افغانستان پر طالبان حکومت قائم ہوئے ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ نئے حکمرانوں کے بارے میں دو مختلف آرا ظاہر ہورہی ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اپنے پچھلے دور حکومت سے مختلف انداز میں حکمرانی کر رہے ہیں ، جبکہ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ نہیں ، وہ اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے معروف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ طارق حبیب افغانستان پہنچے۔
انھوں نے وہاں طالبان کے ماتحت افغانستان دیکھا ، طالبان کی اعلیٰ قیادت ، دیگر افغان رہنماؤں بالخصوص حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے ملاقاتیں کیں، اہم کاروباری شخصیات سے ملے۔ اس دوران میں مضمون نگار طالبان کے افغانستان کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور اس سب کچھ کا احوال تحریر کیا۔ ( ادارہ )
٭٭٭٭٭
تیسری قسط
گلبدین حکمت یار ہال میں داخل ہوئے تو سب کی نظریں ان پر تھیں۔ انتہائی سادگی سے چھوٹے قدم اٹھاتے وہ صحافیوں کی جانب بڑھے۔ نفاست سے بندھی ہوئی سیاہ پگڑی جو افغانوں کی پہچان ہے، سرمئی رنگ کی شلوار قمیض پر سیاہ کوٹ، سفید داڑھی اور چہرے پر ہلکی سی خوشگوار مسکراہٹ، ان کی شخصیت میں عاجزی جھلکتی تھی۔
محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہ شخص ہیف جو دو سب سے بڑی عالمی طاقتوں کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق برسرپیکار رہا ، اسے اس وقت تک سکون نہ ملا جب تک وہ اس کی سرزمین سے نکل نہیں گئے۔ ان کے ہشاش بشاش اور تر وتازہ چہرے پر کہیں تکان کے آثار نہ تھے۔
ان کی آنکھوں کی چمک آج بھی بالکل ویسی ہی تھی جیسی جنگ کے میدانوں میں ان کی تصویروں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔
وہ نپے تلے انداز میں چلتے ہوئے صحافیوں تک پہنچے اور ہر ایک سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ ہر صحافی، کیمرہ مین، ڈرائیور اور دیگر افراد سے ملنے کے بعد وہ ہال میں کتابوں کی الماریوں کے سامنے لگائی گئی کرسی پر براجمان ہوئے۔ دیر تک وہ خاموشی سے تمام صحافیوں کا جائزہ لیتے رہے۔
اسی دوران اسحاقی صاحب کی ہدایت پر تمام مہمانوں کو قہوہ پیش کیا گیا۔ ہم قہوہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ساتھ ساتھ گل بدین حکمت یار کی جانب سے گفتگو سے آغاز ہوا۔ حکمت یار پشتو میں گفتگو کر رہے تھے جس کا ترجمہ ’ پاک افغان یوتھ فورم ‘ کے برادرم شاہد خان کر رہے تھے۔ مجھے علم تھا کہ حکمت یار بہت اچھی اردو بول لیتے ہیں ۔
اس کا اندازہ باقی ساتھیوں کو بھی اس وقت ہوا جب انھوں نے اپنی بات چیت کا ترجمہ کرنے کے دوران مترجم شاہد خان کی متعدد بار تصیح کرائی اور بتایا کہ ان کی بات کا اصل مطلب یہ ہے۔ اسی دوران میں سوال جواب بھی ہوتے رہے۔ گفتگو کے اختتام پر مجھے حکمت یار سے انفرادی طور پر ملاقات کا موقع بھی ملا ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا۔
گلبدین حکمت یار کا کہنا یہ تھا کہ حزب اسلامی ہمشہ افغانستان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار رہی ہے اور آج بھی عوامی سطح پر مضبوط جڑیں رکھتی ہے۔
روس کی شکست کے بعد ہم خانہ جنگی کا شکار ہوگئے تھے، پھر طالبان آئے جنھیں دنیا نے قبول نہیں کیا اور پھر امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوگیا۔ ہم امریکہ کے خلاف مسلح جدوجہد میں صف اول میں شامل رہے۔ ہم دو سال اس وقت تک امریکہ کے خلاف حالت جنگ میں تھے جب طالبان اپنی بکھری قوت کو سمیٹ کر جمع کر رہے تھے اور اپنے اہل خانہ کو بچانے کی تگ و دو کررہے تھے۔
روس کے خلاف جہاد کے آغاز پر بھی روس کا پہلا ہدف حزب اسلامی ہی تھی اور امریکہ نے پہلا وار بھی حزب اسلامی پر ہی کیا تھا۔ دونوں عالمی طاقتیں حزب اسلامی ہی کو اپنا اصل دشمن سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ افغان نوجوانوں میں بیداری کی لہر صرف اور صرف ہماری پارٹی ہی پیدا کرسکتی ہے۔
مجھ پر ہونے والے راکٹ حملے اس بات کا ثبوت رہے کہ حزب اسلامی افغان دشمنوں کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ اب جب کہ غیر ملکی تسلط ختم ہوچکا ہے تو حزب اسلامی بھی سیاسی جدوجہد کی جانب آچکی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ہم عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے مختلف اقدامات کررہے ہیں۔ حزب اسلامی کی جانب سے اپنے زیر اثر علاقوں میں نوجوانوں میں تعلیم کے رجحان کو بڑھانے کے لیے اور مثبت سرگرمیوں کی جانب متوجہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں اور باقاعدہ پروگراموں کی صورت میں منظم سرگرمیاں ترتیب دی جا رہی ہیں۔
جب میں نے ان سے سوال کیا کہ ماضی میں جب افغانستان میں خانہ جنگی جاری تھی اور اسی خانہ جنگی کے دوران طالبان نے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے پیش قدمی شروع کی تھی تو اس وقت حزب اسلامی نے جنگ سے گریز کرتے ہوئے اپنے زیر اثر علاقے بھی طالبان کے حوالے کردیے تھے۔ کیا اب سیاسی میدان میں بھی حزب اسلامی طالبان کے مقابلے میں اثر رسوخ سے دستبردار ہوجائے گی؟
جس پر انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی حزب اسلامی خون ریزی کے خلاف تھی اسی وجہ سے طالبان کو راستہ دیا تھا اور آج بھی خون ریزی کے خلاف ہے اس لیے طالبان کے خلاف کسی مسلح مزاحمت کا نا صرف حصہ نہیں بنے گی بلکہ ایسی کسی مزاحمت کو پنپنے بھی نہیں دے گی۔
گلبدین حکمت یار اس بات پر زور دے رہے تھے کہ طالبان نے اس وقت عبوری حکومت قائم کر رکھی ہے جس کی جگہ فوری طور پر آئینی حکومت قائم کی جانی چاہیے۔ پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آنا چاہیے یا پھر شورائی نظام کی جانب جانا چاہیے مگر فوری طور پر ایسی حکومت قائم ہونی چاہیے جسے سب تسلیم کریں۔ جب ہم اپنے ملک میں، اپنے گھر میں نظام ٹھیک کرلیں گے تو باہر والوں کو انگلیاں اٹھانے اور اعتراض کرنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ افغانستان کی تمام جماعتیں عوام میں جائیں اور ان کی حمایت حاصل کریں جس کے بعد انتخابات کرائے جائیں اور اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ مداخلت کر رہا ہے اور چاہتا ہے این آر ایف نامی اتحاد کو دوبارہ افغانستان پر مسلط کردیا جائے۔
یہ اتحاد دراصل پٹے ہوئے مہروں پر مشتمل ہے اور یہ وہی چہرے ہیں جو ماضی میں امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ اب امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان انھیں اپنی حکومت میں شامل کرلیں۔
امریکہ کا یہ مطالبہ سراسر نا سمجھی پر مبنی ہے۔ طالبان نے جن کے خلاف جنگ کی ہو انھیں کیسے اپنے ساتھ بٹھا سکتے ہیں! اگر امریکہ ان پٹے ہوئے مہروں کو اقتدار دلانا چاہتا ہے تو اسے دو تین لاکھ فوج لے کر دوبارہ افغانستان پر حملہ کرنا ہوگا پھر شاید وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ گلبدین حکمت یار سے جب پوچھا گیا کہ کیا حزب اسلامی موجودہ طالبان حکومت میں شامل ہوسکتی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ حزب اسلامی طالبان حکومت میں شامل ہوگی نہ ہی طالبان مخالف کسی تحریک حصہ بنے گی کیونکہ افغانستان اب مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر کسی نے باہر سے افغانستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ہم ایک بار پھر میدان جنگ میں ہوں گے۔ حکومت کے قیام کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تمام جماعتیں عوام کے پاس جائیں اور ان کی مرضی کے مطابق حکومت بنائیں۔
پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان گرم و سرد تعلقات کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف افغان طالبان کے کارروائی سے گریز پر ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے انتہائی محتاط انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان دراصل پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان ایک کانٹے کی طرح ہے جو مسلسل چبھن پیدا کر رہا ہے۔
اگرچہ طالبان حکومت نے کوشش کی ہے کہ پاکستان حکومت کے ساتھ مل کر تحریک طالبان کا مسئلہ حل کرلیا جائے مگر بدقسمتی سے ابھی تک ایسا ہونہیں سکا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی وہ فضا نہں بن سکی جو ماضی میں قائم رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو تاکہ دونوں ممالک کے دیرینہ دوستانہ تعلقات ایک بار پھر اپنا عروج دیکھیں۔
پاکستان سے ہمارے ہمیشہ سے اچھے تعلقات رہے ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ اب اگر کوئی دہشت گرد گروہ پاکستان کے خلاف سرگرمیاں شروع کرتا ہے تو ہمیں ہر صورت میں اس کے خلاف پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنے برادر اسلامی ملک کے خدشات دور کرنے چاہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ بھی معاملات تاحال واضح نہیں ہیں جس کی وجہ پاکستان اور ایران نے بھی افغانستان نے بھی طالبان حکومت کو قبول نہیں کیا ہے۔
اس وقت تو افغانستان کے تعلقات بیرونی دنیا سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ تاجکستان تمام طالبان مخالف قوتوں کو پناہ دے رہا ہے۔ دنیا افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ طالبان حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات کرے جس کی وجہ سے دنیا افغانستان کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے تعلقات بنانے میں بھی دلچسپی ظاہر کرے۔
بات چیت کا دور ختم ہوا تمام صحافی حضرات گلبدین حکمت یار کے ساتھ تصاویر بنانے لگے۔ حکمت یار ہر صحافی کو پورا پورا موقع دے رہے تھے کہ کوئی صحافی پیچھے نہ رہ جائے۔
اسی دوران مغرب کی اذان سنائی دی تو گلبدین حکمت یار ہال ہی میں ایک جانب نماز کے لیے بچھائی گئی صفوں کی جانب چل پڑے۔ تمام صحافیوں نے ان کی امامت میں نماز ادا کی جس کے بعد حکمت یار صحافیوں سے مل کر رخصت ہوگئے جبکہ صحافی اسحاقی صاحب کے پیچھے چلتے ہوئے اپنی گاڑیوں تک پہنچے۔
جب ہماری گاڑی باہر نکلی اور عقب میں حکمت یار کے کمپاؤنڈ کا آہنی دروازہ بند ہوا تو میں نے سوچا کہ تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ افغان سرزمین پر ایک ایسا شخص بھی تھا جو اپنے موقف پر ہمیشہ جم کر کھڑا رہا ، چاہے وہ موقف ساری دنیا سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔
اس شخص نے ہمیشہ جو افغانوں کی بہتری میں سمجھا ، اس پر جم گیا۔ آج اس شخص پر درجنوں الزام لگائے جاتے ہیں ، اس کے موقف کو کمزور اور ناقابل عمل قرار دیا جاتا ہے مگر دنیا گواہ ہے کہ اس نے جب بھی کوئی پیشن گوئی کی وہ ہمیشہ ٹھیک ہی ثابت ہوئی۔
گلبدین حکمت یار کے کمپاؤنڈ سے نکلنے کے بعد ہم ایک بار پھر نواں شہر اپنے ہوٹل کی جانب گامزن تھے۔ راستے میں ایک چیک پوسٹ پر ہمیں روکا گیا۔ چیک پوسٹ پر موجود سکیورٹی اہلکاروں میں سے دو ہمارے قریب آئے اور معلومات حاصل کرنے لگے۔
اتفاق یہ تھا کہ ہماری گاڑی کے ڈرائیور سمیت موجود سواریوں میں سے کسی کو بھی پشتو نہیں آتی تھی جبکہ سکیورٹی اہلکار انگریزی سمجھنے سے قاصر تھے۔ میں اس صورتحال میں صرف یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ سکیورٹی اہلکار کا کیا رویہ رہتا ہے کیونکہ طالبان کی سخت گیری کے حوالے سے کئی داستانیں عام ہیں۔
سکیورٹی اہلکار نے جب دیکھا کہ ایک دوسرے کو سمجھا نہیں جاسکتا اور اس نے اندازہ لگایا کہ ہم افغانستان کے شہری نہیں ہیں تو اس نے صرف ایک لفظ کہا :’’ پاسپورٹ‘‘ ۔ جب ہم نے اسے پاکستانی پاسپورٹ دکھائے تو اس نے مسکراتے ہوئے سوالیہ انداز میں صرف اتنا پوچھا: ’’ پاکستانی ؟ ‘‘۔ ہمارے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے دوسرے اہلکار کو رکاوٹ ہٹانے اور ہمیں جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ اللہ حافظ‘‘۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ افغانستان کے دارالخلافہ کابل جیسے حساس علاقے میں جہاں طالبان حکومت کو داعش کی جانب سے دہشت گردی کا بھی سامنا ہے، چیک پوسٹوں پر مامور ہم پاکستانیوں سے اس انداز میں پیش آ رہے تھے بلکہ تقریباً ہر چیک پوسٹ پر ہمیں ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ کابل میں جس سڑک پر وزارت دفاع کی عمارت قائم تھی وہاں دونوں جانب بڑی چیک پوسٹس تھیں۔
جب ہم وہاں سے گزرے تو دونوں چیک پوسٹوں پر روکا گیا۔ جانچ پڑتال کے بعد ہلکی مسکراہٹ اور دعائیہ کلمات کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ طالبان اہلکاروں کا یہ رویہ عالمی سطح پر بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے بنائے جانے والے تاثر کے یکسر برعکس تھا جس میں طالبان کو سخت گیر اور کرخت ثابت کیا جا رہا تھا۔
ایک اور موقع پر جب ہمیں ایک چیک پوسٹ پر روکا گیا تو انھوں نے ہمارے پاسپورٹ دیکھ کر ہمیں گاڑی سے نیچے اتار لیا۔ پتا چلا کہ وہاں موجود پانچ میں سے تین اہلکار پاکستان کے مختلف شہروں میں قیام پذیر رہ چکے ہیں۔
گلبدین حکمت یار سے ملاقات کے بعد ہمارے شیڈول میں سوائے کھانے کے دوسرا کوئی پروگرام نہیں تھا اور ٹیم کے کسی رکن کا کھانا جلد کھانے کا موڈ نہیں تھا۔
اس لیے ہمارے وفد کے اکثر اراکین تو اپنے کمروں میں چلے گئے البتہ میرے سمیت چند ایک ساتھی ایک بار پھر سڑکوں پر تھے۔ اس بار ہم نے اپنے میزبان انعام صاحب کو ساتھ رکھا اور ان کی گاڑی میں کابل کی سڑکوں پرگھومتے شہر کی خوبصورتی اپنے اندر اتارتے رہے۔ ہمارے ساتھ دوسرے میزبان امجد خان بھی تھے۔
امجد خان صاحب بزرگ تھے اوران کی سفید داڑھی پر نظر پڑتے ہی طالبان اہلکار احترام کے ساتھ مصافحے کے لیے بڑھتے، ان کے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیتے تھے۔ اسی دوران احساس ہوا کہ دیواروں پر مخصوص انداز میں نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ جب اپنے میزبانوں سے اس حوالے سے پوچھا تو کہنے لگے کہ یہاں عوام میں تحریک پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دیواروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دیواروں پر لکھی تحریریں بے مقصد قطعی نہیں ہیں۔
ہمیں زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ کسی دیوار پر محبوب کو قدموں میں لانے، ساس کو قابو اور شوہر مرید بنانے کے دعوے کے ساتھ کسی عامل یا بنگالی بابا کے اشتہار نہیں تھے۔
حیرت ہوئی کہ کیا افغان محبت نہیں کرتے یا انھیں محبوب کو تابع کرنے کی خواہش نہیں ؟کیا افغانستان میں ساس کا کردار مختلف ہے اور خواتین کو شوہروں کو زیر کرنے کی لگن نہیں ہوتی۔ ان ’’ اہم مسائل ‘‘ سے یہ قوم کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟ ہم نے یہ سوال ایک بار اپنے میزبانوں کے سامنے رکھا تو امجد خان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ دراصل ہماری کئی نسلوں کو تو عالمی طاقتوں نے موقع ہی نہیں دیا کہ وہ ان ’’ اہم مسائل‘‘ پر توجہ دے سکیں۔ بظاہر مسکرا کر کہے گئے اس کاٹ دار جملے ہمیں آئینہ دکھا دیا۔
کابل شہر کا بلدیاتی نظام انتہائی شاندار ہے، صاف ستھری سڑکیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کئی دہائیوں سے عالمی طاقتوں کا تختہ مشق بنے رہنے والے افغانستان کے اس دارالحکومت میں کہیں کچرا دکھائی نہیں دیا۔ ٹریفک کا اژدہام تھا مگر کہیں اس میں رکاوٹ نہیں تھی۔ میری عادت ہے کہ فون پر کال سنتے ہوئے چلنا شروع کردیتا ہوں۔
یہاں بھی واٹس اپ پر ایک چینل کی جانب سے کال آئی جس کے ذریعے مجھ سے افغانستان کی صورتحال جاننے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے چلنا شروع کیا اور موبائل فون پر بات کرتے کرتے بہت دور نکل گیا۔ رات گئے اس طرح گھومتے نہ تو کسی نے روکا اور نہ ہی ایک لمحے کو بھی یہ خوف محسوس ہوا کہ کوئی نامعلوم سر پر پستول رکھ کر موبائل لے جائے گا۔
اسی دوران اپنے میزبانوں سے درخواست کی کہ کسی اقلیتی عبادت گاہ کا بھی دورہ کیا جائے تاکہ ان سے معلوم کیا جاسکے کہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد ان کے کیا خیالات ہیں۔ وقت کی کمی کے باوجود میزبان ہمیں ایک تین منزلہ عمارت میں لے گئے جو اقلیتی برادری کی عبادت گاہ تھی۔ جب ہم اس عمارت میں داخل ہوئے تو کسی نے ہم پر توجہ نہیں دی۔ مغرب و عشاء کا درمیانی وقت ہونے کی وجہ سے عبادت گاہ میں لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔
جب ہم نے ان سے بات چیت کی کوشش کی تو شروع میں انھوں نے ہمارے سوالوں کے جواب دینے سے گریز کیا مگر جب ہمارے میزبان مداخلت کرکے ہمارے مترجم بنے تو کئی لوگ بات چیت کو تیار ہوگئے۔
ہمیں اس بات پر سخت حیرت ہوئی کہ اقلیتی برادری کے لوگ بھی طالبان حکومت سے مطمئن نظر آتے تھے۔ اقلیتوںکے دشمن ہونے کے حوالے سے جو تاثر طالبان کے حوالے سے پیدا کیا گیا تھا ، وہ اس عبادت گاہ کی حد تک تو بالکل غلط ثابت ہو رہا تھا۔
اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے انھیں ہر قسم کی مذہبی آزادی فراہم کی گئی ہے اور مذہبی رسوم کی ادائیگی میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی، انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اقلیتی برادری دہشت گرد گروہ داعش سے خائف تھی اور انھیں اپنا دشمن گردانتی تھی۔ جب ان لوگوں سے تھوڑی بے تکلفی بڑھی تو انھوں نے ہمیں قہوہ پیش کیا اور قہوہ پینے کے دوران میں ان سے گفتگو بھی جاری رہی۔ اس عبادت گاہ سے نکل کر ہم ایک بار پھر کابل کی سڑکوں پر تھے۔
اس شہر کی عمارتیں شاندار تھیں جن کی ساخت اور بناوٹ میں سلیقے کے ساتھ ساتھ ان کی مضبوطی بھی ظاہر ہو رہی تھی۔ خیال آیا کہ شاید امریکیوں نے تباہی کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر بھی افغانستان کو دیا ہے۔ جب اس کا تذکرہ اپنے میزبانوں سے کیا تو انھوں نے انتہائی نفرت انگیز انداز میں کہا کہ دشمن خصیص اور بد نسل ہو تو اس سے بھلائی کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی۔
امریکہ جب یہاں آیا تو اس نے صرف تباہی پھیلائی، کسی تعمیری کام کی جانب نہیں آیا۔ پورے افغانستان میں اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ دشمن کے نیچ و بد ذات ہونے کا اندازہ اس سے کرلیں کہ جب امریکہ یہاں سے گیا تو اپنے پیچھے تمام آلات و ساز وسامان تباہ کرگیا۔ فوجی گاڑیاں، عارضی پل، بنکرز گھر سب ملیا میٹ کرگیا تھا۔
اس کے بعد امجد خان نے ہمیں کچھ بنکرز بھی دکھائے جو ویسے تو تباہ حال تھے مگر اب طالبان اہلکاروں کے زیر استعمال تھے۔ امریکی حمایت یافتہ سابق حکمرانوں کے گھر بھی دیکھنے کو ملے جو وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔
ان کی بلند و بالا دیواریں بتاتی تھیں کہ شاید مکینوں کو آخرت تک اسی رہائش گاہ میں رہنے کا یقین تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ طالبان حکومت نے ان عمارتوں کو سرکاری دفاتر میں تبدیل کردیا ہے یا پھر انہیں تعلیمی درسگاہوں میں بدل دیا گیا ہے۔ بد نام زمانہ طالبان مخالف جنرل عبدالرشید دوستم نے ایک عام افغان کے گھر پر قبضہ کر رکھا تھا ، اس کا قبضہ طالبان نے واپس اس افغان کو دلایا۔
ہم گھومتے پھرتے ہوٹل پہنچے تو پتا چلا کہ ہمارے میزبان ذکر اللہ خادم نے ہمارے وفد کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا ہوا ہے ۔ وفد کے اراکین تیار تھے، جیسے ہی ہم ہوٹل پہنچے ، قافلہ بغیر کسی تاخیر کے کھانے کی دعوت اڑانے کے لیے روانہ ہوگیا۔
تقریباً چالیس منٹ کا سفر کرنے کے بعد جب ذکر اللہ مجاہد کے گھر پہنچے تو وہ استقبال کے لیے دروازے پر موجود تھے۔ ان کے دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے سجائے گئے تھے۔کوئی ڈش ایسی نہ تھی جس میں گوشت شامل ہو۔ ہمیں بتایا گیا کہ کابل میں کھانے میں گوشت تو لازمی شامل ہوتا ہی ہے مگر اس کے علاوہ جو بھی ڈشز ہوتی ہیں ان میںبھی گوشت لازمی شامل ہوتا ہے۔
کھانے کے دوران ہی ہمیں پتا چلا کہ ذکر اللہ مجاہد نے ہم مہمانوں کے لیے اپنے گھر کا پلا ہوا بکرا ذبح کرکے کھانا تیار کرایا ہے۔ کھانے کے دوران پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بحث ہوتی رہی۔ پھر ہمیں قہوہ پیش کیا گیا ۔ اسی دوران بات چیت کا رخ مختلف موضوعات سے ہوتا ہوا ذکر اللہ مجاہد کی ذات تک پہنچ گیا۔ انھی کی زبانی پتا چلا کہ ان کی دو بیویاں ہیں جن میں سے ایک کابل میں جبکہ دوسری بیوی پاکستان میں ہیں۔
وہ سال میں چھ ماہ کابل اور چھ ماہ پشاور رہتے ہیں۔ ان کا آدھا کاروبار افغانستان میں اور آدھا پاکستان میں ہے۔ ذکر اللہ مجاہد کی یہ تقسیم کار ہمیں بہت پسند آئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دو بار افغانستان میں گرفتار ہوچکے ہیں۔
ماضی کی حکومت نے پاکستان کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جبکہ موجودہ طالبان حکومت نے ان پر داعش کے حامی و سہولت کار ہونے کا الزام لگا کر پابند سلاسل کر دیا تھا۔ اس دلچسپ گفتگو کے دوران میں ہی قہوے کا دوسرا دور ہوا ، پھر رات دیر گئے ذکراللہ مجاہد کے گھر سے نکلے۔ ہوٹل پہنچ کر ، سخت تھکاوٹ کے باوجود میں اپنے کمرے میں پہنچ کر اپنی نوٹ بک نکال کر اس روز کی روداد لکھنے بیٹھ گیا۔ ( جاری ہے )
The post امریکیوں نے جاتے ہوئے کوئی کام کی چیز سلامت نہیں چھوڑی appeared first on ایکسپریس اردو.