زباں فہمی143
’’ایک اندازے کے مطابق ساٹھ فی صد الفاظ ایسے ہیں جو سرائیکی اور اُردو میں مشترک ہیں جس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں معلوم ہوتا کہ اِبتدائی ماخذ سرائیکی زبان ہے۔ اِس لحاظ سے، سرائیکی بولنے والے دوسرے علاقوں کے لیے یہ بات وجہ افتخار ہے کہ اُردو جو آج ہماری قومی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔
اُس کی تخلیق کا عمل ان کی سرزمین سے شروع ہوا۔‘‘ (’’عالمی ارتقائی تناظر میں اردو کی لسانی صفات‘ ‘مضمون ازظفر اقبال، سید، مشمولہ ماہنامہ اردو اخبار‘ مقتدرہ قومی زبان‘ اسلام آباد‘ بابت مئی2007ء)۔ یہ بیان یقیناً بہت سے اہل ذوق کے لیے چونکانے والا ہوگا۔ یہی دعویٰ کئی دیگر زبانیں بولنے والے بھی پورے وثوق سے کرتے ہیں کہ اُن کی زبان کا اردو سے تعلق گویا پیدائشی یا ازلی ہے ۔
{خاکسارنے اردو سے اس بنیادی تعلق کے ضمن میں گوجری ، ہندکو، بھوج پوری، ہریانوی، قدیم دکنی بولی اور بنگلہ پر اسی کالم میں خامہ فرسائی کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دیگر تفصیل پرنظر ڈالے بغیر بھی یہ حقیقت عیاں ہے کہ مشترک ذخیرہ الفاظ بہت وقیع ہے۔ بنگلہ میں آج بھی ساٹھ فی صد سے زائد الفاظ اور متعدد تراکیب، اردو سے مشترک ہیں}۔ نہایت دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنی ہی کہی ہوئی بات دُہرائے بغیر نہیں رہا جاتا اور وہ یہ کہ اردو، پوری دنیا کی واحد زبان ہے جس کے ناصرف وطن یعنی جنم بھومی/جائے پیدائش کے دعوے دار بہت ہیں، بلکہ یہ بہ یک وقت ، خطہ جنوبی ایشیا کی متعدد زبانوں سے اس قدر گھُلی مِلی ہے کہ ہر کوئی اس کی ماں، سگی بہن یا بڑی بہن ہونے کے دلائل پیش کرتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قدیم سندھ، ہڑپہ و مہرگڑھ تہذیب کے عہد میں جب، تجارتی کارواں ہڑپہ اور اس کے نواح سے گزرکر برّاعظم افریقہ تک جایا کرتے تھے، تب ملتان کا نام ملوہا، سندھ کا دلمون اور مکران کا ماگان ہوا کرتا تھا۔ اُس دور میں میسوپوٹیمیا] [Mesopotamiaیعنی قدیم عراق (نیز بشمول کویت، ترکی وشام) سے اس خطے کے سماجی، ثقافتی وتجارتی روابط بہت مستحکم تھے جس کا ثبوت یہاں کے آثارقدیمہ میں جابجا نمایاں ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ سندھ وبلوچستان کا قدیم قبیلہ سومرو، اصل میں قدیم سومیری (سُمیری) قوم کا حصہ ہے اور یہ عراق سے یہاں آکر آباد ہوئے، مگر سندھی محققین اس کی تردید کرتے ہیں۔ اس سے قطع نظر آج بھی بہاول پور کے دیہات میں بننے والے کھجور کے پتّوں کے برتنوں پر آرائش کرتے ہوئے، میسوپوٹیمیا کا مخصوص نشان بنایا جاتا ہے۔ قدیم عراقی آثار سے برآمد ہونے والی، مٹی کی تختیوں پر کندہ داستان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ملوہا (یعنی قدیم ملتان) کی اپنی الگ زبان تھی اور امی بال نامی کوئی عراقی جہازراں اُس کا مترجم تھا۔
یہ کوئی چارہزار سال پرانی بات ہے۔ موئن جو دَڑو، ہڑپہ اور مہر گڑھ سمیت مختلف مقامات پر دریافت ہونے والے آثار پر کندہ عبارت (تصویری رسم الخط) کی ملتانی قدیم زبان سے مماثلت، نیز دَکن سے برآمد ہونے والے ایسے ہی نشانات سے حیرت انگیز مشابہت تحقیق کا ایک الگ باب ہے۔ یہاں دُہراتا چلوں کہ بقول محترم ابوالجلال ندوی، یہ تصویری رسم الخط، درحقیقت عربی کی انتہائی قدیم، ابتدائی شکل ہے اور اس خطے کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ عرب کے ساتھ ساتھ یہاں عربی زبان پروان چڑھی۔ یوں سرائیکی سمیت تمام مقامی زبانوں کی تشکیل میں ابتداء ہی سے عربی کا خون شامل ہوا۔
ڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر کی رائے میں ’’ماہرینِ لسانیات، وادی سندھ میں آریاؤں کی آمد سے قبل تین بڑے لسانی خاندانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلا پہاڑی زبانیں یعنی تبّتی اور برمی، دوسرا منڈاری گروہ اور تیسرا دراوڑی زبانیں۔ سرائیکی زبان کے دراوڑی زبانوں سے رشتے کی ایک انمٹ بنیاد، وہ پانچ سے سات اضافی صوتیات (اصوات: س ا ص) ہیں جو اَبھی تک برّصغیر کی صرف دو زبانوں سندھی اور سرائیکی میں موجود ہیں اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں زبانوں نے ابھی تک اپنے دراوڑی مزاج اور لسانی ڈھانچے کے ساتھ رشتے کو برقرار رکھا ہے اور ہزاروں برسوں سے اس امتیاز کی امین ہیں‘‘۔
یہاں اگر دراوڑی کے تَمِل سمیت مختلف ہندوستانی زبانوں، ہندکو اور براہوئی سے تعلق پر بات کی جائے تو ایک الگ بابِ تحقیق وَا ہوجاتا ہے۔ ناصر صاحب نے اس جہت میں کچھ ارشادات نقل کرنے کے بعد، یہ بھی کہا کہ ’’برِصغیر کی پراکتوں میں کیکئی پراکرت، وراچڈہ اور پشاچی کو ملتانی (یا موجودہ سرائیکی) زبان کی مائیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ رام چندر جی کی سوتیلی ماں رانی کیکئی جن کی وجہ سے انھیں بن باس ملا۔ شادی سے پہلے شور کوٹ، جھنگ اور ملتان کی حکمران تھی۔
اسی نسبت سے اس علاقے کو اس وقت کیکئی دیس اور یہاں کی پراکرت کو کیکئی پراکرت کا نام ملا۔ اس کے علاوہ براچڈہ اور پشاچی کا سارا لسانی جغرافیہ، صوبہ سندھ تک موجودہ سرائیکی دھرتی اور زبان کا احاطہ کرتا ہے۔ مزید برآں اس وقت سنسکرت کے ساتھ یہ ہمدوش پراکرتیں بھی ارتقائی منازل طے کرتی رہیں ‘‘۔
سرائیکی کی قدامت کا دعویٰ بھی محل نظر نہیں۔ اہل علم کی رائے ہے کہ سلطان محمود غزنوی کی آمد سے بھی کوئی تین سواتین سوسال قبل یعنی ساتویں صدی عیسوی ہی میں اس زبان کی تشکیل شروع ہوچکی تھی۔
یہ وہی دور ہے جب ہمارے رسول مقبول (ﷺ) کا وصال ہوا۔ ایک بات بہرحال توجہ طلب ہے۔ جس طرح عربوں کی ماقبل زمانہ اسلام اور بعد ظہوراسلام ، اس خطے میں آمد کے بعد، زبانوں کے اختلاط کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے کئی زبانوں نے جنم لیا، اس میں سرائیکی کا جداگانہ تشخص بہرحال اگلی کئی صدیوں تک واضح نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 111ہجری کے بعد، شمالی سندھ میں پروان چڑھنے والی زبان یہی تھی، جبکہ دوسری طرف جنوب میں سندھی زبان تشکیل پارہی تھی۔ سن ہجری کی مطابقت دیکھیں تو یہ آٹھویں صدی عیسوی کا کوئی سن ہوگا جب خلافت بنواُمَیّہ نے عروج وزوال کی مناز ل طے کیں اور خلافت عباسیہ بام عروج کو پہنچی۔ اسی دور میں برّعظیم پاک وہند میں اسلام کی اشاعت اور ہمہ جہتی فروغ علم کا سلسلہ جاری ہوا۔
گفتگو کا سلسلہ دراز ہونے سے پہلے، ذرا ایک نظر اردو اور سرائیکی کے مشترک الفاظ پر ڈالتے ہیں:
مشترک مصادر:
اُردو/ سرائیکی
ابھرنا/ ابھرن
بگاڑنا/ وگاڑن
ترسنا / ترسن
ٹنگنا/ ٹنگن
مرکب مصادر:
شور مچانا/ شور مچاون
اودھم مچانا/ ادھم مچاون
بچاؤ کرنا/ بچاؤ کرن
بڑائی کرنا/ وڈیائی کرن
چند ایسے الفاظ جن میں املاء وتلفظ کے فرق کے باوصف، معانی یکساں ہیں:
باٹ /وٹ
باچھ/ واچھ
باڑھ/واڑ
آٹا/اٹا
آم/انب
آج/اج
آدھا/ادھ
ہنر مند/ہنر وَند
بَڑ، دونوں زبانوں میں بڑ ہی ہے۔ بکرا، بکراہے اور بلا، بلاہے۔ جوگن، جوگن ہی ہے۔ قدیم اردو میں شامل گجراتی لفظ دیوی بمعنی چھوٹا چراغ تھا جس کا استعمال ولیؔ گجراتی دکنی نے اپنے اس اردو شعر میں یوں کیا:
مہ جبیں پر لگائے کیوں ٹیکا+ماہ میں کام کیا ہے ’دیوی‘ کا
ایک اور قدیم شاعر عشرتیؔ کا دکنی شعر ہے:
دیویاں سوں کنگراں ایسے سنوارے+کہ جیوں قوس ِ قُزح میانی ستارے
یہ لفظ ہندی الاصل دیوا اور دیپ بھی ہے نیز پنجابی اور سرائیکی سے مشترک ہے۔
باقی الفاظ کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
آ/آ، آبکاری/آبکاری، آب ودانہ/دانہ پانی، آب وہوا/ آب وہوا، آباد/آباد، آبرو/اَبرو، آتش بازی/ آتش بازی، آپا/آپاں (نیز کاکی اور اَدّی)، روح/روح،آٹا/اَٹا، آٹھ/اَٹھ،آج/اَج، اچار/اچار، بھِیڑ/بھِیڑ،پانی/پانی،چمک/چمک،دوہا(دو شعر کی نظم)/ڈوہڑا، دہریہ/دہریہ، ڈھال/ڈھال،ڈھنڈورچی/ڈھنڈورچی۔ چلتے چلتے دکن کے قدیم اردو شاعر وادیب مُلاّ وجہی کی ’سب رس‘ (سن تصنیف1045ھ) میں شامل فرہنگ سے بھی استفادہ کرلیں: بھان (بہن)/بھین، بھِتر (بھِیتر یعنی اندر)/بھیِتر، لوکاں (لوگ)/لوکاں……یہ فہرست اس قدر دل چسپ ، مگر طویل ہے کہ پورا کالم ہی اس کی نذر ہوسکتا ہے۔
پروفیسرحافظ محمود شیرانی کی تحقیق ہے کہ ’’اردو اپنی صَرف و نحو میں، ملتانی زبان کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے آخر میں الف آتا ہے۔ دونوں زبانوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے، یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے والبات و ملحقات پر بھی ایک ہی قاعدہ جاری ہے۔ دونوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد افعال مرکبہ و توابع میں متحدہ ہیں‘‘۔
سرائیکی کے قدیم نام ’’سین دب‘‘ اور ’’ارد ناگری‘‘ ہیں۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اردو ادب کی تخلیق کے ابتدائی ادوار میں جب دکن، دِلّی، پنجاب، بنگال، ملحق علاقوں اور بہِار میں مقامی بولیوں اور زبانوں سے فطری انسلاک کا عمل جاری تھا تو ایسے میں خصوصا دکن اور پنجاب کی ابتدائی اردو میں بہ یک وقت گوجری، گجراتی، ہندکو، پوٹھوہاری اور سرائیکی کے الفاظ وتراکیب راہ پاچکے تھے۔
’’پنجاب میں اردو‘‘ کے عظیم محقق پروفیسر حافظ محمود شیرانی نے ایک قدیم نظم ’’نُورنامہ‘‘ کو 1054ھ کی تصنیف قرار دیا، مگر ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اسی نظم میں شامل ایک داخلی شہادت کے سبب، اسے 600ھ کا فن پارہ قرار دیا۔ یہ داخلی شہادت آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اس میں اردو کی ابتدائی شکل بھی ہویدا ہے:
پنج سے (پانچ سو) سال جو گزرے آھے (ہیں)، ہجرت بعد رسولوں (رسول کی)
ملاں (مُلّا) کہے غریب وِچارا (بے چارہ)، کم علماواں کولوں (کم علم لوگوں کو)
نیکی عمل نہ کیتم کوئی شامت نفس جہولوں
(کوئی نیک عمل تو کیا نہیں، نفس کی شامت آئی، جہل سے)
عمر گزری توں پچھوں تاواں بھر لہاں قبولوں
(عمر گزارنے کے بعد پچھتاوا ہوا اور ماننا پڑا کہ)
جو کجھ (کچھ) روئے زمین تے پیدا سب کجھ ہوسی (ہوگا) فانی
نام نشان نہ رہسی (رہے گا) کائی جُز ایمان نشانی
(سوائے ایمان کی نشانی کے کچھ بھی باقی نہ رہے گا)
خاکسار نے یہ سارا ترجمہ اندازے سے کیا ہے۔ اہل زبان سرائیکی اسے بہتر کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ’نورنامہ‘ کے عنوان سے متعدد شعراء نے سرائیکی اور دکنی میں نبی کریم (ﷺ) کی شان میں قصیدہ گوئی کا شرف حاصل کیا جس میں اُن کی نورانی زندگی کا بیان کیا جاتا اور محافل میلاد میں یہ کلام (خواہ منظوم ہو، منثور ہو یا ملاجُلا) بطور تبرک پڑھا جاتا ، شیرینی تقسیم کی جاتی اور خاص طور پر سرائیکی کے مندرجہ بالا ’نورنامہ‘ کو دینی کتب میں قرآن کریم و حدیث مبارکہ کے بعد، سب سے زیادہ اہم کتاب کا درجہ دیا گیا۔ ہمیں جو نام دستیاب ہوئے ، مندرجہ ذیل ہیں:
نور نامہ، مراد نابینا (1054ھ /1644ء) : اس کی بابت میں نے ماقبل ہی بیان کردیا کہ درست سن تصنیف چھٹی صدی ہجری /تیرہویں صدی عیسوی کے لگ بھگ ہوگا۔
نور نامہ، امین الدین اعلیٰ (1086ھ /1675ء)
نور نامہ، احمد (1089ھ)
نور نامہ، شریف (1115ھ /1703ء)
نور نامہ، شاہ عنایت اللہ قادری (1111ھ)
ان میں کوئی ایسی تصنیف نہیں جو مکمل منظوم کی بجائے نظم ونثر کے امتزاج پر مبنی ہو، یعنی یہ ساری نظمیں ہیں۔ میرے پاس ایک مجموعہ اَورادووَظائف (بشمول قرآنی سورتیں، آیات ، روایات ِحدیث ودیگر دعائیں) ایسا بھی ہے جس کے آخر میں ایک ’’نورنامہ قادری‘‘ شامل ہے ، جس کے شاعر کا نام نہیں دیا گیا، مگر مقطع میں حامدؔ لکھا ہے۔ مجھے شک ہے کہ یہ شاہ عنایت قادری کا لکھا ہوا نہ ہو جس میں کسی حامد نے اپنا نام شامل کردیا ہو۔ اہل تحقیق سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں میری رہنمائی فرمائیں۔ اس نورنامے کی زبان پر دکنی بولی کی چھا پ بہت گہری ہے ، مگر بعض بعض اشعار بالکل صاف ہیں، گویا آج ہی کے دور میں کہے گئے ہوں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس میں ایسے دکنی الفاظ بھی موجود ہیں جو کہیں کہیں پنجابی، کہیں ہندکو تو کہیں سرائیکی معلوم ہوتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے مثالیں ترک کرتا ہوں۔
قدیم اردو کی مختلف بولیوں اور ہم رشتہ زبانوں بشمول سرائیکی میں فارسی کے پند نامہ، شاہنامہ اور سیاست نامہ جیسی ادبی نگارشات کے زیرِاثر، نورنامہ، معراج نامہ، شمائل نامہ، میلاد نامہ، وفات نامہ اور ان کے علاوہ لوری نامہ، قیامت نامہ، فقر نامہ، وصیت نامہ، فالنامہ، جنگ نامہ اور خواب نامہ تخلیق کیے گئے جن میں ایک بڑی تعداد، فارسی سے ماخوذ، مترجمہ یا فارسی تخلیقات کا عکس ہے۔
ڈاکٹر عبدالحق نے ’’ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق‘‘ میں تحقیق کا یہ خلاصہ کیا:
o ملتانی (سرائیکی) زبان کا اردو کے ساتھ بنیادی تعلق یہ ہے کہ جن حالات کے تحت اردو معرض وجود میں آئی، انھی کے زیر اثر ملتانی زبان نے بھی جنم لیا۔
o ملتان زبان کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جوں ہی عرب مسلمانوں نے اور ان کے فارسی‘ ترکی اور بلوچی زبانیں بولنے والے عساکر نے وادی سندھ میں قدم رکھا‘ ایک نئی زبان کی بنیاد پڑنا شروع ہوگئی۔ (بہرحال یہ تحقیق غلط ثابت ہوچکی ہے اور اردو یا سرائیکی سمیت کسی بھی مقامی زبان کی تشکیل، ہزاروں سال پر محیط عمل ہے: س ا ص)
o ملتانی اور اردو کے تعلق کے سلسلے میں ہمیں خارجی شواہد کے ساتھ ساتھ داخلی شواہد کا جائزہ لینا ہوگا۔ اردو اور سرائیکی زبان، لسانی پیمانے پر باہم مشترک ہیں۔
سرائیکی محققین کا اس اَمر پر اتفاق ہے کہ ’’عہدحاضر میں پاکستانی زبانیں علی الخصوص سرائیکی اور اردو اپنی علیٰحدہ علیٰحدہ شناخت کے باوجود‘ لفظی‘ نحوی‘ تلفظ‘ ساخت اور صدیوں کی تہذیبی ثقافتی ہم آہنگی کے سبب بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہیں‘‘۔
یہاں ایک بظاہر غیرمتعلق، مگر مشہور اعتراض کا جواب دیتا ہوں کہ اگر فقط ڈاکٹر مہر عبدالحق کی محولہ بالا کتاب کا مطالعہ ہی کرلیا جائے تو یہ غلط فہمی دور ہوجاتی ہے کہ سرائیکی ، پنجابی کی شاخ ہے۔
میں کوئی ماہر لسانیات نہیں، علم لسان ولسانیات کا ایک بے قاعدہ، ادنیٰ سا طالب علم وخادم ہوں جو ایسے دقیق وخشک موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے تو اپنے جنون کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ نکتہ پیش نظر رکھتا ہے کہ بیان عام فہم رہے تاکہ عام قاری بھی مستفیض ہوسکے۔
٭٭٭٭٭
(اخذواستفادہ: ’’ملتانی زبان اور اُس کا اردو سے تعلق‘‘ از ڈ اکٹر مہر عبدالحق، ناشر اُردو اکادمی، بہاول پور۔1967ء، اردو زبان کا
ماخذ۔ ہندکو: پروفیسر خاطر غزنوی۔ ناشر مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد۔2003ء، مضامین اختر جوناگڑھی از قاضی احمد میاں
اخترؔجوناگڑھی، ناشراَنجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی۔1989ء،۹ زبانی لغت از پروفیسر عبدالعزیز مینگل، ناشر اردو سائنس بورڈ ، اشاعت ثانیہ 2020ء، نورنامہ از حافظ مراد نابینا مرتبہ پروفیسر شوکت مغل (پی ڈی ایف )،’’سرائیکی اور اردو زبان میں لسانی اشتراک‘‘ اَزڈاکٹر خالد اِقبال / ڈاکٹر محمد اجمل مہار: آن لائن دستیاب،’’سرائیکی دھرتی اور زبان سے اردو کے رشتے‘‘ ازڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر: آن لائن دستیاب، نورنامہ از حافظ مراد نابینا کی اشاعت سے متعلق شذرہ بَر فیس بک از ذوالفقار علی،آزاد دائرۃ المعارف، ویکی پیڈیا بحوالہ ’’اردو نثر میں سیرت رسول‘‘،ازڈاکٹر انور محمود خالد، ناشر اقبال اکیڈمی ، لاہور۔1989ء۔Is Saraiki a dialect of Punjabi?( https://www.quora.com/Is-Saraiki-a-dialect-of-Punjabi)
The post زباں فہمی؛ اردو اور سرائیکی کا لسانی تعلق appeared first on ایکسپریس اردو.