کراچی: بطور زباں داں، زباں فہم اور طالب ِ لسانیات خاکسار کا یہ لسانی قیاس درجہ ایمان کو پہنچ چکا ہے کہ اردو کا تعلق و اشتراک ناصرف اس خطے (برعظیم پاک وہند)، بلکہ دنیا بھر کی تمام اہم، بڑی،چھوٹی،نیز بعض کم معروف اور غیر نمایاں زبانوں اور بولیوں سے بہت گہرا ہے۔ماہرین لسانیات اسے گروہ ہندآریائی [Indo-European]زبانوں میں شامل سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا رشتہ دیگر لسانی گروہوں خصوصاً دراوڑزبانوں /بولیوں سے بھی، از عہد قدیم قائم ہے۔بشرط ِ فرصت وعافیت کبھی ا س نکتے پر الگ سے تحقیق کرکے قلم بند کروں گا۔ابھی بات کرتے ہیں،پوٹھوہاری کی۔
پوٹھوہاری (اہل زبان کے خالص تلفظ میں ’پُٹھوہاری‘) سے بھی اردو اسی طرح جُڑی ہوئی ہے جیسے دیگر زبانوں اور بولیوں سے۔اس کی قدامت بھی اردو کی قدامت سے پیوست ہے۔پوٹھوہاری کا تعارف کچھ اس طرح کرایا جاتا ہے: ”پوٹھوہاری زبان پنجابی زبان کے ایک لہجے کا نام ہے۔ یہ لہجہ پنجاب، پاکستان کے پہاڑی علاقے پوٹھوہار میں بولا جاتا ہے۔
پنجابی کا پوٹھوہاری لہجہ تحصیل گوجر خان، تحصیل کلرسیداں، تحصیل کہوٹہ، تحصیل کوٹلی ستیاں، تحصیل مری ضلع اسلام آباد، ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ،اور آزاد کشمیر کے مضافات ضلع بھمبر ضلع کوٹلی ضلع راولاکوٹ ضلع باغ میں کم و بیش فرق کے ساتھ بولاجاتا ہے“۔(وِکی پیڈیاعرف آزاد دائرہ معارف)۔زباں فہمی کے ایک گزشتہ کالم میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ چند سال پہلے بعض ایسے شعراء سے ”پوٹھوہاری زبان ہے کہ بولی“ کے موضوع پر گفت وشُنےِد کا موقع ملا جو بہ یک وقت اردو، پنجابی اور پوٹھوہاری میں رَواں ہیں اور اُن کا مؤقف یہی تھا کہ یہ بولی یا لہجہ ہے۔(ان میں بزرگ معاصر محترم نسیم سحرمقیم راول پنڈی، محترم شاہین فصیح ربانی مقیم دِینہ اور خوردمعاصر عزیزم حسنین ساحرمقیم بھاراکہو شامل ہیں۔ مؤخرالذکر نے سب سے زیادہ مفصل گفتگو کی تھی)۔
اسی ضمن میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ محترم شریف شادصاحب،پوٹھوہاری کے جداگانہ تشخصِ زبان کے عَلم بردارہیں۔(محترم شریف شادصاحب: پ 1947ء،بمقام دوراُفتادہ گاؤں، راول پنڈی، پانچ سال بطور معلم تدریسی فرائض، 1971ء میں بطور ڈیوٹی آفیسرریڈیوپاکستان سے منسلک، 2007ء میں بطور ڈائریکٹر پروگرامز سبک دوش، ریڈیوپاکستان راول پنڈی مرکز سے مقبول دیہاتی پوٹھوہاری پروگرام ’جمہورنِی وَاز‘ کی پیشکش بارہ برس تک، اولین پوٹھوہاری اردو لغت مطبوعہ 14اگست 2008ء کے مؤلف اور اولین پوٹھوہاری ترجمہ قرآن مجیدمطبوعہ 2020ء کا شرف حاصل کرنے والے اہل زبان)۔اس کالم کو”سپردِ کمپیوٹر“کرنے سے قبل، خاکسار نے جستجو اور تحقیق کا سلسلہ دراز کیا تو موصوف نے بکمال عنایت،مجھے اپنی متعدداہم کتب ارسال فرمائیں اور ساتھ ہی حسنین ساحر کے طفیل، کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے، ایک اور اہل زبان پوٹھوہاری، اردو شاعرو محقق محترم عبدالرحمن واصفؔ سے رابطہ ہوگیا جو بعض جگہ، شاد صاحب سے بھی اصولی اختلاف کرتے ہیں، مگر پوٹھوہاری کو زبان قراردینے کی مہم میں شامل ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک پوٹھوہاری ادیب کی تحریر سے اقتباس پیش کرتاہوں: ”خطہء پوٹھوہار کی نسبت امام بریؒ، میاں محمدبخشؒ،مہرعلی شاہؒ، اور بابا فضل شاہ کلیامیؒ ایسی خوشبودار، معتبر ہستیوں سے ہے جن کی سچائی کے آفتاب کو کبھی گرہن نہیں لگے گااوران کی حیاتِ مبارکہ کو بطورِ مثل پیش کیا جاتا رہے گا۔ میاں محمد بخشؒ اور کہیں جنابِ مہر علی شاہؒ کے مصرعے زنگ آلود دِلوں کو کارآمد بناتے رہیں گے۔ اس خطے سے باقی صدیقی،افضل پرویز،سید طارق مسعود،اخترامام رضوی،شیرزمان مرزا،اخترجعفری، سید ضمیر جعفری اورڈاکٹر رشیدنثار ایسی اثر خیز شخصیات کی بازگشت برسوں سنائی دیتی رہے گی“۔(مادری زبان کی سحر آفرینی، بسلسلہ کالم زاد راہ از فرزندعلی سرورہاشمی،مطبوعہ مؤرخہ 08 مارچ 2020)۔
خاکسار کا پوٹھوہاری سے پہلا ادبی تعارف تب ہوا کہ اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ہائیکو انٹرنیشنل کے اجراء کے وقت، قدرے بزرگ معاصر محترم شاہین فصیح ربانی سے تعاون کی گزارش کی اور انھو ں نے اپنی طبع زاد پنجابی اور اردو ہائیکو نیز پوٹھوہاری کے منظوم تراجم سے نوازا۔(وہ اُن اولین اردو شعراء میں شامل ہیں جنھوں نے میرے ایماء پر ایک اور جاپانی صنف سخن Senryuکے منظوم اردوتراجم کیے، شاہین صاحب نے پنجابی سے بھی کیے جو اُنھی کا خاصّہ ہے۔
اس ضمن میں خاکسار نے جاپانی کونسلیٹ کی لائبریری سے کتب جاری کرواکے اُن کے علاوہ بعض دیگرشعراء کو بھی،برائے طبع آزمائی ومنظوم تراجم،پیش کی تھیں جواپنے سر سہرا تو سجاتے ہیں، مگراس تحریک کا ذکر نہیں کرتے جو 1998ء میں راقم نے سالانہ ہائیکو مشاعرے میں سین ریوکے تعارف کے پیش نظر تنہا چلائی اور مابعد اس صنف پر پہلا تعارفی مضمون بھی لکھاجو سہ ماہی تسطیر میں شایع ہوا تھا)۔محترم شاہین فصیح ربانی نے ایک معروف پوٹھوہاری شاعر محترم عبدالقادرقادری کی مندرجہ ذیل ہائیکو مع منظوم اردو ترجمہ عنایت فرمائیں جو ہائیکو انٹرنیشنل شمارہ اول (بابت جولائی تا ستمبر1998ء) کی زینت بنیں:
ا) ہیہ ماؤنی ہار/دسی کے بچھے نامورا/کڈہی کہنڑیں تہار
یہ ممتا کی ہار/بچھڑے کا پُتلا دکھاکر/دوہ لیتے ہیں دودھ
(لگتا ہے کہ دیہات میں ایسا کوئی طریقہ رائج ہوگا کہ گائے دودھ دوہنے کے وقت نخرہ کررہی ہوتو اُسے آمادہ کرنے کے لیے بچھڑے کا پُتلا بناکر دکھایاجاتاہو)
ب) کجھ تے کروخیال/کہہ الونی سنگت ٹرسی/انھے کہگوئے نال
کچھ تو سوچیں جی/کیسے چلے گی یہ سنگت/چِیل اور اُلّو کی
ج) چھک لاٹوں نی ڈور/اُپروں ہورکھڈال ایہہ دنیا/تھئی وِچوں کچھ اور
کھینچ لٹو کی ڈور/باہر سے کچھ کھیل ہے دَہر/اندر سے کچھ اور
کنڈیارے نا پھُل/کسے نیہہ پھُلاں وچہ پرویا/کسے نیہہ پُچھیا مُل
کنڈیارے کا پھول /پھولوں ہی کے ساتھ پروئے /ناں کوئی پوچھے مول
یہ تو شاعری تھی، اب ذرا ابتدائی جماعتوں کے قاعدے(پوٹھوہاری قاعدہ از محترم شریف شاد) میں درج،بنیادی ذخیرہ الفاظ کی ایک جھلک دیکھیے جو پوٹھوہاری اور اردوکے مابین مشترک یا مماثل ہے:
اِٹ (اینٹ)، اَکھ (آنکھ)، آلو(آلو)، بانہہ (بانہہ)، بلّی (بلّی)، پکھا (پنکھا)، پَتَر(پتّا)، پرَنالہ (پرنالہ)، تارا(تارا)، ترینگل (ترشول، تین کونے والا ہتھیاریا کوئی اوزار)، تِتر(تیتر)، ٹوٹی (ٹُونٹی، نلکا)، ثمر(ثمر، پھل)، ثلیث (سریش، چپکانے والا گوند جیسا مادّہ)، جال(جال)، جاکت(جاکٹ، جیکٹ)، جُتی(جوتی)، چُوچا(چُوزہ)، چڑی(چڑیا)، چن(چاند)، حقہ (حقہ)، حکیم (حکیم)، حاجی(حاجی)، خُرمانی (خوبانی)، خنگاہ(خانقاہ)، خط(خط)، دراٹی(درانتی)، دُدھ (دودھ)، ڈبی(ڈبی، ڈبیہ)، ذخیرہ(ذخیرہ)، ذرّے (ذرّے)، رسّی(رسّی)، رنگ (رنگ)، رُمال(رومال)، رِچھ(ریچھ)، }حرف ڑے سے دولفظ شامل ہیں جوخاکسارنے ماقبل، زباں فہمی بعنوان، ڑے سے پہاڑ، میں نقل کیے تھے، مگر یہاں غیر متعلق ہیں۔یہ بات البتہ اظہر من الشمس ہے کہ حرف ڑے سے شروع ہونے والے الفاظ غالباً سب سے زیادہ پوٹھوہاری ہی میں پائے جاتے ہیں۔{، زردی(زردی، انڈے کی زردی)، زیور(زیور)، زنانی(زن، عورت)، سوتر(دھاگا، جسے کہیں کہیں سوتربھی کہاجاتا ہے)، سپ(سانپ)، شملہ (شملہ، پگڑی کا)، شَکر(شکر)، شیشی(شیشی)، صبونڑ(صابن)، صافہ (صافہ)، صندوق(صندوق)، ضعیف(ضعیف)، طبلہ (طبلہ)، ظروف(ظروف)، عینک (عینک)، عطر(عطر)،
عربی (عرب، عربی)، غُلاب(گلاب)، غُلیل(غُلیل)، غُلاف(غَلاف)، فقیر(فقیر)، فرش(فرش)، فراق(فراک)، قرآن (قرآن)، قائداعظم (قائداعظم)، قوّر(قبر)، کاں (کوّے)، کلبوتر(کبوتر)، کُکڑ(مرغ، جسے ہمارے یہاں عوامی بول چال میں کُکڑ بھی کہتے ہیں)،گاں (گائے)، گڈی(گاڑی، عوامی بول چال میں گڈّی بھی کہتے ہیں)، گُڈّی(گڑیا)، لاٹُو(لٹو)، لیف (لحاف، رضائی)، لاری(لاری)، منجی (چارپائی، عوامی بول چال میں منجی بھی کہتے ہیں)، مدہانڑیں (مدھانی)، ناکھ (ناک، ناشپاتی)، نمبو(لیموں، نیمبو)، نَک (ناک)،ورقہ (ورق)، وکیل(وکیل)،ہار(ہار)، ہتھ(ہاتھ)، ہل (ہل)، (حرف ہمزہ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا)، یخنی (یخنی)، یکّہ (یکّہ)۔
اس فہرست میں اضافہ کرتے چلیں ; بِسریعنی بھول (جیسے اردومیں بھولی بِسری یاد)، کَسَریعنی فرق، رات، راہ، رام یعنی آرام، عام، خاص، ماس یعنی گوشت (قدیم اردوجیسے ”چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں“)، گرم، شرم، نرم، جُرم، ساس یعنی آہ (سانس کھینچنا یعنی آہ کھینچنا)، لام یعنی لڑائی (اردومیں، جیسے لام بندی)، تنگ، جنگ یعنی جنگ، نیز ٹانگ، رنگ، گِٹّایعنی ٹخنہ، سُنا یعنی سونا(Gold)۔(یہاں ایک غیرمتعلق لفظ بھی چونکانے والا ہے ;بنگ بمعنی چُوڑی جو پنجابی میں وَنگ اور جمع ونگاں ہے، جس کا رشتہ انگریزی کے Bangleسے ملتا ہے)۔
اولین پوٹھوہاری اردو لغت سے خوشہ چینی کرتے ہیں: آ، آبادی، آپ، آپنٹا(غالباً ڑونڑ کی آواز)یعنی اپنا، اپنے سے متعلق، آپنا آپنا بغانہ بغانہ یعنی اپنا اپنا ہوتا ہے، بیگانہ بیگانہ، آپھرنا یعنی پھُول جانا، موٹا ہوجانا، پیٹ میں ہَوا بھرجانا; یہاں مجھے اردو لفظ اَپھارہ یاد آتا ہے، آٹے وِچ لون یعنی بہت تھوڑا، کم، ذرا سا جیسے اردومیں ”آٹے میں نمک برابر“، آخربمعنی مصیبت، تنگی، تکلیف اور جلدی(یہ معانی اردومیں ہرگزمرادنہیں)، آدم نہ آدم ذات(اردو: آدم نہ آدم زاد)، آدمی بننا، آڈر(انگریزیOrder)، آرایعنی لوہے کا وہ اوزار جو لکڑی چیرنے کے کام آتا ہے، آرپار، آری، آڑیعنی کھیت کی مینڈھ، کھیت کا احاطہ کرنے والا زمین سے اُبھرا ہواحصہ، آڑو، آڑھت، آزمائش، آس، آس ہونا یعنی بچہ ہونے کی امید سے ہونا (اردوزنانہ بولی میں ’آس والی‘ اسی سے مشتق ہے)، آسرا، آسمانی، آسن یعنی شلوار،پاجامے یا پتلون کا نِچلا حصہ جو تنگ ہوتا ہے (غالباً آسن جمانا میں یہی شامل ہے)، آکڑ یعنی اَکڑ، آفت، آفرین، آقا، آگاہ یعنی اگلا حصہ، نیز کسی چیز کا سامنے والا حصہ (اردومیں محض آگا)، آگاپِچھا، آل، آمدن، آمدنی، آملہ، آملی یعنی اِملی، آں ہاں یعنی ہا ں ایساہی ہے، نیز، نہیں ایسا نہیں کرتے، آنہ، آؤجی یعنی خوش آمدید،آوا، آہلک یعنی سُستی جو اُردومیں آلکس ہے، آئی کون روکے یعنی موت کو کوئی نہیں روک سکتا(اردو: آئی کو کون ٹال سکتا ہے)، آیا یعنی گیا کی ضد، حاضرہوا، حاضر کیا،آیا گیایعنی مہمان۔
یہاں رک کر پوٹھوہاری کی دوسری لغت ”پوٹھوہاری لغات۔پوٹھوہاری توں اردو“ سے بھی کچھ اقتباسات نقل کرناچاہتاہوں جو محترم دلپذیر شادؔ مرحوم کی تحقیقی مساعی کے نتیجے میں اپریل 2009 ء میں منظر عام پر آئی: آٹا، آدمی، آخاہ (اردومیں بھی کلمہ اظہارِ مسرت آخ خاہ بولاجاتا ہے)، آڑھتی، ابّا، ابابیل،ابدال، اُبلنا، اپنا، آپاں (اردومیں آپا)،آپنے یعنی اپنے یا قریبی، اَپَٖر یعنی اوپر،(انگریزی کے Upperسے مشابہ)، اَپَر تھلے یعنی اوپر تلے (اردومیں زنانہ بولی میں مستعمل، بمعنی لگاتار یا مسلسل جیسے اوپرتلے کئی بچے ہوگئے)،اَپھرنا (اردومیں اپھارہ)،اتا پتا، اِتنا،اٹکل پچّو، اٹوٹنگ یعنی باہمی جُڑے ہوئے (اردومیں اَٹُوٹ یعنی نہ ٹوٹنے والا)، اَٹَل، اٹھک بیٹھک، اجریعنی بدلہ یا صلہ، اُجڑ، اچھائی، اِدھراُدھر۔مزید فہرست سے گریز کرتے ہوئے احباب کو مشورہ دیتا ہوں کہ دونوں لغات حاصل کرکے مطالعہ فرمائیں۔
پوٹھوہاری میں اردو کے بنیادی سینتیس(37)حروف موجودہیں یعنی: ا، آ، ب، پ، ت، ٹ، ث، ج، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، س، ش،ص، ض، ط،ظ، ع، غ، ف، ق، ک، گ، ل، م، ن، و، ہ، ء، ی، ے۔اس میں حرف ’ش شامل نہیں، جبکہ دوچشمی ھ سے ملاکر، پھ، تھ، ٹھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ،کھ، لھ، مھ، نھ اور یھ جیسے مرکب حروف اور ایسے حروف تہجی بھی موجود ہیں جن کی نظیر، اردومیں نہیں، یعنی ہائے ہوّز اور ہائے مختفی دونوں ہی کے اشتراک سے ; پہھ، تہھ، ٹہھ، جہھ، چہھ، کہھ،لہھ۔ان کی بابت میں عرض کروں کہ یہ حروف نہیں، میری رائے میں اصوات یعنی آوازیں ہیں جنھیں بعض لوگ یا ماہرین حروف قراردیتے ہیں۔(استفادہ: پوٹھوہاری قاعدہ از شریف شاد صاحب)
لگے ہاتھوں پوٹھوہاری کی گنتی بھی پیش کرتاچلوں جو دیگر متعدد پاکستانی وہندوستانی(نیز بعض دیگر) زبانوں اور بولیوں ہی کی طرح اردوسے بہت مماثل ہے: ہِک، دو، ترے، چار، پنج، چھ(چھَے)، ست، اٹھ، نو، دس، یاہراں، باہراں، تیہراں، چوہداں، پندراں، سوہلاں، ستاہراں، اٹھاہراں، اُنی/اُنیہہ، ویہہ، اِکی، بائی، ترئی، چوی، پنجی، چھبی، ستائی، اٹھائی، اُنتی، تریہہ، اِکتی، بتی، تینتی، چونتی، پینتی، چھتی، سینتی، اٹھتی، اُنتاہلی، چاہلی، اکتاہلی، بیتاہلی، تریتاہلی، چرتاہلی، پنجتاہلی، چھیتاہلی، سنتاہلی، اٹھتاہلی، اُنونجہ، پنجاہ، اِکونجہ، بیونجہ، تریونجہ، چُرونجہ، پچ ونجہ، چھی ونجہ، ست ونجہ، اٹھ ونجہ، اُنا ہٹھ، سٹھ، اِکاہٹھ، باہٹھ، ترینٹھ، چونٹھ، پینٹھ، چھیاٹھ، ستاہٹھ، اٹھاہٹھ،اُنہتر، ستر، اِکہتر، بہتّر، ترہتر، چرہتر، پنجھتر، چھہتر، ستتر، اٹھہتر، اُناسی، اسّی، اِکاسی، باسی، تریاسی، چراسی، پنجاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی، اُنانویں،(یہ مستنصر حسین
تارڑ صاحب اور نعیم بخاری صاحب، اپنی اردو گفتگو میں بھی بولتے ہیں، مگر طارق عزیز مرحوم نے ایک مرتبہ کسی صاحب کو،نیلام گھر میں ٹوک دیا تھا)، نوّے، اِکانویں، بانویں، تریانویں، چرانویں، پچانویں، چھیانویں، ستانویں، اٹھانویں، نڑینویں، سَو۔
پوٹھوہاری میں تصنیف، تالیف وترتیب کا سلسلہ بھی تحقیق کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ پوٹھوہاری کو پنجابی سے علےٰحدہ زبان قراردینے والے حضرات نے ناصرف لغات ترتیب دی ہیں، بلکہ اس کے قواعد بھی مرتب کردیے ہیں۔اس سلسلے میں ایک کتاب محترم شریف شاد صاحب کی موجودہے،ضرب الامثال اور حکایات سعدی ورومی پر مبنی کتب بھی شریف شاد صاحب کی خامہ آرائی کا حصہ ہیں۔ اس باب میں ایک اور کتاب، جناب فیصل عرفان کی تحقیق و تدوین پرمبنی ”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے“ہے۔ڈاکٹرزاہدحسن چغتائی صاحب نے فیصل عرفان کو پوٹھوہاری زبان کا محسن قراردیا ہے۔محترم حبیب شاہ بخاری صاحب نے اولین پوٹھوہاری قاعدہ ترتیب دینے کے علاوہ اس زبان اور خطے کی تاریخ بعنوان ”پُٹھوہار: ماہ وسال کے آئینے میں“ رقم کی ہے۔
محترم عبدالرحمن واصف ؔ کے تین اردومجموعہ ہائے کلام اور ایک پوٹھوہاری مجموعہ کلام شایع ہوچکا ہے، (دونوں زبانوں میں ایک ایک مجموعہ غیرمطبوعہ ہے، جبکہ سرائیکی سے بھی شغف رکھتے ہیں)،موصوف دونوں زبانوں میں ایک نئی (ڈھائی مصرعی)صنف سخن کے موجد ہیں، اُن کاپوٹھوہاری قاعدہ زیر طبع ہے،جس کے حروف تہجی اردو سے قریب تر ہیں،پوٹھوہاری اور اردو ضرب الامثال کے تقابل پہ ایک تصنیف اور، ایک پوٹھوہاری لغت کی ترتیب میں مشغول ہیں۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ”ایک ضخیم مقالہ ہمارے ایک سینئر دوست رقم کر چکے ہیں،جس میں پوٹھوہاری کی قدامت اور پوٹھوہاری کے دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ تعلق پہ کافی مواد موجود ہے“۔
محترم واصف صاحب پوٹھوہاری کو باقاعدہ لسانی دلائل کی بنیاد پر پنجابی سے الگ زبان ثابت کرتے ہیں۔محترم شیراز طاہر کی کتاب ”پوٹھوہاری ادبی تاریخ 1947 تا حال“ (ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان) پر اُن کی تنقید بہت خوب ہے۔انھوں نے ہائیہ اصوات کے متعلق تکنیکی بحث کرتے ہوئے پنجابی اہل زبان کا یہ دعویٰ غلط قراردیا کہ پوٹھوہاری اسی زبان کا ایک لہجہ یا شاخ (بولی) ہے۔ان سے واٹس ایپ پر ہونے والی پُرمغز گفتگو سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”اب پنجابی والوں سے سوال ہے کہ کیا اُن کے نحوی قواعد لینے سے اردو کوپنجابی کا لہجہ قرار دیا جا سکتا ہے؟…..محض Syntax کی بنیاد پہ پوٹھوہاری کو لہجہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اور کچھ نہیں۔ یہاں یہ بھی ضرور کہوں گا کہ بہ نظر عمیق دیکھیں تو پوٹھوہاری اور پنجابی میں بہت فرق ہے……….صَرفی مثالیں دیکھیے:
کھا لیا۔۔۔۔۔ ماضی (اردو)
کھا لیا۔۔۔۔۔ ماضی (پنجابی)
کھائی کِہدّا۔یا۔کھاہدا۔۔۔ ماضی (پوٹھوہاری)
کھاتا ہے۔۔۔۔۔ حال (اردو)
کھاندا اے۔۔۔۔ حال (پنجابی)
کھانڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حال (پوٹھوہاری)
کھائے گا۔۔۔۔۔ مستقبل (اردو)
کھاوے گا…. مستقبل (پنجابی)
کھاسی۔۔۔۔۔ مستقبل (پوٹھوہاری)
یہ ایک عام فہم فرق ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اگر Syntax کی بنیاد پہ پوٹھوہاری کو جو احباب Dialect کہتے ہیں، وہ بہتر ہے،اردو پہ آواز بلند کریں کہ بہرحال پوٹھوہاری اور پنجابی اردو سے قدیم ہیں“۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ ہمارے یہاں تحقیق بہت کم ہوتی ہے۔اگر لسانی مباحث میں اہل علم حصہ لیں تو اُن سے اکتساب کرنا چاہیے۔میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ محترم شریف شاد اور محترم عبدالرحمن واصف سمیت تما م پوٹھوہاری محققین سے اُن کے ہم پایہ لوگ بحث کریں۔
The post زباں فہمی 149; اردو اور پوٹھوہاری کا لسانی رشتہ appeared first on ایکسپریس اردو.