کراچی: امروہہ درحقیقت ایوان ِ شاعری ہے مولد ہے مصحفیؔ کا، محشرؔ ذرا سنبھل کر (محشرؔ لکھنوی) اردو زبان وادب کے بڑے مراکز میں دِلّی،لکھنؤ،حیدرآباد، اورنگ آباد، گلبرگہ(دکن)، احمد آبادودیگر مقامات متصل گجرات، عظیم آباد(پٹنہ،بِہار)،ڈھاکاوکلکتہ(بنگال)،پنجاب(غیرمنقسم) اور لاہور سمیت موجودہ پاکستان کے مختلف شہروں، قریوں، دیہات کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں نام امروہہ کا ہے، بلکہ اہل زبان کے قاعدہ امالہ کے تحت، یوں کہیے کہ امروہے کا ہے۔
خاکسار نے بوجوہ عنوان وموضوع محض شاعری تک محدود رکھا ہے، کیونکہ اس تنگنائے قرطاس میں ایک پورا سمندر سمونا ناممکن ہے۔ رئیس امروہوی کے الفاظ میں ”جہاں تک شعرائے امروہہ کا تعلق ہے تو بلاشبہ دو ہزار صفحوں کی ایک کتاب، اس موضوع پر لکھی جاسکتی ہے“۔(رئیس امروہوی اور اُن کے بھائی جون ایلیا، امروہہ کے مشہور ومقبول شعراء کی فہرست میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں)۔
عطاؔ امروہوی نے ”نظم ِ شبیر“ میں لکھا، ”امروہہ کی مَردُم خیز (مَردَم غلط ہے) سرزمین نے جہاں اور متفرق کسب وہنر میں کامل واکمل ہستیاں پیدا کیں، وہاں فنّ شاعری میں بھی سیکڑوں (سینکڑوں غلط ہے) شاعرِ شیریں مقال اور ناظم باکمال اور استاد ِزمانہ انسان پیداکیے“۔ اس پر مستزاد ایک اور قول بھی ملاحظہ فرمائیں: ”امروہہ کی آبادی سے بھی زیادہ یہاں شاعروں کی آبادی ہے، کیونکہ ہر شخص ناصرف شاعر ہے، بلکہ کئی کئی قلمی ناموں سے لکھتا ہے“۔(پروفیسر امیراللہ خاں، صدر شعبہ اردو، چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ۔ہندوستان)۔
اس شہر ِبے مثال میں شاعری کی بِناء کب پڑی، اس بابت ایک تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ کم وبیش ساڑھے سات سو سال پہلے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اردو کے قدیم شعراء کہاں کہاں اور کب کب ہو گزرے ہیں، اس باب میں بھی امروہہ بہت سوں سے آگے ہے۔ مغل تاجدار جلال الدین اکبر کے عہد میں، اُس کے لائق فائق رَتن مُلّا فیضی کو اپنے شعری کمال سے اپنا گرویدہ کرنے والا شاعر نورعالم مُلّا نوریؔ، اسی امروہے کا باسی تھا۔ سوداؔ کے شاگرد، قائمؔ چاند پوری کے بیان کو درست مانا جائے تو اس قدیم شاعر کے کلام میں دوتین غزلیں، اردو میں بھی موجود ہیں۔ ملا نوری ؔ کا ایک شعر اُس دور کے ریختہ کی یاد گار ہے : ہر کس کہ خیانت کُنَد، البتہ بِتَرسَد بے چارہ ئ نوری ؔ نہ کرے ہے، نہ ڈرے ہے (ہرکوئی جو خیانت کرتا ہے، بہرحال ڈرتا تو ہے۔اب یہ بے چارہ شاعر بھی کیا ہے کہ کرتا ہے نہ ڈرتا ہے یعنی اس قسم کی خیانت کا مرتکب نہیں، اس لیے لائق احترام ہے: س ا ص)۔
ماقبل پرانی تحقیق کی رُو سے ”امروہہ میں شاعری کی بسم اللہ، میر اسمٰعیل قادری امروہوی سے ہوئی جو مغل تاجدار شہاب الدین شاہجہاں کے زمانے (پ:5جنوری1592ء، و:22جنوری1666ء، اقتدار: جنوری1628ء تا جولائی 1658ء) میں تھے۔ اُ ن کی تین مثنویاں شایع ہوچکی ہیں، جو سالہا سال تک اِدھر اُدھر بے توقیری سے پڑی رہیں۔ان مثنویوں کے مقدمے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم نے میر اسمٰعیل قادری کو ’شمالی ہند کا قدیم شاعر‘ لکھا ہے“(پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاور ؔ امروہوی، انکشاف اقتباسات،1997ء، ص 12)۔
یہاں میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہمارے ننانوے سالہ بزرگ، ذی علم معاصر پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاورؔامروہوی کا گزشتہ کئی سالوں سے کوئی پتا نہیں۔واقف حال احباب مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا)۔ رئیس امروہوی نے بھی برملا اس اَمر کا اعتراف کیا کہ ”اردو کا پہلا مثنوی نگار، میرا ہم وطن، اسمٰعیل امروہوی تھا“۔ (مجلہ حضرت سید حسین شاہ شرف الدین شاہ ولایت، 1976، ص ۱۱)۔
اسمٰعیل امروہوی کا نمونہ کلام پیش خدمت ہے: وطن امروہہ میرا ہے شہر کا نام، اسی جائے پر میرا ہے گا قیام (قدیم اردوبشمول دکنی میں ’ہے گا‘ مستعمل تھا، بعد میں متروک ہوگیا اور مدتوں بعد، پاکستان ٹیلی وژن کے کٹھ پتلی تماشا فن کار، فاروق قیصر نے اپنے پروگرام کے ذریعے زندہ کیا)۔ اسمٰعیل صاحب کا ایک اور شعر دیکھیں، یہاں بھی قدیم اردو نظر آتی ہے: ہمن عاجزن کا تو ہیں دستگیر، تِرے در اُوپر شاہ ہیں گے فقیر (ہمن: ہم، عاجزن: عاجز کی جمع، دراُوپر: درپَر، توہیں: تُوہی، ہیں گے: ہیں) یہاں قصداًامروہے میں فارسی شاعری کے آغاز کے مبہم و غیرمصدق تذکرے سے گریز کر رہا ہوں۔
امروہہ ایک گلدستہ تھا جس کے پھول رنگ برنگے اور مختلف ومتنوع خوشبو سے پُر تھے۔یہ بات کہنے والا کوئی امروہوی نہیں، بلکہ یہ خاکسار ہے جس کا آبائی تعلق، میرٹھ سے ہے۔امروہہ کے ایک اور قدیم اردو شاعر عضدیؔ (شاہ عضدالدین محمد جعفری)امروہوی (10جنوری 1667ء بعہد اورنگزیب عالمگیر تا 27مارچ 1759ء بعہد عالمگیر ثانی)نے اپنے دور میں فن شعری کے ساتھ ساتھ تفسیر وحدیث، منطق وفلسفہ، علم کلام، علم ریاضی، جفر ورَمل، علم نجوم، فن تعبیر ورویا، فن طب، تصوف اور تدریس میں کمال حاصل کیا۔وہ عربی، فارسی،ہندی اور سنسکِرِت کے عالم تھے۔اُن کا محفوظ کلام فقط فارسی میں ملتا ہے۔
عضدیؔ کے متعلق اضافی معلومات یہ ہیں کہ اُن کے چچا شاہ محمدی فیاض جعفری گیارھویں صدی ہجری میں ہرگانو(اَوَدھ) سے امروہہ آبسے تھے۔ شاہ عضدی ؔ کے شاگرد و خلیفہ شیخ عبداللہ مانی عرف خلیفہ ہینگا امروہوی تھے جن کے ایک شاگرد (شیخ غلام ہمدانی) مصحفی(ؔ امروہوی) نے دنیائے ادب میں نام پیدا کیا۔(بحوالہ انکشاف اقتباسات)۔
مصحفیؔ (1748ء تا1824ء)کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد بھی استاد کا درجہ رکھتی ہے، لہٰذا انھیں استاذالاساتذہ(یا استاد ِ اساتید)کہنا برحق ہے۔مشہور روایات کے مطابق وہ اکبرپور(موجودہ ضلع امروہہ) میں پیدا ہوئے، مگر معروف محقق و کہنہ مشق سخنور افسر ؔ صدیقی امروہوی کی تحقیق کے مطابق، اُن کی جائے پیدائش بلبھ گڑھ (موجودہ بلرام گڑھ، ضلع فریدآباد، ہریانہ) ہے۔
منظوراحمد صدیقی افسرؔ امروہوی اپنے عہد کے فاضل اجل، بہت سے جعلی مشاہیر ِادب کے کارناموں کے اصل خالق اور تحقیق وتصنیف وتالیف میں درجہ استناد کو پہنچی ہوئی شخصیت۔اُن کا نمونہ کلام: ہوئے واپس شبِ معراج، حضرت، اس صفائی سے+نگاہ ِ اہل ِ دل جیسے پلٹ آئے کہیں ہوکر بہرحال امروہوی شعراء کے تذکرے اُن کے ذکر سے کبھی خالی نہیں رہے اور انھیں امروہہ کا ساکن ہی قراردیا جاتا ہے، کیونکہ اُن کی عمر کا ابتدائی حصہ اور شاعری کی ابتداء اسی شہر سے جڑی ہے۔ وہ اردو کے ساتھ ساتھ، عربی اور فارسی کے جید عالم اور شاعر تھے۔ اُن کے آٹھ دیوان اردو میں، تین فارسی میں اور ایک دیوان عربی میں تھا جو شایع نہ ہوسکا۔ اُن کی نثری تصانیف بھی اپنے معاصرین کی نسبت معیارومقدارمیں زیادہ نمایاں ہوئیں۔ اُن کے ایک شعر میں ”جان بوجھ کر“ کچھ کرنا، ترکیب کا انوکھا استعمال ملاحظہ ہو: مصحفیؔ دل کوئی ہرجائی کو دیتا ہے میاں، جان اور بوجھ کے نادان نہ ہو اتنا بھی۔
چونکہ وہ استادوں کے استاد تھے، اس لیے اُن کا یہ شعر بھی کسی قسم کی تنقید سے ماوراء ہے،وگرنہ کوئی چھوٹا موٹا شاعر ایسی جسارت نہیں کرسکتا۔ مصحفی کا ذکر قصداً مختصر کرتا ہوں کہ وہ اردو کے اساتذہ سخن میں ایک بڑا نام ہیں اور اُن کے متعلق مواد بھی بہت عام دستیاب ہے۔ ان سے پہلے بات ہورہی تھی عہد عالمگیر کی،اورنگزیب عالمگیر ہی کے عہد میں اردو کے ابتدائی طنز ومزاح گو یعنی ہزل گو شعراء کی قبیل میں شامل ایک امروہوی، عطا اٹلّی امروہوی(و: 1135ھ) نے شہرت پائی۔ انھوں نے اپنے معاصر جعفرز ٹلّی کے مقابل اپنے آپ کو اٹلّی کہلوانا پسند کیا۔ وہ میرزا عبدالقادربیدلؔ کے ایسے خاص شاگردتھے کہ جنھیں استاد نے اپنے منتخب کلام، بیاض اور قلم دان سے نوازا تھا۔ اُن کے ہزلیہ کلام میں قدیم ریختہ کا عجیب نمونہ ملتا ہے: برفلک شب نمی طپد (تپد) انجم، دل گردوں زِسہم می دھڑکد۔ دست و پا می زَند، عدو دَر رَن+ہمچُُو پدری کہ درقَفَس پھڑکد۔
عطاؔ اٹلّی امروہوی کا ایک اورشعر دیکھیے: کاٹ جو اَبروئے خمدارمیں تیرے ہے میاں، خنجر و تیغ کا کیا اُس کے تئیں کاٹ لگے۔ امروہے کی شاعری میں بعض اولّیات شمار کریں تو معلوم ہوگا کہ اردو کے قدیم ترین مزاح گو بھی وہیں سے اُٹھے اور اردو میں اولین منظوم سفرنامہ لکھنے کا اعزاز بھی ایک امروہوی شاعر سید علی نظر ؔ امروہوی (پ1193ھ بعہد محمد شاہ رنگیلا) کو حاصل ہوا جو میرؔ کے معنوی استاد، سعادتؔ امروہوی کے شاگرد تھے، گویا میرؔ کے ”استاد بھائی“ تھے۔ انھوں نے اپنے عہد کے رواج کے مطابق صنف واسوخت میں بھی طبع آزمائی کی۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے: پانی کی طرح یار کو ہر رنگ میں دیکھا۔۔۔ مانند ِ شرر، سینہ ئ ہرسنگ میں دیکھا۔ اُن کی واسوخت سے شعر اقتباس ہے: دل کا کیا کہیے، اُسے خوار، اِن آنکھوں نے کیا، کُشتہ وزار و دِل افگار، اِن آنکھوں نے کیا۔
”علی نظر ؔ امروہوی…حیات وشاعری“ کے عنوان سے ڈاکٹر مولانا سیادت فہمی نے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ میر سعادت علی سعادت ؔامروہوی نے میرتقی میرؔ کو ریختہ (یعنی قدیم اردو) میں شاعری کی طرف راغب کیا۔عہد مغلیہ کے بعض دیگر امروہوی شعراء کو تاریخ میں وہ مقام نہ مل سکا، مگر بہرحال تذکروں میں نام ملتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال مصحفیؔ کے بزرگ معاصر، پیرزادہ عالم شاہ محزوں ؔ کی ہے جواپنے وقت میں، دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ مراثی وسلام گوئی میں بھی ممتاز تھے۔
اُن کا یہ شعر ندرت خیال کا اچھا نمونہ ہے: بے مُحابا چاک کرتا ہے گریباں کو جو اَب، کس کے آنے سے چمن میں گُل کا سودا ہوگیا۔ اُن کا ایک اور شعر بھی مضمون اور پیشکش کے لحاظ سے خوب ہے، محاورہ بہت اچھا برتا ہے: تم نہ فریاد کسی کی نہ فُغاں سُنتے ہو۔۔ اپنے مطلب ہی کی سُنتے ہو،جہاں سُنتے ہو۔ محزوں ؔ تخلص کے ایک اور امروہوی شاعر متین حسن نقوی (اولاد ِشاہ ولایت)فرزند انجم امروہوی (1897ء تا 1973ء) کے اشعار میں محاورے کے استعمال کاایک نادرنمونہ نظر آیا:محفل سے اُن کی آج نکالا گیا حریف ۔۔۔ خس کم جہان پاک کی صادق مثال ہے۔
امروہہ کے عباسی خاندان نے بہ یک وقت شعرو ادب اور طبابت یعنی حکمت میں عروج پایا۔ اتفاق سے اس خاندان کے آخری چشم وچراغ حُکماء سے میرا بھی واسطہ پڑا، مگر اُن کی زندگی محض حکمت کے ذریعے خدمت خلق تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ حکیم (محمد احمد عباسی) اثرؔ امروہوی المعروف ”حکیم بہرے“ (1921 ء تا 1986ء) کا دواخانہ لیاقت آباد، کراچی میں ہوا کرتا تھا۔ (اُن کے نہایت باکردار، مشفق وخلیق بھتیجے حکیم جاویدعباسی مرحوم سے میرے مراسم رہے)۔ اُن کا یہ شعر مختصر بحر میں بہت دل کش ہے: دنیائے تصور کی اللہ رے رعنائی ۔۔۔ ہنگامے کا ہنگامہ، تنہائی کی تنہائی۔
حکیم ا ثرؔ صاحب کا ایک اور شعر ہے: اپنے عارض سے ہٹاؤ نہ ابھی تم گیسو۔۔۔ ایک مرکز پہ بہم شام وسحر دیکھ تو لوں (راقم سہیل احمدصدیقی کا شعر ہے: اُس کے رُخ پہ ہوئیں رقصاں زلفیں ۔۔۔۔ ورنہ دن رَین کہاں ملتے ہیں) اسی عباسی گھرانے کے ایک اورشاعر حکیم اویس احمد عباسی نے پہلے اویس اور پھر اَثر ؔ تخلص اختیار کیا۔ تذکرہ شعرائے امروہہ میں اُن کی وفات کے بارے میں مبہم بیان ہے کہ آپ بیسویں صدی کے ابتدائی دورتک حیات(بقید حیات: س ا ص) تھے۔
حکیم موصوف کے فرزند، حکیم جاوید عباسی نے مجھے بتایا کہ اُن کا انتقال 1958ء میں لاہور میں ہوا تھا۔ اُن کے کلام کے انتخاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مزاحیہ اشعار بھی کہا کرتے تھے۔ (اُن کے کزن حکیم علی احمدعباسی اور حکیم احسن عباسی بھی حکمت کے شعبے میں بہت نامی ہوئے، جبکہ اسی گھرانے سے شعیب حزیں ؔ، اُن کے فرزند صحافی و ڈرامانگار زبیر عباسی، دخترشاعرہ حجاب عباسی وسیما غزل اور زبیر صاحب کی کزن اور دوسری زوجہ محترمہ طبیبہ ناہید عباسی،نیز زبیر عباسی کا اداکاربیٹا شمعون اور طبیبہ کی اداکارہ بیٹی جویریہ بہت مشہور ہوئے۔
حجاب صاحبہ کے خسر نظرؔ امروہوی اور شوہر اقبال نظر بھی ممتاز ادبی شخصیات ہیں)۔ احسان ؔ امروہوی (1899 ء تا 1973ء) فرزند ِ علی مستحسن سکتہؔ، تلمیذ ِ ہُشیار میرٹھی کے کلام میں جگرؔ مرادآبادی کا رنگ سخن جھلکتا ہے: گِرداب ِ الم میں ہی رہ کر تحصیل ِ مسرت ہوتی ہے ۔۔۔۔ ساحل سے کنارہ کش ہوکر دریا پہ حکومت ہوتی ہے۔ ابواحمداحمدؔ (پ 1249ھ) کے کلام میں جابجا لکھنویت نمایاں ہے۔ ایک شعر دیکھیے: چُراکے سینہ الگ نہ بیٹھو، گلے لگالو ہمیں ذرا تم ۔۔۔ کہ سوزِ فرقت سے سینے میں دل مثال ِ اخگر دہک رہا ہے۔
ممتاز مزاح گو احمق ؔ پھپھوندوی کی طرح احمقؔ امروہوی بھی مزاح گو اور تحریک آزادی کے کارکن تھے جنھوں نے قیدوبند کی صعوبت بھی اٹھائی۔ ان کا اصل نام منشی رام چرن لال تھا۔ اُن کا ایک شعر ہے: مجھے افسوس ہے بنتی ہے پبلک، کس لیے احمقؔ ۔۔۔ جوکالے ڈنک ماریں پالے جاتے ہیں وہی گھر میں۔
امروہہ کے غیر مسلم شعراء کے حالات پر ایک مستقل تالیف بھی ضروری ہے۔ امروہہ کے نسبتاً جدید شعراء میں (مہتاب الرب فاروقی) قمر امروہوی (1917ء تا 1994ء) بہت ممتاز ہوئے۔ راقم نے اپنی نوجوانی میں اُن سے ملاقات کا شرف پایا۔ انھوں نے قتیل شفائی کے اولین مشاعرے میں کی جانے والی اپنی شرارت کا ذکر پُرلطف انداز میں کیا تھا جو بندہ ماقبل تحریر کرچکا ہے۔
اُن کا نمونہ کلام: میں دوں کس چیز سے تشبیہ اُن کے رُوئے تاباں کو ۔۔۔ قمرؔ اُن کا تو چہرہ کچھ سِوا ہے بدرِکامل سے۔ فی الحقیقت وہ بشر رَشک ِ قمر ہوجائے گا۔۔۔ عشق کاجس پر بھی لطف ِ بے کراں ہوجائے گا۔ اب ذرا جدید دور کا ایک اور مشہور نام دیکھتے ہیں۔ نامور مصور صادقین امروہوی رباعی گو شاعر بھی تھے۔ انھوں نے حافظ ؔ شیرازی کی اتباع میں کہا تھا: امروہہ پہ دوشہرِ دل آرا بخشوں ۔۔۔ بس ہو تو سمرقند وبخارا بخشوں۔
اردو کے ضرب المثل اشعار میں ایک بڑی تعدادایسے اشعار کی ہے جن کے خالق مشہور نہیں یا سرے سے گمنام ہیں۔ایسا ہی ایک شعر نعت کی صنف میں بہت مشہور ہے: تماشا تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش ۔۔۔ لگائے خدا اور بُجھائے محمد (ﷺ) اس شعر کے خالق امروہہ کے برجیسؔ (برجیس حسین تقوی) امروہوی(1877ء تا 1912ء) تھے جن کے والد (جواد حسین)شمیم ؔ امروہوی کو اُن کے عقیدت مند حضرات نے ”فرزدقِ ہند“ کا لقب دیا تھا۔ قمرؔ صاحب کے ایک ہم نام ہمارے بزرگ معاصر قمرجمالی امروہوی تھے جن کے ساتھ ہم نے چند ایک بار سالانہ ہائیکو مشاعرے پڑھے۔اُن کا یہ شعر دیکھیے: راستے تم نے سجا تو دیے ویرانوں کے ۔۔۔۔ ٹوٹ جائیں نہ کہیں حوصلے دیوانوں کے۔
اور اب ذرا قمرؔ جلالوی کا مشہور زمانہ شعر یاد کیجئے: راستے بند کیے دیتے ہو، دیوانوں کے ۔۔ ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے۔ آخر میں اپنے تمام معاصر امروہوی شعراء سے معذرت خواہ ہوں کہ بوجہ تنگی وقت وقرطاس،یہاں اُن کا ذکر ِ خیر نہ کرسکا۔
امتنان: میں اس موضوع پر اخذواستفادہ کے لیے اپنے بزرگ معاصر جناب معصوم حیدر نقوش نقوی کا شکرگزار ہوں، جن کی مرتبہ کتاب ’تذکرہ شعرائے امروہہ‘ بہت کام آئی۔امید ہے وہ مجھے باقاعدہ تبصرہ نہ لکھنے کی کوتاہی کے لیے معاف کردیں گے۔
The post زباں فہمی 147؛ تذکرہ امروہہ کے شعراء کا appeared first on ایکسپریس اردو.