حضرت مظفرؔ وارثی مورخہ 23دسمبر، 1933ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے جہاں کے مولانا اسمعٰیل ؔمیرٹھی بھی بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ نسلاً صدیقی تھے۔
بعض لوگوں نے 20 دسمبر بھی لکھا ہے لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ آپ 23 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد بزرگوار صوفی شرف الدین احمدصدیقی چشتی قادری سہروردی بھی ایک بلند پایہ عالم دین، اور شاعر تھے، جنھیں ’فصیح الہند‘ اور ’شرف الشعرائ‘ کے خطابات حاصل تھے اور ’صوفی وارثی ‘ کہلاتے تھے اگرچہ ِاس با ت کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے کہ وہ سلسلہ وارثیہ میں بیعت تھے یا نہیں لیکن اُس نسبت سے اِنھوں نے بھی خود کو ’مظفرّ ؔوارثی‘ کہلایا۔
اِن کا کنبہ میرٹھ کے جاگیرداروں کا کنبہ تھا۔ صوفی وارثی علامہ اقبالؔ، اکبرؔ وارثی، عظیمؔ وارثی، حسرتؔ موہانی، جوشؔ ملیح آبادی، احسانؔ دانش، ابوالکلام آزادؔ اور مہندر سنگھ بیدی کے دوستوں میں تھے۔
تعلیم و روزگار
حضرت مظفرؔ وارثی نے ابتدائی تعلیم میرٹھ کے ہائی اسکول سے حاصل کی اور پھر پاکستان بننے کے بعد، سنہ1947ء میں پاکستان لاہور چلے آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے اور یہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ روزگار کے لیے بینک دولت پاکستان میں بطورنائب خازن ملازم ہوئے اور اِسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُن کے چھوٹے بھائی ظفر وارثی بھی بینک دولت پاکستان سے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر وابستہ تھے۔
سیاسی زندگی
حضرت مظفرؔ وارثی کبھی بھی اور کسی بھی مذہبی یا سیاسی تحریک سے وابستہ نہیں رہے لیکن علامہ طاہر القادری کی مصطفوی انقلاب تحریک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اُس میں باقاعدہ شامل ہوگئے، تحریک کے لیے کام بھی کیا اور کلام بھی لکھا۔ حتٰی کہ علامہ طاہر القادری کے کہنے پر سرکاری نوکری بھی چھوڑ دی لیکن علامہ صاحب کے اطوار سے بددل ہو کر اس تحریک سے الگ ہوگئے۔ اُنھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا احوال بھی اپنی خود نوشت ’’گئے دنوں کا سراغ ‘‘(سنہ 2000ئ) میں بھی بیان کیا ہے۔
ادبی زندگی
حضرت مظفر ؔوارثی نے 60 کی دہائی میں لکھنا شروع کیا تھا اور پھر ایسا لکھا کہ سلطنت شعر و سخن میں ظفر مند ٹھہرے۔ عمومی شاعری کے علاوہ فلموں کے لیے گیت بھی لکھے جن میں ’’کیا کہوں اے دنیا والو، کیا ہوں میں‘‘،’’کرم کی اک نظر ہم پر یا رسولؐ اللہ‘‘،’’مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والے‘‘ اور ’’یاد کرتا ہے زمانہ انھی انسانوں کو‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
انھوں نے یہ گیت سنہ 1966ء میں فلم ہم راہی کے لیے لکھے تھے جنھیں مسعود رانا کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ گیت بھی مسعود رانا کے کیریئر کے عروج کا باعث بنے۔ اِن کی غزلوں کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے اُنھیں جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے بھی اپنی آواز میں پیش کیا ہے۔
شاعرانہ رُجحان میں تبدیلی
چوںکہ اُن کے بزرگوں نے اُنھیں گہری دینی وابستگی کے ساتھ پروان چڑھایا تھا شاید یہی وجہ بنی کہ وہ زیادہ عرصہ تک فلمی شاعری سے وابستگی نہ رکھ سکے اور حمدیہ و نعتیہ شاعری کی جانب مائل ہوگئے اور اِس میدان میں بھی اِس حد تک ظفر یاب رہے کہ عظیم الشان و عالیشان حمد یہ اور نعتیہ کلام پر مشتمل الحمد (حمدیہ کلام)، لاشریک (حمدیہ کلام)، وہی خدا ہے (حمدیہ کلام)، تاج دارؐ حرم (نعتیہ کلام)، کعبہ عشق (نعتیہ کلام)، نورؐ ازل (نعتیہ کلام)، بابؐ حرم (نعتیہ کلام)، میرے اچھے رسولؐ (نعتیہ کلام)، دل سے دار نبیؐ تک (نعتیہ کلام)،
صاحبؐ التاج (نعتیہ کلام)، اُمیّ لقب (نعتیہ کلام) جیسے گیارہ دیوان مرتب ہوگئے اور ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘‘ جیسی حمد اور ’’تو کجا من کجا‘‘ جیسی نعت ہر دل میں گھر کر گئی اور کلاسیکی حمد و نعت میں شمار ہونے لگیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اُنھیں مقبول بنانے کے لیے کافی ہے۔ اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے اور سامعین پر سحرطاری دیتے تھے۔ اُن کی آواز میں ایک خاص قسم کا رس بھراسوز و گداز پایا جاتا تھا جو اُنھیں لوگوں کے دل کا مکین بنا دیتا تھا اور لوگ انھیں چاہنے اور احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
فن پر تبصرہ
فنی اعتبار سے یکتا حضرت مظفر وارثی کا ایک ایک شعر، ایک ایک غزل موتیوں سے جڑی ہوئی ہوتی تھی۔ اپنی حمد ’’کوئی تو ہے نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے‘‘ میں اُنھوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کیا اور کائنات کی تخلیق و نظام کے چلانے میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو ثابت کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا ایک ایک پہلو، ایک ایک حوالہ اُنھوں نے جس طرح بیان کیا ہے وہ کوئی اور نہ کر سکا تھا اور نہ کر سکے گا۔ انھوں نے گویا سورۃٔ رحمٰن کا خلاصہ اُس میں سمو دیا ہے۔
اِسی طرح نعت ’’تو کجا، من کجا‘‘ میں نبیؐ عالم کے ساتھ اپنی وابستگی، عجز وانکساری اور ادب کا جس طرح برتاؤ انھوں نے کیا ہے نہ اُن سے پہلے کوئی کر سکا تھا اور شاید آئندہ بھی نہ کر سکے۔ اس سے قبل کہی گئی نعت ’’میرا پیمبر عظیم تر ہے‘‘،’’لا نبی بعدی‘‘، ’’ہم تو آنسو ہیں، ہمیں خاک میں مل جانا ہے ‘‘بھی شاہ کار کلام ہے۔
جب حمد کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رب کائنات خود فرما رہے ہیں کہ مظفرؔ میری ذات کے اِس پہلو کو اِس طرح بیان کرو اور اِس پہلو کو اِس طرح بیان کرو اور جب نعت ’’تو کجا، من کجا‘‘ کا جائزہ لو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں بھی ایسا ہی فرما رہے کہ میرے محبوب کی تعریف اِس طرح بیان کرو، یہ الفاظ استعمال کرو، یہ استعارے اور تشبیہات استعمال کرو۔
عمومی شاعری
ہمارے یہاں عجیب رواج ہے کہ کوئی شخص کسی شعبے میں مقبول ہوجائے تو اُسے اُسی شعبے میں فٹ کر دیتے ہیں اور دیگر شعبوں میں اُس کی صلاحیتوں کو آزماتے بھی نہیں اور تذکرہ بھی نہیں کرتے ہیں۔ یہی صورت حال حضرت مظفر وارثی کے ساتھ بھی ہے۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری کی مقبولیت کے پیش نظر کسی نے بھی اُن کی عمومی شاعری پر توجہ نہیں دی ہے اور کوئی بھی شخص اُن کی عمومی شاعری کے بارے میں بات ہی نہیں کرتا ہے اگرچہ اِس میں بھی حضرت مظفرؔ وارثی کا مقام و مرتبہ نہایت بلند ہے۔
اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شاعری میں بھی گروہ بندی پائی جاتی ہے اور حضرت مظفرؔ وارثی کسی بھی ایسے گروہ میں شامل نہیں تھے جو اُن کی شاعری کی تشہیر کرتا اور اُسے مقبول عام بنانے کی کوشش کرتا۔ شاعروں کی اِسی تنگ نظری اور نقادوں کے تعصب کے سبب اُن کی عمومی شاعری کا تذکرہ کہیں بھی نہیں ملتا ہے اور اُنھیں مکمل طورپر نظرانداز کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عام قارئین کو اُن کی غزل گوئی کے اوصاف کا پوری طرح علم نہیں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مظفرؔوارثی محض ایک نعت گو شاعر تھے جنھیں کبھی کبھار ٹی وی پر نعت پڑھنے کے لیے بلا لیا جاتا تھا۔ اُن کی عمومی شاعری کے یہ نمونے ملاحظہ کیجیے:
چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے
کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبو ں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے
دیدۂ سنگ میںبینائی کہاں سے آئے
ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے
پیار تعمیر ہو جب بغض کی بنیادوں پر
ملتی نظروں میں شناسائی کہاں سے آئے
کوئی بھی دیکھنا چاہے نہ کسی کو زندہ
خوں کے پیاسوں میں مسیحائی کہاں سے آئے
اِس صنف میں بھی اُن کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ اِس میدان میں بھی برف کی ناؤ، کھلے دریچے، بند ہَوا، لہجہ، راکھ کے ڈھیر میں پھول، تنہا تنہا گزری ہے، دیکھا جو تیر کھا کے، حصار، ظلم نہ سہنا، لہو کی ہریالی اور ستاروں کی آب ِجو کے عنوان سے غزلوں کے بھی گیارہ دیوان بھی مرتب کر ڈالے۔ اِس طرح اِن کے کلام کے مجموعوں تعداد بائیس ہے جب کہ خودنوشت اِس کے علاوہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ باقاعدہ طور پر اخبار نوائے وقت میں حالاتِ حاضرہ سے متعلق مختصر شاعری اور قطعات لکھتے رہے۔ یہ سلسلہ اُن کی وفات تک جاری رہا۔
مقبولیت
حضرت مظفرؔ وارثی بلاشبہہ عہد جدید کے اُن چند شاعروں میں سے ہیں جنھیں غیرممالک میں بھی دل چسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ اُن کی شاعری میں فکر اور سوچ اپنے تمام تر رنگوں میں عیاں ہے۔ اُن کا ہر مجموعہ دوسرے سے بڑھ کر خوب صورت اور دل کش ہے۔
اپنے نام کی مانند دنیائے سخن میں اس قدر ظفر مند رہے کہ آپ کے مداحوں اور عقیدت مندوں کا شمار ممکن نہیں۔ اُنھوں نے پچاس برس دنیائے سخن میں گزارے اور ذمے داری کے ساتھ فن کی خدمت کرتے رہے۔ وہ محض اس لیے نہیں لکھتے تھے کہ ایک شاعر و مصنف ہیں بلکہ وہ اسے آنے والی نسلوں اور صدیوں کی راہنمائی کا قرض سمجھتے تھے۔ یہ خود ان کا اپنا بیان ہے۔
شاعر مزدور، احسانؔ دانش مرحوم کے بقول ’’اگلازمانہ مظفر ؔوارثی کاہے۔‘‘ احسان ؔدانش کا ہی یہ بھی کہنا تھا کہ ’’نئی طرز کے لکھنے والوں میں جدید غزل کا معیار مظفر وارثی کی غزل سے قائم ہوتا ہے۔‘‘
مظفر ؔوارثی اردوشاعری کا محض اہم ستون ہی نہیں بلکہ عہدحاضر میں اردو نعت کا انتہائی معتبر نام بھی ہیں۔ اگرچہ آپ نے ہر صنف سخن مثلاً غزل، نظم، حمد، نعت وسلام، گیت، قطعات اور ہائیکو وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنے منفرد اسلوب اور موضوعات کے تنوع کے باعث ہمیشہ دوسرے شاعروں کے لیے چیلینج بنے رہے۔
اعزازات
آپ کو سنہ1981ء میں ریڈیو پاکستان کی جانب سے ’بہترین نعت خواں‘ کا ایوارڈ پیش کیا گیا جب کہ سنہ 1988ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ ’حسن کارکردگی‘ بھی پیش کیا گیا اور ہندوستان میں مولانا محمد علی جوہرؔ اکادمی، دہلی ، کی جانب سے مولانا محمد علی جوہر ؔایوارڈ، انٹرنیشنل مشاعرہ، دہلی، کی جانب سے بہادر شاہ ظفر ایوارڈ اور غالب ویلفیئر ایوارڈ، دہلی، کی جانب سے افتخار غالب ایوارڈ پیش کیے گئے۔
ذاتی اوصاف و زندگی
حضرت مظفرؔ وارثی حقیقی اور بامقصد ادب کے ترجمانوں میں سے ایک تھے۔ عاجزانہ اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے۔ کردار کے اس قدر پاکیزہ تھے کہ بینک دولت پاکستان میں بطور ڈپٹی ٹریژرر طویل عرصہ گزارنے کے باوجود اُن پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگا۔ جب لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ادیبوں اور شاعروں کے زُمرے میں قرعہ اندازی کے ذریعے دو کنال کا پلاٹ ملا تو اُسے بیچ کر ایک چھوٹا مکان لے لیا اور اُسی مکان میں رحلت ہوئی۔
یہی معاملہ حضرت مظفر ؔوارثی کے ساتھ بھی تھا۔ خوشامد اور چاپلوسی سے دور تھے اور یوں شاعری میں کسی کیمپ سے وابستہ نہ تھے جس کی وجہ ہے کہ اُن کو وہ مرتبہ نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اُن کی شخصیت کا یہ پہلو اُن کے کلام میں بھی جھلکتا ہے مثلاً:
ہنر ہے تجھ میں تو قائل بھی کر زمانے کو
چمک اٹھے گی نہ شکل آئینے کو دھونے سے
میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں
کیا ڈراتی ہیں ہوائیں مجھے خمیازے سے
جھوٹی عظمت کی پجاری ہے مظفر ؔدنیا
پستہ قد لوگ بھی گزریں بڑے دروازے سے
اپنے رِستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں
راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے
مظفروارثی اپنی انفرادی زندگی میں ایک بہادراور بے باک انسان تھے۔ انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی انہوں نے ہر طرح خیر کا پرچار کیا اور دیانت دارانہ رائے کی صورت میں وطن اور اہل وطن کو بہت کچھ دیا۔ اعلیٰ تخیل کی حامل نظمیں، غزلیں عرش تک دسترس رکھنے والی حمد اور نعتیں، غزلیں اور دلوں میں اتر جانے والے گیت۔ ایک ایسا خلوص اور ایسی محبت جو آج نایاب ہے۔
ہم نے اب تک اُن کی شاعری کے جن پہلوؤں پر بات کی ہے اُن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مظفرؔ وارثی ایک خشک شاعر تھے اور حسن و عشق کے معاملات سے ناآشنا تھے لیکن ایسا سوچنا درست نہیں ہے۔ اُن کی یہ نظم ’’تمھاری آنکھیں شرارتی ہیں‘‘ ملاحظ کیجیے:
تم اپنے پیچھے چھپے ہوئے ہو
بغور دیکھوں تمھیں تو مجھ کو
شرارتوں پر اُبھارتی ہیں
تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
لہو کو شعلہ بدست کر دیں
یہ پتھروں کو بھی مست کر دیں
حیات کی سوکھتی رُتوں میں
بہار کا بندوبست کر دیں
کبھی گلابی کبھی سنہری
سمندروں سے بھی زیادہ گہری
تہوں میں اپنی اتارتی ہیں
تمھاری آنکھیں شرارتی ہیں
وفات، تدفین اور ورثاء کا تذکرہ
آخری عمر میں، حضرت مظفرؔ وارثی کو رعشہ کی بیماری ہوگئی تھی۔ کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد مؤرخہ28 جنوری2011ء ، بروز جمعہ 77 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ انتقال طبیعت خراب ہونے پر اسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں ہوا۔ اُن کی وصیت کے مطابق نمازِجنازہ علامہ احمد علی قصوری نے پڑھائی اور لاہور ہی کے علاقے جوہر ٹاؤن کے سمسانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ اُن کے لواحقین میں ایک بھائی ڈاکٹر ظفر وارثی اور دو بہنیں جب کہ ورثاء میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اُن کے بھتیجے عثمان وارثی گلوکار، موسیقار اور شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔
The post مظفروارثی؛ خوب صورت، روح پرور اور یادگار نعتیہ وحمدیہ کلام کے خالق appeared first on ایکسپریس اردو.