افغانستان پر طالبان حکومت قائم ہوئے ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ بیت چکا ہے ۔
نئے حکمرانوں کے بارے میں دو مختلف آرا ظاہر ہو رہی ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اپنے پچھلے دور حکومت سے مختلف انداز میں حکمرانی کر رہے ہیں ، جبکہ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ نہیں ، وہ اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے معروف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ طارق حبیب افغانستان پہنچے ۔
انھوں نے وہاں طالبان کے ماتحت افغانستان دیکھا، طالبان کی اعلیٰ قیادت ، دیگر افغان رہنماؤں بالخصوص حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے ملاقاتیں کیں ، اہم کاروباری شخصیات سے ملے اور اس دوران طالبان کے افغانستان کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور اس سب کچھ کا احوال تحریر کیا ۔ (ادارہ )
٭٭٭
افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد متعدد بار دورے کی منصوبہ بندی کی مگر چند اہم و غیر اہم معاملات کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا ۔ اس بار جب ’ پاک افغان یوتھ فورم ‘ کی جانب سے امارت اسلامیہ افغانستان کے دورے کی دعوت ملی تو گریز ممکن ہی نہ تھا ۔ ادارہ جاتی ہجرت کی وجہ سے راوی کچھ دنوں کے لیے چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ سوچا فرصت کے ان لمحات کو بھی امارت اسلامیہ افغانستان کے حالات جاننے کے لیے استعمال کر لینا چاہیے کہ شاید اس سے بہتر ان کا مصرف اور کوئی نہ ہو ۔
ابتداء میں اطلاع ملی کہ دورہ افغانستان بذریعہ روڈ ہو گا ۔ یہ فیصلہ چونکہ ہمارے مزاج کے عین مطابق تھا اس لیے خوشی ہوئی اور سوچا کہ چوتھی بار بھی افغانستان کا سفر بذریعہ روڈ ہی کریں گے ۔ مگر محض دو دن بعد اطلاع ملی کہ افغانستان روانگی ہوائی جہاز کے ذریعے ہو گی اور واپسی بذریعہ روڈ ہوگی ۔ اگرچہ یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر فضائی راستہ استعمال کرنا ہی ہے تو واپسی پر کرنا چاہیے ۔ خیر، چونکہ وفد کے تمام شرکاء راضی تھے اس لیے ہم نے بھی خاموشی اختیار کر لی ۔
گیارہ ستمبر کو جب اسلام آباد ہوائی اڈے پہنچے تو پتا چلا کہ ہمارے وفد میں مختلف ٹی وی چینلز کے صحافی شامل ہیں جبکہ ہمارے میزبان ’ پاک افغان یوتھ فورم‘ کے سلمان جاوید اور شاہد خان بھی وہیں موجود تھے ۔ میزبانوں سے بھی یہ ہماری پہلی ملاقات تھی جس میں دونوں میزبان خاموش طبع معلوم ہوئے ۔ ان کے جوہر تو دورے کے دوران کھلے اور انکشاف ہوا کہ سلمان جاوید بین الاقوامی امور پر زبردست گرفت رکھتے ہیں اور ان کا مطالعہ کمال ہے ۔ اسی طرح شاہد خان اردو اور پشتو پر مضبوط گرفت کے ساتھ ساتھ اپنی قابلیت کے باعث پاکستان اور افغانستان کے بااثر حلقوں میں انتہائی اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔
گیارہ افراد پر مشتمل جب ہمارا وفد اسلام آباد ائیرپورٹ میں داخل ہوا تو ہر جانب ہو کا عالم تھا ۔ پہلا خیال یہی آیا کہ شاید آج عالمی سطح پر چھٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے اور فضائی کمپنیوں نے بھی اس چھٹی میں خدمات انجام دینے سے معذرت کر لی ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ائیرپورٹ میں داخل ہونے کے بعد جامہ تلاشی ، سامان کی تلاشی، بورڈنگ جیسے مراحل سے محض چند منٹ میں گزر کر انتظار گاہ تک پہنچ گئے ۔
ان مراحل سے گزرنے کے دوران واضح طور پر احساس ہوا کہ ہماری آمد سے ڈیوٹی پر مامور عملے کے آرام میں خلل پڑا ہے جس کے واضح آثار ان کے چہروں پر دیکھے جا سکتے تھے ۔ ہم عملے کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات کو جان بوجھ کر یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھے تو جگہ جگہ شاپرز و ریپرز پڑے نظر آئے ۔ لاؤنج کی جن سیٹوں پر ہم بیٹھنا چاہتے تھے انھیں بھی پہلے خود صاف کرنا پڑا ۔ دارالخلافہ کے ہوائی اڈے کی حالت ملکی حالت سے قطعی مختلف نہ تھی ۔
اس دوران امیر سفر صاحب تشریف لے آئے اور بورڈنگ پاس ہمیں تھما دیا ۔ بورڈنگ پاس جب ہمارے ہاتھ میں آیا تو پتا چلا کہ ہمیں افغانستان کی ایک نجی ائیر لائن کے ذریعے سفر کرنا ہے ۔ ہمارے سامنے موجود شیشے کی دیوار کے پار رن وے کا منظر بالکل صاف تھا ۔
اور سامنے موجود ہوائی جہاز کی دم پر موجود نام کو اپنے بورڈنگ پاس پر درج ہوائی کمپنی کے نام سے میچ کرتے ہی بے اختیار زبان سے نکلا : یا اللہ خیر !! اگرچہ میرے متعلق دوستوں میں یہ مشہور ہے کہ میں بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہوں مگر افغانستان کی نجی ہوائی کمپنی کے طیارے کی حالت زار دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور اب اعصاب اتنے مضبوط نہیں رہے ۔
فوری طور پر دو کام کیے ۔ پہلا یہ کہ وضوخانے کا رخ کیا اور ظہرین ادا کی کہ کیا پتا مغربین ملے نہ ملے ۔ دوسرا کام یہ کیا کہ طیارے کی تصویر کھینچ کر اپنے دوست کو بھیجی اور کہا کہ ذرا چیک کر کے بتاؤ یہ افغانستان کا وہی طیارہ تو نہیں جس کے ٹائر کو پاؤں سے دبا کر ہوا چیک کیے جانے کی داستانیں مشہور ہیں ۔ وہ دوست پہلے ہی اس بات پر ناراض تھا کہ اس سفر میں وہ ساتھ کیوں نہیں ہے۔
اس نے طیارے کے متعلق مزید کچھ انکشافات کر کے ہمارے اعصاب کا امتحان لینے کی کوشش کچھ اس انداز میں کی کہ ہم نے اس کا میسج پورا پڑھنا ہی گوارا نہ کیا ۔ اپنے خدشات و توہمات کو پرے دھکیلتے ہم اس طیارے میں داخل ہوئے تو طیارے کے ظاہر و باطن میں مماثلت دیکھ کر یقین ہو گیا کہ افغانستان کی اس نجی ہوائی کمپنی کے طیارے کم از کم منافق نہیں ہیں ۔ جتنی دعائیں ہمیں ازبر تھیں ، پڑھ ڈالیں ۔ پھر اسلام 360 سے فائدہ اٹھایا اور اس کے خالق کو ڈھیروں دعائیں دیں ۔
طیارہ اپنے مسافروں کو لے کر روانہ ہوا تو رن وے پر اس کی برق رفتاری کے باعث جسم میں پیدا ہونے والا کھچاؤ اس وقت دور ہوا جب اس کے پہیوں نے زمین کو چھوڑا ۔ اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد طیارے نے رخ بدلا اور کابل کی جانب محو پرواز ہو گیا ۔ مجھے نشست کھڑکی کے ساتھ ملی تھی اس لیے تاحد نگاہ شفاف نیلگوں آسمان بہت خوبصورت محسوس ہو رہا تھا ۔ بلندی کتنی شفاف ہوتی ہے مگر اسے پانے کے لیے آلودگی کو نیچے چھوڑنا پڑتا ہے ۔ آسمان پر تیرتے بادل عجیب مناظر پیش کر رہے تھے ۔
کئی جگہ ایسا محسوس ہوا کہ بچوں کے لیے بنائے جانے والی ڈاکومنٹریز اور پروگرامز کے دوران پیش کیے جانے والے گرافکس کے آئیڈیاز بھی شاید ان ہی آوارہ بادلوں کی دین ہیں ۔ ایسے خوبصورت مناظر نظر آئے کہ انسان بے اختیار سبحان اللہ کا ورد کرنے لگے ۔ محض بیس سے پچیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہمارے جہاز کے ہوا باز نے اعلان کردیا کہ ہم کچھ دیر میں کابل کے ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں ۔
اس اعلان کے ساتھ ہی جہاز نے آہستہ آہستہ اپنی بلندی کم کرنی شروع کر دی ۔ طویل پہاڑی سلسلہ پہلے تو بہت معدوم اور باریک لائنوں کی صورت نظر آنا شروع ہوا مگر پھر طیارے کی کم ہوتی بلندی نے اسے واضح کرنا شروع کر دیا ۔ اب بلند و بالا سنگلاخ پہاڑی سلسلہ واضح ہو چکا تھا ۔ عمودی چٹانیں دل پر ہیبت طاری کر رہی تھیں ، اللہ رب العزت کی کبریائی بیان کرتی محسوس ہوئیں ۔ ایسے پہاڑوں کا ہمیشہ سے عاشق رہا ہوں جو دیکھنے والے کے قلب و ذہن کو مسخر کر لیں ۔ جیسے جیسے جہاز کابل ہوائی اڈے کے رن وے کے قریب ہوتا جا رہا تھا چھوٹی نظر آنے والی چیزیں واضح ہوتی جا رہی تھیں ۔
جیسے جہاز کے پہیوں نے رن وے کو چھوا تو سواریوں کو جھٹکا محسوس ہوا جس نے ایک بار پھر جہاز کی ’’ نازکی‘‘ کا احساس دلایا ۔ رن وے پر آگے کی جانب دوڑتے والے جہاز کی رفتار کے باعث میری کھڑکی سے نظر آنے والا بیرونی منظر تیزی سے پیچھے کی جانب دوڑ رہا تھا جو اپنے اندر پوری ایک داستان سمیٹے ہوئے تھا ۔ کابل ہوائی اڈے پر بنے فوجی بنکر جو زیادہ تر اب تباہ ہو چکے تھے ، تیزی سے گزر گئے ۔ امریکی فوجی ہیلی کاپٹر، فوجی گاڑیاں بھی موجود تھیں جو اپنے مالکان کی شکست کا منہ بولتا ثبوت تھیں ۔
کابل ائیرپورٹ پر ہمارا سامنا امارت اسلامیہ کے حکمرانوں کی فوج کے اہلکاروں سے ہوا ۔ شلوار قمیض پر کمانڈو جیکٹس پہنے ، کندھوں پر ہتھیار لٹکائے ، پاؤں میں سادہ چپل تیزی سے ادھر ادھر حرکت کر رہے تھے ۔ اس وقت افغانستان میں انٹری لینے کے لیے لاؤنج میں صرف ہمارے طیارے سے اترنے والے ہی مسافر تھے جو متعلقہ کاؤنٹرز کے سامنے تیزی سے قطاریں بنا رہے تھے ۔ ہمارے وفد کے اراکین بھی ایک قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ ہمارے وفد میں شامل تمام افراد افغان طالبان کا جو خاکہ اپنے ذہن میں بنا کر آئے تھے وہ انتہائی خشک ،کرخت ، سخت گیر بلکہ ہیبت ناک قسم کا تھا ۔
یہی تصور لیے جب انٹری لینے کے لیے لائن میں لگے تو توقع یہی تھی کہ سوالات کی صورت سخت اور تلخ جملے سننے کو ملیں گے ۔ قطار میں کھڑے اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کہیں بھی کوئی بھاگ دوڑ نہیں ہے ۔ سب انتہائی سکون سے اپنے کاموں میں مصروف ہیں ۔ ایک جانب سات سے آٹھ افراد باجماعت نماز عصر ادا کر رہے تھے۔ ان کے سامنے پڑے ان کے ہتھیاروں سے اندازہ ہوا کہ وہ سکیورٹی پر مامور اہلکار ہیں ۔ تھوڑی دیر میں انھوں نے نماز کی ادائیگی کے بعد اپنی ڈیوٹی سنبھال لی اور عین اسی جگہ سکیورٹی اہلکاروں کا دوسرا گروہ نماز ادا کرنے آگیا ۔
جب میری باری آئی تو میں کاؤنٹر پر پہنچنے تک خود کو سخت سوالوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کر چکا تھا ۔ جیسے ہی کاؤنٹر پر بیٹھے شخص سے سامنا ہوا تو اس نے ( جس کا حلیہ بھی طالبان سکیورٹی اہلکار والا ہی تھا ) مسکرا کر سلام دعا کے بعد پاسپورٹ دیکھتے ہوئے پہلا سوال کیا پاکستانی؟ میں نے اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا ۔ اس نے دوسرا سوال کیا پشتو؟ میں نے نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا : اردو ۔ اس نے پاسپورٹ پر انٹری کا ٹھپہ لگاتے ہوئے خوش آمدید کہا ۔ جن سخت سوالات کی تیاری میں نے ذہن میں کی تھی وہ وہیں رہ گئے اور میں آگے بڑھ گیا ۔
ابھی چند قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ ایک اور اہلکار سامنا ہوا جس نے ایک فارم میرے ہاتھ تھما دیا ۔ پتا چلا کہ اس فارم کو پر کر کے واپس کرنا ہے اور یہ طریقہ کار آج ہی نافذ کیا گیا ۔ اس فارم کے ذریعے بیرون ملک سے آنے والوں کی معلومات حاصل کی جا رہی تھیں ۔ وفد میں شامل تمام افراد وہ فارم پُر کرنے میں مصروف ہو چکے تھے ۔ فارم میں کئی سوالات ایسے تھے کہ جن کے جوابات مجھے معلوم نہیں تھے ۔ میں نے ادھورا فارم جب اس اہلکار کو واپس تھمایا تو ساتھ ہی انگریزی میں اسے بتایا کہ ان سوالوں کا جواب مجھے معلوم نہیں ہے ۔ اس نے وہ فارم مجھ سے وصول کرلیا اور بڑی خندہ پیشانی سے مجھے دعائیہ کلمات کے ساتھ رخصت کیا ۔ جب دیگر ساتھی آئے تو پتا چلا کہ تقریبا سب کے ساتھ ہی یکساں صورت حال رہی ۔
اس سارے عمل کے دوران ہمارے ساتھ آنے والے مسافروں کی بڑی تعداد رخصت ہو چکی تھی اور ہم کابل ہوائی اڈے پر موجود تقریباً آخری سواریاں تھیں ۔ جیسے ہی ہم باہر نکلے ہمیں اپنے عقب میں لوہے کی سلاخوں والا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی ۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا تو ایک اہلکار دروازہ بند کر کے تالا لگا رہا تھا ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تالا کیوں لگا رہے ہو؟ کہنے لگا : بس ! یہی فلائٹ آنی تھی ۔
اب ہماری چھٹی ہو گئی ہے ، ہم تالے لگا کر گھر جا رہے ہیں ۔ ہم نے ائیرپورٹ کے بیرونی احاطے میں تصویریں بنانی شروع کر دیں۔ چند طالبان اہلکار ہمارے قریب آئے اور خاموشی سے ہمیں تصویریں بناتے دیکھتے رہے ۔ جب ہم تصاویر بنا چکے تو وہ ہم سے مخاطب ہوئے کہ یہاں تصاویر بنانا منع ہیں ۔ یہ سن کر ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔ وہ طالبان جن کا خاکہ ہم اپنے ذہن میں بنا کر آئے تھے ان سے ابھی تک ہمارا سامنا نہیں ہوا تھا ۔ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ ابھی تو کئی دن ہیں اور پتا نہیں کس کس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ پاکستان کے حوالے سے افغانستان کے عوام میں موجود نفرت کی عجیب و غریب داستانیں بھی ہم نے سن رکھی تھیں ۔
ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو ہمارے میزبان گاڑیوں میں ہمیں لینے کے لیے موجود تھے ۔ امجد خان، ذکراللہ خادم اور انعام خان امارت اسلامیہ میں ہمارے میزبان تھے ۔ اگلے پانچ دنوں میں ان تینوں افراد کی میزبانی، محبت اور خلوص نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ تین گاڑیوں پر سوار ہمارا قافلہ جیسے ہی کابل ائیرپورٹ سے باہر نکلا تو ایک لمحہ کو یہ گمان گزرا کہ شاید ہم پشاور پہنچ گئے ہیں ۔ بس ! ایک چیز جو ہمیں بار بار یہ جتاتی تھی کہ یہ پشاور نہیں وہ سڑکوں پر لفٹ ہینڈ ڈرائیو تھی ۔ راستے میں جگہ جگہ طالبان سکیورٹی اہلکاروں کی چیک پوسٹس تھیں جن پر اہلکار بڑے مستعد انداز میں کھڑے تھے ۔
ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ اہلکاروں کے قریب تصویریں یا ویڈیو بنانا منع ہے اس لیے گریز کیجئے گا ۔ کابل کی مختلف شاہراہوں سے گزرتے اور اپنے میزبانوں سے ان علاقوں کا تعارف حاصل کرتے ہمارا سفر جاری رہا ۔ اسی دوران بازار میں کھڑے مخصوص قسم کے ٹھیلے ، سڑکوں پر خوانچہ فروشوں کا مخصوص انداز ، سگریٹ کیبنز کی مخصوص بناوٹ نے ذہن میں کئی سوالوں کو جنم دیا جو ہم نے اپنی نوٹ بک میں درج تو کر لیے مگر ان کی حقیقت جاننے کے عمل کو اگلے دن تک کے لیے ملتوی کر دیا ۔
شہر کا نظارہ کرتے ہوئے ہم کابل کے علاقے ’’ نوے شہر‘‘ پہنچے جہاں ہمارا ہوٹل واقع تھا ۔ ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود نوجوانوں نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا اور اردو انگریزی پشتو، تینوں زبانوں کے ملغوبے سے بڑی فراخ دلی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہوٹل کی لابی میں وفد کے اراکین کو چائے پیش کی گئی اور کچھ ہی دیر میں کمرے الاٹ کردئے گئے۔ اس سے قبل کہ ہم کمروں کا رخ ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ رات کا کھانا امارت اسلامیہ افغانستان کے سیکرٹری اطلاعات انعام اللہ سمنگانی کی جانب سے دیا گیا ہے اس لیے کچھ دیر آرام کے بعد واپس ہوٹل کی لابی میں تشریف لے آئیں۔
وفد شامل اکثر افراد اگرچہ کمرے میں ہی پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کا فائنل دیکھنے کے خواہش مند تھے مگر پھر بھی انھوں نے بروقت واپس لابی پہنچنے کی ہامی بھرلی۔
کچھ دیر آرام کے بعد جب میں واپس ہوٹل کی لابی پہنچا تو دیکھا کہ ہمیشہ کی طرح صرف میں ہی تاخیر سے پہنچا تھا جبکہ وفد کے اراکین تازہ دم ہوکر کھانے سے انصاف کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ ہمارا قافلہ روانہ ہوا تو سڑکوں پر رش کم محسوس ہوا۔ ہمیں بتایا گیا کہ عشاء کے بعد بازار بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ کھانے کے لیے ہم ایک چار منزلہ عمارت کے سامنے پہنچے جس کے تین فلورز پر مختلف دکانیں جبکہ چوتھے فلور اور عمارت کی چھت پر ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا۔ ڈنر کا انتظام چھت پر کیا گیا تھا۔ کئی میزوں کو ایک قطار کی صورت میں جوڑ دیا گیا تھا جس کے دونوں طرف نہایت نفاست سے کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ ہوٹل میں رش محسوس نہ ہوا تو سوچا کہ شاید اس ریسٹورنٹ کو عوام زیادہ پسند نہیں کرتے۔
اچانک ہمیں شور محسوس ہوا تو دیکھا کہ ہوٹل انتظامیہ نے ایک جانب بڑی اسکرین لگائی تھی اور اس کے سامنے بھی کھانے کے لیے میز اور کرسیاں لگادی گئیں تھیں۔ ہوٹل خالی محسوس ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ لوگ اسکرین کے عین سامنے کرسیوں پر قبضہ جما کر بیٹھ چکے تھے اور بڑے انہماک سے پاکستان اور سری لنکا کے مابین ایشیا کپ کا فائنل دیکھ رہے تھے۔ افغانستان میں افغانوں کو کرکٹ میچ دیکھتے دیکھ کر ہمیں چند روز قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والا میچ یاد آگیا جس میں کھلاڑیوں کے درمیان بدمزگی کے بعد تماشائیوں میں بھی کچھ ناپسندیدہ واقعات دیکھنے کو ملے تھے۔
ان واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر عصبیت کی بنیاد پر انتہائی زہریلا پروپیگنڈہ بھی کیا گیا تھا۔ اسی پروپیگنڈہ کا اثر تھا کہ مجھے یہ لگا جیسے میچ دیکھنے میں مشغول افغان پاکستان کی سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے منتظر ہیں۔ ذرا جو غور کیا تو بالکل الگ ہی صورت حال سامنے آئی۔ اسکرین کے سامنے بیٹھے تماشائی سری لنکا کی باؤلنگ اور فیلڈنگ پر انھیں داد دیتے تو ساتھ ہی پاکستانی بلے باز کے کسی جاندار شاٹ پر تالیاں بجنی شروع ہوجاتی۔ اندازہ ہوا کہ یہ افغان صرف اچھے کھیل سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور اچھا کھیلنے والے کو بغیر کسی تفریق کے کھل کر داد دے رہے ہیں۔
ابھی ہماری یہ مشاہداتی صحافت جاری تھی کہ اچانک انعام اللہ سمنگانی کی آمد کی اطلاع ملی۔ خیال تھا کہ کوئی بہت سخت قسم کا لمبا چوڑ داڑھی والا شخص، شلوار قمیض پر کمانڈو جیکٹ پہنے اور کلاشنکوف کندھے پر لٹکائے دس پندرہ گارڈز کے نرغے میں نمودار ہوگا۔ مگر اس وقت ہم حیران رہ گئے جبکہ چہرے پر نرم سے مسکراہٹ لیے ایک باریش شخصیت ہمارے سامنے آئی جس نے کندھوں پر افغانستان کی معروف شال ڈال رکھی تھی۔ انتہائی گرم جوشی سے مصافحہ کرنے کے بعد انعام اللہ سمنگانی بیٹھ گئے اور تعارف کے بعد عام گفتگو ہونے لگی۔ سمنگانی بہت اچھے تلفظ اور روانی کے ساتھ اردو بول رہے تھے۔ آغاز ہی میں امان اللہ سمنگانی نے مجھے اور عامر خاکوانی سے کہا کہ میں آپ لوگوں کے کالم پڑھتا رہتا ہوں۔
میں یہ سمجھا کہ سمنگانی صاحب نے یہ جملہ محض دل رکھنے کے لیے کہا ہے مگر دوران گفتگو ایک موقع پر جب انھوں نے افغانستان کے حوالے سے میری ہی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تو اندازہ ہوا کہ امارت اسلامیہ کے اطلاعات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی میڈیا پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔ کھانے کے دوران اگرچہ سمنگانی صاحب سے سیاسی و غیر سیاسی نوعیت کے مختلف سوالات کیے گئے مگر وہ جواب دینے سے گریزاں رہے اور ہر بار بڑی خوبصورتی سے بات گھما کر کسی ہلکے پھلکے موضوع کی جانب لے جاتے۔
گفتگو کے دوران پتا لگا کہ مفتی انعام اللہ سمنگانی افغانستان کے صوبے سمنگان سے تعلق رکھتے ہیں اوراسی حوالے سے ’ سمنگانی ‘ کہلاتے ہیں۔ وہ سمنگان میں ملٹری کمیشن کے ذمہ دار رہے ہیں اور امریکہ کے خلاف جنگ کے دوران میں جب طالبان نے ویت نامی طرز کی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا تو اس وقت انھیں سمنگان کا شیڈو گورنر تعینات کردیا گیا تھا۔
امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی رہے ہیں اور آج کل بھی میڈیا کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سمنگانی صاحب کو پاکستان سے خاص انسیت تھی جس کی دوران گفتگو ایک وجہ یہ پتا چلی کہ وہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم رہے ہیں۔
ان کے والد بھی افغانستان کے ممتاز عالم دین اور شیخ الحدیث ہیں۔ طالبان قیادت میں اور افغانستان کے مذہبی حلقوں میں ان کا بہت اثر رسوخ ہے اور احترام کیا جاتا ہے۔ کھانے پر اختتام پر سمنگانی صاحب نے امارت اسلامیہ کے اطلاعات کے دفتر آنے کی دعوت دی اور رخصت ہوگئے۔ جب ہم اس ریسٹورنٹ سے نکلنے لگے تو پتا چلا کہ لفٹ بند ہے اس لیے زینے کا استعمال کرنا پڑے گا۔ ہم نیچے اترنے لگے تو ہر فلور پر موجود دکانوں پر نظر دوڑانے کا سلسلہ جاری رکھا جن میں سے بیشتر دکانیں بند ہو چکی تھیں ۔
اسی دوران میری نظر ایک شخص پر پڑی جو معروف ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل کے ہیرو کی مشابہت اختیار کیے ہوئے تھا اور اس ڈرامہ سیریل میں دوران جنگ استعمال ہونے والے لباس سے مشابہ لباس پہنا ہوا تھا ۔ اس کے پہلو میں تلوار لٹک رہی تھی جس کے دستے پر اس کا ہاتھ تھا ۔ میں اس کے پاس پہنچا مسکرا کر سلام دعا کے بعد اس کے حلیے کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو اسے اردو یا انگریزی نہیں آتی تھی ۔ اس موقع پر ہمارے ایک میزبان نے مترجم کے فرائض ادا کیے ۔ اس کابلی ارطغرل کی زبانی پتا چلا کہ وہ ہوٹل کا ملازم ہے اور اس لباس میں ہوٹل انتظامیہ کی ہدایت پر موجود ہے ۔
یہ انکشاف ہمارے لیے خاصہ حیران کن اور دلچسپ تھا، جب انتظامیہ کے ایک فرد سے تفصیل معلوم کی تو انکشاف ہوا کہ ترک ڈرامہ سیریز ’ ارطغرل ‘ افغانستان کے نوجوانوں اور بچوں میں بھی بہت پسند کی جاتی ہے ۔ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے اسے اپنی مارکیٹنگ کا ذریعہ بنایا ہے اور ارطغرل کا حلیہ بنائے ہوٹل کے ملازم کو دیکھ کر نوجوان اور بچے بہت خوش ہوتے ہیں ۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس ترک ڈرامہ سیریز نے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے ہیروز کو مات دیدی ہے ۔ کابلی ارطغرل سے مل کر ہم واپس اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہو گئے ۔ ہوٹل پہنچ کر نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے قلم و نوٹ بک سنبھالی اور اپنے پہلے دن کی روداد لکھنے بیٹھ گیا ۔ ( جاری ہے )
The post طالبان کے زیر انتظام افغانستان کیسا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.