آج سے چودہ صدیاں قبل محسن انسانیت ﷺ کی ذات اقدس کا ظہور عین اس سرزمین پر ہُوا، جو وسیع، بے آب و گیاہ صحرا اور سنگ لاخ تھی، اس کے وسیع صحرائی میدانوں اور ناہم وار وادیوں میں کچھ سیاہ خیموں والے قبائل پہلے سے آباد تھے، جن کا رہن سہن اور معاشرت اقوام عالم سے کچھ مختلف تھا۔
بھیٹر بکریاں پالنا ان کا پیشہ تھا اور انسانیت سوزی ان کا مشغلہ، جنگ و جدل ان کا روزمرہ کا کھیل تماشا تھا، زن و مرد، بوڑھے، بچے سب اس خطرناک کھیل میں دل چسپی رکھتے تھے، ان میں سے کچھ لوگ نسبتاً مہذب تھے، ان کا پیشہ فقط مال مویشی پالنا نہیں بلکہ تجارت بھی تھا، ان کی رہائش اسلام کے اس مقدس شہر مکہ یا اس کے قرب و جوار میں تھی، کہ انوار و تجلیات کا مرکز جو وسیع تر صحراؤں اور پہاڑوں کے درمیان ایک مقدس شہر ہے جس کے درمیان ایک سیاہ پوش بلند عمارت جو تقریباً 30 یا 40 فٹ اونچی ہوگی، یہ مرکز انوار عمارت دنیا کے مسلمانوں کے لیے قبلہ ہے۔
یہ عمارت عالم اسلام کی مسلم اقوام کو عبادات کے لیے سمت کا تعین کرتی ہے، یہ پُر وجاہت عمارت (بیت اﷲ) اﷲ تعالی کے گھر کے نام سے مشہور ہے۔ جس کے قرب و جوار میں ایک اور عمارت ہے جو بیت النبی ﷺ کے نام سے پہچانی جاتی ہے، یعنی نبی مکرم ﷺ کا گھر جس میں محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذات والا صفات نے تولد فرمایا، یہ وہ گھر ہے جہاں سے آفتاب رسالت ﷺ اپنی آب و تاب کے ساتھ نکلا جس کی نورانی کرنیں فاران کی ان شعلہ اگلتی سیاہ و خشک پہاڑیوں اور دھکتے ریگ زاوں پر پڑیں، تو ان بے آب و گیاہ صحراؤں اور خیرہ کن پہاڑیوں سے ایسے چشمے پُھوٹے جن سے ویرانہ دنیا ہمیشہ کے لیے گُل گل زار بن گیا، بے حس انسانیت کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، اور دم توڑتی انسانیت پھر سے زندہ ہوگئی، کائنات کی گھٹی گھٹی سانس پھر سے رواں ہونے لگیں، وہ بادل جو اپنی تیوریاں بدل چکے تھے، باران رحمت بن کر برسنے لگے، خشک زمینوں کے دامن تر ہوگئے، بنجر و بانجھ کھیتوں نے پھر سے سبزے اگلنے شروع کر دیے، اداس فضاؤں میں نکھار آگیا۔
اس صاحب رشد و ہدایت حضور پُرنُور ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے پوری دنیا ظلم و جور کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، انسانیت کے بے گور و کفن لاشے ہر جگہ ایسے بکھرے ہوئے تھے جیسے پت جھڑ کے موسم میں خزاں کے بے رحم ہاتھوں سے پتّے بکھر جاتے ہیں، عالم عرب وحشت کی تاریکی میں غرق تھا، قیصر و کسری خون کی ہولی کھیل کر اپنی سرحدوں کو بڑھانے میں مصروف تھے، قوم بنی اسرائیل اخلاقی پستیوں میں اتر کر اپنی تمام تر ذمے داریاں فراموش کر چکی تھی، بابل و نینوا جیسی عظیم تہذیبیں نزع کے عالم میں تھیں، اعلی انسانی اقدار ماحول کی تاریکی میں گم ہو چکی تھیں۔
اور پھر ایسے ماحول میں سرور کائنات ﷺ مینار نور بن کر شاہ رائے ہستی پر نمودار ہوئے، جن کی آمد پر قیصر و کسری کے عظیم الشان محلات میں بھونچال آگیا، جن کے کنگرے زمیں بوس ہونے لگے، وہ آتش کدے سرد ہونے لگے جو ان کی عظمت کا نشان تھے، جھوٹے خداؤں کے سر ندامت سے جھک گئے جو ایک مدت سے ان عاقبت نااندیس عربوں پر حکومت کر رہے تھے۔
ارض و سماوات کا وہ عظیم رسول ﷺ جب اس دنیا میں تشریف لایا تو والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا، عرب دستور کے مطابق سیّد المرسلین ﷺ کو طائف کے پرفضا علاقے میں پہنچا دیا گیا، اب وہ شاہ کار رب کائنات ﷺ قبیلہ بنو سعد کے خانہ بہ دوشوں کے درمیان رہنے لگے۔ چند دن آپ ﷺ کو ابولہب کی باندی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا پھر آپ ﷺ کے دادا نے اپنے یتیم پوتے کے لیے دیہات کی کسی دودھ پلانے والی کی تلاش شروع کی۔
شرفاء عرب اس زمانے میں اپنے بچوں کی رضاعت اور ابتدائی پرورش کے لیے دیہاتوں کی کھلی آب و ہوا اور سادگی کو پسند کرتے تھے اور وہاں کے رہنے والوں کے اخلاق میں اعتدال اور شرافت طبع زیادہ نمایاں جوہر تھی، اور پھر دیہات کی زبان بھی درست، فصیح اور رواں تھی۔ قبیلہ بنی سعد کی خواتین بچوں کی تربیت، فصاحت و بلاغت میں بھی خاص شہرت رکھتی تھیں، ان میں حلیمہ سعدیہؓ وہ خوش بخت خاتون تھیں جن کے حصے میں کائنات کے محسن اعظم ﷺ کی پرورش اور رضاعت کی سعادت آئی۔ وہ بچوں کی تلاش میں اپنے گاؤں سے آئی تھیں، خشک سالی کی وجہ سے لوگ سخت پریشانی میں مبتلا تھے۔
رسول اکرم ﷺ کو ان سب عورتوں کے سامنے پیش کیا گیا، لیکن ان میں سے اکثر نے یہ سوچ کر کہ اگر اس بچے کے والد ہوتے تو کچھ صلے اور اچھی اجرت کی امید تھ، آپ کی طرف زیادہ التفات نہ کیا، لیکن حلیمہ سعدیہؓ کے دل میں آپؐ کی محبت پیدا ہوگئی اور وہ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کو لے کر اپنے قافلے میں واپس گئیں، اور اسی وقت آپؐ کی برکت کھلی آنکھوں انہوں نے دیکھ لی، انہیں ہر چیز میں صاف برکت محسوس ہوئی، ان کے ساتھ جتنی دودھ پلانے والیاں تھیں اب انہوں نے کہنا شروع کیا کہ حلیمہ تم کو بہت مبارک بچہ ملا ہے۔
دوسری طرف خیر و برکت کا سلسلہ برابر قائم رہا، یہاں تک کہ بنی سعد کے اس قبیلہ میں آپ ﷺ کی عمر مبارک کے دو سال پورے ہوگئے اور بی بی حلیمہؓ نے آپؐ کا دودھ چھڑا دیا، اور پھر وہ حضور ﷺ کو لے کر آپؐ کی والدہ کے پاس حاضر ہوئیں اور ساتھ ہی یہ خواہش ظاہر کی کہ کچھ مدت کے لیے ان کو اور رہنے دیا جائے چناں چہ آپؐ کی والدہ نے آپؐ کو ان کے پاس واپس لوٹا دیا۔
رسول اﷲ ﷺ اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ جنگل میں بکریاں بھی چرایا کرتے تھے، اور سادگی و جفاکشی، فطری ماحول اور گائوں کی سادہ زندگی کے ماحول میں آپؐ کی پرورش ہو رہی تھی جس میں بنی سعد کا بڑا نام تھا۔ اس کے بعد آپؐ اپنے دادا کے گوشۂ عافیت میں پرورش پانے لگے، عمر کے آٹھویں سال آپ ﷺ کے دادا بھی آپؐ کو داغ مفارقت دے گئے، وہ آٹھ سالہ درّیتیم جو عرب کے باد یہ نشینوں کو تاج دار بنانے والا تھا، جن کے ذمے ارض افلاک کی نظامت تھی۔
آپ ﷺ کے چچا نے آپ کی خدمت کا ذمہ اٹھا لیا، آپ ﷺ کی زندگی بہت ہی شدید تبدیلیوں کا تسلسل بنتی جارہی تھی صحرا میں قبیلہ سعد کے سیاہ خیمے ہفتوں بھر ناہموار پہاڑیوں پر بھیٹر بکریاں چرانا، یثرب کے باغات والی خوب صورت زمین کا تصور، ماں کی مفارقت، دادا سے بچھڑنے کا غم اپنے سینے میں لیے کائنات کا عظیم انسان ﷺ اپنے چچا کی کفالت میں شام و دمشق کے تجارتی سفر کرنے لگا، جہاں چہروں کو جھلسا دینے والی چلچلاتی دھوپ اور دھکتے بے آب و دہکتے ریگ زار تھے، ان نوکیلے پتھروں پر شب و روز سفر کرنے والا عظمت انسانیت کا پاس دار محبوب رب کائنات ﷺ تھا، جس نے کائنات کی کایا پلٹ دی، قیصر و کسری جیسی طاغوتی طاقتوں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔
آپ ﷺ کی تحریک کے خلاف مزاحمتوں کے طوفان اٹھے، جو چند سالوں کے بعد گرد کی طرح بیٹھ گئے، آخر کار وہ گھڑی بھی آئی کہ تشدد کے پہاڑ توڑنے والے عیار دشمن اس عظیم فاتح ﷺ کے حضور ندامت کے پسینے میں غرق کھڑے اپنے انجام کے متعلق فیصلہ سننے کے منتظر تھے، جب رحمت العالمین ﷺ سے عام معافی کا اعلان سنا تو حیران رہ گئے، انہیں اپنے سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا، کیا ایسے حالات میں کوئی فاتح بھی کسی مفتوح قوم کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے۔۔۔؟
آپ ﷺ کے اس کریمانہ فیصلے کا اثر یہ ہُوا کہ مکروہ ارادہ رکھنے والے دشمن دھاڑیں مار کر معافیاں مانگ رہے تھے، نعمت اسلام کی دولت سے سرفراز ہو کر جوق در جوق فرزندان اسلام کے لشکر میں داخل ہو رہے تھے، یہ بھلا کون سمجھ سکتا تھا کہ قبیلہ بنی سعد کے سیاہ خیموں میں پرورش پانے والے شب و روز شام و دمشق کے نوکیلے پتھروں اور وسیع صحراؤں کے مشکل ترین سفر کرکے تجارت کرنے والا در یتیمؐ ہشت افلاک کو روندتا ہوا عرش اولی سے وراء الوراء اس مقام تک پہنچے گا جس کی کوئی انتہاء نہیں۔
آپ ﷺ نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات عطا فرمائی اور پوری انسانیت پر احسان عظیم فرماتے ہوئے انہیں حیات ابدی کا لازوال پیغام دیا اور اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعے انہیں زندگی گزارنے کا عملی درس دیا۔ بلاشبہ! آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ پوری انسانیت کے لیے راہ نما ہے اس لیے کہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر‘‘
The post بعد از خُدا بزرگ توئی۔۔۔۔۔۔ ! appeared first on ایکسپریس اردو.