پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ۔ یہ ملک 14 اگست1947ء کو وجود میں آیا ۔ اس کے قیام سے پیشتر ان علاقوں پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ یہ غیرملکی تسلط یہاں ایک سو سال سے کسی قدر زیادہ عرصے تک قائم رہا۔
انگریز حکومت سے قبل برصغیر میں مسلمان ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک حکم راں رہے اس دوران میں ان کی علیحدہ قومی حیثیت ہمیشہ برقرار ہی ۔ چوںکہ ان کے قومی تصورات کی بنیاد عقیدے اور مذہب پر تھی ، اس لیے وہ اپنے معاشی، معاشرتی اور ثقافتی انداز فکر میں ہندوستان کے دوسرے لوگوں سے ہمشہ مختلف رہے ۔
1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں برصغیر سے مسلمانوں کی حکومت عملاً ختم ہو گئی اس کے بعد حا لات تیزی سے بدلنا شروع ہوئے ۔ جوں جوں انگریز یہاں زور پکڑتے گئے توں توں مسلمانوں کے دلوں میں انگریزوں سے نفرت کا جذبہ پروان چڑھتا گیا ۔ ایسے میں مسلمانوں کو انگریز حکم رانوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور دوسری طرف انگریزی تعلیم یافتہ ہندوئوں میں مغربی تصور قومیت کے تحت ہندوستانی قومیت کا تصور مقبول ہونے لگا۔
یہ صورت حال ہندو اکثریت کے لیے مفید تھی اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ۔ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے یہ وجوہ ہی کافی تھیں کہ ہندوؤں نے ایسے اقدامات شروع کر دیے جن کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ چوں کہ ہندوستان ایک وسیع و عریض رقبہ پر محیط تھا ، اس لیے چند انگریزوں نے بھی انتظامی نقطہ نگاہ سے برصغیر کی تقسیم سے متعلق اپنی آرا پیش کیں ۔ تقسیم ہند سے متعلق معروف اصحاب کی آرا اور تجاویز ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں :
جان برائٹ
برطانیہ کے مشہور سیاست داں تھے ۔ انہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی سے ایک سال قبل بر طانوی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ہندوستان چھوڑنے سے قبل اسے کم از کم پانچ خودمختار یونٹوں میں تقسیم کرنے کا اہتمام کرے ۔
سر سید احمد خان
1867ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوئوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں سے اردو زبان اور فارسی رسم الخط کے موقوف کرانے کی کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیو ناگری میں لکھی جائے ۔ سرسید کہتے تھے کہ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے ۔
ولفریڈ اسکاون بلنٹ
ولفریڈ اسکاون بلنٹ ایک ادیب تھا ۔ اس نے لارڈ رپن کے زمانے میں ہندوستان کا دورہ کیا اور ایک کتاب بعنوان ” Ideas about India ” لکھی ۔ اس میں اس نے لکھا: شمالی ہند کے تمام صوبوں کو عملی طور پر مسلم حکومت کے تحت دے دیا جائے اور جنوبی ہند کے صوبوں کو ہندو حکومت کے تحت ۔ بلنٹ نے یہ تجویز دسمبر 1883 میں دی ۔
مولانا عبد الحیلم شرر
اردو کے مشہور نقاد “انشا پرداز اور تاریخی ناولوں کے مصنف مولانا عبد الحلیم شرر نے اپنے ماہوار رسالہ ” مہذب” لکھنئو کے 13 اگست 1980ء کے شمارے میں عیدالاضحٰی کے موقع پر ہونے والے ہندو مسلم فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے سیا سی مسائل کا حل پیش کیا ، ’’دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان دو صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے اور آبادی کا تبادلہ کیا جائے ۔‘‘
سر تھیو ڈور ماریسن
سر تھیو ڈور ماریسن سابق پرنسپل علی گڑھ کالج نے 1899 ء میں یہ تصور پیش کیا تھا : اگر ہندوستان کے پانچ ملین مسلمان کسی صوبہ یا ملک کے کسی حصے میں جمع کر دیے جائیں ۔ مثال کے طور پر شمالی ہند میں تو ایک قومی اسپرٹ ان علاقوں میںپیدا ہو جائے گی جس سے حالیہ مسئلہ کا جزوی حل ہو سکتا ہے۔
ولایت علی بمبوق
ولایت علی بمبوق علی گڑھ کالج کے تعلیم یافتہ تھے ۔ بارہ بنکی میں وکالت کرتے تھے ۔ مولانا محمد علی جوہر کے معتقد و مداح اور رفیق کار تھے اور ان کے اخبار “کامریڈ” میں گپ کا کالم “بمبوق” کے قلمی نام سے مزاحیہ انداز میں لکھا کرتے تھے ۔ مئی 1913 ء میں اس کالم میں انہوں نے ایک خیالی انٹرویو لکھا تھا ۔ اس انٹرویو کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے ۔
سوال : ہندو مسلم مسئلہ آپ کس طرح حل کریں گے ؟
جواب : ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا چاہیے ۔ شمالی ہند مسلمانوں کے حوالہ کر دیا جائے اور باقی ہندوئوں کے ۔
چودھری رحمت علی
چودھری رحمت علی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک نام ور طالب علم تھے ۔ انہوں نے اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے تحریر و تقریر میں خاص مہارت پیدا کر لی تھی ۔ انہی اوصاف کے پیش نظر انہیں کالج کے میگزین ” کریسینٹ” کی مجلس ادارت میں شامل کر لیا گیا تھا ۔ وہ کالج یونین کے سیکرٹری بھی منتخب ہوئے ۔ اس لیے کالج میں ان کا مقام نمایاں تھا ۔ چودھری رحمت علی ، مولانا شبلی نعمانی کی شخصیت اور ان کے سیاسی افکار سے متاثر تھے ۔ انہوں نے مولانا شبلی کی وفات (1914ء ) کے بعد 1915ء میں اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی ۔
چودھری رحمت علی نے 1915ء میں بزم شبلی کے افتتاحیہ اجلاس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا جائزہ لے کر مسلمانوں کی آزادی کے لیے تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا ” انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا :
’’ انڈیا کا شمالی علاقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ اور ہم اسے مسلم علاقے کی حیثیت سے برقرار رکھیں گے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم اسے ایک مسلم ریاست بنائیں گے ۔ لیکن یہ ہم اس وقت ہی کر سکتے ہیں کہ پہلے شمالی علاقہ کے مسلمانوں کو انڈین کہلانے سے باز رہنا ہو گا ۔ یہ اس کے لیے اولین شرط ہے ۔ اور ہم جتنی جلدی انڈین ازم سے نجات حاصل کر لیں اسی قدر یہ اسلام اور ہم سب کے لیے بہتر ہو گا ۔
اس زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی بات چیت جاری تھی ۔ محمد علی جناح اس سلسلے میں پیش پیش تھے ۔ بالآخر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے درمیان 1916ء میں ایک سمجھوتا ہوا ، جس کو لکھنئو پیکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس پیکٹ کا برصغیر میں بہت چرچا ہوا ۔ چودھری رحمت علی چوںکہ ایک مسلم ریاست کے قیام اور انڈین ازم سے نجات حاصل کرنے کا اعلان کر چکے تھے ، اس لیے انہوں نے طلباء سے یہ کہتے ہوئے ” بزم شبلی” سے علیحدگی اختیار کر لی :
’’ دوستو! اگر تم میرے خیالات پسند نہ کرو تو ہم بہتر راستہ رکھتے ہیں ۔ ہم میں سے کوئی انقلاب کے تصورات کو آزادی کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنا مقصد و ایمان بنائے گا ۔ تم اپنے راستے پر اور میں اپنے راستے پر اور میں اپنے راستے پر رہوں گا ۔ تم اپنے ہندوستانی انقلاب کے لیے کام کرو میں اپنے اسلامی انقلاب کے لیے کام کروں گا ۔ آخر پر ہم دیکھیں گے کہ کون بہتر اور تخلیقی انقلاب ہندوستان میں لائے گا ۔‘‘
خیری برادران
پہلی عالمی جنگ کے دوران اکتوبر یا ستمبر 1917ء میں اسٹاک ہوم میں سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس کا ایک اجلاس امن کے امکانات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا ۔ اس یادداشت میں انہوں نے ہندوستان کو “ہندو انڈیا” اور” مسلم انڈیا”میں تقسیم کر دینے کی تجویز رکھی تھی ۔
محمد عبد القادر بلگرامی
مارچ یا اپریل 1920ء میں محمد عبدالقادر بلگرامی نے بدایوں سے شائع ہونے والے ایک اخبار ” ذوالقرنین” میں ایک کھلا خط گاندھی کے نام شائع کیا ۔ اس خط میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ برصغیر کو ہندوئوں اور مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ نیز انہوں نے تقسیم کے مدنظر اضلاع کی ایک فہرست دی تھی ۔
لالہ لاجپت رائے
لاجپت رائے پکے ہندو اور کٹر مہا سبھائی تھے ۔ ان کا کانگریس کے صف اول کے نیتائوں میں شمار ہوتا تھا ۔ وہ سیاسی عقائد کے لحاظ سے تلک جانشین تھے ۔ لالہ لاجپت رائے نے تجویز پیش کی کہ شمالی مغربی ہند کے مسلم اکثریت کے علاقے برصغیر سے الگ کر دیے جائیں ۔
سردا ر گل محمد خان
حکومت ہند نے 1923ء میں ایک شمالی مغربی سرحد کمیٹی مقرر کی تھی ۔ اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ شمالی مغربی سرحدی صوبہ میں جس قدر اضلاع شامل ہیں، ان کے قبائلی علاقے سے تعلقات اور تمام صوبہ کو صوبہ پنجاب میں شامل کر دینے کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کر ے ۔ اس کمیٹی کے ایک رکن سردار گل محمد خان تھے جو انجمن اسلامیہ ڈیرہ اسماعیل خان کے صدر بھی تھے ۔ انہوں نے 1923ء میں صوبہ سرحد کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے شہادت دیتے ہوئے ایک سوال کا جواب اس طرح دیا : مجھے کچھ اضافہ اور کرنے دیجیے ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کبھی نہ ہو سکے گا ۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ صوبہ علیحدہ رہے ۔ جب مجھ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تیرا خیال کیا ہے تو میں بحیثیت رکن انجمن یہ خیال ظاہر کرتا ہوں کہ ہم ہندو اور مسلمانوں کی علیحدگی کو پسند کریں گے ۔
مولانا محمد علی جوہر
چودھری خلیق الزماں کے مطابق مولانا محمد علی جوہر نے 1923ء میں علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ، اگر ہندو مسلم مسئلہ طے نہ ہوا تو ہندوستان ہندوانڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا ۔
مولانا حسرت موہانی
مولانا حسرت موہانی نے 1921ء میں خلافت کانفرس میں اپنی مشہور قرارداد حصول آزادی اور ہندو مسلم تنازعے کے حل کے بارے میں پیش کی ۔
سر آغا خان
1928ء میں سرآغا خان نے لندن ٹائمز میں دو مقالے لکھے ۔ انہوں نے نہرو رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا :
ہندوستان کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ ان میں سے ایک حصہ موجودہ پاکستان اور ایک حصہ بنگلادیش سے قریبی مشابہت رکھتا تھا ۔
آغا مرتضیٰ احمد خان میکش
1928-29ء میں آغا مرتضیٰ احمد خان میکش نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت پر روزنامہ ” انقلاب “میں ایک سلسلۂ مضامین تحریر کیا ۔
ڈاکٹرسر علامہ محمد اقبال
الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال نے 29 دسمبر 1930 ء کو اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا :
“۔۔۔ لہٰذا مسلمانوں کا مطالبہ کہ انڈیا میں ایک مسلم انڈیا قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک خودمختار ریاست بنا دی جائے ۔ خواہ یہ ریاست برطانوی شہنشاہیت کے اندر یا برطانوی شہنشاہیت کے باہر قائم ہو یعنی شمال مغربی انڈین مسلم ریاست کی مستحکم تشکیل مجھے تو شمالی مغربی انڈیا مسلمانوں کی آخری قسمت نظر آتی ہے ۔‘‘
قائد اعظم کا خط چودھری رحمت علی کے نام
محمد فرید الحق ایڈوو کیٹ (کراچی ) روزنامہ جنگ مورخہ 24دسمبر1986ء کے شمارے میں بعنوان “ملت اسلامیہ کا ایک عظیم راہ نما ۔ چودھری رحمت علی” کی پہلی قسط میں لکھتے ہیں :
محمد علی جناح اور چودھری رحمت علی کی عمروں میں اکیس سال کا فرق تھا ۔ 1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو چودھری رحمت علی سترہ سال کے نوجوان تھے ۔ اور محمد علی جناح کی عمر 38 سال تھی ۔ 1916ء میں جب محمد علی جناح کی صدارت میں مسلم لیگ اور کانگریس کا اتحاد “میثاق لکھنئو” کے نام سے وجود میں آیا تو چودھری رحمت علی کی عمر 19 سال تھی ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح محمد علی جناح اور علامہ شبلی کی عمریں تھیں ۔ شبلی 1857ء میں پیدا ہوئے اور محمد علی جناح 1876ء میں ۔ وہ شبلی سے 19 سال چھوٹے تھے ۔ لیکن “مسلم وقف علی الاولاد” کی مہم سر کرنے میں دونوں یکساں سرگرم عمل تھے۔ امپیریل کو نسل کے اندر محمد علی جناح اور باہر شبلی نعمانی ۔ یہ 1914ء کی جنگ عظیم سے کئی سال پہلے کی بات ہے۔
1939ء کی جنگ عظیم سے بھی کئی سال پہلے برعظیم کے شمال مغربی خطے میں (چودھری رحمت علی نے) ایک آزاد مسلم مملکت قائم کرنے کی جدوجہد کی تھی ۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت جب مسلمانان برعظیم کے سامنے اپنے قومی و ملی مستقبل کے بارے میں قطعی فیصلہ صادر کرنے کی گھڑی آئی تو یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ یہی محمد علی جناح اور یہی چودھری رحمت علی کسی جگہ خاموشی سے مل کر بیٹھے ہوں گے اور آخری مرحلے کی بابت ان دونوں میں کچھ صلاح ومشورہ ہو ا ہو گا ۔
ان دونوں راہ نمائوں میں کتنا قُرب تھا ، دونوں کے روابط کیسے تھے اور خط و کتابت کا سلسلہ ان کے درمیان کب سے جاری تھا ۔ اس وقت تو اس وقت آج بھی جب بے شمار دستاویزات منظر عام پر آچکی ہیں ، اس کا علم شاید ہی کسی کو پوری طرح ہو ۔ قائداعظم نے بہت خطوط چودھری رحمت علی کو لکھے ہیں ۔ اب تک سترہ خطوط کا پتا تو ہمیں مل چکا ہے ۔ اور توقع ہے کہ ابھی اور دست یاب ہوں گے ۔ ان خطوط کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ قائداعظم نے یہ سارے خطوط اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں اور ان میں سے کوئی خط بھی ٹائپ کیا ہوا نہیں ہے ۔”
قائداعظم محمد علی جناح کے خط مورخہ 8 فروری 1940ء کا عکس شامل کتاب کیا گیا ہے ۔ اس خط کے چند الفاظ راقم اور صاحب علم احباب سے پڑھے نہیںجا سکے ۔ اس لیے خط کا مکمل ترجمہ شائع نہیں کیا جا رہا ۔ لہٰذا خط کا مفہوم پیش خدمت ہے ۔
8فروری 1940ء
پیارے مسٹر رحمت علی
آپ جلد کراچی پہنچ رہے ہیں۔ میں اس وقت دہلی میں ہوں اور یہاں کم از کم تقریباً چار ہفتے رہوں گا ۔ اگر آپ کو سہولت ہو تو برائے مہربانی دہلی تشریف لائیں اور مجھ سے ملیں ۔ میں آ پ سے ملاقات کا منتظر ہوں ۔
آپ کا مخلص
ایم۔اے۔جناح
قائد اعظم کا ٹیلی گرام چودھری رحمت علی کے نام
بقول ڈاکٹر جہانگیر خان:
چودھری صاحب 1940ء میں ہندوستان آئے اور کراچی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ۔ انہوں نے مجھے اطلاع دی ۔ میں اس وقت زمیندار کالج گجرات میں پرنسپل تھا ۔ چھٹیاں ہوئیں تو میں کراچی گیا ۔ میں کراچی میں تھا کہ دہلی سے قائداعظم کا انہیں (چودھری صاحب) تار ملا ۔ اس میں تحریر تھا کہ ہم مسلم لیگ کے جلسۂ لاہور میں قراردار منظور کرنے والے ہیں ۔ تم اس میں ضرور شرکت کرو ۔
اس اجلاس سے چند روز پہلے حکومت پنجاب اور خاکساروں کے درمیان ٹھن گئی تھی ۔ خاکساروں پر فائرنگ ہوئی تھی اور سر سکندر حیات اور وزیراعلیٰ پنجاب ہندوستان بھر میں تنقید کا نشانہ تھے ۔ چودھری رحمت علی کا اس مرحلے پر لاہور آنا سر سکندر حیات خان اسے اپنے حق میں نہایت مضر جانتے تھے ، چوںکہ وہ چودھری صاحب کی حق گوئی اور بے باکی سے بخوبی واقف تھے ۔ سکندر حیات خان اس معاملے میں اس قدر سنجیدہ تھے کہ انہوں نے چودھری صاحب کو لاہور پہنچنے سے باز رکھنے کے لیے ان کی گرفتاری کے وارنٹ تک جاری کروا دیے ۔
چودھری صاحب کو اس کے باوجود یہی مشورہ دیا گیا کہ وہ لاہور ضرور پہنچیں ۔ لیکن چودھری صاحب نے مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ایسا کرنے سے گریز فرمایا :
1۔ میرا اس وقت لاہور پہنچنا قائد اعظم کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا ۔
2۔ سر سکندر حیات خان ممکن ہے لیگ کی اعانت سے اس تاریخی مرحلے پر میری موجودگی کو بہانہ بنا کر دست کش ہو جائیں اور پنجاب جیسے اہم صوبے میں مسلم لیگ کی بات بگڑ جائے۔
3۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر اس وقت کسی بھی قسم کی فکری تقسیم ( اختلاف) مسلمانوں کی آزادی کے لیے سخت مہلک ثابت ہو گی ۔
بہرحال چودھری صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قرارداد میں “پاکستان” کا نام شامل ہونا چاہیے ۔
پروفیسر عابد نقشبندی لکھتے ہیں :
1948ء میں جنگ لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر باقر نے کہا کہ مارچ 1940ء میں چودھری رحمت علی نے کراچی سے رابطہ کیا اور خواہش کا اظہار کیا کہ قرارداد لاہور میں “پاکستان” کا نام شامل کر لیا جائے ۔ چناںچہ ڈاکٹر باقر نے حمید نظامی اور میاں محمد شفیع کے ہمراہ قائداعظم سے رابطہ کیا اور ان سے “پاکستان” کا لفظ مجوزہ قرار دار میں شامل کرنے کو کہا تو قائد اعظم نے کہا :
نوجوانو! کیا تم وضاحت کر سکتے ہو کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟
چناںچہ یہ تینوں نوجوان مایوس لوٹے ۔
قرارداد 1940ء
23 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں وہ قرارداد منظور کی گئی جو “قرارداد پاکستان” کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ قرارداد بنگال کے وزیراعلیٰ اے ۔ فضل الحق نے پیش کی تھی ۔ اس کی تائید چودھری خلیق الزماں اور بعض دوسرے اصحاب نے کی جب کہ اجلاس کی صدار حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی ۔
قرارداد پاکستان منظور ہونے کی اطلاع پانے کے بعد چو دھری رحمت علی بے اختیار رب کے حضور سر بسجود ہوگئے ۔ اس طرح مسلمانوں نے طویل جدوجہد کے بعد قائداعظم کی قیادت میں آزاد اسلامی ریاست حاصل کر لی اور چودھری رحمت علی کا تجویز کردہ نام اس ریاست کو دیا ۔
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
jameel652007@yahoo.com
The post پاکستان… تصور سے حقیقت تک appeared first on ایکسپریس اردو.