خلیج، مشرق وسطیٰ اور افریقا کی مکمل آزاد اور نیم خود مختار عرب ریاستوں کی مجموعی تعداد تیس کے قریب ہے ، لیکن ان میں سے 22 ممالک سعودی عرب، بحرین، مصر ، کویت، جزائر القمر، اردن، عراق، یمن، جیبوتی، لبنان، لیبیا، موریتانیہ،مراکش، اومان ، قطر، سومالیہ، سوڈان، فلسطین، شام، تیونس اور متحدہ عرب امارات لیگ کے رُکن ہیں۔
البتہ شام میں جاری موجودہ خانہ جنگی کے باعث عارضی طور پر اس کی رکنیت معطل ہے ۔ زبان، کلچر، مذہب، تہذیب وثقافت کی یکجائی کے باوجود وسائل اور معیار زندگی کے اعتبار سے ان ملکوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دولت و ثروت اور غربت وافلاس میں ان دو درجن عرب ممالک میں ایک گہری خلیج حائل ہے۔ عرب برادری میں پائے جانے والے اس منفرد تضاد میں ایک ملک کی دولت کا کوئی حساب نہیں اور دوسرے کے عوام زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔
1945ء میں جب عرب لیگ کی قاہرہ میں اساس رکھی گئی تو عرب اقوام میں غربت کا خاتمہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم، عرب ممالک کے مابین سیاسی اور جغرافیائی تنازعات کا پرامن حل اور لیگ کے فورم کے ذریعے کسی بھی تیسری طاقت کے ساتھ مذاکرات یا طاقت کا استعمال جیسے نکات بنیادی مقاصد قرار پائے تھے۔اب عرب لیگ کی عمر70 برس ہورہی ہے۔ ان ستر برسوں میں لیگ کے مقاصد اور اہداف میں ان بنیادی نکات کے ساتھ کئی دوسرے نکات بھی شامل ہوئے لیکن عملاً یہ اتحاد کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کرسکا ہے۔ عرب لیگ کے ہوتے ہوئے فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کا اعلان کیا گیا۔ اسی یونین کی موجودگی میں آٹھ سال تک عراق اور ایران ایک دوسرے کے شہریوں کا قتل عام کرتے رہے۔
عرب لیگ کے رکن ممالک کو اسرائیل نے تین جنگوں میں شکست دی۔ سنہ 2011ء میں عرب ریاستوں میں انقلاب کی تحریک اٹھی تو لیگ تماشا دیکھتی رہ گئی۔ لیبیا میں کرنل معمرقذافی نے عوام پر طاقت کا استعمال کیا تو نیٹو کو مداخلت کرنا پڑی۔ شام میں خونی تحریک چوتھے سال میں داخل ہوچکی اور اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن عرب لیگ کے رہنمائوں کی نشست وبرخاست کوئی رنگ نہیں دکھا سکی۔ یوں دفاعی اور تزویراتی اعتبار سے بھی یہ اتحاد بدترین ناکامی سے دوچار ہوا۔ اس لیے یہ تنظیم عربوں کی قوت میں اضافے کا موجب بننے کے بجائے مفاداتی گروپوں کے بلاکس میں بٹی اور بڑے عرب ملکوں کے بوجھ تلے دب کررہ گئی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق عرب لیگ کے بنیادی ایجنڈے میں عرب اقوام کا معیار زندگی بلند کرنے کا نکتہ شامل ہونے کے باوجود تنظیم کے ایجنڈے پرسیاسی معاملات ہمیشہ چھائے رہے ، اس لیے لیگ اپنے رُکن ممالک میں غربت و افلاس اور بھوک وننگ کی خلیج نہیں پاٹ سکی ہے۔ لیگ کے رُکن ممالک میں ایک طرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، اومان، قطر اور لیبیا جیسے قدرتی تیل، گیس اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ملک ہیں۔ وہاں پر صومالیہ، سوڈان،یمن، عراق اور موریتانیہ جیسے ممالک میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔
سعود ی عرب فی کس سالانہ آمدن 25ہزار ڈالر، کل جی ڈی پی 09 کھرب ، 27 ارب ، 76 کروڑ ڈالر۔ بحرین 28 ہزار 691 ڈالر، کویت ایک لاکھ19 ہزار ایک سو ایک ڈالر، مراکش3260 ڈالر، متحدہ عرب امارات ایک لاکھ چھبیس ہزار سات سو ڈالر، سلطنت اومان24 ہزار 700 ڈالر، قطر ایک لاکھ 53 ہزار اور لیبیا18ہزار 130 ڈالر فی کس آمدنی کے اعتبار سے سر فہرست ممالک ہیں۔ ان میں کویت، سعودی عرب، قطر، اور دیگر خلیجی ریاستیں بے پناہ قدرتی وسائل کی مالک ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی امارت اور دولت و ثروت کا اندازہ لگانے کے لیے’’گلف نیوز‘‘ کی ایک رپورٹ کے اعدادو شمار ملاحظہ کیجئے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر صرف کویت، قطر اور سعودی عرب اپنی مجموعی دولت کا 10 فی صد خیرات کردیں تو افریقا کے صومالیہ جیسے چھ غریب ملکوں کی آٹھ کروڑ آبادی کو تیس سال تک خوراک فراہم کی جا سکتی ہے۔
امریکی بزنس جریدے’’فوربز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق فی خاندان دولت کے اعتبار سے سعودی عرب خلیجی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ ’’سوئس کریڈٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کی فی کنبہ دولت 241 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ جبکہ سعودی عرب کا اس میں حصہ چھ کھرب ڈالر ہے۔ جو کسی بھی دوسرے عرب ملک کی فی خاندان دولت کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس خطیر رقم کا عشر عشیربھی غریب ملکوں کے عوام کو دے دیا جائے تو ان کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔ فی کس دولت کے اعتبار سے قطر عرب ممالک میں پہلے نمبر پرہے ۔2013ء کے دوران قطر میں فی کس آمد ن سالانہ ایک لاکھ 53 ہزار 294 ڈالر بتائی گئی۔ فی کس دو لت کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات ایک لاکھ26 ہزار 791 ڈالر کے ساتھ دوسرے اور کویت ایک لاکھ 19 ہزار 101 ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
یمن دوسرا افغانستان
خلیجی ممالک کی ان گنت دولت کے بیچ یمن کے ایک طرف سعودی عرب او ر دوسری جانب کویت واقع ہیں۔ دوسرے خلیجی ممالک سے بھی یمن کا فاصلہ زیادہ نہیں، لیکن آج تک یمن کو خلیج کارپوریشن کونسل(جی سی سی) میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ جی سی سی کے ایک سرکردہ لیڈر کا یہ بیان توجہ کے لائق ہے کہ ’’یمن سے بہتر ہے ہم افغانستان کو کارپوریشن میں شامل کرلیں‘‘۔ یمن کے حالات افغانستان سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ یمنی فوج پچھلے کئی سال سے القاعدہ اور علیحدگی پسند حوثیوں سے نبرد آزما ہے ۔ امریکا بھی ڈرون کے ذریعے القاعدہ ارکان کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن آج بھی سعودی عرب اور یمن کے درمیان سنگلاخ پہاڑوں اور لق و دق صحراء کو القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں خیال کیا جاتا ہے۔ یوں یمن کی کمزوری کی بڑی وجہ سال ہا سال سے جاری خانہ جنگی ہے۔ یمن کی دوسری کمزوری جس کے باعث اسے دوسرا افغانستان قرار دیا جاتا ہے وہ ’’قات‘‘ نامی ایک نشہ آور بوٹی ہے۔
جس طرح افغانستان میں پوست کی کاشت باقاعدہ ایک پیشہ کی حیثیت رکھتی ہے، اسی طرح یمن کی ’’قات‘‘ نامی یہ بوٹی بھی پوست کی دوسری شکل ہے۔ قات نہ صرف مقامی لوگوں میں عام استعمال کی جاتی ہے بلکہ غریب دیہاتیوں کا ذریعہ روزگار ہے۔ مقامی سطح پر اس کی زیادہ قیمت نہیں البتہ اسے منشیات کی دوسری اقسام میں ڈھال کر خطیر رقوم کے بدلے میں اسمگل کیا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’قات‘‘ کا بے دریغ استعمال خود سعودی باشندے بھی کرتے ہیں اور یہ بوٹی انہیں صرف یمن سے ملتی ہے۔ یمن کے صحراء میں تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ سعودی عرب اور کویت کی طرح انہیں اپنے استعمال میں لاسکے۔ایک رپورٹ کے مطابق یمن کی 40 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یمن کی یہ غربت خلیجی ممالک کی دولت و ثروت کا منہ چڑا رہی ہے مگرمجال ہے کہ انہیں اپنے پڑوسی کا کچھ بھی خیال ہو۔
دولت علم سے دوری اور شہ خرچیوں کا موجب
مثل مشہور ہے کہ ’’علم بھوک سے حاصل ہوتا ہے لوگ اسے سیری میں تلاش کرتے ہیں بھلا کیسے پائیں گے‘‘۔بے پناہ دولت کے مالک عربوں نے اس ضرب المثل کو سچ کردکھایا۔ ان کی دولت سیر سپاٹوں اور عیاشیوں پرصرف ہورہی ہے۔یہ کوئی جذباتی تخیل نہیں بلکہ اقوام متحدہ جیسے مستند ادارے کے اعدادو شمار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس و ثقافت’’یونیسکو‘‘ کی حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہ کثرت دولت کے باوجود عرب ملکوں کے 43 فی صد بچے نا خواندہ ہیں۔’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کے زیرعنوان اقوام متحدہ نے پوری دنیا میں شرح خواندگی کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب بچے بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں ان میں پانچ کروڑ بچے عرب ممالک کے بھی شامل ہیں ۔
ان میں یمن کا نام پھر سرفہرست ہے کیونکہ یمن میں صرف 36 فی صد بچوں کو بنیادی تعلیم کی سہولیات میسر ہیں اور باقی نور علم سے یکسر محروم۔ یمن میں جس رفتار سے تعلیمی سہولیات کا نیٹ ورک پھیل رہا ہے اگر اس میں اضافہ نہ ہوا تو سو فی صد شرح خواندگی میں 58 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ناخواندگی اور بچوں کی بنیادی تعلیمی سہولیات کے فقدان کے اعتبار سے نائیجیریا دوسرے نمبر پر ہے لیکن مقامِ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں شرح خواندگی کے اعتبار سے پاکستان کی حالت نائجیریا سے بھی بدتر ہے کیونکہ بچوں میں شرح خواندگی اور بنیادی تعلیمی سہولیات کے فقدان کی فہرست میں پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک قرار پایا ہے۔
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طورپر عرب ممالک 129 ارب ڈالر کی رقم تعلیم پرصرف کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ صفر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکومتوں کے اللے تللے ہیں۔ تعلیم کے لیے بجٹ منظور کر لیا جاتا ہے مگر اسے صرف کرتے ہوئے نہایت بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ اربا ب اختیا ر بچوں کی تعلیم کا بجٹ اپنے عالمی دوروں اورعیش و عشرت پر صرف کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ناخواندگی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جس رفتار سے عرب ممالک میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے اگر رفتار وہی رہی تو اسے سو فی صد تک لانے میں 70 سال کا عرصہ درکار ہوگا ۔
یہ ان عرب ملکوں کی حالت ہے جو دولت و ثرولت کے ڈھیر پر پلتے ہیں جنہیں خود بھی اپنی دولت کا اندازہ نہیں۔ رہے افریقا کے غریب عرب ممالک تو ان کے پاس تعلیم کے لیے بجٹ بچتا ہی نہیں ہے۔ صومالیہ جیسے شورش زدہ ملکوں میں جتنی کچھ تعلیمی سرگرمیاں ہو رہی ہیں وہ غیرملکی این جی اوز کے تحت ہیں۔ سرکاری سکولوں کا معیا ر اس قدر پست ہے کہ تیس تیس مربع کلو میٹر کے علاقوں میں صرف ایک مڈل اسکول بھی دستیاب نہیں ہے۔
تعلیم کا یہ معیار اور دوسری طرف عربوں کی شہ خرچیاں دیکھ کریہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان کے ہاں بچوں کی بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خلیجی ممالک کے 70 فی صد لوگ بیرون ملک سیرو سیاحت پر جاتے ہیں اور سالانہ تین کھر ب ڈالر کی رقم عیاشیوں پر اڑاتے ہیں۔ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین کویت او ر اومان سر فہرست ہیں۔
بات صرف شہ خرچیوں تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی ایک خوفناک شکل خوراک کا ضیاع ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کے عبرانی میگزین’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ میں ہوش ربا اعدادو شمار بیان کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خلیج کے امیر ممالک سالانہ چار ملین ٹن خوراک ضائع کرتے ہیں جبکہ خود اسرائیل میں سالانہ نصف خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ گو کہ رپورٹ میں پوری دنیا میں خوراک کے ضیاع کے خوفناک اعدادو شمار بیان کیے گئے ہیں مگر عرب ممالک کے بارے میں بیان کردہ حقائق ناقابل یقین ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات، مصراور لیبیا میں ضائع کی جانے والی سالانہ خوراک اگر مستحق لوگوں تک پہنچائی جائے توتین کروڑ لوگوں کی ایک سال کی خوراک کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ ایک طرف خوراک کے ضیاع کا یہ عالم ہے او ر دوسری جانب انہی عرب ملکوں کے بیچ ایسے خطے بھی موجود ہیں جہاں لوگ مردار کھا کر پیٹ بھرتے ہیں۔ اس باب میں تازہ ترین خطہ شام کا ہے جہاں لاکھوں لوگ پچھلے ایک سال سے خوراک سے محروم ہیں اور قحط کے نتیجے میں مرر ہے ہیں۔ شام میں خوراک کی قلت کی بنیادی وجہ وہاں پر جاری شورش ہے لیکن شام سے باہر یمن، عراق، سوڈان اور صومالیہ میں سالانہ 10 لاکھ بچے ، بوڑھے اور عورتیں علاج کے فقدان اور خوراک نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہا ر جاتے ہیں اور عرب ملکوں کے کھرب پتیوں کی دولت جیت جاتی ہے۔