Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

مجبوری، زورازوری، بوری۔۔۔اور اب ٹیسوری

$
0
0

’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ کا محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا، اسی طرح کا ایک اور محاورہ بھی عشروں پہلے وجود میں آچکا ہے ’’ایم کیوایم ری ایم کیوایم تیری کون سی کَل سیدھی‘‘ لیکن یہ گزرے کل کی بات ہے جب کراچی کے باسی ہر کچھ دن بعد حکومت چھوڑنے اور قیادت چھوڑنے کے اعلانات سن کر گھنٹوں فکرمند رہتے تھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

رات بھر انتظار کے بعد جب وہ صبح اٹھتے تو اونٹ انھیں وہیں بیٹھا ملتا جہاں بیٹھا جگالی کر رہا تھا، البتہ اس کے سامنے چارے کا ڈھیر پڑا ضرور ملتا تھا۔ اب تو خیر ایم کیو ایم اتنی سیدھی ہوچکی ہے اونٹ کی کل کے بجائے اس پر اللہ میاں کی گائے کا محاورہ فٹ بیٹھتا ہے۔

لیکن ’’ایم کیوایم ری ایم کیوایم۔۔۔‘‘ کے جدید محاورے کا ’’ری‘‘ آج بھی اس جماعت کی پہچان ہے۔ نہیں سمجھے! ابھی سمجھائے دیتے ہیں۔ بھئی ایم کیوایم کے قیام کا سارا فلسفہ ساری منطق جن الفاظ کے گرد گھومتی ہے وہ ہیں مہاجروں کے حالات کی مجبو۔۔۔ری، پھر اس نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا تو کام یابی ملی فو۔۔۔ری، پھر تو یہ سلسلہ چلتا ہی گیا، زورازوری، قائد کی دُوری، بوری، بابر غوری، دھمکیاں اور پھر سوری۔۔۔اور اب ایم کیوایم زیربحث ہے تو وجہ ہیں کامران ٹیسو۔۔۔ری۔

ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایم کیو ایم کی طرف سے ٹیسوری صاحب کو گورنر بنانے پر سب حیران کیوں ہیں اور تنقید کس لیے ہورہی ہے۔ اس عہدے کا ان سے زیادہ حق دار کون ہوسکتا تھا وہ تو اپنی ذات میں ایم کیوایم ہیں۔

یعنی ان کا تعلق سونے کے کاروبار سے ہے اور ایم کیوایم والے ایک زمانے میں کراچی کی مٹی میں ہاتھ ڈالتے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی، چوں کہ یہ سونا چین کی معاشی ترقی کی رفتار سے بن رہا تھا، اس لیے یہ عمل چائنا کٹنگ کہلایا، ایم کیو ایم اور کامران ٹیسوری کی ترقی کی رفتار بھی لگ بھگ یکساں ہے۔

ایم کیو ایم 1984 میں بنی اور 1987 میں شہری سندھ کے سیاسی افق پر چھا گئی، ٹیسوری2017 میں ایم کیوایم میں شامل ہوئے اور اب تقریباً پانچ سال بعد اس جماعت کے ڈپٹی کنوینر اور سندھ کے گورنر ہیں۔

یہ اتنی مختصر مدت ہے جس میں بچہ پیدا ہوکر بالغ نہیں ہوپاتا، میاں بیوی ایک دوسرے کو اچھے لگ رہے ہوتے ہیں، اور فواد چوہدری پارٹی نہیں بدلتے۔ ایم کیوایم اور نئے گورنر میں تیسری مماثلت یہ ہے کہ انھوں نے فاروق ستار کو ایسے ہی چھوڑ دیا جیسے ایم کیوایم نے۔۔۔۔۔

یوں تو انھیں گورنر بنوانے کے لیے یہ مماثلت کافی ہے لیکن ایک وجہ اور بھی ہوسکتی ہے۔ ’’تقریر‘‘ کے ہاتھوں تقدیر بگڑنے کے بعد ایم کیو ایم کا رویہ اور حکمت عملیاں اتنی معذرت خواہانہ ہیں کہ اسے ’’معذرت قبول ہو موومنٹ‘‘ کہا جانے لگا ہے، اسی لیے وہ گورنر بھی ٹی Sorry لائی ہے۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ انھی کامران ٹیسوری کے باعث ایم کیوایم کے اس وقت کے سربراہ فاروق ستار اور جماعت کے دیگر راہ نماؤں میں ٹھن گئی تھی۔ فاروق بھائی نے انھیں پارٹی کی رابطہ کمیٹی کا ڈپٹی کنوینر بنادیا دیا تھا اور پھر سینیٹر بنانے پر مصر تھے، تب خالدمقبول، عامر خان اور ہم نواؤں کے نزدیک ٹیسوری پارٹی کے لیے مضر تھے۔

بات یہاں تک پہنچی کہ فاروق ستار ’’ساری خدائی ایک طرف کامران بھائی ایک طرف‘‘ کی ضد پر اڑ گئے اور برطرف کردیے گئے۔ دوسروں کی رائے کے برعکس ہمارا خیال تھا کہ ان دونوں کے تعلق کی بنیاد ٹیسوری صاحب کی تجوری اور فاروق ستار کا ساتھ کامران ٹیسوری کی سیاست میں آگے بڑھنے کی مجبوری پر استوار نہیں، بلکہ یہ فلم ’’یارانہ‘‘ کے امجد خان اور امیتابھ بچن اور ’’شعلے‘‘ کے دھرمیندر اور امیتابھ کی طرح دو پَکّے دوستوں کی جوڑی ہے۔

ان دنوں لگتا تھا فاروق بھائی اور کامران بھائی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ۔۔۔۔یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے ’’ایم کیوایم‘‘ تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔۔۔۔ گاتے گلیوں میں گھومتے ہوں گے۔ ہم تو سمجھتے تھے دونوں بچپن کے دوست ہیں عید پر ایک جیسے کپڑے پہنتے اور فوٹواسٹوڈیو جا کر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر تصویریں کھنچواتے ہوں گے۔

مطلب لنگوٹیا یار۔۔۔اسی لیے فاروق ستار ان کی خاطر لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے (واضح رہے کہ یہاں ہم نے محاورہ استعمال کیا ہے، تاہم ان الفاظ نے جن قارئین کو تخیل میں فاروق بھائی کو لنگوٹ کسے دکھا دیا ان سے اس خوف ناک تصور پر ہم تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں) لیکن اب فاروق ستار کو ایم کیو ایم سے باہر اور ان کے دوست کو پارٹی میں اتنے اندر بلکہ اتنا اوپر دیکھ کر لگتا ہے فاروق ستار سسکیوں اور ہچکیوں کے ساتھ ’’مرے دوست قصہ یہ کیا ہوگیا، سنا ہے کہ تو بے وفا ہوگیا‘‘ گارہے ہوں گے۔

فاروق بھائی کو مصطفی کمال معصوم آدمی قرار دے چکے ہیں، مستند ہے ان کا فرمایا ہوا کیوں کہ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ اپنے ’’مرکزیقین‘‘ کے سندیافتہ ہیں، یہ الگ بات کہ ان کی پاک سرزمین پارٹی یقین دہانی کے باوجود اب تک شادباد نہیں ہوسکی ہے، لیکن وہ ’’نشان عزم عالی شان‘‘ بنے اب بھی کام یابی کے دعوے کر رہے ہیں۔

فاروق بھائی اپنی معصومیت میں اپنے دوست کے بارے میں یہی سمجھتے رہے کہ ان کی طرح رابطہ کمیٹی سے رابطے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے۔

لیکن کامران صاحب۔۔۔ پیوستہ رہ شجر سے امیدِبہار رکھ۔۔۔ پر یقین رکھتے ہیں، سو کام رانی پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگری، لیکن کہنے والے کہتے ہیں یہ صبر کا نہیں جبر کا پھل ہے، جو نیوٹن کے سر پر ٹپکنے والے مشہور سیب طرح ایم کیوایم کے سر پر گرا نہیں دے مارا گیا ہے، جس کے ساتھ ہی ایم کیوایم کی قیادت کو کامران ٹیسوری میں اتنی کشش محسوس ہوئی کہ جو سب سے بڑا منصب ہاتھ آیا انھیں سونپ دیا۔

یہ بھی انھی دنوں کا ذکر ہے کہ ایم کیوایم کے راہ نما، فاروق ستار سے سینیٹر بنانے کے لیے کامران ٹیسوری کی اہلیت، صلاحیت اور قربانیوں کے متعلق سوال کرتے تھے۔ ان سوالوں کو جواز بنا کر ایم کیوایم پر بلاوجہ نکتہ چینی کی جارہی ہے۔

اس نکتہ چینی سے ہمیں بہت بے چینی ہورہی ہے، یہ بھی کوئی اعتراض ہوا، سیدھی سی بات ہے تب صلاحیت اور اہلیت نہیں تھی اب پیدا ہوگئی، اور کسی میں یہ صلاحیت کیا کم ہے کہ کھلائے سونے کا نوالا دیکھے شیر کی نظر سے، شیر کی نظر سے نہ بھی دیکھے تو دیکھنے میں شیر لگے۔

اب ہاتھ میں سونے کا نوالا ہو، ساتھ میں کسی ’’بالا‘‘ اور ’’اعلٰی‘‘ کا حوالہ ہو، منصب دلانے کے لیے وہ لانے والا ہو جس کے پاس ’’ویگو ڈالا‘‘ ہو ، تو فیصلے پر اہلیت کا سوال اٹھانے کے بجائے فیصلہ کرنے والوں کی حالت پر ترس کھانا چاہیے ظالمو! رہی قربانی کی بات تو کامران بھائی نے ایم کیوایم کی خاطر پورے کے پورے فاروق ستار بھائی قربان کردیے، اس طرح فاروق بھائی کی قربانی دو بار ہوئی، ایک بار وہ کامران ٹیسوری کی خاطر ازخود یا خودکش حملہ کرکے قربان ہوگئے، دوسری مرتبہ کامران صاحب نے انھیں قربان کردیا۔

تو کل ملا کر کامران بھائی کے حصے میں دو قربانیاں آئیں۔ سنتے ہیں جب کامران بھائی نے ان قربانیوں کا ذکر رابطہ کمیٹی کے سامنے کیا تو رابطہ کمیٹی کے ارکان نے عادتاً کامران ٹیسوری کے ہاتھ میں خدمت خلق کمیٹی کی رسید تھما کر کہا ’’کامران بھائی، کھال بھیج دیجیے گا۔‘‘

جہاں تک تعلق ہے نئے گورنر کی تعلیمی قابلیت کا تو انٹرپاس عمران اسمعٰیل صاحب کے بعد اسکول کے پاس سے بھی نہ گزرنے والا گورنر بن جائے تو بھی حیرت نہیں ہوگی۔ مگر حال ہی میں سبک دوش ہونے والے گورنر کی خوبی یہ تھی کہ ان کی طرف عمران خان مائل تھے اور وہ اپنے قائد کے ایسے قائل کہ پوچھنے والے پوچھتے تھے۔۔۔سکھائے کس نے عمران اسمعٰیل کو آداب فرزندی۔ نئے گورنر کا معاملہ مختلف ہے، وہ ایسے ’’مکتب‘‘ کی کرامت ہیں جو والدبزرگوار سے فرزند کو جھک کر آداب کرادیتا ہے۔

پھر جس نے دو ڈاکٹروں، ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی کو۔۔۔ کودا ترے گھر میں کوئی دھم سے نہ ہوگا۔۔۔ کا منظر دکھا دیا اور سبق سکھا دیا ہو اس ’’استاد‘‘ کو تعلیم کی کمی کا طعنہ دینا کون دے سکتا ہے!

جلنے والے جلا کریں کامران ٹیسوری گورنرہاؤس کے مکین ہوچکے ہیں، جہاں وہ دیواروں پر اپنے پیش رو گورنروں ممتازبھٹو، میررسول بخش تالپور، رعنالیاقت علی خاں، حکیم سعید، محمود ہارون، جسٹس قدیرالدین احمد، کمال الدین اظفر، فخرالدین جی ابراہیم کی تصویریں دیکھیں گے، ضرور دیکھیں کوئی بات نہیں، لیکن ان سابق گورنروں نے انھیں دیکھ لیا اور دیکھ کر ایک دوسرے سے کہا ’’دیکھو دیکھو کون آیا‘‘ اور ’’دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف، قائداعظم کا پاکستانیوں دیکھ‘‘ تو ہم سمیت سندھ کے عوام منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، چناں چہ ہماری تجویز ہے کہ ان تصاویر کو گورنرہاؤس سے ہٹا دیا جائے، کوئی پوچھے کیوں ہٹایا تو کہنا۔۔۔کامران آیا تھا۔

The post مجبوری، زورازوری، بوری۔۔۔اور اب ٹیسوری appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>