یہ ناول “Crow Eaters” جب شائع ہوا تھا تو اس وقت میں نے اسے پڑھ لیا تھا اور اخبار میں اس پر تبصرہ بھی کر چکا تھا لیکن اب جب سالوں بعد اس کا ترجمہ اردو میں شائع ہوا تو میں نے اسے یہ سوچ کر پڑھا کہ ناول میرے حافظہ میں اب محفوظ نہیں ہے اور یہ بھی ٹھیک طرح یاد نہیں کہ اس کے بارے میں میں نے کیا لکھا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں نے اس کی تعریف کی تھی۔
سب سے بڑھ کر جس بنا پر میں نے اس ناول کو سراہا تھا وہی پہلو آج بھی میرے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی اہمیت میری نظر میں اس وقت تھی۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اس ناول کے ذریعہ ہم زندگی کے ایک ایسے اسلوب سے یا ایسے طور سے شناسائی حاصل کرتے ہیں جس سے ہم اب تک بالکل ناآشنا تھے ہر چند کہ اسے بسر کرنے والے ہمارے بیچ رہ سہ رہے تھے۔ خود اردو ادب کا معاملہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی مختلف تہذیبوں کی یا مختلف گروہوں کی زندگی کے طریق زیست کی جھلکیاں نظر آئیں گی۔ مسلمانوں کی، ہندوؤں کی، سکھوں کی حتیٰ کہ اس چھوٹی سی برادری کی بھی جو انڈین کرسچین کے نام سے جانی جاتی ہے مگر پارسی برادری ہمارے فکشن سے غائب ہے۔ اردو میں پروان چڑھنے والی سماجی حقیقت نگاری نے متذکرہ بالا برادریوں کے طریق زیست کا تو بساط بھر احاطہ کر لیا۔ بس ایک پارسی برادری سے کنی کاٹ کر نکل گئی مگر کیا برصغیر کی کسی دوسری زبان کے ادب میں اس برادری کا بیان ملتا ہے۔ مثلاً ہندی میں یا بمبئی کے علاقہ کی کسی زبان میں مثلاً مراٹھی میں۔
ان زبانوں سے پوری شناسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں قطعی انداز میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر لگتا یوں ہے کہ خود اس برادری نے دانستہ اپنے آپ کو چھپا کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ غیر منقسم ہندوستان کی قومی زندگی میں وہ اپنا حصہ ڈالتی نظر آتی ہے۔ یہاں کی سیاست میں، یہاں کی ادبی تہذیبی زندگی میں۔ ثانی الذکر کی مثال پارسی تھیٹر کی روایت ہے۔ اگر اس روایت سے اردو نے زیادہ فائدہ اٹھایا تو اور وجوہ کے سوا ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پارسی قدیم ایران کی جس واقعی اور تخیلی تاریخ کے وارث چلے آرہے ہیں اس سے اردو بذریعہ فارسی شاعری بالخصوص شاہنامہ کے واسطے سے پہلے ہی سے خوب آشنا تھی۔ رستم سہراب، شیریں فرہاد، نوشیرواں عادل وغیرہ وغیرہ ان کے جانے بوجھے کردار تھے مگر قدیم ایران کے جن مذہبی عقائد اور تخیلاتی داستان و حکایات کے فیض سے ان کی تہذیب بنی تھی اسے دیارغیر میں آکر انہوں نے اتنا چھپا کر کیوں رکھا۔ یہاں مجھے فراق صاحب کا ایک بیان یاد آرہا ہے۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ ہندو اگر محکوم بھی ہو جائیں تو ان کے کلچر کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اسے گھڑے میں بند کرکے زمین میں داب دیتے ہیں۔ محکومی کا زمانہ گزرنے پر جب گھڑے کو کھود کر نکالتے ہیں اور گھڑے کا ڈھکن کھولتے ہیں تو ان کا کلچر صحیح و سالم برآمد ہوتا ہے۔
خیر ہندو تو اس نسخہ کو استعمال کر نہیں سکے۔ کیسے کر سکتے تھے؟ اتنی بڑی اکثریت جس کی تہذیبی دولت وسیع و عریض ہندوستان میں بکھری پڑی تھی ایک گھڑے یا مٹکے میں کیسے سمیٹی جا سکتی تھی۔ سو اس کا ٹکراؤ اس تہذیب سے ہونا ہی تھا جو مسلمان فاتحین، تاجر اور صوفیا اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ اس ٹکراؤ میں دونوں طرف کا کچھ بگڑا، کچھ بنا۔ دو طرفہ تہذیبی عمل میں یہی کچھ ہوا کرتا ہے اور پھر کوئی نئی شکل ابھر کر سامنے آتی ہے۔
تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ فراق صاحب کے بتائے ہوئے نسخہ کو ہندو تو استعمال کرنے سے قاصر رہے، پارسیوں نے اسے سلیقہ سے برتا۔ ان کے لیے یہ ممکن بھی تھا۔ چھوٹی سی اقلیت تھی۔ ایران سے نکلتے ہوئے تہذیب کے نام کتنی دولت وہیں بکھری چھوڑ آئے، یہاں دیار غیر میں باہر بکھرا ہوا کچھ نہیں ملتا۔ جو تھا بندھا ہوا ساتھ میں تھا۔ اسے خوب سنگھوا کر دشمنوں کی نظروں سے بچا کر رکھا۔ بیپسی سدھوا نے اپنا ناول اس کمال کے ساتھ لکھا کہ گھڑے کا ڈھکن کھل گیا اور جو کچھ اندر تھا اور جسے اب بساند ہی لگنی تھی، وہ باہر آگیا۔ اچھا بھی اور برا بھی۔
اس ناول کو جو امتیاز حاصل ہے وہ ناول نگار کا یہی جرأت مندانہ کارنامہ ہے کہ اس نے بلاتامل پارسی تہذیب کا خوب و ناخوب ہمارے سامنے بکھیر دیا ہے۔ کس طور بکھیرا ہے، سلیقہ سے یا بدسلیقگی سے یہاں سے ناول نگار کے فنی برتاؤ کاذکر لازم آتا ہے۔ اس کہانی کے نمائندہ کردار تین ہیں۔ ساس، داماد اور ایک مرغا جس میں جوانی پھٹی پڑ رہی ہے۔ مترجم نے اس مرغے کی اس صفت کے لیے قوی ایام کی ترکیب استعمال کی ہے۔ جانے ناول نگار نے انگریزی میں کیا لفظ استعمال کیے ہیں۔ میں نے قوی ایام کی عربی فارسی سے بچتے ہوئے بات سیدھی، سچی اردو میں کہہ دی ہے مگر یہ کمال کا کردار ہے۔ کتنا شاندار مرغا ہے اور ناول نگار نے کس خوبی سے اسے بیان کیا ہے کہ ایک جیتا جاگتا مرغا ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ برصغیر کی معاشرتی زندگی میں خواہ وہ مسلمانوں کی ہو یا ہندوؤں کی، ساس بہو کی لڑائی مشہور ہے۔ یہاں ساس اور داماد کے درمیان تناتنی ہے۔ بیچ میں مرغا بانگ دیتا ہوا آن کودا ہے۔ اس کردار کے بیچ میں آجانے سے ساس داماد کی آویزش میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ باقی کردار ضمنی اور ثانوی ہیں۔ ساس خرانٹ ہے۔ داماد چلتا پرزہ مگر خرانٹ ساس ہر صورت اس پر بھاری پڑتی ہے۔ مرغے پر تو وہ قابو پا لیتا ہے مگر ساس موٹی مرغی ہے، قابو میں نہیں آتی۔ داماد مرتے ہوئے اپنی ہار کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے ’’مبارک ہو، تم جیت گئیں۔ تم میرے بعد بھی زندہ رہو گی (مطلب یہ کہ دندناؤ گی)۔‘‘
پارسی زندگی اب تک اپنے شمشان گھاٹ کی طرح خاموشی کا گنبد بنی ہوئی تھی۔ اس خاموشی کو اب جا کر زبان ملی ہے۔ خوب بیان ہے پارسی جینے مرنے کا۔ اس کے لڑائی دنگے کا، چالاکیوں چالبازیوں کا، سیاسی طور طریقوں کا، انفرادی اطوار بد اطواریوں کا، رسم و رواج کا، اچھے برے شگون کا۔ ایک پوری تہذیب کا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور پھر پورے بیان میں مزاح کی ایک دبی دبی لہر دوڑتی ہوئی جس سے بیان میں ایک شگفتگی آجاتی ہے مگر یہاں تک آکر مجھے اپنے رہوار قلم کو لگام دینی پڑتی ہے۔ تقریب کا وقت سر پر آن کھڑا ہوا ہے۔ بھاگتے دوڑتے لکھو تو یہی ہوتا ہے۔ کچھ لکھا جاتا ہے، کتنا کچھ کہنے سے رہ جاتا ہے۔ ویسے میں نے لگے ہاتھوں اس بی بی کی کہانیوں پر بھی نظر دوڑا لی تھی مگر وقت تھوڑا ہے، بات کے لمبی ہونے کا اندیشہ ہے۔ ویسے اردو کے کسی بھلے نقاد سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ بیپسی کے پورے کام کا جائزہ لے۔ زیر نظر ناول کے ساتھ باقی کام کا بھی اردو میں ترجمہ ہو جائے تو اس سے ہمارے فکشن کی روایت کو ایک ایسی تہذیب کا بیان میسر آجائے گا جس سے اردو ابھی تک قدیم ایران کی دیومالا اور داستانوں سے واقفیت کے باوجود ناآشنا چلی آتی ہے۔
ناول کو اردو میں ترجمہ کیا ہے محمد عمر میمن نے۔ محمد عمر میمن نامی گرامی نقاد ہونے کے ساتھ جانے مانے مترجم بھی، کتنے اردو کے لکھنے والوں کو، ان کے کام کو انگریزی میں ترجمہ کرکے بین الاقوامی سطح پر متعارف کرا چکے ہیں۔ ساتھ میں مغربی فکشن کا اردو میں ترجمہ کرنے کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ اب انہوں نے پاکستان کے اس انگریزی ناول کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور چونکہ وہ منجھے ہوئے مترجم ہیں اور دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں اس لیے ترجمہ کی صحت پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔