تخلیق اور تحریر کے سفر میں ایسے ایسے نایاب ہیروں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا جن پر لکھنے کے لیے شاید ایک زندگی کافی نہیں ہے۔
ان لوگوں میں کچھ نے اپنی آواز ،کچھ نے اپنی تحریر، کچھ نے اپنے اخلاص، کچھ نے اپنے کردار اور کچھ نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ سے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس مضمون میں ہم ایک ایسی ہی شخصیت کا تذکرہ کریں گے۔ یہ ہیں مدھر، سریلی، اثرانگیز اور اپنے سامعین کی سماعت کے ذریعے دل میں اتر جانے والی پاکستانی آواز، ریویڈ کی شان اور براڈکاسٹ کی دُنیا کی پہچان موہنی حمید، جن کا اصل نام موہنی داس تھا۔
پاکستان کی پہلی خاتون براڈکاسٹر موہنی داس 1922 میں ایک مسیحی گھرانے میں بٹالہ، انڈیا میں پیدا ہوئیں۔ 1938 میں، موہنی داس نے آل انڈیا ریڈیو (AIR) میں بطور ڈراما فن کار شمولیت اختیار کی۔ جب AIR لاہور نے بچوں کا ریڈیو پروگرام شروع کیا تو انہیں ’’آپا شمیم‘‘ کا نام دیا گیا۔
وہ تقریباً 39 سال تک بچوں کا پروگرام کرتی رہیں، آپا شمیم کا نام برصغیر پاک و ہند میں ایک گھریلو نام بن گیا۔ جب پاکستان کا قیام ہوا تو موہنی داس نے پاکستان کا انتخاب کیا اور اسے اپنا مستقل گھر بنایا۔ موہنی داس پاکستان کی پہلی خاتون براڈکاسٹر بن گئیں۔ 1954 میں ان کی شادی حمید احمد، جو کہ جنگ اخبار میں ایڈیٹر تھے، سے ہوئی اور وہ موہنی حمید بن گئیں۔ حمید احمد ایک وسیع سوچ کے مالک انسان تھے جو موہنی داس کے فن سے آشنا تھے۔
اُن کے بیٹے ایزی حمید نے بتایا کہ اُن کے والد بہت وسیع النظر انسان تھے جنہوں نے میری ماں کے مسیحی ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دوسرے مذاہب اور عقائد کا احترام کیا۔
اپنے پورے کیریئر کے دوران انہیں پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف ثقافتی تنظیموں کی جانب سے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔
1957 میں انہیں سال کی بہترین آواز قرار دیا گیا۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور اس موقع پر بی بی سی (برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن) نے اپنی اردو نشریات میں انہیں ’’گولڈن وائس آف ایشیا‘‘ قرار دیا۔ 1965 میں، موہنی حمید کو صدر پاکستان نے قوم کی جانب سے ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1969 میں، اقوام متحدہ نے سال کو خواتین کے لیے سال قرار دیا اور اوٹووا، کینیڈا میں ایشیا کی دیگر معزز خواتین کے ساتھ ان کی تصویر اور تحریر کی نمائش کی۔
1977 میں، موہنی حمید ریٹائر ہوگئیں اور مسیحی مشنری کاموں میں شامل ہونے کے لیے پاکستان سے امریکا چلی گئیں، جو ان کی زندگی بھر کی خواہش تھی۔ انہوں نے ’’Key کمیونیکیشنز‘‘ میں شمولیت اختیار کی، جو جنوبی ایشیا میں مسیحی ابلاغی سرگرمیاں سرانجام دے رہی تھی۔ انہوں نے پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں ریڈیو نشریات کے لیے اردو زبان میں بائبل مقدس (نئے عہدنامے) کی مکمل ریکارڈنگ کی۔ اپنی بینائی ختم ہونے کے باوجود اُنہوں نے یہ پروجیکٹ مکمل کیا۔
ان کی ملک سے غیرموجودگی میں بھی1998 میں، پاکستان کی حکومت نے ایک بار پھر موہنی حمید کو دوسری بار ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا، 1999 میں انہیں پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے لیے انہیں دُنیا بھر سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے۔
اس اعزاز کے بعد وائس آف امریکا نے ان کے فن اور زندگی سے متعلق ان کا انٹرویو اردو بین الاقوامی نشریات کے لیے نشر کیا۔ 16 مئی 2009 موہنی حمید کا امریکا میں انتقال ہوگیا۔ 2013 میں، پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے ان کے اعزاز میں لاہور ’’موہنی حمید اسٹوڈیو‘‘ وقف کیا۔
Vintage Pakistan کے مطابق ’’ان کی آواز سامعین میں اتنی پسند کی جاتی تھی کہ امتیاز علی تاج، رفیع پیر، عابد علی عابد، شوکت تھانوی اور دیگر ڈرامانگار ان کی آواز کو مدنظر رکھتے ہوئے کردار تخلیق کرتے تھے۔ رفیع پیر کے مشہور ڈرامے اکھیاں میں اندھی لڑکی کا کردار بھی موہنی حمید نے ادا کیا تھا۔
موہنی حمید کا تعلق صداکاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، نسرین محمود، خالدہ ارجمند، عبداللطیف مسافر، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین اور محمد حسین جیسے فن کار شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے ڈرامانگار بھی ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادوجگاتے تھے۔‘‘
موہنی حمیدکو یاد کرتے ہوئے ڈان نیوز میں اپنے آرٹیکل ’’پاکستان کی بہترین ریڈیو خواتین‘‘ میں ماجد شیخ لکھتے ہیں، 24 گھنٹے ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فون نے ہماری زندگیوں پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن ان حیرت انگیز لوگوں کو بھولنا آسا ن نہیں ہے جنہوں نے پاکستان میںاس مواصلاتی انقلاب کا آغاز کیا، یہ ریڈیو والے لوگ تھے۔
دسمبر 1937 میں لاہور میں ریڈیو کا آنا ایک ایسا لمحہ تھا جو اپنے ساتھ ایسے نام لے کر آیا جو جلد ہی گھریلو نام بن گئے۔ پطرس بخاری جیسے لینجڈ، جنہیں مقامی طور پر ’’بڑے بخاری صاحب‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے لہروں پر حکم رانی کی اور ان کے ساتھ ایسے بے شمار لوگوں نے کام کیا جن کی فونک اور پروڈکشن کی مہارتوں کو انھوں نے سنوارا۔ جیسے جیسے لاہور میں ریڈیو کی اہمیت میں اضافہ ہوا، (یعنی) وہ واحد ذریعہ جس کے ذریعے سامعین کو فوری طور پر پیغام پہنچایا جا سکتا تھا، دو خواتین اپنی شان دار صلاحیتوں کے لیے نمایاں ہوگئیں۔ وہ موہنی حمید اور ست نام محمود تھیں۔ یہ دو شان دار آوازیں عام سے کہیں زیادہ عمدہ تھیں۔‘‘
’’گولڈن وائس موہنی‘‘ جنہیں موہنی حمید کہا جانے لگا، سامعین کے لیے، زیادہ تر اس عمر کے بچوں کے لیے، وہ بے مثال ’’شمیم آپا‘‘ تھیں۔ ٹی وی سے پہلے کے دور کے بڑے اور بچے شام کو کھانے کے بعد اپنے بڑے بڑے ریڈیو سیٹوں کے گرد بیٹھ کر شمیم آپا سے ہر رات اردو میں ایک نئی کہانی سنتے تھے۔
ان کی آواز کی سنسنی، توقف، خاموشی سامعین کو مسلسل منہمک رکھتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ کس طرح لاکھوں لوگوں کو اپنی کہانی سے جوڑے رکھنا ہے۔ 39 سال تک پاکستان اور ہندوستان میں سامعین نے ان کی آواز سنی۔
اُن کی وفات پر بی بی سی اُردو نے یوں خبر شائع کی،’’براڈ کاسٹر موہنی حمید چل بسیں۔ ریڈیو پاکستان کی سابق براڈ کاسٹر، بچّوں کی آپا شمیم، بہت سے معروف ریڈیو ڈراموں کی ہیروئین اور بچوں کے کئی مشہور گیتوں کی گلوکارہ، موہنی حمید کا امریکا کی ریاست واشنگٹن میں انتقال ہوگیا۔ یہ افسوس ناک خبر اُن کی بیٹی کنول نصیر کے ذریعے میڈیا کو 18 مئی کی شب موصول ہوئی۔ مرحومہ نے موہنی داس کے نام سے نوجوانی میں ریڈیو پر کام شروع کیا تھا اور پینتیس برس تک ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کے ہفتہ وار پروگرام میں آپا شمیم کا کردار نبھانے کے علاوہ انہوں نے برسوں تک ہر شام بچوں کو کہانی بھی سنائی۔
امتیاز علی تاج کے معروف کھیل ستارہ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی موہنی حمید کئی سال سے امریکا میں مقیم تھیں۔ مرحومہ کے لواحقین میں اُن کے شوہر حمید احمد، بیٹی کنول نصیر اور بیٹا اذنِ حمید شامل ہیں۔ مرحومہ کو اہلِ ریڈیو نے بجا طور پر بلبلِ نشریات کا خطاب دے رکھا تھا۔‘‘
ان کی بیٹی کنول نصیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بیشک اللہ کا دیا ہوا ان کے پاس سب کچھ تھا لیکن مجھے حکومت پاکستان سے گلہ ہے کہ ان کے پاس پاکستان میں اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔
اتنی بڑی فن کار، ایک صوفی منش عورت، جس نے اس ملک کو اتنی تہذیب دی، زبان درست کی، پیار دیا بچوں کو، روز کہانیاں سنائیں، آپ سوچ نہیں سکتے اتنے بچے ان کے پروگرام میں آتے تھے۔ اتنا کچھ دینے کے باوجود ان کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا وہ ساری عمر لاہور میں کرائے کے گھر میں رہیں۔‘‘ ان کے بیٹے اذن حمید (ایزی) نے بتایا کہ ان کی والدہ نہایت ہی سادہ اور مذہبی خاتون تھیں، وہ اکثر اتنی سادگی کا مظاہرہ کرتی تھیں کہ کئی لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اتنی معروف اور مشہور ہیں۔ وہ کبھی سادگی کا دامن نہیں چھوڑتی تھیں۔
موہنی حمید، اداکاری کے ہنر کی ملکہ، آواز کے سحر کا جادوئی اثر رکھنے والی کوئل اور سادگی اور ایمان داری کا پیکر تھیں۔ نیویارک میں مقیم ان کی پوتی مشعل سارہ نے بتایا کہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں اپنا بچپن اپنی دادی کے ساتھ بسر کرنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکا میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود اردو بول لیتی ہیں۔ یہ ان کی دادی کی تربیت اور اردو سے محبت کے انمول رشتہ کا بہترین ثبوت ہے۔
موہنی حمید پاکستان سے ہجرت کے بعد صرف دو مرتبہ پاکستان آئیں، لیکن مجھے پتا نہیں کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے چلی تو گئی تھیں لیکن ان کا دل، رُوح اور زندگی سے پاکستانی مٹی سے لگاؤ اور لوگوں سے محبت کبھی جدا ہوئی ہی نہیں تھی۔ انٹرنیٹ اور میڈیا میں ان کی زندگی، فن اور خدمات پر بہت کم مواد موجود ہے جو ہمارے ادب شناس نہ ہونے اور اپنے ہیروز کو سراہنے سے گریز کی روایت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خیر ان کے شوہر حمید احمد نے اپنی وفات سے قبل موہنی حمید کی زندگی، واقعات اور ان کی خدمات پر مبنی اردو میں ایک کتاب ’’موہنی حمید (آپا شمیم) امریکا میں، چند یادیں -چند باتیں‘‘ لکھی ہے جو کسی حد تک ان کی شخصیت کو جاننے کا اچھا ذریعہ ہے۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے موہنی حمید کے نام یوں کیا ’’موہنی حمید کے نام، جو مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز تھی ۔‘‘
موہنی حمید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موہنی کو مائیکروفون کی ضرورت نہیں تھی بلکہ مائیکروفون ان کی آواز کا متمنی تھا۔ موہنی حمید کی زندگی کا احاطہ، فن اور شخصیت کے بارے میں بے شمار باتیں ہیں جو نئی نسل کے براڈکاسٹرز کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ایسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے فن اور شخصیت سے دوسروں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
موہنی حمید ایک ایسی ہی رول ماڈل ہیں جنہوں نے اپنے شان دار کیریئر کے دوران اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کیا۔ ان کی فنی، تہذیبی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں یہ الفاظ اور القابات بہت کم ہیں۔ موہنی حمید فن کی معراج کا وہ عظیم شاہ کار تھیں جنہوں نے زندگی میں بے شمار قربانیوں کی بدولت یہ مقام حاصل کیا۔ موہنی حمید پاکستانیوں کے لیے ایک حقیقی اور بہترین موٹیویشن ہیں کہ اگر قدرت نے آپ کو صلاحیتیں انعام میں دی ہوں تو پھر اُنہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر نا قدرت کی ان نعمتوں کا بہترین شکرانہ ہے۔
موہنی حمید کے شوہر نے اُن کے لیے کیا خوب صورت شعر کہا ہے:
داغ مُفارقت وہ ہمیں دے گئے حمید
جو عمر بھر کبھی بھی نہ ہم سے جدا ہوئے
The post موہنی حمید: ایک پُراثر آواز appeared first on ایکسپریس اردو.