وفاقی وزیرترقی ومنصوبہ بندی احسن اقبال نے زرمبادلہ بچانے اور معیشت کی بحالی کے لیے مشورہ دیا ہے کہ لوگ چائے کی ایک ایک دو دو پیالیاں کم کردیں۔
شکر ہے احسان اقبال منصوبہ بندی کے وزیر ہیں خاندانی منصوبہ بندی کے نہیں، ورنہ قوم کو بڑے احسن طریقے سے ہدایت کرتے ’’پاس جانا نہیں بس دور سے دیکھا کرنا، شیوۂ عشق نہیں مْنّے کا پیدا کرنا۔‘‘ ان کا مشورہ سُن کر ہمیں مشہورزمانہ دیوداس کا درد بھرا مکالمہ یاد آگیا،’’بابو جی نے کہا گاؤں چھوڑ دو، سب نے کہا پارو کو چھوڑ دو، پارو نے کہا شراب چھوڑ دو، ایک دن آئے گا جب وہ کہیں گے دنیا ہی چھوڑ دو۔‘‘
آخرکار فلم کے آخر میں دیوداس نے دنیا چھوڑ دی تھی۔ ہم سے مشورہ کرتے تو ہم کہتے بھیّے دیوداس! بابوجی کے حکم پر گاؤں چھوڑتے پھر کسی بلڈر کو پکڑ کر گاؤں کے ساتھ والی زمین ہتھیاتے، وہاں عالی شان ’’ٹاؤن‘‘ بساتے، اور جب چاہتے گاؤں آتے بابوجی دیکھتے رہ جاتے، پارو کو یوں چھوڑتے جیسے بہت سے منتخب ارکان پارلیمنٹ چھوڑتے ہیں، یعنی جاتے نہیں لیکن تنخواہ پوری پاتے ہیں، جہاں تک پارو کی فرمائش کا تعلق ہے تو کہہ دیتے یہ تو شہد ہے۔
ہم نے شراب کو شہد بنا کر اچھے اچھوں کو پولیس سے چھوٹتے دیکھا ہے تو پارو بے چاری کیا چیز ہے۔ اگر دیوداس یوں کرلیتے تو انھیں بھری جوانی میں دنیا اور فلم بینوں کو روتے ہوئے سنیما کی نشستیں نہ چھوڑنی پڑتیں۔
احسن اقبال قوم کے بابوجی تو ہیں نہیں کہ گاؤں چھوڑنے کا مشورہ دیتے، اگر پارو یا ’’کوئی ایک پارو‘‘ چھوڑنے کا کہتے تو جانے کس کس کا پارہ چڑھ جاتا اور انھیں وزارت چھوڑنی پڑتی، ’’کچھ اور‘‘ چھوڑنے کی بات کرتے تو جانے کتنے احباب التجا کرتے سرکار! پہلے جو پکڑی گئی ہے وہ تو چھڑوادیں۔ لے دے کے غریبوں کا معصوم سے مشروب چائے نظر آئی سو اسے چھڑوانے پر تُل گئے۔
بتاؤ بھلا، یہ کیا بات ہوئی معاشی بحران کا طوفان ورلڈ کپ سے اٹھا اور چھڑوا رہے ہیں آپ چائے کا کپ۔
پتا نہیں احسن اقبال صاحب شاید رواروی میں یہ بیان دے گئے یا انھیں واقعی چائے کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ نہیں ہے۔ چائے کی افادیت سے کوئی بے وقوف ہی انکار کرسکتا ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ چائے بنانے والی کمپنیوں، چائے خانوں، چائے کے اشتہار سازوں، یہ اشتہار نشر کرنے اور شایع کرنے والوں اور چائے کے لیے دودھ فراہم کرنے والوں کو اس مشروب سے فائدے ہی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
چائے کے بے شمار سماجی فوائد بھی ہیں۔ کسی آنے والے کو جلدازجلد چلتا کرنے کے لیے جھٹ سے چائے پیش کردی جاتی ہے، مہمان چِپکو ہو تو ایک پیالی پلانے کے بعد ’’اور چائے پییں گے؟ اور ’’ارے آپ کی چائے ٹھنڈی ہورہی ہے‘‘ کہہ کر دراصل بڑے مہذب انداز میں پیغام دیا جاتا ہے ’’بس اب جان چھوڑ دو۔‘‘
چائے کے ذریعے آپ دوسروں کی بابت بہت کچھ جان سکتے ہیں، جیسے ’’شکر مت ڈالیے گا‘‘ کا مطلب ہے مہمان ذیابیطس کا مریض ہے، اب ڈھیر ساری مٹھائی لاکر سامنے رکھ دیجیے، اس مہنگائی میںآپ کی مہمان نوازی کا بھرم بھی رہ جائے گا اور اگلے مہمانوں کے لیے مٹھائی جوں کی توں بچ بھی جائے گی۔ چائے طشتری میں ڈال کر پینے کا مطلب ہے کہ مہمان جلدی میں ہے، یہ جاننے کے دو فائدے ہیں، ایک تو اسے کھانے پر روکنے کی کوشش کیجیے۔
یہ کوشش ناکام ہوگی لیکن آپ کو اچھا میزبان ثابت کردے گی، دوسرے آپ سمجھ جائیں گے کہ مطلب کی بات فوری کرلی جائے۔ چائے سُڑپ سُڑپ کرکے پی جارہی ہے تو سامنے آجائے گا کہ چائے نوش کا سماجی اور تعلیمی پس منظر کیا ہے۔ یوں خاص طور پر شادی کے رشتے کے معاملے میں چائے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
کسی کے گھر پہلی بار جانے پر ریلوے اسٹیشنوں والی چائے ملے تو طے ہوجائے گا کہ ان کے ہاں کم کم ہی جانا ہے۔ چاہے آپ نے چائے زہر مار کی ہو لیکن ’’واہ کیا مزے دار چائے ہے‘‘ کا جھوٹ بول کر آپ اسے بنانے والی کا دل موہ لیتے ہیں۔ لیکن خیال رہے دل زیادہ مت موہ لیجیے گا ورنہ یہ چائے ہر ناشتے میں آپ کا مقدر نہ بن جائے۔
’’میں چائے نہیں پیتا‘‘ کا اعتراف آپ کو بتا دے گا کہ موصوف کو شعروادب، آرٹ کا چسکا نہیں، چیک، رسید اور واٹس ایپ میسیج کے سوا کچھ لکھنے اور
ٹی وی کے ٹکر اور بیوی کے ’’کب آئیں گے‘‘ جیسے ایس ایم ایس کے سوا کچھ پڑھنے سے دل چسپی نہیں۔
چائے کے مزید فائدے اس مشروب کے اشتہارات بتاتے ہی رہتے ہیں، جیسے یہ جاتے شوہر کو روکنے اور روٹھی بیوی کو منانے کے کام آتی ہے، خاندان والے ایک دوسرے سے لاکھ بے گاناپن برتیں، کمینہ پن سمیت کسی بھی دوسرے ’’پن‘‘ کا مظاہرہ کریں لیکن اگر ساتھ بیٹھے دانت نکالے چائے پی رہے ہوں تو ماننا پڑے گا کہ ’’یہی تو ہے وہ اپناپن۔‘‘ ان اشتہاروں سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ میاں بیوی کے رشتے میں بس ’’تم، میں اور ایک کپ چائے‘‘ کافی ہے۔
باقی سب بھاڑ میں جائے، شاپنگ، امی کے گھر چلیں اور دیر سے کیوں آئے سب اضافی ہے۔ کسی اشتہار میں ہم چائے پی کر ہی ٹھیک سُر لگانے کا کرشمہ دیکھتے ہیں، تو کسی سے انکشاف ہوتا ہے کہ چائے ہی گھر بناتی ہے باقی سب کہانیاں ہیں۔ چائے کی یہ کرامت بھی منکشف ہوتی ہے کہ بہو کو بس اچھی چائے بنانی آتی ہو، اس کے بعد وہ شوہر اور سسرال والوں کو جو اور جتنا چاہے بناسکتی ہے۔
چائے کے ایک اشتہار سے یہ بھی کھلتا ہے کہ بس چائے ہی ہماری تہذیب کی محافظ ہے اور مہمانوں کو کالی کولڈ ڈرنک کی جگہ چاہے دودھ کی کمی کی وجہ سے ’’کَل موہی‘‘ اور بدمزہ چائے بھی پیش کی جائے تو ہماری تہذیب بچ جائے گی ورنہ آپ اپنے خنجر سے نہیں تو کولڈ ڈرنک میں ڈوب کر خودکشی کرلے گی۔ یوں ہم اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتے ہیں انگریزوں کے برصغیر میں چائے لانے سے پہلے ہم تہذیب سے ناآشنا تھے۔
چائے کے یہ کمالات صرف اس کے اشتہارات تک محدود نہیں۔ ایک اور پروڈکٹ کے اشتہار سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ کس طرح کوئی لڑکی آنے والے ’’رشتے‘‘ پر چائے گرانے کے بعد آناًفاناً اس کی قمیص دھو کر رشتہ پکا کراسکتی ہے۔
احسن اقبال صاحب نے احسان کیا کہ صرف چائے کم کرنے کی ہدایت کی، ورنہ ان سے پہلے کے حکم راں تو اس سے بھی آگے کی نصیحتیں کرچکے ہیں۔ کڑک چائے کے جیسے کڑک اور گرم جنرل پرویز مشرف تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔
انھوں نے اپنے دورحکومت میں ٹماٹر کی قیمت بڑھنے پر ارشاد کیا تھا کہ لوگ ٹماٹر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تو اسے کھانا چھوڑ دیں۔ ظاہر ہے یہ بات وہی کہہ سکتے تھے کیوں کہ ان کے لیے تو ملک چھوڑنا، این آراو دے کر ہر قسم کے مقدمات میں پھنسے افراد کو چھوڑنا اور سی آئی اے اور پینٹاگان کو پاکستانیوں پر چھوڑنا بھی کوئی بڑی بات نہیں، ٹماٹر جیسی ننھی سی شے کی کیا حیثیت۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر علی امین گنڈا پور نے پاکستان کے کے عوام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک کی خود مختاری کی خاطر چینی اور اٹا کم کھائیں۔ انھوں نے فرمایا تھا ’’اپنی نسل کے لیے، ہم اتنی قربانی نہیں دے سکتے۔ اگر 9 فی صد مہنگائی ہے۔
میں آٹے کے 100 نوالے کھاتا ہوں، اگر 9 نوالے کم کھالوں، تو کیا اپنی قوم کے لیے 9 نوالوں کی قربانی نہیں دے سکتا۔‘‘ ہمیں یقین ہے گنڈاپور صاحب خود گن کر نو نوالے کم کھاتے ہوں گے، قوم کو بھی ملک کی خودمختاری کی خاطر ان کا ہم نوالہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن ساتھ ہم پیالہ بھی ہونا پڑتا، اس طرح ایک تو اخراجات بڑھ جاتے، دوسرے بچی کھچی خودمختاری بھی ڈگمگانے لگتی، تیسرے عوام کے لیے یہ یاد رکھنا مشکل ہوجاتا کہ اکانواں نوالہ کون سا ہے اور ممکن ہے بات ایک سو نو نوالوں تک جاپہنچتی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے قوم کو ایسی کوئی نصیحت نہیں کی، کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ جب میں قوم سے کہہ چکا ہوں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، تو قوم نہ گھبرائے گی نہ فکر کرے گی کہ گھر میں کھانا ہے یا نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل عمران خان صاحب کو کسی خاتون خانہ کی طرح ہر چیز کا بھاؤ پتا ہے لیکن انھوں نے بہ طور وزیراعظم اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ وہ 25 سال پہلے سیاست میں اس لیے نہیں آئے تھے کہ آلو، ٹماٹر کی قیمت پتا کریں، بلکہ وہ پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے آئے تھے۔
آپ ہی سوچیں اتنا بڑا لیڈر جو پوری کی پوری قوم بنا رہا ہو آلوٹماٹر کی قیمت پتا کرکے اپنی قدروقیمت نہیں کھو بیٹھے گا؟ چناں چہ وہ آلو ٹماٹر کے نرخ پتا کرنے کے بجائے پِتّا پانی کرکے کارخانوں میں قوم بنانے پر جُتے رہے، ان کارخانوں کو لنگر خانے کہا جاتا ہے۔
ابھی لکھتے لکھتے چائے کے تیسرے کپ کی پہلی چسکی لیتے ہی ہمارے دماغ کی بتی جل اٹھی اور دو خیال بجلی کی طرح کوندے، پہلا یہ کہ ہم نے احسن اقبال صاحب کی نصیحت پر ذرا کان نہیں دھرا، دوسرا یہ کہ بات چائے گھٹانے سے شروع ہوئی تھی اور خان صاحب کے لنگر خانے تک جا پہنچی۔ بھئی احسن اقبال صاحب! ہم کیا کریں، ہم غریبوں کا خون پیتے ہیں نہ ہمیں لمبی لمبی تقریروں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے لوگوں کا لہو پینے کی سہولت میسر ہے، بس چائے پیتے ہیں اور چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
اور جہاں تک تعلق ہے چائے سے نکلنے والی بات دور تک جانے کا تو اسی خدشے کے پیش نظر چائے خانوں پر ’’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘ کی ہدایت جلی الفاظ میں لکھی ہوتی ہے، یعنی جہاں چائے ہوگی وہاں سیاست پر بات چلنے کا خطرہ بھی ہوگا، اور چائے کی پیالی میں طوفان اٹھنے کا اندیشہ بھی۔ شاید اسی لیے ہم جیسے چائے کے مستوں کی چائے کم کرنے کو کہا جارہا ہے۔
The post پارو کو چھوڑ دیں گے، چائے نہ چُھڑواؤ appeared first on ایکسپریس اردو.