صاحب سیف وقلم خوش حال خان خٹک کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ ’’جوانسان اخلاص کے ساتھ کوشش کرتا ہو، میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد میں ضرور کام یاب ہوگا۔‘‘
خوش حال خان خٹک کے اس قول زرین کا عملی نمونہ اگر نومنتخب امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو قرار دیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، جنہوں نے اپنی محنت، قابلیت، صلاحیت اور اپنے نظریات کے ساتھ مکمل کمٹمنٹ کی بدولت وہ منزل پالی ہے جس کی خواہش تو لاکھوں لوگ رکھتے ہیں لیکن منزل تک رسائی صرف انہیں ملتی ہے جن کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئے۔
سراج الحق زمانہ طالب علمی میں گروپ بنا کر کھدائی اور اس جیسے دوسرے کام کرکے یومیہ40 روپے کماتے اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔ ہاسٹل میں کمرے کی سہولت کے باوجود رات کو فلم دیکھنے کے بہانے باہر نکل کر فٹ پاتھوں پر رات بس کرنے والے بے گھر مزدوروں اور گداگروں کے ساتھ سویا کرتے۔ اسی طرح یہ نومبر 2002 ء کی بات ہے جب یہ مرد درویش زندگی میں پہلی بار گورنر ہائوس دیکھنے جارہا تھا، جو اس کے بحیثیت سینئر صوبائی وزیر حلف اٹھانے کا دن تھا۔ ہر وزیر مشیر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اپنے ساتھ وی آئی پی یار دوستوں کو لایا تھا، جب کہ سراج الحق اپنی جماعت کے دو دیرینہ کارکنوں کو، جو اس وقت مالی اور چوکیدار تھے، ہاتھ پکڑ کر لائے اور حلف برداری کے لیے منعقدہ پروقار تقریب میں اگلی نشستوں پر بٹھا دیا۔ انہوں نے سب کو حیران کردیا کہ جس سراج الحق کو وہ زمانہ طالب علمی سے جانتے تھے، وزارت کا جھنڈا ان کی گردن میں سریا نہ ڈال سکا۔ حالیہ دنوں ان کو امیرجماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داری انتخاب کے ذریعے سونپی گئی ہے۔ اس نئی ذمہ داری اور ملک کی مجموعی صورت حال کے بارے میں ان سے گذشتہ روز ایکسپریس نے ایک خصوصی نشست کی جس کی تفصیل نذرقارئین ہے:
ایکسپریس: کیا وجوہات ہیں کہ ایک بڑی جماعت ہونے اور منظم جدوجہد کے باوجود انتخابات میں جماعت اسلامی کو وہ عوامی حمایت نہیں ملتی جس کی توقع کی جاتی ہے؟
سراج الحق: سب سے پہلے تو میں ایکسپریس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے اور ہماری آواز اور منشور عوام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب اس طرح دینا چاہوں گا کہ یہ تو بظاہر ایک جزوی حقیقت ہے، لیکن اس حقیقت کے باطن میں اور بہت سی حقیقتیں پنہاں ہیں، دیکھیں! جماعت اسلامی ایک اصول پسند جماعت ہے، جو قرآن کریم اور فرمان رسول ﷺ کی روشنی میںاس ملک میں سیاست کررہی ہے، تاکہ یہاں ایک ایسا اسلامی جمہوری نظام نافذ ہوجائے جس میں ہر قسم کی اونچ نیچ کا خاتمہ ہوسکے، عدل وانصاف کا بول بالا ہو اور غریب ومستحق کو اس کا حق مل سکے۔ یہ نہ ہوکہ ایک بھوک سے مرے اور دوسرا پیٹ بھر کر کھانا کھائے، ہمارا دین ہمیں اس قسم کے نظام زندگی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، ہمارے سامنے صحابہ کرام (رض)ٖ کی مثالیں موجود ہیں، جن سے ہم سبق اور راہ نمائی لے کر سیاست کررہے ہیں۔
تاہم ہمارے ہاں جو سیاسی اور انتخابی کلچر رائج ہے، جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور ساتھ ہی دیگر کئی قسم کے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، لیکن دوسری جانب ہماری جماعت میں عام مڈل کلاس کے لوگ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نوابوں اور خوانین سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی پشت پر میڈیا کے کردار کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، جب کہ بدقسمتی سے عوام بھی وقتی اور کھوکھلے نعروں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں، جس کے باعث ہمارے مڈل کلاس طبقے کے امیدواروں کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ملنی چاہیے، مگر اب ہم بھرپور تیاری کریں گے اور پوری تیاری کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ہمارا مقصد ایک ایسے منصفانہ نظام کا قیام ہے جو قرآن وسنت کا حقیقی ترجمان اور راہ نما ہو، دوسری بات یہ ہے کہ عوام بھی اب جان چکے ہیں کہ ان کو اپنے جائز حقوق دلانے والی اصل ترجمان اور راہ نما جماعت اسلامی ہی ہے، جو ہر قسم کرپشن، ناانصافی، عریانی وفحاشی، مغربی کلچر اور بدعنوانی کے خلاف سینہ سپر ہے۔
ایکسپریس : حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور جماعت اسلامی اس بارے میں کیا نقطۂ نظر رکھتی ہے؟
سراج الحق: ہمیں یہ دھرتی بہت پیاری ہے۔ یہ ہماری جان ہے اور اس کے بہتر مستقبل، تعمیروترقی کے لیے سب سے پہلے امن کی ضرورت ہے جب کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امن کبھی بھی جنگ وجدل سے قائم نہیں ہوا ہے، بل کہ امن کے قیام کے لیے مذاکرات اور جرگہ سسٹم بہترین اور دیرپا حل ثابت ہوئے ہیں، چوں کہ جماعت اسلامی بھی ایک امن پسند جماعت ہے، جوہر قسم کے تشدد، چاہے اس کی شکل جیسی بھی ہو، کے خلاف ہے۔ مذاکرات کے لیے جو کمیٹی بنی ہے اس میں ہماری جماعت کا نمائندہ شامل ہے، جو جماعت ہی کے نظریات اور منشور کی روشنی میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ کمیٹی تو اپنی ذمہ داری نبھارہی ہے۔ اب یہ مرکزی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اس میں کس حد تک سنجیدہ ہے اور کس حد تک کام یاب ہوتی ہے، لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ امن کا قیام ہرصورت ہونا چاہیے اور یہ ہم سب کی اولین ذمے داری بنتی ہے کہ امن کے قیام میں اپنا اپنا کردارادا کریں۔ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان سب کو اسی ایک نکتے پر متفق ہونا پڑے گا۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اسی میں ہمارا بہتر مستقبل ہے۔ سیاسی نظریات اپنی جگہ مگر کون ایسا ہوگا جو امن نہیں چاہے گا۔ امن تو زندگی کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون ہے، جسے روکنا موت کو دعوت دینا ہے۔
ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر مذاکرات کام یاب ہوجاتے ہیں اور اس ضمن میں کوئی امن معاہدہ طے پاتا ہے تو موجودہ حکومت کے بعد آئندہ آنے والی حکومت اور طالبان ان امن معاہدوں کی پاس داری کرپائیں گے؟
سراج الحق: دیکھیں اس وقت ہم سب کی ترجیحات میں سرفہرست امن کا قیام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار امن قائم ہوجائے تو اس کے بعد کا سلسلہ بھی انشاء اﷲ امن ہی کے راستے آگے بڑھتا رہے گا اور یہ حقیقت دنیا مانتی ہے کہ جنگ اور تشدد جنگ اور تشدد ہی کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے مذاکرات اور جرگہ قیام امن کا واحد راستہ ہے۔ انہیں اپنائے بغیر ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں ہمیں عوام کو اس خوف اور دہشت سے نکالنا ہوگا اور ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہوگا، جس میں وہ بلاخوف وخطر سکھ کا سانس لے سکیں۔ ہماری پہلی ترجیح جنگ سے متاثرہ پچاس ہزار لوگوں کو بسانا، ان کی بحالی اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنا ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ امن معاہدوں کی پاس داری آئندہ دور میں فریقین اور اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حق میں نہ صرف مفید ہوگی ، بل کہ اس سے استعماری اور مخالف بیرونی قوتوں کا راستہ بھی روکا جاسکے گا۔
ایکسپریس: برادر اسلامی ملک افغانستان میں صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ آپ کی جماعت کی ہم درددیاں کس کے ساتھ ہیں؟
سراج الحق: جناب ہماری ہم درددیاں کسی فردواحد کے ساتھ نہیں، بل کہ افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں وہاں کے عوام گذشتہ تیس، پینتیس سال سے جنگ سے متاثر چلے آرہے ہیں۔ وہاں بہت تباہی ہوچکی ہے، پوری ایک نسل جنگ کے شعلوں میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، اس لیے ان کے پاس مکمل امن کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا، اس لیے پُرامن اور اسلامی افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے وہاں کے تمام طبقات کا موقف ایک ہونا چاہیے، تاکہ ایک مضبوط اسلامی افغانستان کا قیام ممکن ہو سکے۔ افغانوں کو اپنے عقیدے کے مطابق فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار اور آزادی ہونی چاہیے۔ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، وہاں کے عوام اپنے معروضی حالات کے مطابق جو فیصلہ بھی کرتے ہیں اسے تسلیم کرنا چاہیے اور کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہاں مداخلت کرے۔ اس ضمن میں پاکستان کو افغانستان اور افغانستان کو پاکستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ دونوں برادر ملک ایک دوسرے کے ساتھ مذہب اور ثقافت سمیت دیگر اقدار میں بہت سی مشترک قدروں کے امین ہیں۔
ایکسپریس: سابق صدر پرویزمشرف پر چلنے والے مقدمات کے حوالے سے سیاسی ماحول کافی گرم ہے۔ اگر مشرف کو سزا ملتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں ’’کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں‘‘ جماعت اسلامی کا اس حوالے سے کیا موقف ہے؟
سراج الحق : دیکھیں جی، اس وقت تو صرف مقدمہ پرویزمشرف پر چل رہا ہے اس لیے ہم ان کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ملک میں قانون، آئین اور ادارے موجود ہیں۔ یہ ان کا کام ہے جہاں تک پرویزمشرف کی بات ہے تو انہوں نے اپنے دوراقتدار میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ ملک کی معیشت کو تباہ کرڈالا، بدامنی کو ہوا دی، ڈرون حملوں کی اجازت دی، ان کے دامن پر پچاس ہزار بے گناہ لوگوں کے خون کے دھبے ہیں۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی طالبات کو خون میں نہلادیا، بلوچوں اور سردار اکبربگٹی کو مارڈالا، پاکستان کا آئین توڑا، اس لیے اب یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عدالت ان کے ساتھ آئین اور قانون کے دائرے میں کیا سلوک کرتی ہے؟
ایکسپریس : کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف کیا ہے؟
سراج الحق: کشمیریوں نے حق خودارادیت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضرور رنگ لائیں گی۔ جماعت اسلامی کشمیریوں کی تحریک میں ان کے ساتھ ہے، تنازعہ کشمیر کو ہر فورم پر اٹھائیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات کرے، بھارت سے بات چیت میں مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک بات کی جائے۔
ایکسپریس: الیکشن مہم کے دوران جو وعدے وعید کیے گئے تھے اس پر کتنا عمل درآمد ہو پایا ہے؟
سراج الحق: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی مخلوط حکومت کا حصہ ہے، اس لیے سارے کام باہمی مشاورت اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ جو وعدے ہم نے کیے تھے ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مثلاً ہم نے اپنے منشور میں پورے ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے، اسلامی نظام خلافت اور جدید جمہوریت کا اچھا نمونہ پیش کرنے کا عہد کیا ہے اور 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے نیشنل کارڈز بناکر ریلوے اور پی آئی اے میں نصف ٹکٹ، غریب ونادار لڑکوں اور لڑکیوں کی سرکاری فنڈ سے شادیاں، مفت صحت عامہ وتعلیم کی سہولت کے علاوہ خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور کی عظمت رفتہ کی بحالی، اسے خوب صورتی اور سرسبزوشاداب بنانے کے لیے بھرپور مہم شروع کررکھی ہے، جس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں بلاامتیاز کارروائی کرکے تجاوزات کا خاتمہ کردیا ہے، جس کے باعث ٹریفک مسائل میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ساتھ ہی بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہوم ورک مکمل کیا ہے، جس کے تحت چترال، دیر، سوات اور دیگر دریائوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بناکر 48 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے، چوں کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اس لیے معدنیات اور گیس کے وسیع ذخائر کی تلاش کے لیے فزیبیلٹی پر کام جاری ہے، جس سے معاشی انقلاب برپا ہوگا اور روزگار کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔
ایکسپریس: کیا آپ مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں؟
سراج الحق: ایک کمانڈو نے ملک کا بیڑا غرق کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس نے یہ کہا کہ اگر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو یہ مسئلہ ایک ہفتے میں حل ہوجائے گا۔ تاہم یہ مسئلہ ایسا گمبھیر ہوا کہ آج پورا ملک اس آگ میں جل رہا ہے، لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں۔ اس لیے ہم مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات اسلام آباد میں کرے اور اگر مرکزی حکومت اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتی تو خیبر پختون خوا کی حکومت پشاور میں بات چیت کا اہتمام کر سکتی ہے۔ گذشتہ ادوار کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بہت سا خون بہا اور ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اب یہ سلسلہ تھم جانا چاہیے۔
ایکسپریس: صوبائی خودمختاری اور صوبوں کے حقوق کے حوالے سے حکومتی اتحادی ہونے کے ناتے کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے؟
سراج الحق: ایم ایم اے کے دور میں بھی جب میں وزیرخزانہ تھا تو اس مسئلہ کو اٹھایا تھا اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے تھے، اب بھی ہم اس حوالے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے تمام جماعتوں کو نہ صرف اعتماد میں لیا ہے، بل کہ سابق وزرائے خزانہ سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک ایڈوائزری کونسل بھی قائم کی تھی، لہٰذا آئندہ این ایف سی ایوارڈ سے قبل مردم شماری ہونی چاہیے تاکہ صحیح اعداد و شمار کی روشنی میں آئندہ مالیاتی ایوارڈ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوسکے۔ بجلی کا خالص منافع صوبے کا حق ہے، جو 1991ء کے بعد تاحال نہیں ملا اور چھے ارب روپے پر منجمد ہے۔ وفاق کو چاہیے کہ وہ اس منافع کو این ایف سی ایوارڈ سے شروع کرے، بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق ہمارا 375 ارب روپے کا مقروض ہے اور اگر یہ حق صوبے کو مل جائے تو ہمارا صوبہ قرضہ دینے والا صوبہ بن سکتا ہے۔ مرکز کی غلط پالیسیوں کے باعث صوبے کے عوام مشکلات سے دوچار ہیں، دوسری جانب دہشت گردی کی لہر سے صوبہ بری طرح متاثر ہے۔ اس بنا پر وفاق کو چاہیے کہ جس طرح بلوچستان کو ترقیاتی پیکیج دیا گیا اس طرح خیبر پختون خوا کی بحالی کے لیے بھی پیکیج دیا جائے کیوں کہ دہشت گردی کے باعث یہاں صرف تابوتوں اور کفن سینے والوں کا کاروبار بڑھا ہے اور باقی تمام طبقات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے صوبائی عصبیت کا خاتمہ ممکن ہے؟
سراج الحق: میں سمجھتا ہوں کہ جن معاشروں میں عدل نہ ہو، میرٹ کی پامالی کی جاتی ہو، اقربا پروری کی روایت پروان چڑھ رہی ہو، طبقاتی نظام ہو، جہاں ادارے ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوں اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہو، وہاں تباہی نہیں آئے گی تو کیا پھول کھلیں گے؟ یہ کتنی افسوس کی بات ہے، یہ کتنی بے حسی ہے کہ ایک طرف صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں عوام بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مر رہے ہوں، دوسری طرف حکم ران چند میل کے فاصلے پر سندھ کلچرل شو کے نام پر قومی دولت لٹا رہے ہوں۔ کیا یہ انصاف ہے، کیا یہ انسانیت ہے، کیا یہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے؟ ایسے میں کس طرح آپ ان سے اچھائی کی توقع رکھ سکتے ہیں، مگر حکم راں یادرکھیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دیکھیے جناب! ہمیں انفرادیت اور ذات پسندی کے نظریے کو چھوڑنا پڑے گا۔ اسی میں دنیا واخرت کی کام یابی ہے، مسلمانوں کا مسئلہ پیسہ نہیں ہونا چاہیے بل کہ وژن ہونا چاہیے۔ امریکا سے گلہ نہ کریں۔ دشمن تو نعمت ہوتا ہے۔ یہ کون سا قانون ہے کہ دشمن سے گلہ کیا جائے وہ تو ہوتا ہی آپ کو زیر کرنے کے لیے اور جس قوم کا دشمن نہ ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
ایکسپریس: کراچی کی صورت حال کا حل آپ کی نظر میں کیا ہے؟
سراج الحق: کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب بھی ہے۔ ملکی معیشت کے استحکام میں اس کی حیثیت کو ہر گز رد نہیں کیا جا سکتا جب کہ دوسری طرف یہ کثیرالقومی اور ملٹی کلچرل شہر بھی ہے۔ یہاں کی جو صورت حال ہے اس پر نہ صرف میں بل کہ ہر محب وطن شہری خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پرامن کراچی ہم سب کے مفاد میں ہے اور کراچی میں قیام امن کی خاطر ہمیں بہت سوچ سمجھ کر اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے اس ضمن میں تمام قومیتوں کو برابری کی سطح پر تحفظ اور حقوق دینے ہوں گے، جب کہ دوسرے نمبر پر تمام سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ کرنا ہو گا، اسلحہ جمع کرنا ہو گا اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کی خاطر کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دینا ہوگا۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کراچی میں 25 ہزار افراد کا خون بہایا جا چکا ہے۔ اب یہ خون خرابہ بند ہوجانا چاہے، عدالتوں کو آزاد کرنا ہو گا، جب کہ اداروں کو ہر قسم کی سیاسی اثر و رسوخ سے نجات دلانا ہو گی۔ ساتھ ہی تھانوں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرا کے مکمل بااختیار بنا کر ہی کراچی امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
ایکسپریس: ہزارہ صوبے کی تحریک کے بارے میں جماعت اسلامی کا کیا مؤقف ہے؟
امیر جماعت اسلامی: صوبہ ہزارہ یہاں کے عوام کا آئینی و جمہوری حق ہے لیکن جو صورت حال اس حوالے سے آج سامنے ہے اگر پچھلی حکومت میں صوبے کے نام کی تبدیلی کے وقت اس کو ’’ہزارہ خیبر پختون خوا‘‘ کا نام دے دیا جاتا تو نہ یہ خوں ریزی ہوتی اور نہ ہی آج یہ ایشو بنتا۔ بہرحال آج نہیں تو کل جب ملک میں انتظامی تبدیلی ہوگی اور ملک کے دیگر حصے الگ صوبائی حیثیت کے لیے جدوجہد کریں گے تو ہزارہ صوبے کا مقدمہ اس فہرست میں سرفہرست ہو گا۔ تاہم اس کے لیے ملک کے آئین وقانون کے مطابق لائحہ عمل طے کرنے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی اس قسم کے تمام مسائل افہام وتفہیم سے حل ہوسکتے ہیں۔
ایکسپریس: کارکنوں کے جائز مطالبات اور جماعت اسلامی کو فعال بنانے کے لیے آپ کیا ارادے رکھتے ہیں؟
سراج الحق: دیکھیں جی! عمل ہی زندگی کا پہلا اور بامقصد اصول ہونا چاہیے جب آپ خود اسلامی طرززندگی کو اپناکر شعائر اسلام خود پر لاگو کریں گے تو آپ دوسروں کے لیے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ میری بھی یہی کوشش ہو گی کہ میں خادم بن کر نہ صرف کارکنوں کے جائز حقوق و مطالبات کے لیے جدوجہد کروں بل کہ ایک عام پاکستانی کے لیے بھی وہی سوچ اختیار کروں جو اپنے لیے رکھتا ہوں۔ تب تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، تمام معاملات نظام مصطفیٰ ؐ کے عین مطابق اور مشاورت سے اگر آگے بڑھتے رہیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک فلاحی اسلامی ریاست کے قیام میں جلد کام یاب ہوجائیں گے، جس کے تحت ہر پاکستانی شہری کو خواہ وہ جماعت سے وابستہ ہو یا دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں، کسی بھی رنگ ونسل، عقیدے اور زبان سے تعلق رکھتا ہو سب کو عدل وانصاف اور بنیادی حقوق مل کے رہیں گے۔
ایکسپریس: ملک میں اسلامی نظام حیات کے لیے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے آپ اپنی جدوجہد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
سراج الحق: جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین، مقصد و منشا اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامت دین یعنی اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضائے الٰہی کا حصول اور فلاح اُخروی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہم مملکت خدا داد پاکستان کے آئین وقانون کے مطابق جمہوری انداز میں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ تشدد کا راستہ غلط ہے۔ پُرامن جدوجہد کے ذریعے اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں، عوام کا اصل مقابلہ صرف 5 فی صد اشرافیہ سے ہے۔ ان کے خلاف اٹھنا ہو گا، استحصالی طبقے نے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو تباہ کردیا ہے۔ یہاں وسائل اور ذخائر کی کمی نہیں، انتخابی نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں، جنہیں دور کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ارکان جماعت نے جو عظیم ذمہ داریاں میرے کندھوں پر ڈال دی ہیں۔ اسے امانت سمجھ کر نبھانے کی کوشش کروں گا اور بحیثیت امیر جماعت اسلامی پارٹی منشور کو آگے بڑھاؤں گا۔
مختصرتعارف
امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ضلع دیر کے گاؤں جندول میں 5 نومبر 1962ء کو پیدا ہوئے، تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑے ہیں اور سب ان کو ’’خان لالہ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ بچپن انتہائی مفلسی میں گزارا، اسکول جانے کے لیے پانچ کلو میٹر کا طویل راستہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت میں تھے کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے 1980ء میں گورنمنٹ اسکول لال قلعہ سے میٹرک کیا، جس کے بعد گورنمنٹ کالج تیمرگرہ میں داخلہ لیا۔1981ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنا دیے گئے۔ اپنی تنظیمی ذمے داریوں پر ساری توجہ مرکوز رکھی، جس کی وجہ سے ان کی حاضریاں کم پڑگئیں اور یوں ان کو ایف اے کا امتحان دینے کی اجازت نہ ملی، دوستوں کے مشورے پر اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا،1985ء میں اسلامی جمعیت طلباء کی صوبائی نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اکتوبر 1988ء میں ناظم اعلیٰ پاکستان بنادیے گئے جس کی وجہ سے لاہور میں آبسے، قیام لاہور کے دوران پنجاب یونی ورسٹی سے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
1991ء میں یہ ذمہ داریاں اگلے امانت دار کے سپرد کردیں اور عملی زندگی کا آغاز کرکے تیمرگرہ میں کھاد کا ذاتی کاروبار شروع کردیا لیکن توجہ نہ دے سکنے کے باعث بند کردیا۔ پھر اپنے ضلع کی تحصیل ثمر باغ میں ایک پبلک اسکول کام یابی سے چلایا۔ اسی دوران جماعت کی طرف سے ان کو تحصیل کی امارت سونپی گئی۔ 1992ء میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کے پانچ بچے معراج الحق، اعجاز الحق، ضیاء الحق، قدسیہ اور عائشہ ہیں۔ ایک عرصے تک جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری رہے، دوران وزارت ان کو جماعت اسلامی کی صوبائی امارت کی بھاری ذمے داریاں بھی حوالے کی گئیں مگر اب ان کے کندھوں پر نئی ذمہ داری ڈال دی گئی، والد ’سراج الحق‘ جب کہ اماں جان ان کو ’’لالی‘‘ کہتی ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں جماعت اسلامی پاکستان کے پانچویں امیر کے طور پر منصورہ (لاہور) میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس سے قبل وہ صوبائی امیر، جنرل سیکریٹری اور مرکزی نائب امیر کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کو درپیش چیلنجز
نظر انداز کارکنوں اور جماعت اسلامی کو چھوڑکر جانے والوں کو واپس لانا، جماعتی تحریک، جماعتی اداروں کی اصلاح، برادر تنظیمات کی فعالیت، تنظیم سازی اور دعوتی پروگرامات، بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔
حلف امارت کا متن
میں فلاں ابن فلاں جسے جماعت اسلامی پاکستان کا امیر مقرر / منتخب کیا گیا ہے، اﷲ رب العاللمین کو گواہ کر کے اقرار کرتا ہوں کہ میں :
(1) اﷲ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت و وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھوں گا۔
(2) جماعت اسلامی کے نصب العین کی دل و جان سے خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھوں گا۔
(3) اپنی ذات اور ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں گا۔
(4) ارکان جماعت کے درمیان ہمیشہ عدل اور دیانت سے فیصلہ کروں گا۔
(5) جماعت کی جو امانتیں میرے سپرد کی جائیں گی ان کی اور نظام جماعت کی پوری پوری حفاظت کروں گا۔
(6) جماعت کے دستور کا پابند اور وفادار رہوں گا۔
اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو ایفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
سنیما جا کر فلم دیکھنے کا شوق
لڑکپن میں سراج الحق کے دوست جب سنیما سے واپس آکر فلم کی کہانی سناتے تو ان کا بھی دل چاہتا کہ کاش وہ بھی کسی دن سینما جا کر فلم دیکھیں تاہم شوق کے باوجود ان کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کا موقع نہ مل سکا، فلمی ستاروں میں ان کو صرف محمد علی کا نام آتا ہے، ان کے دوست محمد علی کی اداکاری کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ ان سے موسیقی کے حوالے سے استفسار کیا جائے تو نفی میں سر ہلاتے ہوئے اچانک اثبات پر آجاتے ہیں اور پشتو کے مشہور فوک سنگر فضل ربی کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں ایک آواز نے بہت متاثر کیا ہے، جو انہوں نے غیرارادی طور پر متعدد مرتبہ سنی اور ہر بار ان کی آواز میں ایک عجیب سوز محسوس کیا، وہ نظریاتی لوگوں کو عشق مجازی جیسی بیماری سے مبرا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی نظریے سے وابستہ شخص کے خیالات اتنے آفاقی ہو جاتے ہیں کہ عشق جیسی سطحی چیز کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ان کو عشقیہ اشعار اور ٹپے یاد نہیں، صرف انقلابی شاعری پسند کرتے ہیں۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض، رحمت شاہ سائل، اجمل خٹک ان کے پسندیدہ انقلابی شاعر ہیں جب کہ کلاسیکل شعراء میں رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کا تصوف پر مبنی کلام انہماک سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔