کراچی: راہ میں اُن سے ملاقات ہوئی
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی
یہ منفرد شعر ترک شاعر جناب مصطفی ندیم (وفات:1931ء بمقام انقرہ) کا ہے جو تُرکی، فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔ وہ 1903ء میں ہندوستان تشریف لائے اور 1913ء میں واپس عاز م ترکی ہوئے۔ یہ نمونہ کلام اُس دور کا ہے جب کلاسیکی اردو شاعری اپنے آخری دور میں تھی اور جدید غز ل نیز نظم کا غُلعُلہ تھا۔ اس شعر میں بھی اہل ہنر بہت کچھ تلاش کرسکتے ہیں، بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔
اب فطری طور پر یہ نکتہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا وہ ایسے واحد ترک تھے جنھوں نے اردو میں شاعری کی، خصوصاً جدید دور میں؟ تو یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ اس سے قطع نظر، ایک اور بات بھی موضوع سے جڑی ہوئی ہر ایک ذہن میں آسکتی ہے ; قدیم لسانی تحقیق یا نکتہ آرائی میں عموماً عربی، ترکی اور فارسی کو، نیز کہیں کہیں سنسکِرِت کو اردو کی ماں کہا گیا تو کیا یہ بیان،جدید تحقیق کی روشنی میں درست ہے؟ بندہ اپنے محدودعلم کی بنیاد پر عرض کرتا ہے کہ اردو یقینا اس خطے یعنی برّ عظیم پاک وہند (برّ صغیر بھی گواراہے مگر بہتریہی) ہی کی پیداوارہے اور کوئی غیرملکی فاتح یا فاتحین اسے یہاں لائے نہ اسے تشکیل دیا، ہاں یہ درست ہے کہ تمام(غیر منقسم) ہندوستانی علاقوں (بشمول موجودہ پاکستان)میں مقامی زبانوں اور بولیوں کے اشتراک سے اَزخود، تیارہونے اور پروان چڑھنے والا لسانی ڈھانچہ اسی زبان کا تھا جسے علاقائی یا مقامی بنیاد پر مختلف اَدوارمیں مختلف ناموں سے پکارا اور نوازا گیا۔
مذکورہ بالا چار زبانیں اِن معنی میں اردو کی ماں ہیں کہ اُن کا لسانی اشتراک،ہماری پیاری زبان سے بہت زیادہ ہے اور ذخیرہ الفاظ کے ساتھ ساتھ، زبان وادب کے خزانے میں بھی اُن کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اب ایک قدم آگے بڑھتے ہیں۔ ایک فرسودہ اور بالتحقیق غلط قرارپانے والا نظریہ، یہ ہے کہ لفظ ’اردو‘ ترکی زبان سے ہمارے یہاں آیا۔
اس بابت خاکسار پورے پورے کالم لکھ چکا ہے، مگر کیا کیجئے کہ ہمارے اہل قلم شاذ ہی توجہ فرماتے ہیں۔ فاضل سنسکرت و ہندی،اردو /انگریزی ادیب،ڈاکٹر اَجے مالوی (الہ آباد، ہندوستان) کی ایک پوری کتاب(ویدک عہد اور اردو ادب) کی تحقیق کا نچوڑ ایک مرتبہ پھر نقل کرتا ہوں کہ اردو بطور لفظ، ترکی ہی نہیں، دنیا بھر کی متعدد زبانو ں سے صدیوں پہلے، سنسکرت سے بھی پہلے، قدیم ویدِک بولیوں میں مستعمل تھا۔ اس کے کثیر معانی میں کہیں اخیر (یہ آخر نہیں) میں جاکر، لشکر اور چھاؤنی بھی آتے ہیں (جو جدیدترکی میں عسکری اکادمی کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔بقول محقق اصغر حمید، اوردُو یعنی اردو کے جدید معانی میں فوج، لشکر، کیمپ اور عسکری قوت شامل ہیں);اس کے معانی ومفاہیم کا خلاصہ ہے: معرفت کی زبان، پہچان کی زبان، دل کی زبان۔
اردو اور ترکی کے مابین لسانی تعلق اور روابط کی داستان یقینا ہماری لسانی تاریخ کا اہم باب ہے۔ جنوبی ایشیا اورتُرکی کے مابین فاتحین، شاہان، صوفیہ کرام، مبلغین، تُجّار اور عوام النّاس کے روابط اور اُن کی مسلسل آمد ورفت کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔اگر گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے صوبے بہِار پر قدیم زمانے میں ترک حکومت کرچکے ہیں، جبکہ مسلمان فاتحین کی اکثریت بھی ترک ہی تھی جن میں سلطان محمودغزنوی سے قطب الدین ایبک تک، پھر اُن کے جانشینوں کا سلسلہ،حتیٰ کہ نام نہاد مغل بھی شامل ہیں،دوسری طرف دکن پر حکومت کرنے والا قطب شاہی خاندان بھی ترک ہی تھا، جس میں مشہور شاعر بادشاہ قلی قطب شاہ بھی ہوگزرا ہے۔
عظیم ترک خلافت عثمانیہ سے تعلق خاطر بھی ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔خلافت عثمانیہ کے آخری عہد میں صرف استنبول ہی سے تین اردو اخبارات، پیک اسلام، جہان اسلام اور اخوت کی اشاعت کا پتا ملتا ہے۔ہمارے شعراء میں دوعظیم شخصیات امیرخسروؔ اور میرزاغالبؔ تُر ک نژاد تھیں۔یہ نکتہ بہرحال ناقابل فراموش ہے کہ(علی شیرنوائی کے بعد) ترکی زبان کے دوسرے بڑے شاعر، ظہیرالدین میرزا محمد بابُر نے اپنے سوانح حیات، ترکی میں بعنوان ’تزک بابری‘لکھے (جومابعد، بابر نامہ کے نام سے عبدالرحیم خان خاناں نے فارسی میں منتقل کیے)، وہ فارسی کا بھی اچھا شاعر تھا،اُس کا مشہور مصرع ”بابُر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ ضرب المثل ہے، جبکہ قدیم اردو کے کچھ آثاربھی اُس کی تحریر میں ملتے ہیں۔اس کے بعد، شُدہ شُدہ مغلوں میں ترکی کا چلن کم ہوتا گیا اور وہ فارسی گو ہوگئے۔غالباً اورنگ زیب عالمگیر کے جانشینوں میں کسی کو ترکی نہیں آتی تھی۔اس سارے پس منظر میں ہماری زبان کی تشکیل میں ترکی سے زیادہ فارسی کا حصہ، نیز مقامی زبانوں اور بولیوں کا حصہ کہیں زیادہ غالب ہوا۔
یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ترکی کا قدیم رسم الخط عربی وفارسی سے ہم آہنگ تھااور جب مصطفی کمال پاشا (اتاترک) نے اسے یکسر ختم کرکے لاطینی یا رومن رسم الخط رائج کیا(جو انگریزی سمیت متعدد یورپی زبانوں کا رسم الخط ہے)، تو پرانی ترکی (عثمانی یا عثمانلی)محض دینی مدارس تک محدودہوگئی تھی، جبکہ وسط ایشیا کی بعض زبانوں بشمول ویغور(چینی مسلمانوں کی زبان)میں یہ رسم الخط آج بھی موجود ہے۔گزشتہ چند عشروں میں پرانی اقدارکے احیاء کی دَبی دبی تحریک چلی تو عثمانلی ترکی کا سرکاری طور پر احیاء ہوا اور مجھے پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوق آر نے بتایاکہ اُن کی صاحبزاد ی نے اس قدیم طرز کے مطالعے میں باقاعدہ سند حاصل کی ہے۔(ہمارے یہ محترم ترک دوست، پاکستان کی معروف علمی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے داماد ہیں اور ان کی لسانی خدمات کا دائرہ محض اردو اور ترکی تک محدود نہیں، بلکہ وہ ہندکو زبان کے قواعد پر ایک تحقیقی کتاب بزبان انگریزی لکھ چکے ہیں جو امریکا سے شایع ہوئی اور غالباً دوسری مرتبہ نظر ثانی کے بعد بھی شایع ہوچکی ہے)۔
جدید(رومن رسم الخط والے)ترکی حروف تہجی میں تین انگریزی حروف یعنی: X-W-Q موجود نہیں۔اسی طرح خالص عربی،حلقی آوازیں یعنی ’خ‘، ’غ‘ اور ’ق‘ بھی باقی نہیں، لہٰذا ایسے تمام نام خصوصاً اسمائے معرفہ کی ہئیت تبدیل ہوچکی ہے ;خالد کو حالد، خلیل کو حلیل، خلوان کو حلوان اور اسی طرح ’غ‘ درمیان والے ناموں میں سکتہ کیا جاتا ہے جیسے اوغلو کی بجائے اول۔لُو۔موجودہ ترکی زبان میں کم وبیش نو(۹)ہزار الفاظ اردو سے مشترک ہیں۔ایک محقق کے خیال میں اس اشتراک کی چار مختلف صورتیں یا پہلو ہیں۔بہت سے الفاظ عربی الاصل ہیں یا فارسی الاصل ہیں، جبکہ تجارت، جنگ اور دینی وتہذیبی روابط کی بناء پر بھی مخلوط بول چال کے سبب، اس اشتراک نے فطری طور پر جنم لیا۔ایک حصہ الفاظ کا وہ ہے جو اِملاء اور تلفظ کے فرق کے ساتھ،
عثمانلی ترکی سے جدید ترکی میں منتقل ہوا۔اب ذرا ایسے الفاظ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو دونوں زبانوں میں مشترک ہیں:
/Baciباجی(بہن) Abaci (آپاجی)، Abiru (آبرو)، Abanoz (آبنوس)،Adap (آداب)، Adem (آدم)،
Asuda (آسودہ)،Asayis (آسائش)،Ordu(تلفظ:اوردو) یعنی اُردو، Insan(انسان)،Ilçi(سفیر، قاصد،ایلچی)،
Asli (اصلی)Eser (اثر، تاثیر)،Banka(بینک)Bahçe(باغیچہ)،Bahar(تلفظ: باہار)یعنی بہار،Payan(پایان یعنی نیچا یانچلا)،Peynir (تلفظ پی نیر) یعنی پنیر،Pasa(تلفظ:پاشا)یعنی مالک، صاحب(لقب)،Pantalon (پتلون)،
Teklif (تکلیف)،Terazi( ترازو)،Tebrik(تبریک یعنی برکت حاصل کرنا)، Tercih( ترجیح یعنی برکت حاصل کرنا)،
Cild (جلد)،Cim(تلفظ: جےِم: اردو کاجی یعنی ہاں)، Cevab (جواب)،çabuk(چابک)،çare(چارہ)،Çay(تلفظ: چائی یعنی چائے) hüzün(حزن یعنی غم: عربی الاصل)، hazir (حاضر)، His (حس)،Hat(تلفظ: حط یعنی خط)، mektup(مکتوب یعنی خط)،haber(خبر)،horsid (خورشید)،Hos(تلفظ:حوش یعنی خوش)، dost (دوست)،
dade(دادا)terzi(ترزی یعنی درزی)، davet (دعوت)،divane (دیوانہ)، rahat (راحت)، rüsvet (رشوت)، reng (رنگ)، zaman (زمان یعنی زمانہ)،Zor (زور)، ziyaret (زیارت)، sahil (ساحل)،
sade (سادہ)، sefer (سفر)، sinema (سینما)، çorba (شوربا)،serh(شرح)،Ask(اَشک یعنی عِشق ;قازقستان کا صدرمقام عشق آباد)،arvat(آروات یعنی عورت)، aciz (عاجز)، Fen (فن:اردو والا فن)، findik (فندک یعنی فندق;عربی میں بمعنی ہوٹل)، ferah (فرح)، kalem (کلم یعنی قلم)، geyçi (گے چی یعنی قینچی)، kism (کسم یعنی قسم)، kabiliyet (کابلیت یعنی قابلیت)،kitap (کتاب)، kebab (کباب)، kara (کارا یعنی کالا)(ماقبل کالا، کارا، قرہ پر زباں فہمی میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں)، Gül (گل)، lakin (لیکن)،titreme(تترمے یعنی ٹھٹرنا،لرزنا)،mevsim (موسم)، mum (موم)، meger (مگر)، nefret (نفرت)، Ve (اور)، Her (ہر: اردو والا ہَر)، hava (ہوا)، Hint (ہنت یعنی ہند، ہندوستان)، yani (یعنی)، nergis (نرگس)،Baharat(بھا رات یعنی گرم مصالحے;
شاید گرم مصالحوں کے وطن بھارت کی نسبت سے)۔محقق سلیمان زارع کا کہنا ہے کہ ”ترکی اور اردو والوں کے در میان بہت زیادہ تہذیبی مشتر ک رسوم اور عادتیں پائی جاتی ہیں مثلاً بر صغیر اور ترکی والے دونوں خوش مزاج ہیں، دونوں مرچ بہت زیادہ کھاتے ہیں،خاص طور پر ترک ناشتے میں بھی، ترک، اردو والوں کی طرح اونچی آواز سے ہنستے ہیں،دونوں بہت محنتی ہیں“۔
ہرچند کہ تقسیم ہند سے قبل ہی ترکی اور اردو زبان کے درمیان ادبی اشتراک کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور اس ضمن میں تحریک رومان نگاری کے سَرخَیل، ممتاز ادیب، سجاد حیدریلدرم کی ترکی سے الفت دیدنی تھی جنھوں نے ترکی سے تراجم کرتے ہوئے افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور آج بھی اُن کے بعض طبع زاد شاہکار، درحقیقت ترکی ہی سے مستعار یا ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔اردو میں ترکی کے سفرناموں کا سلسلہ سفرنامہ آئینہ فرنگ از نواب عمر خان (1885)سے تاحال جاری ہے۔بعض نمایاں ناموں میں علامہ شبلی نعمانی کا سفرنامہ روم(یعنی ترکی)ومصروشام (1894)،سر شیخ عبدالقادر کا مقام خلافت،سفراستنبول کے حالات (1906)،عطاء الحق قاسمی کا شوق آوارگی(1970)اور مستنصر حسین تارڑ کا ”نکلے تیری تلاش میں“(1972)قابل ذکرہیں۔اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت میں پیش رفت،ترکی میں اردو زبان وادب کی تدریس سے ہوئی۔
اردوزبان کی باقاعدہ تدریس 1915ء میں اُس وقت شروع ہوئی جب استنبول کی جامعہ میں شعبہ اردو کی تشکیل ہوئی۔ درس تدریس کا یہ سلسلہ کامیابی سے ہم کنا ر ہوا اور آج تک بحسن وخوبی جاری ہے۔اس کے بعد ہمیں ایک طویل وقفہ نظر آتا ہے کسی دوسری جامعہ میں تدریس اردو کے آغاز تک1956; ء میں انقرہ یونی ورسٹی میں اس عظیم زبان کی تدریس کی ابتداء ہوئی اور پھر اُسی سال حکومت ِ پاکستان نے ”کرسی ئ ِاردو“ [Urdu chair]قائم کرکے اس کے صدرنشیں کا تقرر کیا۔ا س منصب پر فائز ہونے والی ممتاز علمی وادبی شخصیات میں ڈاکٹر داؤد رہبر، ڈاکٹر طاہر فاروقی، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر میاں مشتاق، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اورپروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف شامل ہیں۔
ان مشاہیر نے وہاں اردو کی تعلیم وترویج کے لیے تدریسی وتحقیقی خدمات انجام دیں اور ترک نژاد اساتذہ کے ساتھ مل کر، ایک ایسی علمی فضاء قائم کی کہ جس کی مثال کسی اور غیرملکی شعبہ اردومیں ملنا محال ہے۔ترکی کے شہر قونیہ کی جامعہ سلجوق میں بھی اردو کی تدریس وتحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ بقول ”ترکی کے بابائے اردو“ محترم اے بی (احمدبختیار)اشرف(پ:15 فروری 1935ء)،”اُردو کے حوالے سے تُرکی کی ان جامعات میں جتنا تحقیقی و تدریسی کام ہوا، دنیا کی کسی اور یونی ورسٹی میں نہیں ہوا“۔پچیس کتب کے مصنف، مؤلف، محقق، نقادوافسانہ نگار ڈاکٹر اے بی اشرف (تمغہ امتیاز یافتہ)کو ترکی میں اردو اور پاکستان کی خدمت انجام دیتے ہوئے چونتیس سال کاعرصہ گزرچکاہے(1988ء میں انقرہ یونیورسٹی میں تقرر)۔اُن کی اہم کتب میں ”غالب اور اقبال“،”سفرنامہ تُرکی“،”اُردو ڈرامہ اور آغا حشر“ اور اُن کے زیر اہتمام شایع ہونے والے تُرک افسانوں کے ایک مجموعے”ایک عورت“ کا اردو ترجمہ شامل ہیں۔ ترکی کے قومی ترانے کے خالق محمد عاکف ایرصوئے نے اپنے ہم عصر علامہ اقبال کو ترکی میں متعارف کرایاتھا۔
”تاہم میرے نزدیک سب سے اہم کام’اُردو تُرکی۔ تُرکی اُردو لغت‘(دوطرفہ)کی اشاعت ہے۔ اس سے قبل جو لغات مرتّب کی گئیں، وہ تُرکی، اُردو لغات تھیں“۔ڈاکٹر احمد بختیار اشرف صاحب نے برملا انکشاف فرمایا۔قارئین کرام!میرے لیے یہ سعادت ہے کہ موصوف اس وقیع لغت کی دوسری اشاعت پر،گزشتہ دنوں، ترکی سے مختصر قیام کے لیے ملتان واپس آتے ہوئے، ذاتی نسخے کے علاوہ، ایک نسخہ میرے لیے ہمراہ لائے اور مجھے ارسال کرکے ممنون فرمایا۔ڈاکٹر اشرف صاحب نے انکشاف کیا کہ”تُرک باشندے ویسے بھی پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور وہ اُردو اپنے شوق سے سیکھتے ہیں، تاہم علّامہ اقبال کے کلام نے اُن کے اِس شوق کو مزید بڑھاوا دیا۔ وہاں اُردو سیکھنے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
کئی شہروں میں تُرک اور پاکستانی طلبہ نے انجمنیں بنا رکھی ہیں، جن کی تقریبات اُردو اور تُرکی، دونوں زبانوں میں ہوتی ہیں۔نیز، تُرکی میں تعیّنات پاکستانی سفیروں نے اس معاملے میں ہر طرح سے تعاون کیا“۔اس لغت میں اُن کے معاون، اُنھی کے شاگرد عزیز ڈاکٹر جلال صوئیدان(ستارہ قائداعظم یافتہ)ہیں جو اَمیر خسرو، غالبؔ اور اقبالؔ کے عاشق ہیں اور اپنے استادگرامی ہی کی طرح متعدد کتب کے مصنف، مؤلف، محقق ومترجم ہیں۔انھوں نے دیوان غالب اور چارمجموعہ ہائے کلام علامہ اقبال کو ترکی میں منتقل کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا، دیگر کی تفصیل مستزا دہے۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ تحقیق، تصنیف، تالیف وترتیب وترجمہ کی یہ مسلسل مساعی دونوں ملکوں کو قریب لانے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوئی ہے، جبکہ ترکی کے ہندوستانی اردو اہل تحقیق سے روابط بھی مستحکم ہوئے۔
ترک صدر عزت مآب رجب طیب اُردوُان (قدیم تلفظ اردوغان، اردوگان)نے 15جولائی 2018ء کو ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے، بطور حوالہ،علامہ اقبال کے اس مشہور شعر کا ترکی ترجمہ، بڑے جوش سے پڑھا:
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون ِ صد ہزار اَنجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
(نظم ’طلوع اسلام‘، مجموعہ کلام: بانگ ِ درا)
مآخذ
1۔ترکی اوراردو زبان کے مشترک الفاظ از اَصغر حمیدایڈووکیٹ، حسن پور، ضلع جیوتی باپھولے نگر، یوپی (ہندوستان): 2006ء
2۔اردو اورترکی زبان کا تقابلی مطالعہ اَزسلیمان زارع (متعلم تہران یونیورسٹی)
3۔اردو کے ضرب المثل اشعار، تحقیق کی روشنی میں از محمد شمس الحق، کراچی: 2010ء
4۔” تُرکی، اُردو کا دوسرا وطن ہے“: ڈاکٹر اے بی اشرف(انٹرویو:رؤف ظفر)مطبوعہ روزنامہ جنگ،سنڈے میگزین مؤرخہ 23 فروری، 2020
5-ترک نژاد اردو دان، ڈاکٹر جلال صوئیدان۔تحریر:ڈاکٹر اے بی اشرف،مطبوعہ اخبار ِاردو، بابت جولائی 2012ء
6-”جلال صوئیدان کا پاکستان“ (کالم) از فاروق عادل ، مطبوعہ مؤرخہ (پیر) 17 اگست 2020
7۔ ترکی اور پاکستان کے ادبی روابط از ڈاکٹر خلیل طوق آر، مطبوعہ سہ ماہی ادبیات،شمارہ دوم، 2022ء (ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان)
The post زباں فہمی 151؛ اردو اور ترکی کے لسانی روابط پر ایک نظر appeared first on ایکسپریس اردو.