پاکستانی معاشرہ، بلکہ دُنیا جس تیزرفتاری سے بدل رہی ہے بلکہ بدل چکی ہے۔
ہمیں اس تبدیلی کی رفتار کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ ہم اس سماجی تبدیلی کے اثرات کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وقت، حالات اور خیالات بدلتے رہیں تو معاشرے آگے بڑھتے ہیں لیکن تبدیلی مثبت اور درست سمت میں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں نوجوانوں کے ایک بڑی تعداد ہے جو اس تبدیلی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی اور نہ ہی ان کی تربیت کی گئی تھی کہ وہ بدلتے حالات اور واقعات کا مقابلہ کر سکیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ زندگی کے مفہوم اور مقصد کی تلاش سے محروم ہے۔ یہ اپنے آپ، حالات، معاشرے اور زندگی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا مقصد بڑا محدود ہے۔ لیکن کیا ہم ان کو مورد الزام ٹھہراکر خود بری الذمہ ہوسکتے ہیں۔
میرے خیال میں یہی وہ مسئلہ ہے جس کی طرف ہمیں توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو گھروں، اسکولوں، محلوں اور ملک میں وہ ماحول ہی نہیں دیا جو اُنہیں ایک ذمہ دار شہری اور بہتر انسان بننے میں معاون ثابت ہوسکے۔ ہمیں نوجوانوں کو سمجھنے اور جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نوجوان کیوں ایسے ہیں ان میں بڑھتی ہوئی مایوسی، نفسیاتی اور ذہنی مسائل کہاں سے آگئے ہیں؟ اس مضمون میں ہم اس موضوع پر بات کریں گے۔
یاد رکھیں جب آپ ذہنی صحت کے مسائل اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی ختم ہوجائے گی۔ انسانی زندگی میں کوئی بھی حادثہ انسان کو مکمل طور پر ختم نہیں کرپاتا، ہاں یہ آپ کو توڑ ضرور سکتا ہے لیکن مکمل تباہ نہیں کر سکتا۔ زندگی میں اُمید کا دامن، نئی زندگی کی اُمید، روشنی کی کرن اور بہتری کی سوچ کو ہرگز نظرانداز نہ کریں۔ ایسی صورت حال میں انسان کا ذہن موقوف ہوجاتا ہے۔
اس کی سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت مدھم پڑجاتی ہے۔ انسان کو یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی بند سُرنگ میں داخل ہوچکا ہے جہاں آگے دیکھنے کی بجائے وہ اردگرد مختلف سہاروں کی تلاش کرتا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے ہم اندھیرے کمرے میں ٹٹولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ذہنی دباؤ کی کیفیت میں انسان اپنی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ اپنی کم زوریوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنے حالات سے نکلنے کیلئے کسی مسیحا کی تلاش کرتا ہے۔ بے یقینی، بے چینی، اور ہیجان کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔
ہم کیوںکہ ذہنی صحت اور نفسیاتی مسائل سے اس قدر دوچار ہو چکے ہیںکہ ہمیں چھوٹے موٹے واقعات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ ہم ان مسائل کے ساتھ ہی زندگی بسر کرتے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک استاد نے ہمیں ایک بہت شان دار عملی مشق کروائی جس میں ہمارے چند ساتھیوں کے جوتوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ کر کہا گیا کہ وہ ان جوتوں کو پہن کر چلیں۔ کچھ شرکاء نے جوتوں میں چھوٹے پتھروں کے ساتھ چلنے کی کو شش کی لیکن وہ آرام سے چل نہیں پائے۔
اس پر ہمارے ٹیچر نے کہا کہ جب ہم زندگی میں ایک چھوٹے سے پتھر کی وجہ سے صحیح طریقے سے چل نہیں پارہے تو ذرا سوچیں ان منفی سوچوں، خیالات، باتوں اور رویوں کے بارے میں جو ہمارے ذہن کے امن اور سکون کو برباد کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے ایک پروگرام میں معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل سے سوال کیا۔
’’کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک لوگ ذہنی صحت اور مذہبی مسائل میں فرق نہیں کرپائے۔ عام طور، آجکل نوجوانوں میں یہ ڈپریشن، خوف کے بہت سارے مسائل ہوتے ہیں جن کو کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، نوجوانوں میں ڈپریشن کیوں بڑھ رہی ہے آپ کے خیال میں اس کی وجوہات ہیں؟‘‘ اُنہوں نے جواب میں کہا کہ جب ایک بچہ جوان ہو تا ہے تو اس میں بہت ساری تبدیلیاں آتی ہیں۔ جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں بھی آتی ہیں۔ ہمارے ہاں مذہب اور ذہنی صحت Taboo ہیں تو جب ایک بچی جوان ہوتی ہے تو اسکو پریڈز آتے ہیں اور یہ ایک نارمل چیز ہے۔
ہمیں بچیوں کو بتانا چاہیے کہ جب وہ جوان ہوں گی تو اُن کے جسم میں تبدیلیاں آئیں گی۔ اسی طرح جب لڑکے جوان ہو ں گے بالغ ہوں گے تو ان کو Wet Dreamsآئیں گے۔ یعنی اُن کو ایک خا ص طرح کے خواب آئیں گے ۔ یہ سب نارمل چیزیں ہیں۔ بدقسمتی سے جب ہمارے ہاں ایسی باتیں نہیں ہوتیں تو جنسی خواہشات کو دبا دیا جاتا ہے۔ اُس سے بہت سے نفسیاتی اور سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی جنسی زیادتی کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔
اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نفسیاتی تعلیم کی کمی ہے۔ اسی طرح ذہنی صحت کی تعلیم کی بھی کمی ہے۔ دونوں حوالوں سے ہم بچوں اور بالغ افراد کو نہ جنس کی تعلیم اور نہ ذہنی صحت کی تعلیم دیتے ہیں۔ جب اُن کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک نارمل حوالہ ہے کہ نوجوان، جلدباز ہے، ڈپریشن کا شکار ہے۔ لیکن ہم اُن کا علاج نہیں کرتے، اُس کی تشخیص نہیں کرتے، آپ حیران ہوں گے کہ ساری دُنیا میں کتنے نوجوان خود کشی کرلیتے ہیں۔
یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ڈپریشن آپ کو خودکشی تک لے جاتا ہے۔ پاکستان میں کتنے نوجوان خود کشی کرلیتے ہیں۔ اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کا علاج ہے۔ آپ ان کو ادویات، سے کونسلنگ اور تھراپی سے ٹھیک کرسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ والدین، اساتذہ اور پرنسپلز کے لیے ایسے کورسز ہونے چاہیں۔ بچوں کو تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ ان چیزوں کو تسلیم کرسکیں۔ تاکہ اگر کوئی مسئلہ تو اُس کو جاکر بیان کرسکیں بجائے اس کے کہ اُس مسئلے سے منہ پھیرا جائے اور اُسے نظرانداز کیا جائے۔ سگمنڈفرائڈ نے کہا تھا کہ جب آپ کسی چیز کو دبا دیتے ہیں تو وہ چلی نہیں جاتی بلکہ وہ بہت بڑا مسئلہ بن کر دوبارہ واپس آتی ہے۔
اسی وجہ سے جو سماجی گفتگو ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمیں ان موضوعات پر مکالمہ کرنا چاہیے۔ ماہرین سے تبادلہ خیال کرنا چاہیے، ایکسپرٹس کی رائے لینی چاہیے۔ اسی لیے میں ترجمہ بھی کرتا ہوں۔
دُنیا میں جو علم پھیلا رہا ہے وہ چاہے انگریزی میں ہو یا فرانسیسی میں ہو، ہمیں اُن کے تراجم کرکے اُردو زبان میں شائع کرنا چاہییں، تاکہ لوگوں کو معلومات میسر ہوں اور ہمارے لوگ دُنیا میں جو سائنس، نفسیات اور دیگر علوم میں ترقی ہو رہی ہے اسے جان سکیں۔ میں نے ایران میں اپنے قیام کے دوران دیکھا کہ وہاں سب کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا جاتا ہے ۔ میں اُن لوگوں کی بہت عزت کرتا ہوں جو ترجمہ کرتے ہیں، کیوںکہ ترجمہ کرنے والا پوری دُنیا کے علم کو آپ کی زبان میں منتقل کر دیتا ہے۔ آپ لوگوں کو شعور دے سکیں کیوںکہ ہم لوگوں کو ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی اور سیکس ایجوکیشن دینے میں بہت غفلت کا شکار ہیں۔
نوجوانوں میں ذہنی صحت اور نفسیاتی مسائل کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ان مسائل کی نشان دہی کرنا بہت ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ ایسے لوگوں کی مدد و راہ نمائی کرنا ہے جو زندگی کے اس دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تسلی اور اُمید دینا کسی عبادت سے کم نہیں۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ معجزے یہ نہیں کہ ہم مردوں کو زندہ کریں بلکہ معجزے یہ ہیں کہ ہم زندہ انسانوں کو زندگی کی نئی اُمید دیں۔
اس ضمن میں ہم نے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’ہم، آپ کے ساتھ ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک گروپ تشکیل دیا ہے جس کا مقصد زندگی کے نفسیاتی اور ذہنی مسائل سے دوچار افراد کی راہ نمائی ومدد کے لیے ایک رضاکارنہ پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ اس پلیٹ فارم کا مقصد معاشرے میں ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کو معلومات، آگاہی، شعور اور مدد و راہ نمائی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر انداز میں بسر کر سکیں۔
اس گروپ میں معلومات، راہ نمائی فراہم کرنے والے رضا کار اپنے اپنے شعبۂ زندگی میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، جو اپنی قیمتی مصروفیات سے وقت نکال کر، اپنی پروفیشنل مہارت، براہ راست زندگی کے تجربات کی بنیاد پر، انسانی ہم دردی کے تحت اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔
اس گروپ کا مقصد کسی قسم کی تشہیر، مہم جوئی یا تحریک چلانا نہیں بلکہ مکمل رازداری اور ایمان داری سے دوسروں کی مدد کرنا ہے۔ واضح رہے کہ اس گروپ میں معلومات اور راہ نمائی بالکل رضاکارانہ ہے جس کی بنیاد انسانی ہمدردی اور خلوص پر مبنی ہے۔ اس لیے باہمی تعاون، اعتماد اور عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔
آج ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے پیش نظر نوجوانوں کو ان صلاحیتوں سے ہمکنار کروائیں کہ وہ زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ اپنی قدرتی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرسکیں۔
نوجوانوں کو ہمت، حوصلے اور نئی تحریک دیں۔ سوشل میڈیا پر معروف امریکی جج فرینک کپیرو کا کہنا ہے کہ ’’کبھی کبھار بہترین نصیحت یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی کو کندھے پر تھپکی دے کر کہہ سکیں کہ کچھ نہیں ہوگا، ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ہمارا معاشرہ بہت زیادہ ججمنٹل ہوچکا ہے ہم لوگوں کی کیفیت، احساسات اور حالات کو سمجھے بغیر ان پر اپنی رائے دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم فوراً دوسروں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں خود کو بچانا، ذہنی اور نفسیاتی طور پر مضبوط و محفو ظ رکھنا ایک آرٹ ہے۔ حسد اور نفرت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ ایسی صورت حال میں جب لوگ آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں تو آپ اپنی عزت کریں۔ جب لوگ آپ پر شک کریں تو آپ خود پر بھروسا کریں۔
ایسے وقت میں اچھے لوگوں کا انتخاب بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہر کسی کے سامنے اپنے حالات کا رونا رونے سے مسائل حل نہیں ہو ں گے، بلکہ درست اور مناسب لوگوں سے گفتگو ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ اگر آپ نے غلط جگہ پر آنسو بہائے ہیں تو وہ رسوائی کا سبب بنیں گے لیکن اگر آپ نے صحیح جگہ پر آنسو بہائے ہیں تو آنسو دُعا بن جاتے ہیں۔ میں جب کبھی اپنی زندگی میں پریشان اور مایوس ہوتا ہوں تو اپنا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کی بجائے اپنے سفر کے نقطۂ آغاز سے آج تک طے کردہ سفر کو دیکھ کر خود کو تسلی اور ہمت دیتا ہوں۔
اور خود سے کہتا ہوں کہ بے شک میں وہاں تک نہیں پہنچا جہاں میں جانا چاہتا ہوں لیکن میں وہاں بھی نہیں ہوں جہاں سے میں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ہم سب انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے زندگی کے نشیب وفراز سے گزرنا پڑتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دُنیا ہے، اس میں حقیقی انسانوں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس لیے اپنی زندگی میں حقیقی انسانوں کی تلاش کریں جو آپ کے حالات اور کام یابی کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے وجود اور شخصیت کی بنا پر آپ کی عزت کرتے اور آپ کو قبول کرتے ہیں، جو آپ کے مالی، سماجی، مذہبی، ذہنی، نجی اور پروفیشنل مرتبے کی بنیاد پر آپ کے انسانی وقار کی قدر کریں۔ ایسے حقیقی لوگ زندگی کے سفر میں کبھی آپ کو مسائل کی دلدل میں پھنسے نہیں رہنے دیں گے۔
آج سے ہی ایسے لوگوں کی تلاش شروع کر دیں۔ یہ آپ کے آس پاس، اردگرد ہی موجود ہیں۔ ان کی شنا خت ہی اصل آرٹ ہے۔ زندگی کی حقیقتوں کو سمجھیں اور خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اپنی خالق سے رشتے کو مضبوط اور اپنے تعلقات کو استوار رکھیں۔ زندگی کا یہ مشکل دُور بھی گزر جائے گا، لیکن یاد رکھیں یہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہوگی۔ اس مضمون کا اختتام نہ جانے کیوں جاویداختر کی غزل کے مطلع سے کرنے کو دل چاہ رہا ہے:
’’کیوں ڈریں زندگی میں کیا ہو گا، کچھ نہ ہوگا تو تجربہ ہو گا‘‘
The post نوجوانوں میں بڑھتے نفسیاتی مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.