کئی اسٹار کرکٹرز کے بغیر پاکستان آنے والی انگلش ٹیم کیخلاف 7ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز میں پاکستان کو فیورٹ خیال کیا جارہا ہے۔
توقع تھی کہ ہوم کنڈیشنز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گرین شرٹس مہمانوں کو تختہ مشق بنائیں گے مگر صورتحال مختلف نظر آئی،صرف ایک میچ میں پاکستانی بیٹنگ لائن بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان بھرپور فارم میں نظر آئے اور 200رنز کا ہدف آسانی سے حاصل کرلیا دیگر میں بیٹرز خاص طور پر مڈل آرڈر جدوجہد کرتی نظر آئی۔
پاکستان سست آغاز میں وکٹیں بچاکر بعد میں مار دھاڑ کی امید رکھنے کی حکمت عملی برقرار رکھتے ہوئے کھیلتا رہا، کبھی انگلش بولرز یا بیٹرز کی غلطیوں کی بدولت کامیابی حاصل ہوئی تو کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر کارکردگی میں تسلسل کا فقدان پوری سیریز میں نظر آیا، کراچی میں پلڑا 2-2سے برابر رہنے کے بعد لاہور میں میچز کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان کا ایک بری خبر نے استقبال کیا۔
نسیم شاہ نمونیا کا شکار ہوئے،بعد ازاں کورونا وائرس کی جکڑ میں بھی آگئے، قذافی اسٹیڈیم میں بھی گرین شرٹس نے بیٹنگ کا انداز بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،بابر اعظم کی جلد رخصتی کے بعد محمد رضوان نے ایک اینڈ سنبھالے رکھا، پورے ایشیا کپ کے بعد کراچی میں ایک میچ کے سوا،اسی انداز میں پاکستانی اننگز کا آگے بڑھنا کوئی خوش آئند بات نہیں۔
پانچویں میچ میں وہی پیٹرن رہا جو گزشتہ میچز میں رہا تھا، محمد رضوان مناسب رن ریٹ سے اسکور کرتے رہے، دیگر میں سے کوئی اتنا پر اعتماد نہیں تھا کہ انگلش بولرز کو ماتھے سے پسینہ پونچھنے پر مجبور کردیا،اسٹرائیک ریٹ کم رہا، وکٹیں زیادہ گریں،ڈیڑھ سو سے بھی کم ہدف دینے کے بعد جیت کے امکان بہت کم نظر آرہا تھا لیکن بولرز مہمان بیٹرز کو ابتدا میں ہی دبائو میں لانے میں کامیاب ہوگئے،بعد ازاں بھی وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری رہا،بہرحال ہدف اتنا کم تھا کہ معین علی نے عمدہ بیٹنگ سے فتح کے قریب پہنچادیا۔
بابر اعظم نے مشکل ترین صورتحال میں ڈیبیو میچ کھیلنے والے بولر عامر جمال کو اوور دینے کا حیران کن فیصلہ کیا جو خوش قسمتی سے درست بھی ثابت ہوگیا، کراچی میں چوتھے میچ میں حارث رئوف نے ہاری بازی جیت میں بدل دی تھی تو یہاں عامر جمال نے غیر متوقع طور پر 15رنز نہیں بننے دیئے، چھٹے میچ میں جیت کے ساتھ پاکستان کے پاس سیریز میںفیصلہ کن برتری حاصل کرنے کا موقع تھا مگر اس بار انتہائی غیر متوقع نتیجہ دیکھنے میں آیا۔
پانچویں مقابلے میں رننگ کے دوران کمر پر گیند لگنے کی وجہ سے سوجن ہوجانے پر محمد رضوان کو آرام دیکر محمد حارث کو ڈیبیو کروایا گیا،حارث رئوف کی جگہ شاہنواز دھانی کو پلیئنگ الیون کا حصہ بنایا گیا،خوش آئند بات یہ ہے کہ کراچی میں سنچری کے سوا ایشیا کپ سے ابھی تک کوئی بڑی اننگز نہ کھیل پانے والے بابر اعظم نے توقعات کا بوجھ اٹھالیا،دیگر بیٹرز میں سے افتخار احمد کے سوا کوئی بھی کپتان کا زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکا۔
پاور ہٹرز میں سے کسی کی بھی تباہ کن بیٹنگ دیکھنے میں نہیں آئی،پچ بیٹنگ کیلیے سازگار ہونے کے باوجود 169 رنز کا مجموعہ کافی نہیں تھا،انگلش بیٹرز نے جس انداز میں بیٹنگ کا آغاز کیا،وہ یہ ثابت کرنے کیلیے کافی تھا کہ پاکستان کو یہاں کس انداز میں بیٹنگ کرنے کی ضرورت تھی،بلاشبہ ایک اہم بولر حارث رئوف موجود نہیں تھے لیکن دیگر بھی انٹرنیشنل میچز کھیل چکے اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی قومی ٹیم میں شامل کئے گئے ہیں۔
پیسرز شاہنواز دھانی، وسیم جونیئر اور عامر جمال میں سے کسی کی بولنگ میں کاٹ نظر نہیں آئی تو محمد نواز بھی مار کھاتے نظر آئے،شاداب خان نے قدرے بہتر بولنگ کا مظاہرہ کیا،دونوں ٹیموں کی بیٹنگ میں حکمت عملی کے فرق کا اندازہ ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ بابر اعظم کے 87رنز 147.45 کے اسٹرائیک ریٹ سے تھے جبکہ فل سالٹ نے 88 رنز 214.63 کے اسٹرائیک ریٹ سے بنائے،الیکس ہیلز کا اسٹرائیک ریٹ 225.00، بین ڈکٹ کا 162.50اور ڈیوڈ مالان کا 144.44 تھا۔
آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے دوران کسی ایک بیٹر کی سنچری کے بجائے 3،4 کی جانب سے جارحانہ 30یا 40رنز بڑے اسکور کیلیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں،شاہین شاہ آفریدی کی واپسی، حارث رئوف اور نسیم شاہ کی دستیابی سے آسٹریلیا کی پچز پر پاکستان کا پیس اٹیک تو متوازن ہوجائے گا، اصل مسائل مڈل آرڈر کے ہوں گے، کائونٹی اور ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس کی بدولت قومی ٹیم میں جگہ بنانے والے شان مسعود ابھی تک ایک ففٹی کے سوا کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔
حیدر علی، خوشدل شاہ اور آصف علی کو باریاں دی گئیں مگر کوئی ایک بھی کارکردگی میں تسلسل کا مظاہرہ نہیں کرسکا، افتخار احمد گزارا کررہے ہیں مگر کوئی تہلکہ خیز پرفارمنس دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، محمد نواز بھی بھارت کیخلاف میچ جیسی اننگز دوبارہ نہیں کھیل پائے،فی الحال بیٹرز اور ان کی پوزیشن سیٹ نظر نہیں آرہی،نیوزی لینڈ میں سہ ملکی سیریز کے دوران کنڈیشنز بدلنے سے بیٹنگ کا انداز بہتر ہوتا ہے یا مزید خراب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، فی الحال انگلینڈ کیخلاف ہوم سیریز گرین شرٹس کیلیے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔
ان کے جوابات تلاش کرنے کیلیے زیادہ وقت نہیں،کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کیلیے پہلے اس کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنا پڑتا ہے،پاکستان ٹیم منیجمنٹ کا اپنا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ہی رٹ لگاتی ہے کہ یہی کھلاڑی اور حکمت عملی کامیاب ہوگی،ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ایسا ہی ہو مگر اگر زخموں پر بروقت مرہم نہ رکھا جائے تو ناسور بن جاتے ہیں، اس لیے نظر آنے والی خامیوں پر کام کرنا ضروری ہے۔
The post پاک انگلینڈ ٹی ٹوئنٹی سیریز مینجمنٹ کیلئے کئی سوال چھوڑ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.