غزل
درختوں کا سایہ نہیں مل رہا
بڑوں سے کچھ اچھا نہیں مل رہا
ہوئی اب کے دستار پر ایسی جنگ
کہ سر ہی کسی کا نہیں مل رہا
بہت دل کے ملبے میں ڈھونڈا مگر
کوئی خواب زندہ نہیں مل رہا
مجھے میری قیمت سے کچھ کم ہی دو
جو تم کو میں پورا نہیں مل رہا
برابر ہیں سب اُس کے غم میں شریک
کسی کو زیادہ نہیں مل رہا
میں کر دیتا کب کا اُسے دل بدر
مگر کوئی رستہ نہیں مل رہا
( عقیل شاہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
اکٹھے کرتا رہا میں جو ماہ و سال کے پھول
کتاب ِ شعر میں رکھے ہیں ڈال ڈال کے پھول
کبھی ضرور لبھائے گی د ل کشی ان کی
سجا سنوار کے رکھ راہِ پائمال کے پھول
نگینے حسن کے اشعار میں سجائے ہیں
حسین رنگ چنے تو بنے کمال کے پھول
موازنے کے لیے آئنے سے پوچھتا ہے
بغور دیکھتا ہے جب مرے خیال کے پھول
مری نگاہ سے اوجھل نہیں کسی لمحے
چھپا ہوا ہے جو میری طرف اچھال کے پھول
نئی رتوں میں مہکنے لگے تو کیا ہو گا
رکھے ہوئے ہیں کتابوں میں جو سنبھال کے پھول
خزاں رسیدہ ہوں اک عمر سے مگر جاذبؔ
وہی خیال کی خوشبو، وہی جمال کے پھول
(اکرم جاذب۔منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
اُسے میں نے رخصت کیا ہی نہیں
گیا ہے وہ دل سے؟ گیا ہی نہیں
میرے داغ دل اتنے روشن ہوئے
میرے گھر میں کوئی دیا ہی نہیں
سر آنکھوں پر میں نے بٹھایا اسے
وہ نظروں سے میری گرا ہی نہیں
نہ حسرت، نہ چاہت، نہ ارماں کوئی
میرے دل میں اب کچھ بچا ہی نہیں
میں انساں کو ڈھونڈا کیا جا بجا
کہیں بھی وہ مجھ کو ملا ہی نہیں
مسافر تھا میں بھی اسی راہ کا
مجھے ساتھ اس نے لیا ہی نہیں
وہ آئیں ،میرے دل میں ٹھہریں، رہیں
مگر ایسا کچھ بھی ہوا ہی نہیں
سنائوں کسے بزمی احوال دل
کوئی اپنا مجھ کو ملا ہی نہیں
(شبیر بزمی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کھڑی ہیں گھر میں دیواریں تو بیٹے لڑ پڑے ہوں گے
خبر ہوتی ہے ماؤں کو جگر کے دو دھڑے ہوں گے
ہواؤں کی طرح وہ بھی کسی دن لوٹ آئے گا
درختوں کی طرح ہم بھی جگہ اپنی کھڑے ہوں گے
ہمیں وہ پھول کہتا ہے تو اک دن سوکھ جائیں گے
کہیں پر شاعری کی پھر کتابوں میں پڑے ہوں گے
ذرا سی بات پر اب تو یہ دنیا روٹھ جاتی ہے
کسی دن اس کے ماتھے پر ستاروں سے جڑے ہوں گے
ہمیشہ ماں نے لوری میں محبت ہی سکھائی تھی
سیاست سیکھ جائیں گے وہ جیسے ہی بڑے ہوں گے
ابھی بارش کا موسم ہے تو ہم مٹی کے کوزے ہیں
کبھی صحرا نوردوں کے لیے ٹھنڈے گھڑے ہوں گے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
مٹی کے پنچھیوں کے بڑے پر نکل پڑے
خالی دماغ لوگ سخن ور نکل پڑے
میں دھوپ کے لباس میں ملبوس کیا ہوا
ہاتھوں میں سورجوں کے بھی خنجر نکل پڑے
بچپن کی یاد جب بھی جوانی میں آئے تب
آنکھوں کی کشتیوں سے سمندر نکل پڑے
اتنا اداس ہونے لگا ہے جو آج کل
ایسا نہیں یہ دل مرا باہر نکل پڑے
پیسوں میں لے رہے ہیں جو اب مجھ سے شاعری
یعنی تمہارے شہر میں شاعر نکل پڑے
چپ چاپ سارے شہر میں آئینے رکھ دیے
پتھر بھی عین میرے برابرنکل پڑے
پچھلے برس ولی جو ترااپنا گاؤں تھا
اب کے برس وہاں بھی نئے گھر نکل پڑے
(شاہ روم خان ولی۔مردان)
۔۔۔
غزل
کمال ِمہربانی دے کے جائیں
یہ دل کی راجدھانی دے کے جائیں
چلیں مرنے سے پہلے اس جہاں کو
محبت کی کہانی دے کے جائیں
کریں بے شک تلاش اپنا وہ دریا
مجھے دو بوند پانی دے کے جائیں
کوئی مقصد نہ مطلب اس سفر کا
حیاتی کو معانی دے کے جائیں
جو دل ان کا ہماری سلطنت ہے
تو حق ِ حکمرانی دے کے جائیں
عنایت عنبرین ؔان کی بہت ہے
ہمیں گوہر فشانی دے کے جائیں
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
یہی نہیں کہ فقط عصرِ خاکداں سے نکل
شکست و فتح سمجھ،حرفِ جاوداں سے نکل
میں دو جہان کی رنگینیوں کو چھوڑ آیا
کسی نے اتنا کہا تھا مری اماں سے نکل
کرایہ پورا ہوا،اب یہاں سے چلتے بنو
نئے مکیں مجھے کہتے ہیں اب مکاں سے نکل
پکارتا ہے مجھے صورِ اسرافیل کہیں
اے میری روح مرے جسمِ ناتواں سے نکل
سنبھال اشک اور آنکھوں کو اپنے ضبط میں رکھ
یہ دشت،ہجر پرکھ، دردِ نا گہاں سے نکل
خدا کی ذات کا یوں اعتراف کر ساجد
یقین جان محبت کو اور گماں سے نکل
(ساجد رضا خان۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
اوروں کو تو پھولوں کے کئی رنگ دکھائے
ہم لوگوں کو دنیا نے فقط سنگ دکھائے
ہم نے بھی بہت اس کو نئے پن سے پکارا
اس نے بھی محبت کے نئے ڈھنگ دکھائے
وہ آئے، ہمیں رنجش و نفرت ہی سجھائے
وہ آئے،ہمیں دل کا وہی زنگ دکھائے
کیا جانیے، کیا لغزشِ پا ہم کوسجھائے
کیا جانیے، کیا ہم کو رہِ تنگ دکھائے
ہم کو بھی محبت کے خوش آغاز سفر نے
کچھ نغمے سنائے تو کچھ آہنگ دکھائے
ہر گل ہمیں دھرتی کا پریشاں نظر آئے
ہر امن کا منظر ہی ہمیں جنگ دکھائے
کچھ دن سے جیا حالتِ دل غیر بہت ہے
بے چینیاں اس جسم کا ہر انگ دکھائے
(جیا قریشی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
بہتر ہے کہ زندگی میں ہی تکریم کریں لوگ
کچھ اس طرح سے پیار کی تفہیم کریں لوگ
ہونٹوں پہ ہو مسکان ملیں زندہ دلی سے
ہر لمحہ محبت کو ہی تقسیم کریں لوگ
غازی جو ملے کوئی اسے سر پہ بٹھائیں
منصب ہو شہادت کا تو تعظیم کریں لوگ
انساں کا تصور ہو نہ تقصیر کا پیکر
لازم ہے کسی کی نہ یوں تجسیم کریں لوگ
سنتے رہیں افراد سدا تیرے سخن کو
اکبر تیرے افکار کی تعظیم کریں لوگ
(محمد اکبر خان اکبر۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
بتلا رہا ہوں آپ کو میں سادگی کے ساتھ
رشتہ قدیم ہے مرا آوارگی کے ساتھ
کہتے رہے اسے دم آخر تلک نہ جا
رخصت کیا بھی تو بڑی بے چارگی کے ساتھ
آتے دنوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں
گزری ہے رفتگاں کی بھی وارفتگی کے ساتھ
مجھ میں اتر گئی تھیں جہاں بھر کی وحشتیں
خوش ہو سکا نہ میں کبھی اس زندگی کے ساتھ
(عمیر ساحل ۔نواب شاہ)
۔۔۔
سنو تم نے کہا تھا
سنو تم نے کہا تھا نا
تمہیں میری ضرورت ہے
تمہیں بس میری چاہت ہے
کہ دنیا کے جھمیلوں میں
تمہیں رہنا تھا سنگ میرے
بتانا تھا سفر اپنا
پکڑ کر ہاتھ میرا تم
چلے برسوں تھے سنگ میرے
یہ برسوں کی مسافت تھی
مگر مجھ کو لگی کچھ پل
یہ دن پھر اتنے کم کیوں تھے
میرے حصے میں غم کیوں تھے
تمہیں جب چھوڑ جانا تھا
نہ آخر تک نبھانا تھا
نہ سوچا موسموں کا بھی
نہ سوچا دھوپ بھی ہوگی
نہ سوچا بارشیں ہوں گی
کہ میں کیسے گزاروں گی؟
یہ سارے موسموں کے رنگ
سنو تم نے کہا تھا نا
کہ تم بس ساتھ ہو میرے
میرا سایہ بنے تھے تم
میرا بس دوست تم ہی تھے
میرے ہر کام میں شامل
میرے دکھ درد کے ساتھی
میرے ہر درد کا مرہم
جو پھر یوں چھوڑ جانا تھا
جو منہ یوں موڑ جانا تھا
تو پھر یہ کیوں کہا تھا کہ
میرا جو ساتھ مل جائے
یہ دنیا خوبصورت ہے
تمہیں میری ضرورت ہے
(تسنیم مرزا۔ کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.