Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

زندگی کا ایک دن منڈی بہاؤالدین کے نام

$
0
0

صبح سویرے سمبڑیال کے مقام پر ڈرائی پورٹ سے ذرا پہلے بنی اپر چناب کینال پر سے گزرتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے روح تک کو راحت بخشی تو میں نے فوراً آنکھیں بند کر لیں۔

گرم ہوا جب بھی کشمیر سے آئے ہوئے چناب کے ٹھنڈے ٹھار پانی پر سے گزرتی ہے تو اپنی گرمی ان پانیوں کے حوالے کردیتی ہے جس سے ہوا کا درجۂ حرارت خاصہ کم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ان برفیلے پانیوں پر سے گزرتے ہوئے ہوا ٹھنڈی محسوس ہوتی ہے۔ اس ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں تبھی مجھے ان پانیوں میں اس کا سیاہ عکس دکھائی دیا۔ سیاہ لباس میں ملبوس اُس کا عکس۔ محسوس کرنے پر ایسا لگا جیسے وہ مسکرا رہا ہو۔ مگر اس کی مسکراہٹ بھی بھیانک تھی۔

میں جان چکا تھا کہ وہ کون ہے۔ میں نے دل ہی دل میں اس سے پوچھا کہ وہ میرے ساتھ کیوں سفر کر رہی ہے تو جواب ملا کہ میری حفاظت کے واسطے۔ میری زندگی کی حفاظت میری موت کر رہی تھی۔ میرے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھی۔ چناب کے پانیوں کے سرہانے موت بھی خوب صورت معلوم ہو رہی تھی کہ اچانک کسی بچے کے سڑک پر آجانے کے باعث وقاص کو بریک لگانا پڑا۔

سڑک خالی ہونے کی وجہ سے بائیک کی رفتار بھی کچھ زیادہ ہی تیز تھی۔ اسی لیے اچانک بریک لگانے کی وجہ سے بائیک ذرا قابو سے باہر ہوگئی اور ہم دونوں بائیک سمیت سڑک کے عین درمیان اوندھے منہ پڑے تھے۔ ہیلمیٹ کا شیشہ اوپر کر کے جونہی آنکھیں کھولیں تو سر اسی سیاہ لباس والی کی گود میں تھا جس کا عکس ابھی چناب کے پانیوں میں دیکھا تھا۔

میں نے کہا تھا ناں کہ میں تمھاری حفاظت کے لیے ہوں۔
سیاہ لباس میں ملبوس میری موت اب غائب ہو چکی تھی۔ وہ واقعی اس وقت میری حفاظت کے لیے وہاں تھی۔ ہم نے اپنے کپڑے جھاڑے اور سفر کا پھر سے آغاز کردیا کہ ابھی ہمیں دور اور بہت دور جانا تھا۔ سچ ہے ”چناب کے پانیوں کے سرہانے موت بھی خوب صورت ہے۔”

مختلف شہروں کی آوارگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کو انتہائی لذیذ اور مختلف پکوان بھی کھانے کو مل جاتے ہیں۔ مگر اس کے لیے آپ کی قسمت کا تھوڑا سا اچھا ہونا بھی ضروری ہے کہ پیچھے بہت سے چھوٹے موٹے ہوٹل گزرے مگر وہاں ”غزال” نہیں رکی۔ حالاںکہ میں کافی دیر سے سوچ رہا تھا کہ ناشتہ کیا جائے کیوںکہ گھر سے نکلتے وقت ہم نے صرف چائے کی ایک پیالی ہی پی تھی۔

وقاص کا خیال تھا کہ ہمیں چائے راستے میں کسی ڈھابے سے چائے پینی چاہیے مگر جب مجھے پتا چلا کہ موصوف ساری رات سوئے نہیں (اُس کے کام کی کچھ نوعیت ہی ایسی ہے ورنہ وقاص ایک شریف لڑکا ہے) تب میں نے یہی بہتر سمجھا کہ اسے ایک کپ چائے ضرور پلانی چاہیے۔ کیوںکہ وقاص کو صرف یہی پتا تھا کہ ہمیں بس گجرات تک جانا ہے مگر مجھے پتا تھا کہ مجھے وقاص کو لے کر بہت آگے نکل جانا ہے۔ وقاص میرے کام کا دوست ہے۔ چپ چاپ میری ساری باتیں مان جاتا ہے اور اف تک نہیں کرتا۔ بس ایک یہی عادت مجھے وقاص کی شدید پسند ہے۔

جب کچھ ٹرک ہوٹل سے گزرنے لگے تو میں نے وقاص کے ہیلمیٹ میں سرگوشی کی کہ کسی ہوٹل کے سامنے روک دے۔ ایک ہوٹل گزر گیا مگر وقاص نے شاید نوٹس نہیں لیا۔

تبھی کچھ وقت بعد میں نے وقاص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے رکنے کا بول دیا۔ دکان کا نام منفرد لگا تو سوچا یہیں کھوئے والے چنے کھانے چاہیں۔ ایک بات تو یہ کہ مجھے نان چنے ویسے ہی بہت پسند ہیں مگر نان کا تلا ہوا ہونا شرط ہے۔ آرڈر دیتے وقت میں ذرا ہچکچا رہا تھا کہ خشک نان خلق سے نہ اترے گا۔ مگر نان چنے سامنے آئے تو گرم گرم نان کے ساتھ کھوئے والے چنوں نے میری رال ٹپکا دی۔

جیسے ملائی بوٹی ہوتی ہے بالکل ویسے ہی چنوں کو کھوئے میں پکایا گیا تھا۔ شدید ترین مزے کے تھے۔ ایسے منفرد چنے کم از کم میں نے پہلے نہ سنے تھے، جب سنے نہیں تھے تو کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گجرات سرگودھا روڈ تو ویسے بھی میرے لیے رومانس ہے۔ اس لیے اگر کبھی صبح سویرے آپ یہاں سے گزریں تو صوفی کے کھوئے والے چنے گرما گرم نان کے ساتھ ضرور کھائیں۔

نہ جانے مجھ میں یہ بات کیوںکر ہے کہ جس بھی شہر کی سیاحت کے لیے جاتا ہوں تو سب سے پہلے وہاں کے ریلوے اسٹیشن پر حاضری دیتا ہوں کہ جو مزہ اسٹیشن کی چائے میں ہے وہ کہیں اور کہاں۔ بچپن میں ریلوے اسٹیشن کے بہت پکوڑے کھائے۔ ملکوال، منڈی بہاؤالدین، بھلوال ان تینوں شہروں کے ریلوے اسٹیشن پر خوب رونق دیکھی ہے کہ اس وقت ریلیں بھی خوب چلا کرتی تھیں اور وقت پر بھی آتی تھیں۔ میں ایک لمبے عرصے کے بعد بھلوال اسٹیشن پر تھا۔ میں نے بچپن میں دو ریلوے اسٹیشنوں کے پکوڑے بہت کھائے ہیں۔ ایک ملکوال اور دوسرا بھلوال۔ دونوں اسٹیشن کے پکوڑے بہت لذیذ ہوتے تھے۔

جب میں چھوٹا تھا تو بھلوال اسٹیشن پر میرا ہی ہم عمر ایک گونگا اور بہرا دس گیارہ سالہ لڑکا بھیک مانگا کرتا تھا، جسے دیکھ کر دل یقیناً بہت اداس ہوتا تھا۔ وہ ہر ٹرین کے آنے سے پہلے اسٹیشن آتا، بھیک مانگتا اور ریل گاڑی کے جاتے ہی وہ بھی چلا جاتا۔ میں جب جب بھلوال اسٹیشن سے گزرا یا اسٹیشن پر کھڑا سرگودھا جاتی کسی ریل کا انتظار کر رہا ہوتا تو میرے آنکھیں اسی کی منتظر ہوتی تھیں۔ میری یہ دعا ہوتی تھی کہ وہ مجھے نظر نہ آئے کیوںکہ اس کی شکل مجھے ہمیشہ ایک انجانی سی اداسی میں مبتلا کر دیتی تھی۔ میری نگاہیں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ مجھے دیکھ تو نہیں رہا، اسے ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ ایک عرصہ ہوا میرا بھی بھلوال اسٹیشن پر جانا ختم ہو گیا مگر بچپن کی یادیں کہاں پیچھا چھوڑتی ہیں۔ آج بھی وہ لڑکا میری یادوں میں ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

سوچا تو یہی تھا کہ منڈی بہاؤالدین کے ریلوے اسٹیشن پر جا کر فریش ہو جاؤں گا، پکوڑے، چائے سموسے کھانے کو ملیں گے مگر نہ تو کوئی سموسے والا ملا اور نہ پکوڑے والا۔ البتہ چائے ضرور ملی۔ چائے والے سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ حضور اب ریل زیادہ نہیں آتی، ٹریفک بہت کم ہو گیا ہے، اس لیے سموسے پکوڑے ختم شد۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب ماضی کے قصے ماضی میں ہی رہیں گے اور ہم آخری نسل ہوں گی جس کا ہر فرد کبھی نہ کبھی ریل کے عشق میں مبتلا رہا ہے۔

ہم جب چائے پی چکے تو منڈی بہاؤالدین کا گھڑیاں ساڑھے نو بجا رہا تھا۔ ہزارہ ایکسپریس گزر چکی تھی، ملت ایکسپریس دس بجے آنا تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اعلان کردیا گیا کہ ملت ایکسپریس پر جانے والے مسافروں کے لیے ٹکٹ گھر کھول دیا گیا ہے۔ رفتہ رفتہ رونق بڑھنے لگی مگر ہم اب یہاں مزید نہیں رک سکتے تھے کہ ہماری فہرست لمبی تھی اور ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ ہم ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلے تو ہماری بائیک غائب تھی۔ اردگرد سے معلوم ہوا چوںکہ ہم نے اپنی بائیک ریلوے اسٹیشن کی دیوار کے بالکل ساتھ کھڑی تھی، جو کہ ریلوے اسٹیشن کی حدود ہے، اس لیے ہماری بائیک کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ پولیس والے بھائی صاحب کے ساتھ مذاکرات کیسے رہے، یقیناً اچھے ہی رہے ہوں گے تبھی تو آپ یہ سب پڑھ رہے ہیں، ورنہ نہ ہمیں وقت پر بائیک واپس ملتی اور نہ ہم اپنی یاترا مکمل کر پاتے۔

پنجاب کے بیشتر شہروں کی طرح منڈی بہاؤالدین بھی ایک قدیم شہر ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی جانب سے داخل ہوں تو آپ ایک قدیم دروازے سے شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ شہر کے مرکزی بازار میں ہی دو گوردوارے واقع ہیں جو اب صرف ایک نشانی ہیں کہ اس علاقے میں کبھی سکھ کثرت سے رہتے تھے۔ ایک بڑا گوردوارہ ”مائی صاحب” ہے جو ہماری ناقص معلومات کے مطابق صرف خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ گوردوارہ نہ صرف اب رہائشی عمارت بن چکا ہے بلکہ اپنے کِیس کٹوا کر پکا پاکستانی بھی بن چکا ہے۔

گوردوارے کے داخلی دروازے کے ساتھ اور اوپر کی جانب گُر مکھی میں کچھ تحاریر درج ہے، جس پر کالے پینٹ کے ساتھ کشمیر ہاؤس لکھ دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ گوردوارہ ہمارا ہوا۔ منڈی بہاؤالدین کے پرانے بازار میں ایک ”موٹا فیقا” چوک بھی ہے۔ شنید ہے کہ کوئی موٹا سا آدمی ہو گا جس کا نام رفیق تھا۔ اس کی اسی چوک میں مٹھائی کی دکان تھی۔ دکان مشہور تھی اور دور دور سے لوگ مٹھائی لینے اس دکان کا رخ کیا کرتے تھے۔

بعد میں یہ چوک بھی موٹا فیقا کے نام سے مشہور ہو گیا اور آج بھی اسے موٹا فیقا چوک ہی کہا جاتا ہے۔ موٹا فیقا چوک میں بھی ایک گوردوارہ ہے جس کے باہر کی جانب اب دکانیں بن چکی ہیں۔ دروازے پر تالا پڑا ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ گوردوارہ کے مالک لاہور میں رہتے ہیں۔ اس کی چابی بھی انھی کے پاس ہے۔ بات سمجھ سے باہر تھی مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بیشتر تاریخی مقامات پر نہ صرف قبضہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی گئی ہے۔ کہیں دکانیں بن چکی ہیں تو کہیں رہائش گاہیں۔ کہیں پر جانور بندھے ہوتے ہیں تو کہیں کچرے کے ڈھیر ہیں۔

منڈی بہاؤالدین کے تاریخی ورثے سے دل برداشتہ ہو کر ہم نکلے تو دھوپ اچھی خاصی تیز تھی۔ اب ہمیں یہاں سے تقریباً 45 کلومیٹر دور چیلیانوالہ جانا تھا جہاں پر سکھوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان اپریل 1849 میں دوسری جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ میں انگریزوں نے سکھوں کو روالپنڈی تک پیچھے دھکیل دیا جب کہ گجرات، ملتان سمیت پنجاب کے بہت سے علاقوں سے سکھ پہلے ہی ہاتھ دھو چکے تھے۔

علاوہ ازیں سکھوں کے اتحادی افغانیوں کو واپس ان کے علاقوں میں جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ رسول نگر کی طرح چیلیانوالہ میں بھی اس جنگ کا یادگاری موومنٹ بنایا گیا ہے۔ انگریز فوجیوں اور جرنیلوں کی قبریں بھی موجود ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انگریزوں کا ایک پورا قبرستان یہاں آباد ہے جس کی حفاظت آج بھی برطانوی حکومت اپنے وسائل سے کر رہی ہے۔

منڈی بہاؤالدین سے ذرا پہلے ایک انتہائی اہم قصبہ مانگٹ ہے۔ اگر آپ گجرات کی طرف سے منڈی بہاؤالدین کو جارہے ہیں تو پہلے مانگٹ آئے گا۔ اس لیے پہلے آپ مانگٹ کا ایک تاریخی گوردوارہ اور سات سو سال پرانی ایک مسجد دیکھیں پھر آگے جائیں۔

سکھ مذہب کے پانچویں گرو،گرو ارجن کے پاس ”گرو گرنتھ صاحب” کا اب تک لکھے گئے تمام گروؤں کے کلام کا نسخہ تھا۔ گرو گرنتھ صاحب سکھ مذہب کی روحانی کتاب ہے جس میں بابا گرو نانک سے لے کر سب گروؤں کے علاوہ بابا فرید، بھگت کبیر اور بہت سے صوفیا کرام کا کلام درج ہے۔ گرو ارجن نے مناسب یہ سمجھا کہ گرو گرنتھ صاحب ابھی جتنی بھی لکھی گئی ہے اسے ایک جلد کی شکل میں محفوظ کرنا ضروری ہے۔ نیت ان کی یہی تھی کہ بعد میں اس میں مزید کلام شامل ہوتے رہیں گے۔ اس مقصد کے لیے گرو ارجن نے بھائی بنوں کو گرو گرنتھ صاحب کا وہ نسخہ دے کر لاہور بھیجا کہ وہ اسے جلد کروا کر محفوظ بنائیں۔

بھائی بنوں نے اس کتاب کو مکمل جانا اور گرو گرنتھ صاحب کے اس نسخے کو محفوظ کرنے کے ساتھ اس کی ایک نقل بھی بنوائی اور وہ نقل لے کر اپنے آبائی گاؤں مانگٹ آ گئے جب کہ اصل گرو گرنتھ صاحب کو دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں محفوظ کر دیا گیا۔ بھائی بنوں کے پاس جو گرو گرنتھ صاحب کا نسخہ تھا اسے ”کڑی بیڑھ” کہا گیا یعنی اس میں ابھی اضافہ ہونا تھا۔ یہ کڑی بیڑ بھی چوںکہ اہمیت کی حامل تھی، اس لیے اسے ایک گوردوارے میں محفوظ کیا گیا۔ پنجاب میں جب سکھوں کی حکومت وجود میں آئی تو مہاراجا رنجیت سنگھ جو کہ اس گوردوارے کی اہمیت سے آگاہ تھا، نے یہاں ایک بڑا اور قدرے مضبوط گوردوارہ بنوایا جو آج بھی موجود ہے۔

تقسیم کے بعد بھائی بنوں کے اس نسخے کو بھارت منتقل کر دیا گیا جو آج بھی کسی گوردوارے میں محفوظ ہے۔ اس گوردوارے میں سکھوں کے ساتھ ہندو مذہب کے بھی بہت سے واقعات کو درودیوار پر پینٹ کیا گیا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ان سبق آموز واقعات کے بارے آگاہی دینا ہے۔ کہیں بھگوان شیوا اور ان کی بیوی پاروتی کو پینٹ کیا گیا ہے تو کہیں بابا گرو نانک کو۔ کہیں گنیش آپ کو اس گوردوارے کی دیواروں پر کو نظر آتے ہیں تو کہیں ہنومان۔

مانگٹ گجرات سرگودھا روڈ پر منڈی بہاؤالدین سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ گوردوارے کا مرکزی ہال ایک بارہ دری کی طرز پر بنا ہوا ہے۔ گوجرانوالہ کے شیراں والا باغ میں بنی بارہ دری اور گوردوارہ مانگٹ دونوں چوںکہ ایک ہی دور میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے تعمیر کروائے تھے، اس لئے دونوں میں ایک دوسرے کی جھلک موجود ہے۔

کچھ ناسمجھ لوگوں نے ان پینٹنگز کو نقصان پہنچایا ہے جو یقینی طور پر ان افراد کا انفرادی اقدام ہی سمجھا جائے گا۔

ہماری ناسمجھی اور بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ کچھ عرصے قبل تک اس قدر اہم گوردوارے میں ایک اسکول کام کر رہا تھا جو بعد میں اس لیے یہاں سے منتقل کردیا گیا کہ عمارت کم زور ہوچکی ہے۔ میری نظر سے دیکھیں تو بات کچھ یہ ہے کہ گوردوارے کو کھوکھلا کرکے اس بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب یہاں ایک جانب مرغیوں کا ڈربا ہے۔

رات میں اندھیرا پھیلنے پر نشے کے عادی لوگ مل بیٹھ کر اپنا غم غلط کرتے ہیں جب کہ آس پاس کی آبادی اپنا سارا کچرا اس گوردوارے کے احاطے میں ڈال دیتی ہے۔ مانگٹ گوردوارہ جہاں اب راتوں کو کتے بھی نہیں بولتے۔ جہاں ویرانوں اور بدمعاشی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ گوردوارے کے ایک طرف مرغیوں کا ڈربا بنا ہے جب کہ بارہ دری کی طرز پر بنے مرکزی ہال میں پڑی چارپائی اور لوہے کے کرسی میز گوردوارے کے حُسن کو مزید گرہن لگا رہے ہیں۔ گوردوارہ کے فنِ خطاطی کو پہلے ہی کوئی نامراد تباہ کر چکا ہے۔

مانگٹ قصبے میں پرانی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔ مانگٹ کی مسجد تقریباً سات سو سال پرانی ہے۔ منفرد بات یہ ہے کہ جس طرح سات سو سال پہلے یہ مسجد بنی تھی، آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ مسجد مٹی گارے سے بنائی گئی تھی، آج بھی اسی مٹی کی ساتھ کھڑی ہے۔ مسجد اس وقت کی آبادی کے تناسب سے بہت ہو گی۔ مسجد میں چار سے پانچ صفیں بچھی ہوئی ہیں۔ اب یہاں باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں ہوتی۔

مختلف علاقوں سے لوگ اس مسجد کی جانب سفر کرتے ہیں۔ دو رکعت نفل نماز ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ مسجد اب سڑک سے بہت نیچے ہے۔ سڑک اور مسجد کی چھت، دونوں اب ایک ہی لیول پر ہیں۔ اس مسجد کے آگے کی جگہ پر اب بڑی مسجد بنا دی گئی ہے مگر پرانی مسجد کو نہیں چھیڑا گیا۔ یوں سمجھ لیں کہ پرانی مسجد، نئی مسجد کا اب ایک الگ سے حصہ ہے۔ آپ نئی مسجد میں داخل ہوتے ہیں، تو مسجد کے اندر ہی سے سیڑھیاں نیچے اتر کر پرانی مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ماضی میں اس مسجد کو گرانے کی ناپاک سازش بھی کی گئی، ایک بار آگ بھی لگائی گئی مگر مسجد معجزاتی طور پر ہر قسم کے شر سے محفوظ رہی۔

گجرات سرگودھا روڈ پر ہی ایک انتہائی قدیم شہر پھالیہ آباد ہے۔ پھالیہ شہر میں جس قدر گھوڑے کے مجسمے ہیں، شاید ہی آپ کو پاکستان کے کسی شہر میں نظر آئیں۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر گھوڑے کا مجسمہ ہے۔ پھالیہ کے ہر دوسرے چوک پر گھوڑے کا مجسمہ ہے۔ یہ کسی عام گھوڑے کی شبیہہ نہیں بلکہ سکندرِ اعظم کے گھوڑے کی شبیہہ ہے۔

دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنھوں نے پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھا اور پھر اسی خواب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سکندرِ اعظم سے پہلے بھی نہ جانے کس کس نے یہ خواب دیکھا ہوگا مگر تاریخ میں سب سے پرانا نام سکندرِ اعظم کا ہی ملتا ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب لے کر یونان سے نکلا۔ ترکی، ایران، افغانستان اور نہ جانے کس کس سلطنت کو اپنے زیر کرتا ہوا پنجاب پہنچ گیا۔

راجا پورس جس کی حکومت چناب اور جہلم کے درمیان تھی، نے سکندر کا راستہ روکا۔ یہاں سے اس بات کی بھی نفی ہوتی ہے کہ پنجابیوں نے ہمیشہ بیرونِ مُلک سے آئے ہوئے لوگوں کو راستہ دیا ہے، کبھی مزاحمت یا جنگ نہیں کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ راجا پورس کے ہاتھی اگر اپنی کی فوج کو کچلنا نہ شروع کر دیتے تو سکندرِاعظم کی شکست یقینی تھی۔

یہ الگ بحث ہے کہ سکندر نے ایسی کیا ترکیب چلی کہ پورس کے جو ہاتھی سکندر کی فوج کو شکستِ فاش دے رہے تھے وہ اچانک پورس کی اپنی ہی فوج کو کچلنا شروع ہو گئے۔ سکندرِاعظم نے فتح کو راجا پورس جیسے شیر کے منہ سے چھینا۔ ضلع منڈی بہاؤالدین میں ہی وہ ٹبہ ”مونگ” ہے جہاں سکندر کی فوج پورس کی فوج سے ٹکرائی۔

فتح کے باوجود سکندر اس قدر زخمی ہو چکا تھا کہ اس کی موت یقینی تھی کہ سکندر کا وفا دار گھوڑا ”بیوسیفیلس” Bucephalus اسے لے کر سر پٹ بھاگا۔ گھوڑے کے نام کا یونانی و عربی تلفظ بوکفالیہ ہے۔ سکندر کو تو گھوڑے نے بچا لیا مگر سکندر گھوڑے کو نہ بچا سکا۔ سکندر کو اپنے گھوڑے سے اس قدر عشق تھا کہ اس نے تین دن تک بیوسیفیلس کا سوگ منایا اور جس جگہ گھوڑا مرا تھا وہیں ایک شہر بھی آباد کیا جسے آج ہم سب پھالیہ کے نام سے جانتے ہیں۔

پھالیہ بوکفالیہ کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پھالیہ شہر میں داخل ہوتے ہی جگہ جگہ آپ کو گھوڑے کا مجسمہ نظر آتا ہے۔ یہ مجسمے اصل میں سکندرِاعظم کے گھوڑے کی شبیہہ ہے۔ کتابوں میں ہے کہ راجا پورس کو شکت کے بعد جب سکندر کے سامنے پیش کیا گیا تو سکندر نے پورس سے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ راجا پورس نے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا کہ وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔ سکندر راجا پورس کے اس جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے راجا پورس کا تمام علاقہ اسے واپس کر دیا اور آگے جانے کے بجائے واپس یونان کی جانب مڑ گیا۔ دنیا پر حکومت کرنے کا خواب لیے سکندر فقط 32 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

اگر آپ منڈی بہاؤالدین کو جائیں تو شہر سے صرف 16 کلومیٹر اور پھالیہ شہر سے 11 کلومیٹر کے فاصلے پر جیسک میں موجود گوردوارہ کیر باوا ضرور جائیں۔ روایات ہیں کہ جب بابا گرونانک ضلع چکوال میں موجود کٹاس راج مندر گئے تو واپسی پر انھوں نے ایک مختلف راستہ استعمال کیا اور منڈی بہاؤالدین کے ایک گاؤں جیسک میں ایک مختصر قیام کیا۔ گوردوارہ کیر باوا اسی جگہ بنایا گیا ہے۔ گوردوارہ دو منزلہ ہے اور انتہائی شان دار فنِ تعمیر کا حامل ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر گوردواروں کی طرح گوردوارہ کیر باوا پر بھی اب قبضہ ہے اور کسی کو اس گوردوارہ کو اندر سے دیکھنے کی اجازت نہیں، کیوںکہ یہاں اب عزت ماب فیملیز آباد ہیں۔ مختصر یہ کہ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آپ گوردوارہ کیر باوا کو بس باہر سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔

گوردوارہ کے ساتھ ہی بابا نمانا کی قبر بھی ہے اور سمادھی بھی۔ بابا نمانا اور بابا گرونانک کے آخری احوال بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔ جس طرح بابا گرونانک کے انتقال پر لوگوں میں اختلاف پایا گیا کہ آیا کہ بابا گرونانک کو دفن کیا جائے یا جلایا جائے، اسی طرح بابا نمانا کے عقیدت مندوں میں بھی اختلاف پایا گیا کیوںکہ مسلمان، ہندو اور سکھ سب ہی بابا نمانا کی قدر کرتے تھے اور انھیں اپنے قریب جانتے تھے۔

روایات ہیں کہ جب بابا نمانا کی میت کے پاس ان کے عقیدت مند جھگڑا کر رہے تھے کہ آیا کہ انھیں دفن کیا جائے یا جلایا جائے تو بابا جی نمانا کی چارپائی ان کے جسم کے ساتھ ہی زمین میں دھنس گئی۔ جس جگہ بابا جی نمانا کی چارپائی پڑی تھی، مسلمانوں نے اس جگہ قبر بنا دی جو آج بھی ہے جب کہ اس کے ساتھ ہی ہندوؤں اور سکھوں نے مشترکہ طور پر بابا جی نمانا کی سمادھی بنا دی۔ اچھی بات یہ ہے کہ قبر اور سمادھی دونوں ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود قائم ہیں۔

مغلیہ دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر شیخ علی بیگ تھے۔ شیخ علی بیگ ایک بار شکار کے لیے منڈی بہاؤالدین اور اس کے نواح میں تھے۔ جب ”ہیلاں” سے گزرے تو اس علاقے کی ہریالی اور خوب صورتی اس قدر پسند آئی کہ یہیں پر خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ تزکِ بابری میں بھی ہیلاں کے خوب صورت میدانوں کا احوال موجود ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت ہیلاں بالکل غیرآباد علاقہ تھا اور آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ گورنر پنجاب شیخ علی بیگ کو یہ علاقہ اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لیے مقبرہ ہیلاں میں تیار کروایا اور وصیت کی کہ انھیں یہیں پر دفن کیا جائے۔ شیخ علی بیگ کے انتقال پر انھیں اُن کی وصیت کے مطابق ہیلاں میں ہی ان کے تیار کردہ مقبرے میں دفن کیا گیا جسے اب ”مقبرہِ ہیلاں” کہا جاتا ہے۔

مقبرے کے چاروں طرف بڑے بڑے دروازے ہیں جن کی وجہ سے شدید گرمی میں بھی یہاں درجۂ حرارت بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ مقبرے کی دیوار کے ساتھ ہی اوپر کی جانب سیڑھیاں جاتی ہیں۔ چھت سے ہیلاں قصبے کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

قبر کے دو اطراف قرآنی آیات کندہ ہیں جب کہ ایک جانب شیخ علی بیگ کا پورا نام بمعہ تاریخ وفات درج ہے۔ آپ سامنے کی جانب سے اگر آئیں تو مقبرے کے نیچے ایک سرنگ نظر آتی ہے۔ یہ سرنگ مقبرے کے نیچے بنے تہہ خانے میں جاتی ہے۔ سرنگ اب مٹی بھرنے سے تقریباً بند ہو چکی ہے۔ تہہ خانے میں ہی شیخ علی بیگ کی اصلی قبر ہے جب کہ اوپر صرف علامتی قبر ہے۔ مقبرے کی چاردیواری اور ستون بھی تھے جو کہ وقت گزرنے اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث رفتہ رفتہ مٹتے چلے گئے۔ اب فقط ایک جانب تھوڑی سی دیوار اور ایک ستون ہی باقی بچا ہے۔ دوردراز سے آنے والوں کے لیے ہیلاں مقبرے کے پاس ہی اسی چار دیواری میں ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی جو کہ اب مکمل طور پر گر چکی ہے۔

مقامی لوگوں سے یہ بھی سننے کو ملا کہ ہیلاں قصبے کا نام سکندرِاعظم کی ایک منظورِنظر محبوبہ ہیلن کے نام پر ہے جو بگڑتے بگڑتے ہیلن سے ہیلاں بن گیا۔

پیارے دوستو، اچھے دوستو! میری ایک چھوٹی سی بات یاد رکھیں۔ یہ صرف ایک ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ آپ بائیک پر لمبا سفر نہیں کر سکتے۔ بالکل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کہ بائیک پر ٹور کرنے کے لیے کوئی اعلیٰ قسم کی بائیک درکار ہے۔ مجھے دیکھیں۔۔۔ایک عدد عام سی 70 پر گھومتا پھرتا رہتا ہوں۔ یہ بھی غلط ہے کہ بائیک ٹور کا مطلب ہے کہ بائیک لے کر بندہ پہاڑوں پر چلا جائے۔ اپنا پنجاب بھرا پڑا ہے جہاں بائیک ٹور کیا جا سکتا ہے۔

آج کل موسم کچھ سخت ہے مگر یقین مانیں بائیک ٹور آپ کو پورے مزے بھی دیتا ہے اور گرمی بھی زیادہ نہیں لگنے دیتا۔

سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ گرمیوں میں ٹھیک ٹھاک بڑے۔ لہٰذا ان دنوں کو ضائع مت کریں۔ فجر کے بعد آپ گھر سے نکلیں اور نگری نگری گھوم کر رات کو اپنے بستر پر واپس آ کر سو جائیں۔ اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو آپ کو کمپنی کے لیے کوئی دوست ضرور مل جائے گا۔ اگر آپ بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہوئے تو پھر آپ تنہا سفر پر نکلیں گے کہ تنہائی میں ہی بندہ اپنے آپ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اگر آپ شدید ترین خوش قسمت ہوئے تو آپ کے ساتھ آپ کا اپنا من پسند شخص ہو گا جس کے ساتھ آپ بائیک ٹور کریں گے۔ میں کبھی کبھی بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہوتا ہوں اور کبھی کبھی شدید ترین خوش قسمت۔

The post زندگی کا ایک دن منڈی بہاؤالدین کے نام appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>