے ہیں۔مگر یہ مشین کئی مراحل کے بعد انھیں تیار کرتی ہے۔یوں ٹرانسسٹر بنانے میں کافی خرچ اٹھتا ہے۔جبکہ ایکسٹریم الٹراوائلٹ لیتھوگرافی سے بہت کم لاگت میں 10 نینومیٹر سے چھوٹے ٹرانسسٹر تیار ہو جاتے ہیں۔گویا سب سے پہلے چین کو مطلوبہ مشین ایجاد کرنا ہو گی۔
چین جواب دے سکتا ہے
چپ بنانا دراصل بہت مہنگا عمل ہے۔اسی لیے قبل ازیں اس کی تیاری کے مختلف مراحل متفرق ممالک میں انجام پاتے۔مدعا یہی تھا کہ چپیں بنانے پہ کم سے کم لاگت آئے۔مگر اب امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ہوس ِزمین وجاہ کے باعث یہ سہل اور انسان دوست چلن ختم ہو چکا۔لہذا عنقریب چین ہی نہیں امریکا و مغرب کے سبھی مخالفین مثلاً روس، وینزویلا، کیوبا، ایران وغیرہ کو جدید چپیں حاصل کرنے میں شدید دشواریوں پیش آئیں گی۔چین اب کوشش کررہا ہے کہ روس کی مالی وتکنیکی مدد سے چپ کے تمام مراحل انجام دینے کے قابل ہو سکے۔
پابندیاں لگنے کے بعد حکومت چین نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی واضح جواب نہیں دیا حالانکہ وہ بھی منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔وجہ یہ کہ ٹرانسسٹروں اور سیمی کنڈیکٹروں سے بنی چپ کی تیاری میں تانبا، المونیم، ٹنگسٹن، انٹیمونی، سونا اور دیگر معدنیات و دھاتیں استعمال ہوتی ہیں۔دنیا میں تانبے کے سب سے بڑے ذخائر چلی، پیرو اور چین میں ہیں۔چلی کے تانبے کا سب سے بڑا خریدار چین ہے۔
چین، چلی اور پیرو آپس میں اتحادی بھی ہیں۔لہذا یہ تینوں جب چاہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تانبے کی فراہمی روک کر وہاں چپوں کا زبردست بحران پیدا کر سکتے ہیں۔یہی نہیں، دنیا میں سب سے زیادہ المونیم چین میں ملتا ہے۔جبکہ امریکا اس چینی دھات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔المونیم کی فروخت پہ پابندی لگا کر بھی چین امریکا میں چپ کی تیاری روک سکتا ہے۔ مزید براں چین ہی دنیا والوں کو ٹنگسٹن فراہم کرنے والابڑا ملک ہے۔تیسرا نمبر روس کا ہے۔دونوں ممالک اس معدن کی پیداوار میں اجارہ داری رکھتے ہیں۔
عرض ضرورت پڑنے پہ چین اہم دھاتوں اور معدنیات کے شعبے میں اپنی سپرمیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں چپ بنانے کا سارا کام ٹھپ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
چپ کی اس جنگ میں جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان امریکا کے حواری ہیں۔ان چاروں ممالک کے ساتھ چین جنگیں لڑ چکا۔تائیوان کو تو وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔لہذا چپ کی یہ جنگ حد سے بڑھ گئی تو دنیا میں بڑی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگے گا۔تائیوان پہ چین کا حملہ تو کئی برس سے متوقع ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ چپ ٹیکنالوجی پہ امریکی پابندیوں نے چین کا دفاع خطرے میں ڈال دیا ہے۔چینی اسٹیبلشمنٹ کبھی دفاع کو کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔چناں چہ چین اب جدید ترین چپیں بنانے کی مکمل ٹیکنالوجی ایجاد کرنے کے لیے جان لڑا دے گا۔ اگر امریکا نے مزید چال بازی کی تو حالات بے قابو ہو کر عملی جنگ کی صورت اختیار کر لیں گے۔
The post امریکا کا چین پر بڑا حملہ appeared first on ایکسپریس اردو.