محلہ بلوائیوں کی زَد میں تھا، ٹرین چُھوٹ جانے کے ڈر سے خوف ناک بھگدڑ مچی۔۔۔ ماں نے اسی خوف ناک چیخ پکار کے درمیان، اپنے ڈیڑھ سال اور دو ہفتے کے بچوں میں سے بڑے بیٹے کو اپنی بغل میں مارا۔۔۔! جانے کس قیامت کی گھڑی تھی، جس نے ماں کے ہاتھوں اپنے شیرخوار بچے کو دور کرنے کا فیصلہ کرا لیا۔۔۔ مگر ماں تو پھر ماں تھی، بڑے بیٹے کو اسٹیشن چھوڑتے ہی اپنے 15 دن کے بچے کو لینے لپکی، مگر لوگ آڑے آگئے۔
بچے کی محبت میں بلبلاتی ماں کو موت کے منہ میں جانے سے روک لیا۔۔۔! کیا آپ انسانوں کی انسانوں پر ڈھائی گئی اس دہشت کا تصور کر سکتے ہیں کہ جس کے سبب شاید ہر دوسرا تیسرا خاندان کسی اپنے، کسی لخت جگر، یا محض بزرگی، علالت اور معذوری کے سبب اسے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا ہو۔۔۔! یہ ہم نے اکثر شاید قصے کہانیوں ہی میں پڑھا ہے، لیکن یہ 50 برس قبل بیتنے والی ایک سچی بپتا ہے۔۔۔ لمحے کے سیکڑویں حصے میں جب کسی کو کسی ’اپنے‘ کو چھوڑ کر دوڑنا پڑا ہوگا، اور پھر وہ تازندگی اس ’’خود غرضی‘‘ کے احساس میں رہا ہوگا۔۔۔! یہاں اس 15 یوم کے نومولود کی قسمت اچھی تھی کہ پیچھے آنے والوں میں اس کے ماموں موجود تھے۔
جنھوں نے اس کے گھر کی خبر لی کہ شاید کچھ سامان ساتھ لے جانا ہو تو اسٹیشن لے چلیں، یہاں انھوں نے چارپائی پر اپنے ننھے بھانجے کو پایا، یوں وہ بچہ بہ حفاظت اپنی والدہ سے آ ملا۔۔۔!
یہ مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے بعد وہاں بیتنے والے ’غیربنگالی‘ افراد کا واقعہ ہے، اور وہ 15 دن کا بچہ پاکستان میں فارمیسی کی دنیا کا ایک بڑا نام ڈاکٹر عبید علی تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’سقوط ڈھاکا کے بعد ’پاربتی پور‘ تمام غیربنگالی ’سید پور‘ پہنچ رہے تھے، جنگ کے سبب گھر میں چھے ماہ کا راشن جمع تھا، بس زیورات اور کچھ ضروری سامان لیا، باقی سب کچھ چھوڑ کے نکلے۔ وہ یکم دسمبر 1971ء کو اپنے ننھیال ’پاربتی پور‘ میں پیدا ہوئے، جو ڈھاکا سے ریل گاڑی میں سات گھنٹے کی مسافت پر تھا، نانا ریلوے میں ’ٹی ٹی‘ تھے۔
بلوے، فساد اور ’بلیک آؤٹ‘ کا سلسلہ تھا، ان کی پیدائش کے روز بھی گھر پر ایک راکٹ گرا تھا، لیکن گھر والوں نے کبھی مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا سوچا تک نہ تھا۔ سولہ دسمبر کو ہندوستانی طیاروں کی دھمک تھمی، تب بھی اسے فقط ’جنگ بندی‘ سمجھا، شام کو سقوط ڈھاکا کی خبر ہوئی۔ اب تربیت یافتہ بنگالی شدت پسندوں کا خوف تھا، عجیب بات ہے کہ غیر بنگالیوں کی گھر گھر تلاشی میں سابقہ ’’ہم وطنوں‘‘ سے ’تحفظ‘ کی خاطر وہاں ’دشمن‘ ہندوستانی فوج کو روکا گیا!‘‘
’’بالکل ایسے ہی جیسے 1947ء میں برطانوی اہل کار مذہبی بلوے میں ہندوستانیوں کو بچاتے ہوں گے۔۔۔!‘‘ ہمیں دفعتاً خیال آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہندوستانی فوج میں ہندو، سکھ اور مسلمان کے ساتھ ساتھ کوئی ’یوپی‘ تو کوئی بہار وغیرہ کا تھا، اس لیے بھی انھیں غیر بنگالیوں سے ایک ہمدردی سی تھی۔ اہل خانہ ’سید پور‘ میں نانا کے دوست کی معرفت ایک چھوٹے سے دفتر میں تین چار خاندانوں کے ساتھ پناہ گزین ہوئے۔
ایک ’جتھا‘ وہاں تلاشی کو آیا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ پاکستانی فوج کے تربیت یافتہ لوگ ہیں، اور ان کے پاس اسلحہ ہے، اس لیے چولھا جلانے کی لکڑیوں کے ڈھیر تک کو ہٹوا کر دیکھا، آخر ان کے ساتھ ہندوستانی فوجی ہی نے تنگ آکر کہا کہ چلو، یہاں کچھ نہیں ہے۔‘‘
بعد کے حالات کے حوالے سے ڈاکٹر عبید علی نے کچھ اس طرح بتایا کہ ’’پھر محصورین کے کیمپ قائم ہونا شروع ہوگئے، کچھ صاحب حیثیت لوگوں نے الگ بندوبست کیا، کچھ رشتے داروں کے ہاں ٹھیرے۔ بہت سے بنگالی ہم درد بھی تھے، لیکن اکثر بلوائی دوسرے علاقوں کے ہوتے، جو نقصان پہنچاتے، وہاں جتنے بھی ’غیر بنگالی‘ زندہ بچے، اس کا مطلب یہی تھا کہ انھیں مقامی آبادی ہی نے کسی نہ کسی طرح بچایا، ورنہ ہم بُرچھی تلوار سے تو آتشیں ہتھیار کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ پھر ہندوستان سے بنگالیوں کی آمدورفت کی آڑ میں بھاری رقوم کے عوض کچھ ’غیربنگالیوں‘ کو بھی سرحد پار کرائی جانے لگی۔
آٹھ نو دن کے راستے میں جنگل اور درندوں کے ساتھ بلوائیوں کے خطرات ہوتے، بنگلا بولنی ہوتی، ایسا بھی ہوتا کہ لے جانے والا خود بھی مار دیتا کہ اب واپس لے جاؤں، تو پیسے تو ملیں گے نہیں! اس لیے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جس کے لیے پیسے دیے ہیں وہ بہ حفاظت نکل پایا بھی ہے یا نہیں، سرحد پار کر کے بہت سے لوگ کراچی اور دیگر ممالک گئے۔‘‘
ہم نے وہاں دیگر علاقوں کے غیربنگالیوں کا پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہاں تو سبھی غیربنگالیوں کو ’بہاری‘ کہا جاتا، البتہ الہ آباد اور پرتاب گڑھ کے لوگ اپنے علاقوں سے نسبت زیادہ پسند کرتے۔ ڈاکٹر عبید علی کا خیال ہے کہ ’’محصورین مشرقی پاکستان‘‘ کو یہاں لانے میں بہت سے بنگالی بھی آگئے۔
آج بھی لاکھوں ’محصورین‘ وہاں ہیں اور ہم اپنے لیے لڑنے والوں کو واپس لینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ میرے نانا، نانی اور دادا یہ سب اپنے خاندانوں میں واحد تھے، جنھوں نے 1947ء کے بعد ڈھاکا ہجرت کی، باقی سب رشتے دار ہندوستان ہی میں رہے۔
ڈاکٹر عبید بتاتے ہیں کہ نانا اور دادا کی مشرقی پاکستان میں ملازمت تھی، اور ان کے آجر روکنا بھی چاہتے تھے، لیکن اب وہ پاکستان نہیں اور اب بنگلا پڑھنی پڑے گی، یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔ دوسری طرف ہندوستان میں ہمارے ہاں پیسے کی ریل پیل تھی، 1971ء کے بعد ڈھاکے سے کراچی آئے، تو لالو کھیت 10 نمبر پر کھلے آسمان کے نیچے۔۔۔! اگرچہ اس وقت پاسپورٹ تھا، اور ہر ملک میں ویزے کی ضرورت بھی نہ تھی، لیکن پھر بھی پاکستان کو ترجیح دی۔
میرے والد بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے، لیکن ان کی گفتگو میں ہمیشہ ایک تکلیف کا احساس پایا۔ بنگال میں والد نے بہت معیاری تعلیم پائی، ہم میں وہ بات نہیں۔ تب یہاں انگریزی چھٹی جماعت سے تھی، لیکن ہم بچپن سے انگریزی جانتے تھے، اسکول والے اس پر کچھ جزبز ہوتے، دیگر بہاری بچے بھی تھے، لیکن وہ اپنے مخصوص لہجے کی وجہ سے گرفت میں آتے اور ’بہاری‘ پکارے جاتے۔
اگرچہ والد کا تعلق ’یوپی‘ سے تھا، لیکن ان کے لہجے میں والدہ کی ’طرز‘ غالب تھی۔ 1975ء میں ایف سی ایریا کے فلیٹ منتقل ہوئے، چار سال کی عمر میں پہلی میں داخلہ ہوا۔ زمانہ طالب علمی میں مختلف ہم نصابی سرگرمیوں میں تمغے وغیرہ جیتتے رہے۔ اسی زمانے میں طلبہ سیاست کا حصہ بھی رہے، اور زخمی بھی ہوئے۔
شریک حیات روحی بانو کا انتخاب ڈاکٹر عبید علی کی پسند ہے، شناسائی کے بعد جلد ہی 28 جون 2001ء کو شادی ہوئی، روحی بانو بھی ہم پیشہ اور ان کی طرح ’فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘ میں ’شہری سندھ‘ کے کوٹے پر پوزیشن ہولڈر ہیں۔
سرکاری ملازمت کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’کبھی اس کا اشتیاق تھا اور نہ زیادہ پتا تھا، بس ایک شناسا کے کہنے پر امتحان میں بیٹھے، اول پوزیشن پائی اور انٹرویو میں منتخب بھی ہوگئے، 14 مارچ 2001ء کو سرکاری ملازمت کا آغاز ہوا، لوگ اسے سیاسی اثر رسوخ کا نتیجہ سمجھتے، جب کہ ایسا بالکل بھی نہ تھا۔
اپنی ’فارمیسی‘ کی تعلیم کے تذکرے پر انھوں نے بتایا کہ ’’کلاسیں تو ضرور لیتے تھے، لیکن اصل پڑھائی ایک ماہ پہلے شروع کرتے۔ ’فارمیسی‘ کے بعد ڈاکٹروں سے لڑتے جھگڑتے اپنی جگہ بنائی، پھر سرکاری ملازمت انجام دیتے ہوئے اسسٹنٹ کنٹرولر تعینات ہوئے، کہتے ہیں کہ جو ہمارے ساتھ ’اے ایس پی‘ لگے، وہ ’ڈی آئی جی‘ ہوگئے، بہت سے پروفیسر ہوگئے۔ کارپوریٹ میں بھی شاگرد اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئے، لیکن ہماری ترقی نہ ہوئی۔‘‘
’ویکسین‘ ڈاکٹر عبید علی کی دل چسپی کا ایک اہم موضوع ہے، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم پہلے جو ویکسین بناتے تھے، اب وہ بھی نہیں بنا پا رہے۔
دنیا نے کورونا کی ’ویکسین‘ بنائی، ہم یہ تھوک کے حساب سے منگا کر یہاں پیک بھی نہ کر سکے، کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ ’ایچ ای سی‘ اور میڈیکل کالجوں کی جانب سے شور بہت مچایا کہ لگتا تھا کہ ہم دنیا کو ’ویکسین‘ دینے کے لیے تیار ہیں۔ آج بھی لوگ ڈینگی اور دیگر بیماریوں کو نہیں سنبھال پا رہے۔ نہ پیسہ ہے اور نہ بصیرت ہے۔
کورونا ویکسین کے اثرات کے حوالے سے ڈاکٹر عبید علی کو ’میسنجر آر این اے‘ (Messenger RNA) کے حوالے سے شدید تشویش ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ تیکنیکی اعتبار سے باقاعدہ ویکسین نہیں، بلکہ جین تھراپی ہے، ’کورونا‘ کے حوالے سے پہلی بار اس کا جارحانہ استعمال کیا گیا۔
دوسری ویکسینوں میں مرض کے ’مردہ یا کم زور اجزا‘ بھیجے جاتے ہیں، تاکہ جسم اس کے خلاف ’اینٹی باڈیز‘ بنالے، اس میں جسم کو بہت کام کرنا پڑتا ہے اور اس کے اثرات میں دل میں خون کی فراہمی پر بھی اثر پڑتا ہے۔
’کورونا‘ کے نتیجے میں ویکسین والوں کا زیادہ مائیکرڈائیٹس (Myocarditis) یا دل پر ورم سامنے آیا۔ اتنا اثر اگر کسی اور ’ویکسین‘ میں نظر آتا، تو اس سے دست بردار ہوجاتے۔ ماضی میں ایک لاکھ میں ایک موت پر بھی ویکسین سے دست بردار ہوئے، جس میں 2008ء میں Meningococcal Vaccine شامل ہے۔
اسی طرح 1976ء میں ’سوائن فلو‘ ویکسین کے بعد ایک سنگین اعصابی عارضے کا خطرہ بڑھ گیا، جس کا نام Guillain-Barré Syndrome یا جی بی ایس (GBS) تھا۔ یہ بڑھتا ہوا خطرہ ’سوائن فلو‘ کی ویکسین لینے والے ہر ایک لاکھ افراد کے لیے تقریباً ایک اضافی کیس تھا۔
جب چار کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ’سوائن فلو‘ کے خلاف ٹیکا لگایا گیا تھا۔ امریکی حکام نے فیصلہ کیا کہ ویکسین کے ساتھ ’جی بی ایس‘ کا خدشہ پیدا ہوا ہے، جب تک اس مسئلے کا پتا نہیں چلتا، ان ٹیکوں کو روک دیا گیا۔
یورپ امریکا کے اعدادوشمار کے مطابق ’میسنجر آر این اے‘ (Messenger RNA) میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے۔ چار مہینے تک اینٹی باڈیز بنانے میں دل متاثر ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں اچانک اور دل کے دورے سے اموات بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل نے بھی کہا ہے کہ شرح اموات 25 فی صد بڑھ گئی ہے۔ ویلز اور انگلستان کے اعداد وشمار کے مطابق مارچ 2020ء سے دسمبر 2021ء تک تقریباً ایک لاکھ 34 ہزار ہزار سے زائد اضافی اموات ہوئیں، جن میں 82 ہزار مرد اور 52 ہزار خواتین شامل ہیں۔‘‘
’کورونا‘ سے صحت یاب ہونے والوں کو ’ویکسین‘ لگوانے کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر عبید علی کہتے ہیں کہ یہ سائنس کے اوپر عدم اعتماد کا نتیجہ ہے۔ ہمارا تو ’کورونا‘ کا ٹیسٹ ’’آر ٹی۔ پی سی آر‘‘ (RT-PCR) ہی غلط تھا، اور ساری باتیں اسی ٹیسٹ کے نتائج پر ہوئیں۔
اس ٹیسٹ کے ذریعے ’وبا‘ کی پیمائش کرنا غلط تھا، اس میں ’مثبت‘ ہونے کا مطلب ’کورونا‘ ہونا نہیں تھا۔ پھر جب کہ آپ خود کہہ رہے ہیں دونوں خوراک لگوا کر ’فائزر‘ کے چیف کو ’کورونا‘ ہوگیا، تو پھر ’ویکسین‘ کے بغیر امریکی جہاز میں بیٹھنے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ اس وقت ایسی بے وقوفی کی چیزیں بھری پڑی ہیں۔
ڈاکٹر عبید بتاتے ہیں کہ ’کورونا‘ کی وجہ سے دل، شوگر اور کینسر وغیرہ کے بیماروں کو نقصان پہنچا۔ پھر ’آئسولیشن‘ کی وجہ سے یہ نقصان پہنچا کہ دیگر بیماریوں کو توجہ نہ ملی، سرجری وغیرہ نہ ہو سکی وغیرہ، یوں ایک موت ’کورونا‘ میں اور ایک ’کورونا‘ کی وجہ سے ہوئی!‘
ہم نے ’ویکسین‘ کے اِن اثرات کو عالم گیر کہا، تو وہ گویا ہوئے کہ ’’دنیا میں کم ازکم اس کی پیمائش تو کر رہے ہیں، بات تو کر رہے ہیں، یہاں تو کوئی اٹھ ہی نہیں رہا، ہمارے دو کرکٹر اچانک موت کا شکار ہوئے، کوئی بات تو کرے کہ ہمارے ہاں کون سے ایسے لوگ ہیں، جو خطرے میں ہیں!
ہم نے پوچھا ’’کیا ویکسین لگوانے والے؟‘‘ تو انھوں نے کہا:
’’جو اعدادوشمار آرہے ہیں، اس کے مطابق 24 سے 50 سال کے افراد، جو پہلے سے کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہیں۔۔۔ میری یہ معلومات ’مفروضہ جاتی‘ ہیں کہ اس پر باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیے۔
’کوورنا‘ یا ’ویکسین‘ کی صورت میں ہمارا جسم بیماریوں کا آسان ہدف بن گیا ہے، اس میں ’ویکسین‘ لگوانے کی صورت میں یہ مسئلہ زیادہ ہے۔ اگر دو ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق یہی شرح رہی، تو سال 2022ء کے آخر میں کورونا کے بعد کی اموات ’کورونا‘ میں مرنے والوں کی تعداد سے دگنی ہو جائے گی۔‘‘
’’اس کا حل کیا ہے؟‘‘
وہ گویا ہوئے کہ ’’جتنا توجہ دے سکتے ہیں، اتنی توجہ دیجیے، ’بوسٹر‘ ڈوز روکیں۔ ’کورونا‘ سے نکلنے والوں کو معائنہ کرانا چاہیے، کورونا کے متاثرین کے مقابلے میں اِس کی ویکسین لگوانے والوں کو زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
ماسک لگانے اور ’کورونا‘ سے تحفظ کے حوالے سے ہمارے سوالات کے جواب میں ڈاکٹر عبید علی کہتے ہیں:
’’ہماری ناک کے بال زیادہ حساس ہیں، یہاں تو ویکسین کے بعد بھی ماسک لگا رہے ہیں، پھر ماسک پہن کر ادھر ادھر رکھنا اور غلط تھا۔ بہت سے ماسک لگانے والے بھی ’کورونا‘ کا شکار ہوئے۔ ’کورونا‘ کا تحفظ یہ تھا کہ متاثرہ افراد کو روکا جاتا، ہر ایک کو بند کرنا درست نہ تھا۔
پھر کورونا کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے سے علاحدہ رکھنے کی کیا منطق تھی؟ ہمیں پہلے وائرس کے پھیلنے کی رفتار اور شرح دیکھنی چاہیے تھی، یہاں واضح تھا کہ ’کورونا‘ اس طرح نہیں پھیل رہا۔ قدرت کے نظام کو قدرت ہی سے سمجھیے۔ یہ وائرس افغانستان میں نہیں پھیلا، کیوں کہ ان کے جسم میں ہر طرح کے وائرس گئے اور سب کے خلاف مدافعت پیدا ہوگئی۔
سوئیڈن نے ’کورونا‘ ہرڈ ایمونٹی (Herd Immunity) سے ختم کیا، یعنی وائرس جتنے لوگوں میں پھیلے گا، تو پھر اس کے امکانات اتنے کم ہوں گے۔
جیسے حج پر پوری دنیا کے آدمی وائرس اور جراثیم لاتے ہیں، ہر حاجی یہ اپنے وطن لے جاتا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے، یہاں نہ وائرس ختم ہوں گے اور نہ ہم۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے سوچا سارے وائرس کو مار دیں، وہی اب سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔‘‘
ہم نے لگنے والی بیماریوں کا استفسار کیا ، تو انھوں نے ہماری معلومات یوں بڑھائیں:
’’اگر کسی مرض کے پھیلنے کی شرح اور اموات زیادہ ہیں، جیسے ایبولا (Ebola) میں شرح اموات 90 فی صد تھی، تب بندشیں ضروری ہیں، اگر وائرس باہر نکل گیا، تو پھر اسے پھیلنے دیجیے اور اس کا علاج ڈھونڈیے۔ ایک قسم کے وائرس کی ویکسین اسی طرز کے دوسرے وائرس کے لیے بھی کافی ہوتی ہے، لیکن لوگ افواہ پھیلاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عبید علی بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے ہاں 2019-2020ء میں ’ڈبلیو ایچ او‘ (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) سے ٹائیفائیڈ کی اینٹی بائیوٹک دوا اسکول میں بچوں کو کھلائی گئی، 92 لاکھ خوراکیں دی گئیں۔ جس پر مجھے سخت اعتراض تھا، صحت مند بچوں کو اینٹی بایوٹک کھلانے سے ان کے مفید جراثیم بھی ختم ہوگئے۔
پھر اگر یہ حفاظتی اینٹی بایوٹک کارگر تھی، تو 2022ء میں ہمارے ہاں ٹائیفائیڈ کی دوا دگنی کیوں فروخت ہوئی؟ دراصل یہاں ایک کردار آیا، چار آدمیوں کو خریدا اور کام کر کے چلتا بنا، جنھوں نے مطالعہ کرنا تھا، مطالعہ کر لیا اور جو اعداد وشمار لینے تھے، وہ لے گئے۔۔۔! ٹائیفائیڈ کی ویکسین امریکا کو کیوں نہ لگائی؟ شہر کے ایک بڑے نجی اسپتال نے کہا کہ یہ پاکستان کی بیماری ہے، آخر وہ اسپتال کیوں ٹائیفائیڈ میں اتنی دل چسپی لے رہا ہے؟ کیوں کہ ڈونر نے پیسے دے دیے، ہماری قوم کو لگوانا شروع کر دی۔ صرف پانچ، چھے لوگوں سے ’ڈبلیو ایچ او‘ کو آگے پیچھے کرنا بہت آسان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سائنس پر مارشل لا لگایا ہوا ہے، باقی دنیا تو اس کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے، لیکن ہمارے ہاں بہت بری صورت حال ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبید علی کو شکایت ہے کہ ’’ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ’کورونا‘ کی ویکسین بنانے کی بڑی خبریں تو شایع ہوئیں، لیکن کوئی آج یہ بھی پوچھے کہ وہ ویکسین کہاں گئی؟ اگر آپ نے سائنس کا کام کیا ہے، تو سائنس کے فورم پر پیش کیجیے، ہمارے بہت سے ماہرین نہ وائرس سمجھتے ہیں نہ دوا، وہ پریس کانفرنس کرتے ہیں، آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مجھ سے ٹی وی پر سائنس پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے! دنیا میں ’کورونا‘ سے پہلے تک موت کی تیسری بڑی وجہ ’میڈیکیشن ایرر‘ (غلط دوا) ہے، کورونا کے بعد شاید پہلی وجہ ہو۔‘‘
ہم نے دریافت کیا کہ ’’کیا ’کورونا‘ والوں سے دور نہیں رہنا چاہیے تھا؟‘‘ تو وہ گویا ہوئے کہ ’’کورونا میں مبتلا لوگوں سے احتیاط ضروری تھی، لیکن بغیر علامت کے ’کورونا‘ کا شکار قرار دینا درست نہیں، بند گھروں میں بھی یہ ٹیسٹ مثبت آرہا تھا، پھر علامت کے بغیر تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ جسم میں بغیر کسی اثر کے صرف مفید وائرس ہی رہتا ہے۔‘‘
’’لیکن اگر ہمارا یہ وائرس کسی دوسرے کو نقصان دے جائے؟‘‘ ہم نے وبا کے دنوں میں بہ کثرت سامنے آنے والا خیال ان کے روبرو کیا تو وہ کہنے لگے کہ ’’اس ممکن کو ناپنا چاہیے تھا، مختلف بڑی بیماریوں والوں کو زیادہ خیال رکھنا چاہیے تھا، وائرس تو کہیں نہیں جاتا، اور جب ویکسین آگئی تو پھر بات ختم۔ دراصل ہمارا ٹیسٹ غلط تھا۔
پھر یہ وائرس ماسک سے نہیں رکتا۔ جیسے پہلے موذی مریضوں کو صحت یابی تک لال جھنڈا لگا کر آبادی سے الگ رکھتے تھے، ہمیں بھی متاثرہ لوگوں کو گھروں ہی میں روکنا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں ایک عام فرد بھی اس کے شدید خوف سے متاثر ہوا، اسے ’ماس سائیکوسس‘ کہتے ہیں۔‘‘
’کورونا‘ میں بڑی اموات کی پیش گوئیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر عبید کہتے ہیں کہ ’’اب کوئی بڑا خطرہ بھی ہوگا، تو اعتماد کرنے کا مسئلہ ہوگا۔ ’کورونا‘ میں پوری قوم ماسک لگانا ہے یا اتارنا ہے میں پھنس گئی۔ یہ پتا چل گیا کہ کون سا جملہ پھیلائیں گے، لوگ گھر میں بیٹھ جائیں گے اور کون سے جملے سے باہر آجائیں گے۔
جیسے ایک نجی چینل نے کہہ دیا تھا کہ فلاں مشہور نہاری والا گدھے کا گوشت کھلا رہا ہے، وہاں سناٹا ہوگیا! کسی نے نہیں سوچا کہ اتنے گدھے آئیں گے کہاں سے، اور تب گدھا بہت مہنگا بھی تھا، لیکن عوام بھی خوشی خوشی افواہوں کا شکار ہونا پسند کرتے ہیں۔
’کورونا‘ کی وجہ سے ایک بزرگ خاتون کو بچوں نے الگ تھلگ ڈال دیا۔ ایک دن ان کی سانس اکھڑ رہی تھی، پتا چلا انھیں شوگر تھی، دو دن سے کچھ کھایا نہیں، مگر روزانہ نرس انھیں ’انسولین‘ لگا جاتی تھی، جس سے صحت خراب ہوئی۔
اور وہ انتقال کرگئیں! اب یہ کون بتائے گا کہ وہ ’کورونا‘ سے نہیں بلکہ غفلت اور الگ ڈال دینے سے مریں! دراصل انگریزوں نے یہاں رویوں کا مطالعہ کیا اور ہمیں بہت سی چیزیں دیں، جیسے انگریزی زبان، آج پورا نظام عدالتوں تک اسی میں پھنسا ہوا ہے، اسی میں دیکھتے رہتے ہیں کہ فلاں لفظ کا کیا مطلب نکل رہا ہے، یا نہیں، جج کو ’می لارڈ‘ نہ کہیں تو جج ناراض ہوجاتا ہے۔ ہم نے ان چیزوں کو کبھی چیلنج بھی نہیں کیا۔
نشستیں خالی چھوڑ دیں، مگر ’ایم فل‘ میں داخلہ نہیں دیا!
جب ڈاکٹر عبید علی نے جامعہ کراچی میں ’ایم فل‘ کے لیے ’فارمیسی‘ میں داخلہ لینا چاہا، تو وہاں نشستیں خالی چھوڑ دیں، لیکن ان کی طلبہ سیاست کے پس منظر کے سبب ان کا داخلہ روکا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک وہ وقت تھا کہ جب وائس چانسلر ہمارے گھر پر آتا تھا۔
ایک تقریب میں بطور طالب علم جب جامعہ کراچی کی حدود میں قائم نجی تعلیمی ادارے ’آئی بی اے‘ (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کو امیروں کی جگہ کہا، تو ڈاکٹر عبدالوہاب تب وائس چانسلر کا اضافی چارج لیے ہوئے تھے۔
انھوں نے تقریر کی کہ میں تمھیں ابھی ’آئی بی اے‘ میں داخلہ دیتا ہوں، لیکن میں نے شکریے کے ساتھ موقف اپنایا کہ اس کی ضرورت نہیں، اس کی وجہ سے ہونے والے مسائل حل کیجیے، وہ ’فارمیسی‘ میں آکر ’ڈین‘ سے نہیں ’اسٹوڈنٹ عبید‘ سے ملتے تھے۔
میں اپنی تنظیم کا واحد رکن تھا، جو ’جمعیت‘ کو بھی قبول تھا، یوں جامعہ کراچی کے ’انجمن طلبہ اتحاد‘ کی جانب سے بھی آگے رہا۔ جب ’فارمیسی‘ میں بات نہ بنی تو ایم فل کے لیے ’بائیو کیمسٹری‘ کا رخ کیا، وہاں ’ایم فل‘ سے پہلے ’ایم ایس سی‘ کے مساوی کورس کرائے، جہاں میں نے اپنے کوچنگ کے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ کر امتحان دیا۔
میں پہلا فارمسسٹ تھا، جس نے بی ایس سی، فارمیسی، ایم ایس سی اور پھر ایم فل ’بائیو کیمسٹری‘ میں کیا۔ ’ایم فل‘ پروفیسر درخشاں حلیم کے زیرنگرانی ’نیورو کیمسٹری اور نیورو فارموکولوجی، (Neurochemistry and Neuropharmacology) پر کیا، جس میں چوہوں پر نفسیاتی دوائوں کے اثرات کا جائزہ لیا۔
اب تو ’ایم فل‘ تماشا ہوگیا، پہلے باقاعدہ عملی تجربوں کا نتیجہ ہوتا تھا۔ ’پی ایچ ڈی ‘ کے وقت ڈاکٹر ظفر سیفی شیخ الجامعہ ہو چکے تھے اور حالات بہتر تھے، چناں چہ ’فارمیسی‘ سے انھی کے زیرِنگرانی ’دوائوں کے معیار اور اسے برقرار رکھنے کی سائنس پر‘ مقالہ لکھا۔ پھر پوسٹ ڈاکٹریٹ کا مرحلہ رہا، بین الاقوامی سطح پر امریکا، کینیڈا اور یورپ وغیرہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ’ویکسین‘ کا ’ریویو‘ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
اسے جانچنے اور پرکھنے کی ٹیم کا بھی حصہ رہا، کوریا کے ’ویکسین سینٹر‘ میں بھی وقت گزارا۔ ڈیڑھ سال ’ڈریپ‘ (DRAP) کی ’ایکسپرٹ کمیٹی آف بائیولوجیکل ڈرگز‘ کا سیکریٹری رہا، جہاں مختلف بیماریوں میں کار گر ’ویکسین‘ کے ’ریویو‘ میں حصے دار بنے، پاکستان میں ویکسینیشن کے حوالے سے امور کی قیادت کی۔
بزرگوں کے ظلم کا خمیازہ۔۔۔؟
ڈاکٹر عبید علی اپنے آبا واجداد کے حوالے سے کچھ یوں انکشاف کرتے ہیں:
’’ہمارے پردادا کے والد مسلمان ہوئے، یوں ہمارے ابو کے داد حبدار علی پہلے پیدائشی مسلمان تھے۔ وہ رکن پارلیمان تھے، ان کا یوپی میں بڑا اثر رسوخ تھا، ہندو مسلم مل کر رہتے، جھگڑا شاید جاگیرداری کا ہوتا تھا۔ ہمارے بڑوں نے وہاں شدت سے حکم رانی کی، ظلم کیا، جس کی وجہ سے خاندان کو بعد میں ساری مشکلات دیکھنی پڑیں، قدرت تو توازن قائم کرتی ہے۔
خاندان نے کہاں سفر کیا، کس گھر سے نکلے، کیا کیا حالات دیکھے۔ ہمارے نانا ایتھلیٹ تھے، جن کی خواجہ ناظم الدین کے ساتھ تصاویر ہیں، نانا نے جناح صاحب سے ملاقات بھی کی۔ ہماری دادی کبھی ابو کے دادا حبدار علی کے ظلم کی داستانیں سناتی تھیں، کہ کوئی بھی ہندو یا غریب آدمی بیٹھ کے سامنے سے گزرے گا۔
وہ جوتی ہاتھ میں اٹھا کر جائے گا۔۔! پھر وہ بھی ایک دشمن کے شبہے میں قتل ہوئے کہ چارپائی بدلی ہوئی تھی، اور حملہ آور نے سوتے میں وار کیا، ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور پھر وہ اسی میں جان سے گزر گئے۔ مارنے والا معافی مانگنے آیا تھا، اور انھوں نے معاف بھی کر دیا تھا۔
ہماری دوائیں بیرون ملک کیوں نہیں جاتیں؟
ڈاکٹر عبید علی بتاتے ہیں کہ ’سول سروس‘ کے دوران وہ مختلف عہدوں پر رہے، ادویہ سازی کی پالیسیوں اور معیار سے لے کر ویکسین کے حوالے سے مختلف اہم ذمہ داریاں ادا کیں، مختلف سرکاری اداروں کے ساتھ کام کیا، جن کے توسط سے منتخب اداروں اور عدالتوں میں اپنے شعبے کی نمائندگی بھی کی۔‘
ڈاکٹر عبید علی کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کی کسی کمپنی کی کی دوا بیرون ملک نہیں جاتی، حتیٰ کہ امریکا اور لندن سے چلنے والی کمپنیاں بھی اپنی یہاں کی ’ساتھی کمپنیوں‘ سے دوا نہیں خریدتیں! ہماری دوا معیار کی ضرور ہیں، لیکن دوا بازار میں لانے کے وعدے اس معیار پر نہیں پرکھے گئے، جس پر پرکھنے چاہیے تھے۔ اس کے لیے بہت پیسے، ارادہ اور اہلیت چاہیے، جو کہ موجود نہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی نے اس پر سوال کیے، ہماری خواہش تھی کہ دوائیں باہر بھی جائیں۔ دوا پر جو مقصد درج ہے، وہ پورا ہو۔
نتیجتاً ہمیں تبادلے سہنے پڑے، بیگم کو کوئٹہ بھیجا اور ہمیں کہیں اور۔ ایسی غلط جگہوں پر تعیناتی ہوئی کہ وہ اسامی موجود ہی نہ تھی۔ اس میں کافی حرج ہوا۔ پھر یوں ہوا کہ 108 دن کی چھٹی اور ٹی وی چینل پر بات کرنے کے الزام میں ملازمت سے نکال دیا گیا، ہم ’سروس ٹریبونل‘ گئے، جہاں فیصلے سے پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بحالی کا حکم ملا، مگر چھے ماہ بعد دوبارہ انھی الزامات پر بھیج دیا۔ اب بھی خط وزیراعظم ہی کی طرف سے آیا، دراصل جب عمران خان جا رہے تھے، اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے یہ کارروائی کر ڈالی۔ الزامات وہی ہیں، اب مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔‘‘
ادویہ سازی کے حوالے سے ڈاکٹر عبید علی کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں کہ ’’میں آج بھی اس چیز کے خلاف ہوں کہ آپ بطور ریگولیٹر اتھارٹی، صدر، وزیراعظم یا وزیر وغیرہ کسی بھی ’ادویہ ساز‘ سے باقاعدہ طور پر پیسے یا چندہ لیں! کہ پھر آپ ’ادویہ ساز‘ کے خلاف بات کیسے کر سکیں گے۔ نتیجتاً مریض ہی متاثر ہو رہا ہے، ہم بنیادی دوائیں بنانے کے قابل نہیں رہے، یہاں ایک ہی دوا پانچ کمپنیاں الگ الگ قیمت پر بنا رہی ہیں۔ ہم دوا کی قیمت اور معیار پر کام کرتے تھے، جس سے تاجر متاثر ہوتا تھا، جو بہت طاقت ور تھا۔
ڈاکٹر عبید علی کو اقوام متحدہ کے ساتھ کام اور تربیت کا موقع بھی ملا، وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان‘ ڈرپ (DRAP) میں چیف ایگزیکٹو کے منصب کے لیے انھوں نے بھی درخواست دی، لیکن جب بھی انٹرویو کی بات ہوتی، کسی نہ کسی طرح رکاوٹیں پیدا کر دی جاتی ہیں۔
امتحان کے قریب پتا چلا داخلہ ’’جعلی‘‘ ہے!
ڈاکٹر عبید علی بتاتے ہیں کہ 1986ء میں میٹرک کے بعد اردو سائنس کالج میں داخلہ لیا۔ پھر فروری 1987ء میں پولیس سے مار پڑی، دراصل ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ یونین پر پابندی کے حوالے سے احتجاجی ریلی کا پروگرام کر رہی تھی، وہ بھی شبہے میں دھر لیے گئے۔
پولیس کو دیکھ کر بھاگے نہیں، کہ انھوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ پھر فیروزآباد تھانے میں رہے، نام وغیرہ پوچھا گیا، تو انھیں خوف ہوا کہ خبرنامے میں اگر یہ خبر نشر ہوگئی، تو گھر میں مسئلہ ہو جائے گا، تب آج کے جماعت اسلامی (سندھ) کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے انھیں چھڑوایا، راستوں کی خبر نہ تھی، کسی طرح تین ہٹی جانے والی بس ملی، تو گھر پہنچے۔ اردو کالج سے انٹر اور ’بی ایس سی‘ کیا، پھر جامعہ کراچی میں فارمیسی کے طالب علم ہوگئے، عین امتحانات کے قریب داخلے کے سارے کاغذات ’’غائب‘‘ ہوگئے۔
کہا گیا کہ داخلہ جعلی ہے! کہتے ہیں کہ آخر دوبارہ مارکس شیٹ نکلوائیں، لوگ امتحان کی تیاری کر رہے تھے اور میں یہ ساری بھاگا دوڑی۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس ناصر اسلم زاہد کو خط لکھا، انھوں نے رجسٹرار سے جواب طلبی کی، لیکن اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالوہاب نے مسئلہ حل کر دیا۔
1995ء میں فارمیسی مکمل ہوئی۔ امریکا جانا ہدف تھا، لیکن مطلوبہ ’بینک بیلنس‘ نہ تھا، سو ویزا نہ ملا۔ جاپان سے ایک ’تعلیمی وظیفہ‘ ملا، لیکن جامعہ کراچی سے مراسلہ نہیں بھیجا گیا تو وہ بھی رہ گیا۔ 2001ء میں سرکاری ملازمت سے پہلے دی کڈنی سینٹر، مرشد اسپتال، ہمدرد میڈیکل یونیورسٹی، کتیانہ اسپتال، ضیاالدین میڈیکل یونیورسٹی وغیرہ میں خدمات انجام دیں۔
کیا گولی آدھی کرنی چاہیے؟
ڈاکٹر عبید علی ادویہ سازی کی صنعت کو بڑھانے کے لیے معیار کی بہتری پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں تاکہ دنیا اعتماد کرے۔ قیمت سے لے کر معیار تک، بہت سی چیزیں قابو سے بہت باہر ہیں۔ دوائوں سے کتنے لوگوں کو فائدہ اور کتنوں کو نقصان ہوتا ہے، کچھ پتا نہیں۔ ہمیں دوا کی مقدار کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
اگر کوئی گولی آدھی کرنی ہے، تو پوری نصف سے آدھی ہو اور پھر یہ یقینی ہو کہ برابر حصوں میں اجزا کی مقدار بھی یک ساں ہے، اس لیے اگر تجویز کیا گیا ہو تو ہی گولی آدھی کریں، ورنہ نہیں، کیوں کہ بعض مواقع پر مقدار کا کمتی بڑھتی ہونا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے، یہ سارے معیار اور تحفظ وغیرہ کے معاملے ہیں۔
’فارمسسٹ‘ خود کو ’ڈاکٹر‘ نہیں لکھے!
’فارمیسی‘ کے بعد ڈاکٹر عبید علی کام کے لیے نکلنے کا احوال کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر ہمیں تسلیم نہیں کرتے تھے، ’بی فارم‘ کو ’بی کام‘ سمجھتے، فارمسسٹ کہو تو ’پامسٹ‘ کہتے۔۔۔!‘‘
عبید علی ’ڈاکٹریٹ‘ کے تعلق سے اپنے نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’صحت کے نظام میں ڈاکٹر کا مرتبہ قائدانہ ہے، کسی کے نمبر زیادہ آتے ہیں، تو وہ ڈاکٹر بنتا ہے۔
’فارمیسی‘ والے اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں، شاید ہی کوئی ڈاکٹر اپنے بچوں کو ’فارمیسی‘ میں لانا چاہتا ہو، یہ حقیقتیں ہیں۔ ہمارے پاس ڈاکٹروں کی ایک فہرست ہے، فارمسسٹ کی کوئی فہرست نہیں۔ فارمسسٹ نے اپنے نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لگا کر پہلے ہی سے خفا ’ڈاکٹر برادری‘ کو اور ناراض کیا۔ کوئی ڈاکٹر کا پوچھے تو بتاتے ہیں کہ نہیں ہم ’فارمیسی‘ والے ڈاکٹر ہیں۔
’ڈاکٹر‘ کہہ کر ہم نے فارمیسی کا پیشہ تباہ کر دیا، کہا ہماری تو ڈگری ہی ’ڈاکٹر آف فارمیسی، ہے، ہم کیوں نہ لگائیں، بات صحیح ہے، لیکن دنیا بھر کی روایت میں ڈاکٹر ’فیزیشن‘ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ، فارمیسی ایک آرٹ ہے! گاڑی چلانا کمپیوٹر پر یا سرجری کاغذ پر نہیں سکھا سکتے۔ ایک ’ڈاکٹر‘ اور ’فارمسسٹ‘ کا فاصلہ یہ ہے کہ فارمسسٹ پریکٹس کو برا سمجھتا ہے اور پروفیسر بننا چاہتا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ میں اپنے پائوں پر کھڑا ہوں اور دوا دے کر اس کے بارے میں بتائوں کہ اِسے ایسے ایسے کھائیے۔
مشق کا فرق آئے گا۔ ’ایچ ای سی‘ کے معیار نے ذہانت کو قتل کر دیا۔ تین، چار سال کا ’فارمسسٹ‘ پڑھا نہیں سکتا، ’ایم فل‘ یا ’پی ایچ ڈی‘ ہی پڑھائیں گے، جیسے غالب آجائیں تو وہ اردو نہی پڑھا سکتے کہ ایم فل نہیں کیا ہوا! ہمارے فارمسسٹ ان لوگوں سے پڑھ رہے ہیں، جنھوں نے خود عملی کام نہیں کیا۔
اگر آپ ’لاگو‘ نہیں کر رہے تو وہ ’معلومات‘ ہے ’علم‘ نہیں، معلومات تو بہت سوں کے پاس ہے، سو ڈاکٹر اور فارمسسٹ میں یہی فرق رہا۔ فارمیسی والوں کو جگہ مل جاتی ہے کہ وہ کیمسٹری اور اینیلٹیکل کیمسٹری وغیرہ بھی جانتے ہیں۔ ’فارمسسٹ‘ ہوگا، تو ’صنعت‘ چلے گی، حال یہ ہے کہ فارمیسی کے 100 سے زائد اداروں میں ایک کتاب بھی ہمارے لوگوں کی نہیں!
The post دسمبر تک ’بے وجہ اموات‘ کی تعداد ’کورونا‘ کی اموات سے دگنا ہونے کا اندیشہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.