کراچی: افواج پاکستان میں یہ رواج عام ہے کہ افسران کو اُن کے ناموں کی بجائے منصب سے مخاطب کیا جاتا ہے، خواہ وہ سبک دوش ہی کیوں نہ ہوچکے ہوں۔ اردو ادب و صحافت، نیز شعبہ تدریس میں ایسے کئی مشاہیر ہو گزرے ہیں جنھوں نے فوج کے کسی نہ کسی شعبے میں خدمات انجام دیں، کوئی نہ کوئی عہدہ حاصل کیا اور وہ اُن کے نام کے ساتھ بطور سابقہ چسپاں ہوگیا،جیسے کرنل (مابعد بریگیڈئیر) صدیق سالک شہید، کرنل محمد خان، کرنل اشفاق حسین، بریگیڈئیر عبدالرحمن صدیقی، کمانڈر اَنور، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم (خالد محمود)عارف،لیفٹیننٹ جنرل (ڈاکٹر پروفیسر)سید اظہر احمد(وائس چانسلربقائی میڈیکل یونیورسٹی، کراچی)،کرنل (مابعد بریگیڈئیر)صولت رضا، وغیرہ۔
البتہ سید ضمیر جعفری، حفیظ جالندھری،فیض احمد فیض،زیڈ اے سُلہری،شفیق الرحمن،ڈاکٹر فہیم اعظمی، فیروز ناطق خسرو اور خیام درانی (پرنسپل آرمی پبلک اسکول، صدر، کراچی) مستثنیات ہیں کہ اُن کا عہدہ معروف نہیں۔ان سب سے ہٹ کر، ایک Ph.D ادیب ایسا بھی تھا جسے لوگ ڈاکٹر کی بجائے میجر کے سابقے سے یاد کرتے تھے اور کرتے ہیں، حالانکہ وہ محض تین سال(1949ء تا 1952ء) ملٹری اکیڈمی، کاکول سے بطور پرنسپل وابستہ رہا اور اُسے اعزازی طور پر یہ عہدہ پیش کیا گیا۔
یہ تھے میجر آفتا ب حسن، اردو کے بے لوث، مخلص خادم، بے باک سپاہی اور رہبر جنھیں ہم بجاطور پر ”مجاہد ِ اردو“ کے لقب سے یاد کرسکتے ہیں۔”میجر صاحب، میجر کے عہدے پر مختصر مدت کے لیے رہے، مگر لفظ میجر تمام زندگی کے لیے اُن کے نام کا جُزوِ اعظم ہی نہیں، بلکہ درحقیقت اُن کے نام کا بدل بن گیا۔ علمی حلقوں میں میجر صاحب کا لفظ بولاجاتا تو ہرشخص سمجھ جاتا کہ اس سے مراد، میجر آفتاب حسن ہیں۔
اس کے برعکس، اگرکوئی آفتاب صاحب کہتا تو لوگ وضاحت کرواتے کہ کون سے آفتاب صاحب“۔(قول ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی، سابق پرنسپل وفاقی اردو سائنس کالج، منقول دَر کتاب”رہبر ِ نفاذِ اردو،میجر آفتاب حسن:حیات وخدمات از محترم اسلام نشتر)۔ یہاں لگے ہاتھوں عرض کرتاچلوں کہ کم از کم دو آفتاب اُسی دور میں بہت ممتاز تھے، ایک تو ڈاکٹر آفتا ب احمد صدیقی (جامعہ ڈھاکا،سابق مشرقی پاکستان) اور دوسرے ڈاکٹر آفتاب احمد خان، سابق صدرِ انجمن ترقی اردو پاکستان۔(سابق مشرقی پاکستان میں مقیم اور اس سے متعلق اہل قلم و طلبہ و اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد صدیقی کی اپنے شعبے میں فضیلت سے بخوبی آگاہ تھے۔ خاکسار کو اُن کے اکلوتے فرزند مرحوم سے کچھ عرصے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو صاحب دیوان شاعر تھے،اب اُن کی باقیات میں دوصاحبزادیاں شامل ہیں)۔
نفاذِ اردو کی تحریک کے اس قائد نے آج سے ایک مدت پہلے ہمارے دوبزرگ معاصرین محترم محمودشام اور ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کو سوالوں کے جوا ب دیتے ہوئے بتایا تھا: ”12جولائی 1980ء کے خط کے جواب میں ہم نے بتایا کہ اُردو، واحد زبان ہے جو برصغیر پاک وہند میں، فارسی کے بعد،سرکاری حیثیت میں رائج رہی ہے۔پاکستان بنا تو ریاست بہاول پور اور ریاست جموں وکشمیر میں اردو نافذ تھی۔اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ ریاست بھوپال، ریاست حیدرآباد، دکن اور کئی دیگر ریاستوں میں بھی اردو دَفتری زبان تھی اور یہ بھی کہ ریاست جَے پور، ریاست رام پور، ریاست ٹانک میں بھی اردو بحیثیت سرکاری زبان رائج رہ چکی ہے۔قانون، عدالت اور دیگر بے شمار علوم پر اُردو میں جس قدر کام ہوا ہے، اُس کے پیش نظر، اردو کو جب چاہیں، دفتری زبان کے طور پر نافذ کرسکتے ہیں“۔
یہ اقتباس اُن لوگوں نکے لیے خاص طور پر اہم اور توجہ طلب ہے جو نفاذ ِ اردو کے معاملے میں بُودے اور فرسودہ، غیر منطقی اعتراضات کرتے ہیں۔مجھے بطور محب وخادم اردو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ خاکسار کا نصب العین ’ہماری پہچان: اسلام،اردو، پاکستان‘ اس راقم سے بہت پہلے میجر آفتاب حسن کا بھی نصب العین تھا۔انھوں نے ساری عمر انھی تین بڑے اسماء کی خدمت اور دفاع کے لیے مساعی جمیلہ انجام دیں۔وہ اردو اور مشرقی تہذیب کے مجسم نمایندے تھے۔
”میں یہاں ایک بات یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ میں اردو ادب کا طالب علم نہیں ہوں،بلکہ اردو تحریک کا خادم ہوں، لیکن اردو ادب اور اندازِ ادب کے متعلق اپنے قطعی خیالات رکھتاہوں۔میں اس انداز ِ ادب کا سخت مخالف ہوں،جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ادبِ اردو کی کوئی تاریخ، کوئی فن، کوئی معیار نہیں اور صحیح یا غلط کا کوئی پیمانہ نہیں، جس کا جوجی چاہے،لکھ دے، کوئی اعتراض نہیں کرے گا“۔(میجر آفتاب حسن)
میجر آفتاب حسن کا تعلق صوبہ بہار، ہند کے عظیم صوفی بزرگ ظہور علی عرف پیر فضیحت شاہ وارثی (رحمۃ اللہ علیہ) کے خاندان سے تھا جو 1830ء سے، بازید پور، بہار میں آباد تھا۔یہ بزرگ دیوا شریف(یا دیوہ شریف)، بارہ بنکی (اترپردیش، ہندوستان) کی نامور روحانی شخصیت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے خلیفہ تھے۔میجر صاحب موصوف راسخ العقیدہ مسلمان اور تصوف کی راہ کے مسافر تھے۔
میجر آفتا ب حسن 16ستمبر 1909ء کو ابوالحسن بن پیر فضیحت شاہ کے یہاں پیدا ہوئے۔ان کے دو بھائی انوارالحسن اور محمد حسن اور تین بہنیں تھیں۔سب سے چھوٹے بھائی محمد حسن (1915ء تا 10اپریل 1996ء) صاحب تصنیف ادیب تھے (کتب: ’اقبال‘ ;مثنوی زہر عشق، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ضیاء الحق، دردِ دل، لذتِ زندگی، کرشن بھی مرگیا اور یادوں کا کارواں اُس کی ارتھی کے ساتھ چلا)۔میجر صاحب کے گھرانے کی علمی وادبی خدمات کا مختصر سا جائزہ بھی یہ کہنے کو کافی ہے کہ ’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘۔
میجر صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1932ء میں بی ایس سی (امتیازی) اور اگلے سال طبیعیات میں ایم ایس سی (امتیازی) کا امتحان عمدہ نمبروں سے پاس کرکے سند حاصل کی، پھر انھیں (اپنی جامعہ کی لیکچررشپ کی پیشکش کے ساتھ ہی) اسٹیٹ اسکالرشپ کے ساتھ کیمیا کے مضمون میں لند ن سے پی ایچ ڈی کرنے کو کہا گیا، چنانچہ وہ ستمبر 1933ء میں انگلستان روانہ ہوگئے۔ایک بیان کے مطابق وہاں انھوں نے چودھری رحمت علی سے ملاقات کرکے اُن کی تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور فعال رکن بنے(مجھے اس کی تصدیق کے لیے،کے کے عزیز کی”سوانح حیاتِ چودھری رحمت علی“ کھنگالنی پڑی، مگر اس میں یہ ذکر نہیں)۔وہاں انھوں نے ہندوستانی طلبہ کے ڈراما کلب کے رکن کی حیثیت سے کچھ ڈراموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
انھوں نے 1936ء میں کیمیا خصوصی [Special Chemistry]کے مضمون میں بی ایس سی کی سند حاصل کرکے وطن واپسی کا سفر بذریعہ فورڈ موٹر کار کچھ دوستوں کے ساتھ شروع کیا اور یورپ، ترکی وایران کے راستے، برطانوی ہند پہنچے۔انھوں نے گیا (بہار، ہندوستان) کے مشہور ادبی جریدے ندیم میں ایک طویل سفرنامہ بعنوان ’چھےَ مسافر، ایک موٹر‘ قسط وا ر لکھ کر شایع کرایا جو 1938ء تک جاری رہا۔انھوں نے مابعد اپنے وطن کے متعدد مقامات کی سیر بھی کی۔سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان کے ماہنامہ ’سائنس بچوں کے لیے‘ میں سفرنامہ کشمیر لکھنے والے ا۔ح بازید پوری یہی اپنے میجر آفتاب حسن تھے جن کی نگارش نہایت آسان اور دل چسپ زبان میں ہونے کی وجہ سے مقبول ہوئی۔
ہمارے ممدوح نے اپنے دودوستوں کے ہمراہ سفرانگلستان پر روانہ ہوتے ہوئے یہ طے کیا کہ جہاں تک ممکن ہو، انگریزی سے یکسر گریز کرتے ہوئے اردو ہی میں اظہار خیال کریں گے۔آپ کو شاید یہ جان کر انتہائی حیرت ہو کہ وہ تینوں اس پر اتنی سختی سے کاربند رہے کہ جہاز پر، انگلستان پہنچنے تک، درمیان میں عدن (یمن) کی بندرگاہ کے بازار سے خریداری اور قاہرہ (مصر) کی بندرگاہ پر مقامی لوگوں سے ملاقات کے وقت بھی یہی روش اپنائی۔(آج ہمارے یہاں لوگ اپنے بچوں سے غلط سلط انگریزی میں گفتگو کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ بہت عالم فاضل ہوجائے گا)۔انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر Indian Speaking Unionبنائی جس کا افتتاح نامورہندوستانی ادیب، سرشیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا نے کیا۔
میجر آفتاب حسن نے وطن واپس آنے کے بعد ریاست حیدرآباد، دکن میں ”انسپیکٹر تعلیم برائے سائنس، ممالک محروسہ سرکار عالی“ کی نئی اسامی پر تقررکے بعد اس شعبے سے اپنی طویل وابستگی کا آغاز کیا۔ یہ Gazetted Officer Class-Iکی اسامی تھی۔انھوں نے اس عہدے پر 1937ء تا 1945ء کام کرتے ہوئے، ریاست کی تمام درس گاہوں میں سائنسی مضامین کی تعلیم،ترویج اور ترقی کے لیے اہم کرداراداکیا۔وہ 1945ء میں مددگار ناظم تعلیمات اور اگلے برس اورنگ آباد کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے تو اس عہدے پر فائز ہونے والے سب سے کم عمر شخص تھے۔تقسیم ہند کے سال انھیں ثانوی تعلیمی بورڈ کا معتمد یعنی سیکریٹری بھی بنادیا گیا۔اگلے سال انھیں شعبہ سیاسیات کا منصب سونپا گیا، مگر پھر وہ اپنے نئے وطن پاکستان تشریف لے گئے، یہ ستمبر 1948ء کی بات ہے۔اس اعلیٰ ظرف مہاجر بزرگ کی شان یہ تھی کہ انھوں نے اپنی سابقہ اعلیٰ ملازمت، جائیداد اور آبائی وطن میں وراثت کے بدلے کبھی کسی متبادل کا دعویٰ نہیں کیا، جبکہ بہت سے لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے اُسی دورمیں جھوٹے دعوے دائرکرتے ہوئے وہ آراضی ہتھیالی جو آج کھربوں روپے مالیت کی ہے۔
1949ء میں اردو کے اس عظیم خادم کو ملٹری اکیڈمی کاکول میں میجر کے عہدے اور صدرشعبہ سائنس وریاضی کے منصب پر فائز کیا گیا، درایں اثناء جون 1949ء میں اردو کالج نے کام کرنا شروع کیا تو بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کے پرنسپل کے طورپر ملازمت کرنے کی پیشکش کے ساتھ، کاکول پہنچے اور میجر آفتاب سے گفت وشنید کی، پھر یہ سلسلہ خط کتابت کے ذریعے جاری رہا، جس کے نتیجے میں 1952ء میں کاکول کی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، وہ کراچی تشریف لائے اور کالج کے پرنسپل تعینات ہوئے۔اُن کا قیام اس زمانے میں بِہارکالونی میں تھا۔
ادھر میجر آفتا ب حسن پاکستان تشریف لائے اور اُدھر ریاست حیدرآباد، دکن پر ہندوستان نے بزورقبضہ کرلیا۔یہ 18ستمبر 1948 کی بات ہے۔انھوں نے پاکستان آتے ہوئے ساکنین ریاست سے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہاں حملہ ہوگیا تو میں فوراً واپس آجاؤں گا۔اس وعدے کی لاج رکھنے کے لیے وہ خفیہ مشن کے تحت، بذریعہ ہوائی جہاز، جنگ زدہ حیدرآباد(دکن) پہنچے اور وہاں کے باشندوں کو یقین دلانے کے لیے کہ واقعی پاکستان سے آیاہوں، پاکستانی سیاہ انگوروں کا تحفہ لے کر گئے اور اپنے سابق متعلقین کو ششدرکردیا۔واپسی کا سفر بہت خطرناک تھا، دشمن کے جنگی جہاز تعاقب میں حملہ آور ہوئے، مگر خیر ہوئی،خدانے اُن کی اور اُن کے اہل وعیال ودیگر افراد کی حفاظت فرمائی اور یوں یہ مختصر جماعت پاکستان واپس پہنچ گئی۔
اوپرذکر ہوا میجر آفتاب کے ملٹری اکیڈمی کاکول میں تقررکا، بات کی بات ہے کہ اُن کے دورملازمت کے ساتھیوں میں اُن کے دوست پروفیسر ڈاکٹر محموداحمد (مابعدصدرشعبہ فلسفہ جامعہ کراچی)، بین الاقوامی امورکے استاد ڈاکٹر احسان اللہ (ہائیڈل برگ، جرمنی سے پی ایچ ڈی)،استادریاضی ڈاکٹر اسحق (پرنسٹن یونیورسٹی، امریکا میں آئن اسٹائن کے گہرے دوست)، استادانگریزی ڈاکٹر مظہر (برٹش یونیورسٹی)، اور استاد انگریزی جناب ایس ایم ایچ رضوی جیسی فاضل شخصیات شامل تھیں۔کاکول کے طرز زندگی کے متعلق آپ نے فوج کے ادارہ تعلقات عامہ کے بنائے ہوئے ڈرامے تو دیکھے ہوں گے، مگر جو بات یہاں میجر آفتاب کے حوالے سے نقل کررہاہوں، شاید آپ کے لیے اچنبھے کاباعث ہو۔انگلستان سے ڈاکٹریٹ اور یورپ کی سیاحت کرنے والے عالم فاضل سائنس داں، ادیب ومحقق کو اُردو سے ایسا عشق تھا کہ کاکول کے کیڈٹس کے سامنے یہ کہہ کر انھیں ہنسادیا کرتے تھے کہ بھائیو! میری انگریزی کمزور ہے، مجھے معاف کرنا۔اُن کی اس بات کا مقصد اپنی زبان کی اہمیت واضح کرنا اور بلاضرورت سابق آقاؤں کی زبان سے اجتناب کرنے کی تلقین تھا۔
وہ اپنے شاگرد کیڈٹس سے کہتے تھے کہ اپنی زبان میں بات کرو۔بریگیڈئیر گلزاراحمد (مرحوم)کی کوشش سے پاک فوج کے ٹینکوں پر مخصو ص نمبر، اردو ہندسوں میں ڈالے جانے لگے، کیونکہ ایک موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ”بے وقوفو! تمھارے ٹینکوں پربھی انگریزی میں نمبر لکھے ہوئے ہیں اور دشمن کے ٹینکوں پر بھی، اس طرح تو غلطی سے دشمن کی بجائے اپنے ہی ٹینکوں پر گولہ باری ہوجانے کا امکان رہتاہے، کیونکہ جنگ میں اپنے پرائے کی پہچان نہیں رہتی“۔اسی دورمیں میجر آفتا ب نے اکادمی کی عمارت میں ’شعبہ سائنس‘ کا نام سیمنٹ میں کندہ کروایا تاکہ پختہ جُزوِ عمارت بنے۔انھی کے کارناموں میں انگریزی رسالے Cadetکے مقابلے میں اردو رسالے ’قیادت‘ کا اجراء بھی شامل ہے۔کاکول میں اُن کے شاگردوں میں میجر عزیز بھٹی، لیفٹیننٹ جنرل محمد اقبال،جنرل میرزا اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل سردار ایف ایس لودھی (سابق گورنربلوچستان) شامل تھے۔وہ اس سے قبل رسالہ ”سائنس“ کی 1941(ء تا 1948ء)ادارت کے فرائض انجام دے چکے تھے اور پھر کراچی سے بھی اس رسالے کے مدیر بنے۔
میجر آفتا ب حسن کو بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اسی پس منظر کے ساتھ، اردو کالج کا پرنسپل مقررکرنے کا فیصلہ کیا۔اُن سے قبل، ان کے سسر، سید محی الدین بیرسٹر ایٹ لا نے یہ ذمے داری بطریق احسن نبھائی۔میجر صاحب کے دور (1952ء تا 1959ء)میں کالج نے روز اَفزوں ترقی کی اور اُن کی اصول پسند قیادت کے ساتھ ساتھ شخصیت کے متعد د اوصاف بھی اسی دور میں لوگوں کے سامنے عیاں ہوئے۔دیگر باتوں کے علاوہ، اُن کے تعلیمی، سماجی وادبی شعور کی ایک مثال یہ ہے کہ انھی کے ایماء پر خواجہ معین الدین نے اپنا مشہور ڈراما ”تعلیم بالغاں“ لکھا تھا جو آج بھی اپنی افادیت کے لحاظ سے ہزاروں ڈراموں پر بھاری ہے۔ڈاکٹر سید صابر علی (سابق پرووائس چانسلرجامعہ کراچی) کو اردو کالج میں تقرر کی درخواست دینے پر، ش۔ضحی صاحب سے کہہ کر ایک مصرع طرح دیا گیا، انھوں نے فوراً نظم کہہ سنائی تو ش۔ضحی صاحب گویاہوئے:”نظم انتہائی معیاری اور ادبی نقائص سے پاک ہے“، بس میجر صاحب نے خوش ہوکر کیمیا کا استاد مقرر کردیا۔
”اُن (کی شخصیت کے)سب (پہلوؤں)میں صرف ایک چیز مشترک نظر آتی ہے یعنی پاکستان میں قومی زبان اردو کے کلّی اورکامل نفاذ کی تمنا، فکروعمل اور تشویق۔میجر صاحب جہاں بھی گئے، جہاں بھی رہے، ملک میں نفاذ ِاردو کی جدوجہد میں عملی طورپر نہ صرف شریک رہے، بلکہ اس کے قافلہ سالاراور رہبر ٹھہرے۔اردوزبان کے معاملے میں میجرصاحب کا مؤقف ہمیشہ وہی رہا جو کسی بھی آزاد ملک کے آزاد شہری کا اپنی زبان کے تعلق سے فطرتاً ہوتا ہے یعنی قوم کی قومی زبان، اُ س کا بنیادی انسانی حق ہے“۔(محترم اسلام نشتر)
میجر آفتاب حسن، تحریک نفاذ اردوکے جری اور صاحب علم قائد تھے۔اُن کی شخصیت سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے یہ تعارفی مضمون،انھی کے رفیق، محترم اسلام نشترصاحب (سابق ڈائریکٹر مقتدرہ قومی زبان)کی عمدہ کتاب ”رہبر ِ نفاذِ اردو، میجرآفتاب حسن۔حیات وخدمات“کی مدد سے لکھا گیا۔ یہ شاندارکتاب حاصل کرنے کے لیے ای میل کی جاسکتی ہے۔ jehanescience@gmail.com
The post زباں فہمی 148؛ عظیم مجاہدِ اردو میجر آفتاب حسن کی یاد میں appeared first on ایکسپریس اردو.