وہ دو جنوری کی تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا۔ اس دن جاپان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بچی کی پیدائش ہوئی جس کا نام کین رکھا گیا۔
یہ 1903ء کی بات ہے۔ ’ کین تاناکا ‘ کی وفات 119 سال بعد یعنی اپریل 2022 میں ہوئی اور انھیں باضابطہ طور پر دنیا کی ’معمر ترین شخصیت‘ قرار دیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری سال ایک نرسنگ ہوم میں گزارے۔ زندگی کے آخری ایام میں اْن کے معمولات کچھ اس طرح تھے کہ وہ صبح چھ بجے اٹھتیں، ریاضی کے سوالات حل کرتیں، بورڈ گیمز کھیلتیں، چاکلیٹ کھاتیں اور کافی اور سوڈا شوق سے پیتی تھیں۔
ایک زمانہ تھا کہ خاندان کے بڑے، بزرگ اپنے چھوٹوں کو سو سال تک زندہ رہنے کی دعائیں دیتے تھے لیکن ایسی سوچ کا درست ہونا ناممکن سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ تو آخر دراز عمری کی وجہ کیا ہے اور سو سال جینے کا نسخہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے چار ماہرین سے بات کی گئی۔
دوسری زندگی
جاپان کی سائنس کونسل کی نائب صدر رہنے والی ڈاکٹر ہیروکو اکیاما کہتی ہیں کہ ’ اب سو سال تک زندہ رہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔‘ ڈاکٹر ہیروکو اکیاما کی مہارت ’سٹڈی آف ایجنگ‘ میں ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جاپان کی آبادی تیزی سے بوڑھی ہو رہی ہے۔ جاپان میں خواتین کی اوسط عمر اب 88 اور مردوں کی اوسط عمر 82 سال ہے۔ یاد رہے کہ جاپان کی 29 فیصد آبادی کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اوسط عمر کے لحاظ سے صرف ہانگ کانگ، سنگاپور، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور سپین ہی جاپان کے قریب تر ہیں۔ جاپان کی وزارت صحت کے مطابق گذشتہ سال ملک کے 86 ہزار 510 شہری سو سال یا اس سے زیادہ عمر کے تھے۔
ڈاکٹر ہیروکو کہتی ہیں کہ ’جاپان میں لوگوں کی لمبی عمر کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک یونیورسل ہیلتھ انشورنس سسٹم ہے۔ ہم نے اسے 1960ء کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ یہاں لوگوں کو صحت کی سہولیات تک آسانی کے ساتھ رسائی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ صحت کے بارے میں شعور رکھتے ہیں اور ان کا طرز زندگی صحت مند ہے۔‘
جاپانی لوگ بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ کینسر اور دل کے امراض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیروکو بتاتی ہیں کہ جاپان کے لوگ کھانے پر توجہ دیتے ہیں۔ کم چکنائی کا استعمال کرتے ہیں۔ مچھلی، سبزیاں اور سبز چائے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جاپان میں لوگوں کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے لیکن ان کی مجموعی آبادی کم ہو رہی ہے۔ درحقیقت شرح پیدائش کچھ عرصے سے کم ہو رہی ہے اور ملازمت کرنے کے قابل عمر کے لوگوں کی تعداد بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔
معمر افراد کی تعداد میں اضافے کے ساتھ یہ سمجھ بھی پیدا ہوئی کہ بوڑھے لوگوں کی ضروریات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ہیروکو کا کہنا ہے کہ حکومت کی بنیادی توجہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام اور پنشن کے نظام پر رہی ہے۔ ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹ کے نظام کا بھی خیال رکھا گیا ہے لیکن معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ہیروکو نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایسے طریقے تلاش کرنے کے لیے بہت سے سماجی تجربات کیے جن سے معمر افراد کسی پر انحصار کیے بغیر زندگی گزار سکیں۔
ڈاکٹر ہیروکو کہتی ہیں: ’ہم ایک عمر رسیدہ معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کمیونٹیز کی تشکیلِ نو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا سماج بنانا چاہتے ہیں جہاں لوگ صحت مند، فعال، اور 100 سال کی عمر تک ایک دوسرے سے جڑے رہیں اور محفوظ محسوس کریں۔ ہم نہ صرف معمر افراد کے لیے بلکہ ہر عمر کے لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
جاپان میں ریٹائر ہونے کے بعد لوگ نئی ملازمتیں شروع کر رہے ہیں۔ وہ اپنا دوسرا کیریئر شروع کر رہے ہیں یا دوسرے الفاظ میں کہیں تو وہ اپنی دوسری زندگی شروع کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے روٹین برقرار رہتی ہے اور صحت مند رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر ہیروکو اکیاما کی عمر 78 سال ہے اور وہ اپنے دوسرے کریئر سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’ میں ایک طویل عرصے تک یونیورسٹی میں پروفیسر رہی۔ جب میں 70 سال کی ہوئی تو میں نے کھیتی باڑی شروع کی۔ مجھ سمیت چار افراد، جن میں مختلف قسم کی مہارتیں ہیں، ہم نے مل کر ایک کمپنی بنائی اور کاشتکاری شروع کی۔ جب میں چھوٹی تھی تو کاشتکاری کرنا چاہتی تھی۔ یہ ایک پرانا خواب تھا۔‘
اس سوال پر کہ کیا وہ سو سال کی عمر تک زندہ رہنا چاہتی ہیں؟ ڈاکٹر ہیروکو اکیاما بتاتی ہیں کہ جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی تو وہ 98 برس کی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سو سال کی زندگی کافی ہے۔ اور انھیں سو سال سے زیادہ جینے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
بڑھاپا کیا ہے؟
برطانیہ کے ایسٹن ریسرچ سینٹر فار ہیلتھی ایجنگ کی سینیئر لیکچرر کیتھی سلیک کہتی ہیں: ’عمر بڑھنا ایک انتہائی ذاتی عمل ہے۔ کسی بھی دو لوگوں کی عمر بڑھنے کا عمل ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔‘ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں اور کیا اس حیاتیاتی عمل کو سست کیا جا سکتا ہے، کیتھی کی لیب اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہے۔
بڑھاپے کی ظاہری علامات سب کو معلوم ہیں۔ جیسے جھریاں اور بالوں کا سفید ہونا، لیکن ہمارے جسم کے اندر بھی بہت کچھ بدل رہا ہوتا ہے۔ کیتھی بتاتی ہیں کہ عمر بڑھنے کا اثر جسم کے تمام ٹشوز پر نظر آتا ہے۔ اس کا اثر دماغ سے لے کر زرخیزی تک پر ہوتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو بڑھاپے کی علامت کہا جاتا ہے۔ اس میں بہت سے عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔ سیل کے اندر پروٹین کوالٹی کنٹرول کا نقصان۔ مائٹوکونڈریا کا غیر فعال ہونا۔ مائٹوکونڈریا سیل کا وہ حصہ ہے جو توانائی پیدا کرتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ یہ کام کرنا بند کر سکتا ہے۔‘
کیتھی کا کہنا ہے کہ جب بڑھاپے کا آغاز ہوتا ہے تو پھر ذیابیطس جیسی مستقل بیماری کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خلیوں کے کام کرنے کے لیے غذائی اجزا کی فراہمی کو منظم کرنا ضروری ہے۔ جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو سٹیم سیل یعنی بنیادی خلیے تباہ ہو جاتے ہیں۔ سٹیم سیل دوسرے خلیوں کی مرمت کرتے ہیں۔ تبدیلیاں ذہن میں بھی آتی ہیں۔
’کچھ لوگوں کے دماغ کا سائز عمر کے ساتھ ساتھ چھوٹا ہونے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے بزرگوں کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے۔ انھیں بیک وقت کئی کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان کے رویے میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ یا تو وہ زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں یا ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ سب چیزیں ہر بوڑھے میں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔‘
ہم اپنی سو سال تک جینے کی توقعات کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ کیتھی کہتی ہیں: ’آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اور ان کی صحت بھی اچھی نہیں لگتی، یہ وہ پہلو ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک قدیم نسخہ لگ سکتا ہے لیکن ہمیں صحت مند طرز زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں متحرک رہنے کوشش کرنی چاہیے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ اچھی طرح کھائیں، نہ بہت زیادہ اور نہ ہی بہت کم۔ آپ کتنی شراب پیئں گے اس کی مقدار طے کریں۔ تمباکو نوشی چھوڑ دیں۔‘
بڑھاپے کے بارے میں اب بھی بہت سی چیزیں ہیں جو ہم نہیں جانتے۔ کیتھی سلیک کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر ہم نے بیماری کے عمل پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ ایسے بہت سے سائنسدان ہیں جو کینسر اور دیگر بیماریوں پر کام کر رہے ہیں، لیکن اب ان جیسے لوگوں کا ایک گروپ ہے جو بیماریوں کو عمر سے منسلک بیماریوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح بہت سی بیماریوں کے علاج کے نئے طریقے تیار کیے جا سکتے ہیں۔
دلچسپ تجربہ
نیو یارک سٹی میں قائم البرٹ آئن سٹائن کالج کے انسٹیٹیوٹ فار ایجنگ ریسرچ کے ڈائریکٹر نیر بارزیلائی بتاتے ہیں کہ ’میری لیب میں، ہم یہ دکھاتے ہیں کہ کوششوں کے ذریعے عمر بڑھنے کے عمل کو سست کیا جا سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں اسے روکا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں، اسے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کی حرکت کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اور ایسا کرنا ممکن ہے۔‘ تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ 100 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2021 ء میں ایسے افراد کی تعداد پانچ لاکھ 73 ہزار تھی۔
ڈاکٹر نیر بارزیلائی کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سو سال یا اس سے زیادہ دنوں تک زندہ رہیں، اس کے لیے وہ تجربات کر رہے ہیں۔ وہ ساڑھے سات سو افراد اور ان کے خاندانوں سے بھی مدد لے رہے ہیں جنھوں نے سو سال کی عمر مکمل کر لی ہے۔ وہ ایسے جینز کی تلاش میں ہیں جن کے ذریعے بڑھاپے کی رفتار کو کم کیا جا سکے۔ ان معلوماتکی دوا بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کی ٹیم بڑھاپے سے متعلق تین امکانات پر کام کر رہی ہے۔ ان میں سے پہلے کا مقصد بڑھاپا آنے کے عمل کو سست کرنا ہے۔ اس کا نام افسانوی کردار ’ ڈورین گرے‘ کے نام پر رکھا گیا ہے، جو عمر سے متاثر نہیں ہوتا، لیکن یہ اثر اس کی پوشیدہ پینٹنگ پر نظر آتا ہے۔
نیر بارزیلائی بتاتے ہیں: ’دوسرے مرحلہ کو ہم ’فاؤنٹین آف یوتھ‘ یعنی ’جوانی کا چشمہ‘ کہتے ہیں۔ یہ سب لوگوں کو جوان بنانے کے بارے میں ہے۔ اسے ممکن بنانا سب سے مشکل کام ہے۔ تیسری چیز سب سے زیادہ دلچسپ مرحلہ ہے۔ اس کا نام ’پیٹر پین‘ ہے۔ یہ بھی افسانوی کردار ہے جس کی عمر نہیں بڑھتی۔ خیال یہ ہے کہ بیس یا تیس کی دہائی کے لوگوں کو لیا جائے۔ ان کا ہر چند مہینوں یا سال میں ایک بار علاج کیا جائے، اور ان میں عمر بڑھنے کے اثرات کو روک دیا جائے یا اس کی رفتار کو بہت کم کر دیا جائے۔
بائیو مارکر ایسے مالیکیولز ہیں جو اندرونی بیماریوں کی نشاندہی کرتے ہیں، جیسا کہ کولیسٹرول، جو دل کی بیماری کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن بڑھاپے کی شناخت کے نشانات یا عوامل کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔
نیر بارزیلائی کہتے ہیں کہ ’ہمیں بہت زیادہ بائیو مارکرز کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے بائیو مارکرز کی تلاش ہے جو دو معلومات دے سکیں۔ پہلی یہ کہ وہ حقیقی عمر اور حیاتیاتی عمر کے درمیان فرق بتا سکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی عمر سے کم تو کچھ اپنی عمر سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو دوائیں ہم بڑھاپے کو کم کرنے کے لیے بنا رہے ہیں ان کے استعمال کے وقت بائیو مارکر میں تبدیلیاں پیدا کریں۔‘
بڑھاپے کو روکنے کے مقصد سے تیار کی جانے والی کچھ ادویات کو ریگولیٹرز کی جانب سے منظوری مل گئی ہے اور انھیں تیار کیا جا رہا ہے۔ ان کا دوسرے معاملات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹرانسپلانٹ کے بعد یہ دوائیں دی جاتی ہیں تاکہ جسم نئے عضو کو رد نہ کر دے۔
ڈاکٹر نیر بارزیلائی ٹائپ ٹو ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ’میٹفارمین‘ نامی دوا کے دوسرے مقصد کے لیے کلینکل ٹرائلز کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیاکہ کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں اس سمت میں کوئی بڑی کامیابی ملے گی تو انھوں نے کہا: ’ہاں، یقیناً۔ ہم اس بارے میں بڑھا چڑھا کر اندازہ لگاتے ہیں کہ ہم دو سالوں میں کیا کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم اس بات کو کم سمجھتے ہیں کہ ہم پانچ یا 10 سالوں میں کیا کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس شعبے میں ایک زبردست لہر ہے۔ دنیا بھر کے امیر لوگ بھی اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس میں تیزی آنے والی ہے۔‘
دوست عمر بڑھاتے ہیں
ہارورڈ میڈیکل سکول میں نفسیات کے پروفیسر رابرٹ والڈنگر کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہیں اور گرم جوشی سے تعلق رکھتے ہیں ، وہ ان لوگوں کے مقابلے میں طویل اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔‘
’’کچھ چیزوں سے ہم واقف ہیں ۔ یہ غذائیت سے بھرپور خوراک اور طرز زندگی کی عادات ہیں، جو لمبی زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔تاہم دوسرے لوگوں کے ساتھ زیادہ تعلقات رکھنے، اپنے اردگرد کے لوگوں سے زیادہ جڑے رہنے اور گرم جوشی کا مظاہرہ کرنے سے لوگوں کو صحت مند رہنے میں مدد ملتی ہے۔
رابرٹ والڈنگر کہتے ہیں: ’ اس معاملے میں بہترین مفروضہ تناؤ اور تناؤ پر قابو پانے سے متعلق ہے۔ فرض کریں کہ اگر دن کے وقت کچھ ایسا ہوا جس نے آپ کو پریشان کر دیا تو آپ اپنے جسم میں جکڑن محسوس کریں گے۔ آپ گھر آئیں اور اگر آپ کے پاس کوئی ایسا قابل بھروسہ شخص ہے جو آپ کی بات سْنتا ہے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی تھکاوٹ دور ہو گئی ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ جو لوگ اکیلے ہوتے ہیں، ان کا غصہ کبھی مکمل طور پر نہیں جاتا۔ یہ جسم کے نظام کو خراب کرنے لگتا ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہمیں یہ معلومات ملتی ہیں کہ اچھے تعلقات ہمیں تناؤ سے باہر آنے میں مدد دیتے ہیں۔‘
لمبی زندگی کے لیے رشتے اہم ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تنہائی پسند کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں، رابرٹ والڈنگر کہتے ہیں: ’یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ہم سب اچھے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ انٹروورٹس (خود میں گم، کم سخن) ہیں ۔ ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ ان کے آس پاس کے زیادہ تر لوگ تناؤ کا شکار ہیں۔ ان کے لیے صرف ایک یا دو قریبی لوگ ہی کافی ہیں۔ صحت مند زندگی کے لیے کتنے رشتے رکھنے چاہیے اس کا کوئی ایک فارمولہ نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں پالتو جانور بھی ہمیں خوشی دیتے ہیں اور ہمارے اندر کے تناؤ کو کم کر سکتے ہیں۔
رابرٹ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایسے لوگوں کا بھی مطالعہ کیا ہے جن کی عمریں ستر یا اسی سال سے زیادہ ہیں اور انھوں نے زندگی میں پہلی بار رشتہ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ لوگ پہلی بار محبت میں گرفتار ہوئے ہیں۔
سو سال جینے کا نسخہ کیا ہے؟
گارنٹی کے ساتھ ایسی کوئی ترکیب نہیں بتائی جا سکتی، لیکن اگر آپ ایک سے زیادہ کام کرتے ہیں تو اس سے مدد مل سکتی ہے۔ اپنی خوراک درست رکھیں، جسمانی سرگرمی برقرار رکھیں، ایک دوست یا پالتو جانور تلاش کریں جس سے آپ بات کر سکیں۔ اگر آپ کسی ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بوڑھوں کی تعداد نوجوانوں سے زیادہ ہے وہاں ایسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں جہاں آپ کی زندگی کی شام پرجوش اور آرام دہ ہو۔
عمر بڑھنے کے عمل کو سست کرنے یا پورے عمل کو ریورس کرنے کا فارمولہ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا لیکن سائنس دان اس سمت میں کام کر رہے ہیں ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ مشورہ آپ کے لیے مفید ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے جسم کی اس طرح دیکھ بھال کریں کہ آپ کو سو سال تک اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ( بشکریہ بی بی سی )
The post 100 سال کی عمر پانے کا نسخہ آخر ہے کیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.