زباں فہمی 139
لو میاں بَن گئے آپ کے واسطے……گُل… گُلے(گُلگُلے)
باغ میں جائیں گے اور وہاں پہ کھائیں گے……گُل …گُلے (گُلگُلے)
کچھ عرصہ قبل خاکسار نے کہیں ذکر کیا کہ بارش ہورہی ہے تو پکوڑوں کے ساتھ ساتھ، گلگلے بھی بننے چاہییں۔ گلگلے گھر گھر بننے کا سلسلہ ان دنوں بہت کم ہوچکا ہے۔ کسی ناواقف نے سوال کیا، ’’سر! یہ گلگلا کیا ہوتا ہے؟‘‘۔
اب کیا بتائیں، ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ اہل زبان کی اولادیں بھی اپنی زبان سے کماحقہ‘ واقف نہیں اور کھانے کے معاملے میں تو بہت سی چیزیں اُن کے لیے یوں نامانوس ہوچکی ہیں جیسے یہ کسی اور سیارے سے آئے ہوئے اور ہمارے پکوانوں سے ناآشنا ہوں۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
کراچی کی شناخت بریانی قرار دینے والے جدید دور کے ’علامے‘ یہ سمجھتے ہیں کہ ا) بریانی میں مصالحہ (یا مسالہ) تیز ہونا لازم ہے اور ب) بریانی میں آلو بھی پڑنے چاہییں۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک فیس بک حلقے میں خاکسار نے یہ لکھنے کی جسارت کی تھی کہ ’’بریانی میں آلو کا استعمال، بدعتِ میمنیہ ہے‘‘(یہ اصطلاح کسی فقہی کتاب میں نہیں ملے گی، کیونکہ خاکسار نے فیس بک پر لکھتے ہوئے برجستہ ایجاد کی تھی)، یعنی یہ سلسلہ میمن برادری نے شروع کیا تھا۔ اوہو، ہم نے بات شروع کی گلگلے کی اور جاپہنچے بریانی، بلکہ میمنوں تک…تو عافیت اسی میں ہے کہ ہم اپنے موضوع پر واپس آئیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت بھی لازم ہے کہ گلگلوں کا تعلق ، بارش سے نہیں، مگر ہم جیسے شوقین لوگوں نے جوڑلیا ہے۔ اب کب جوڑا، کہاں جوڑا، یہ الگ تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ پہلے ہم ناواقفین کے لیے لفظ گُلگلا کی وضاحت کردیں۔ لغت کے الفاظ میں بیان کریں تو یہ اسم مذکر ہے، ایک قسم کا پکوان ہے جو آٹے یا میدے میں مٹھاس گھول کر، اُس کا خمیر اٹھانے کے بعد گول گول تلتے ہیں (فرہنگ آصفیہ)۔ اس کی کچھ لَڈّو نُما اور کچھ چپٹی شکلیں بھی ملتی ہیں۔
میمن حضرات اسے ’’میٹھی بھَجیا‘‘ کہتے ہیں۔ رمضان المبارک میں بعض گھرانے گلگلے تلنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسم ورواج سے قطع نظر، یہ میٹھا پکوان گرمیوں کی سوغات ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھایا جاسکتا ہے کہ گلگلے درحقیقت میٹھے پکوڑے ہیں، جنھیں تل کر تیار کیا جاتا ہے اور اس قسم کے پکوان کو بعض لوگ ’’تلَن‘‘ (یعنی تلا ہوا پکوان) کہتے ہیں۔ اب کوئی ’’گلگلا نواز‘‘ اس پر تلملا نہ جائے۔
یہ ’’گلگلا نواز‘‘ ابھی ابھی ایجاد ہوا ہے (اس لیے کسی لغت میں تلاش بے سود ہے) اور ایجاد ِ بندہ یعنی ایجاد سہیل ہے۔ بنیادی طور پر تو گلگلے کا تعلق گڑ سے ہے، مگر یادش بخیر! ہم نے اپنے بچپن سے جوانی تک، کئی مرتبہ چینی سے بنے ہوئے گلگے بھی کھائے ہیں….ہائے والدہ مرحومہ کے جانے کے بعد، یہ سلسلہ، کم ہوتے ہوتے، تقریباً موقوف ہی ہوگیا۔ ویسے دیکھیں، بارش شروع ہو تو شاید ’’گھریلو سرکار‘‘ ہماری درخواست /فرمائش پر گلگلے کا اہتمام کرے (احتیاطاً لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے، ورنہ……….آپ کو معلوم ہی ہے کہ اشاعت کے بعد ، اگر پڑھ لیا تو کیا ہوگا اس گلگلا نواز کے ساتھ)۔
چینی کی بات پر عرض کروں کہ اردو لغت بورڈ کی مختصر اردو لغت جلد دُوَم میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ گلگلا آٹے میں شکر ۔یا۔گڑ وغیرہ گھول کر تیل ۔یا۔گھی میں تلا ہوا ایک شیریں پکوان ہے۔
اردو زبان کی چاشنی میں ان محاوروں اور کہاوتوں کا بہت بڑا حصہ ہے جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق کسی پکوان یا غذا سے ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ ہے: گُڑ کھائیں، گُلگُلوں سے پرہیز۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی کام کے ایک حصے سے (دوسرے میں شامل ہوتے ہوئے بھی) انکارکرے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر محمدحسن ایک ڈھنگ کے کام کرنا اور اسی سے متعلق دوسرے کام نہ کرنا (فرہنگ اردو محاورات)۔ فرہنگ آصفیہ کی رُو سے ’’گڑکھانا، گلگلوں سے پرہیز کرنا‘‘ فعل متعدی ہے اور اس کے مفاہیم یہ ہیں:
کسی شخص سے دوستی کا اظہار کرانا اور اُس کے باپ یا بیٹے سے تنگ آنا، ایک ڈھنگ کے کام کرکے دوسرے اُسی ڈھنگ کے کام سے انکار کرنا، ادنیٰ برائی سے بچنا اور اعلیٰ برائی سے پرہیز نہ کرنا، خفیف سی بدنامی سے بچنا اور بڑی بدنامی کا خیال نہ کرنا ، بڑی گٹھڑی کو حلال اور چھوٹی بُقچی کو حرام سمجھنا۔ ہمارے بزرگ معاصر محترم سرورعالم رازؔ نے اپنی کتاب ’’کہاوتیں‘‘ کی جلد دُوَم میں، اسے بجائے محاورے کے، کہاوت قرار دیتے ہوئے یوں مفہوم بیان کیا: ’’گُڑ کھائیں، گلگلوں سے پرہیز: گلگلے گڑ سے بنائے جاتے ہیں۔ اگر اصل اور بڑی چیز شوق سے اختیار کرلی جائے لیکن اس سے نکلی ہوئی چھوٹی اور کمتر چیزوں سے پرہیز کیا جائے تو یہ بچکانہ بات ہو گی۔ ایسے ہی موقع پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے‘‘۔
محا ورے میں کسی کی ناک کو ’’گلگلا جیسی ناک‘‘ کہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ پکوڑے نما، موٹی اور اُبھری ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اور محاورہ ہے ’’کُونڈا بھرنا‘جس کی تفصیل میں بیان کیا گیا کہ برعظیم پاک وہند کی مسلمان خواتین، سیدہ (بی بی، احتراماً) فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کے ایصالِ ثواب کے لیے مٹی کے کونڈے میں کچوریاں، پُوڑے ، میٹھے گلگلے اور کھیر بھر کر نیاز دلاتی ہیں جسے علاقے اور برادری کے فرق سے، کہیں بیوی (بی بی) کا دانہ یا کونڈا، تو کہیں بیوی (بی بی) کی صحنک یا نیاز تو کہیں بیوی (بی بی) کی فاتحہ کہا جاتا ہے یا کہا جاتا تھا۔
پُوڑا بھی گلگلے ہی کا دوسرا نام ہے (فرہنگ آصفیہ)۔ فرہنگ آصفیہ کے بیان کے مطابق (جویقیناً سینہ گزٹ سے زیادہ کچھ نہیں) یہ رسم مغل بادشاہ جہانگیر کی بیوی جودھا بائی نے نورجہاں کے، شیراَفگن (علی قُلی خان) کے نکاح میں رہتے ہوئے، بادشاہ سے آنکھ مٹکّا کرنے کے جواب میں شروع کی تھی۔ (میری دانست میں اس طرح کی حکایات کسی بھی معاملے میں منفی پرچار کرنے والے گھڑ کر مشہور کردیا کرتے ہیں اور انھیں عموماً تاریخی سند حاصل نہیں ہوتی)۔
یہ بھی بیان کیا گیاکہ یہ نیاز محض پارسا اور سہُاگن عورتوں کو کھِلائی جاتی تھی اور سید زادیوں کو کھلانا بدرجہ اولیٰ اچھا سمجھا جاتا تھا۔ بندہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ہمارے رواج میں شامل یا داخل، فاتحہ نیاز کو بھی اس طرح کی پابندیاں عائد کرکے دیگر دنیوی (دنیاوی غلط ہے) رسوم کی طرح، دوسروں یعنی مخالفین کے لیے اعتراض کا موقع فراہم کردیا گیا ہے۔ غُلو یا مبالغہ بہرحال ہرگز جائز نہیں۔
گلگلے سے متعلق ایک محاورہ اپنی اصل کے اعتبار سے کہاوت جیسا ہے: مَسْجِد میں گُلْگُلے چَڑھانا (نیز ’طاق بھرنا‘) یعنی اپنی دلی مراد پوری ہونے پر مسجد میں مٹھائی رکھنا یا گلگلے رکھنا۔
یہ سلسلہ بھی کبھی مسلم خواتین کے یہاں ہوا کرتا تھا۔ اصل میں یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ چونکہ میٹھا کھانا سنت ِ رسول (ﷺ) ہے، علماء و صوفیہ کرام نے بھی اسے بطورتقلید سنت عام کیا، لہٰذا، عوام الناس میں ہر موقع پر فاتحہ نیاز کے لیے میٹھے پکوان پکانے کا رواج عام ہوا۔ اس کی کوئی دوسری توجیہ نہیں۔ دیکھا جائے تو ’’منھ میٹھا کرنا/کرانا‘‘ کا پس منظر بھی یہی ہے کہ کسی کو خوش کرنے کے لیے کوئی میٹھی چیز دی جائے ;غالب امکان یہی ہے کہ وہ پسند کرے گا۔
بعض برادریوں میں یہ رواج تھا کہ شادی بیاہ کے موقع پر دونوں طرف کی خواتین جمع ہوکر رَت جَگا کرتیں اور پھر صبح سویرے دُلھا یا دُلھن کی خالہ یا پھوپھی، ڈھولک کی تھاپ پر ساری رات گیت گانے والی لڑکیوں بالیوں کو گلگلے تل تل کر کھلاتیں اور مابعد یہ گلگلے اُن کے ہمراہ گھر بھیجے جاتے اور ہمسایوں میں بھی تقسیم کیے جاتے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے بجائے آٹا گوندھنے کے، بڑے سے ٹب میں آمیزہ تیار کرکے ، گیس والے چولھے پر گلگلے بنائے جاتے ہیں ۔
آن لائن تحقیق کے سفر میں انکشاف ہوا کہ کچھ لوگ گلگلے کے نام پر پکوڑے بناکر اسے آلو بخارے کی چٹنی اور دال کے پھُلکے کے ساتھ ملا کر کوئی عجیب سا پکوان تیار کرتے ہیں۔ مزید دیکھا تو پتا چلا کہ یہ گلگلا اصل میں دال کا بنا ہوا ہی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کے گھریلو پکوانوں میں چنے کی دال سے بنے ہوئے گلگلے سب سے زیادہ مشہور اور مزے دار ہوتے ہیں۔ حد ہوگئی یعنی اس میٹھے پکوان کی تو پنجابی میں ’’بِستی (بے عزتی) خراب ہوگئی‘‘۔
بھئی ہمارے گھروں میں دال سے بننے والے پکوڑوں میں منگوچھیاں مشہور ہیں، موُنگ کی دال سے بنے ہوئے اور ماش کی دال کے ’’بڑے‘‘ یعنی دہی بڑے، ویسے دال سے بنی ہوئی ایک چیز ’’بڑیاں‘‘ بھی ہوتی ہے۔ {بات کہیں اورنکل جائے گی، مگر قلم برداشتہ ، بلکہ Mouse برداشتہ لکھتے ہوئے یاد دلاتا چلوں کہ بَڑ یعنی برگد کے پھل کو بڑولی اور جمع کے طور پر بڑولیاں کہتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین میں سلسلہ ’سخن شناسی‘ کے ایک مضمون میں خاکسار نے برگد کے متعلق لکھتے ہوئے یہ لفظ استعمال کیا تھا:https://www.express.pk/story/928351/}۔ اسی طرح ایک مشہور ’باورچن‘ خاتون نے اپنے ٹی وی پروگرام میں ’’آم کے گلگلے‘‘ بنانا سکھائے جو اَب انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
(معذرت خواہ ہوں کہ Shefکو خانساماں کہنا بھی تو اچھا نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ وہ خانِ ساماں یعنی گھر کے تمام سامان اورسودا سلف کی خریداری وغیرہ قسم کے امور کا نگراں یا منتظم ہوا کرتا تھا اور درباروں میں بڑا اہم منصب تھا جسے محض باورچی خانے تک محدود سمجھ لیا گیا۔) بندہ اس بابت سوائے اس کے کیا کہے کہ ’’آم شریف‘‘ کے ساتھ ایسا سلوک بھی ممکن ہے، یہ کبھی سوچا نہ تھا (آم کو یہ لقب اسی خاکسار نے دیا تھا۔
آج سے کوئی پانچ سال پہلے، روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین میں سلسلہ ’سخن شناسی ‘ کا اولین مضمون کا عنوان تھا: الف سے آم شریف، مطبوعہ 4جون2017ء: https://www.express.pk/story/834611/)۔ {صاحبو! گڑ کے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا گیا، خاکسار کے ایک مضمون بعنوان ’’قند، شکرقند، زقند اور سمرقند‘‘ بہ سلسلہ ’سخن شناسی (مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ 23 جولائی 2017ء میں بھی اس پر خامہ فرسائی شامل تھی۔: https://www.express.pk/story/883136/۔ ضمنی بات یہ ہے کہ ابھی کچھ ماہ پہلے، سر راہ چلتے ہوئے، ایک ٹھیلے پر نظر پڑی تو راقم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اُس سندھی شکرقند فروش نے جلی حروف میں لکھا تھا، شکر گند۔ ذہن میں ایک کوندا سا لپکا کہ ہماری ساری لسانی تحقیق ایک طرف، عین ممکن ہے کہ قدیم سندھی کا یہ نام یا مرکب لفظ ہی درست ہو اور شکرگند بمعنی گند ۔یا۔مٹی میں اَٹی ہوئی شکر ہی اصل ہو جسے زبان کے ارتقائی سفر میں شکرقند کردیا گیاہو۔ ماہرین لسانیات توجہ فرمائیں!}۔
چونکہ بات گلگلے اور گڑ دونوں ہی سے متعلق ہے، لہٰذا بندہ اپنے پرانے مضمون بعنوان ’’چینی گڑیا اور گڑیا چینی‘‘ بہ سلسلہ ’سخن شناسی‘ ، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین ، مؤرخہ 18جون 2017ء سے اقتباس، بطور قندمکرر پیش کرنے پر مجبورہے:
سوال یہ ہے کہ یہ گُڑیا چینی کیا ہے؟ اب یہاں ایک بڑی حیران کُن بات ہے، آپ سب کے لیے، خصوصاً انگریزیت کے مارے، برگر [Burger] افراد کے لیے…..یہ گُڑ سے بننے والی وہ چینی ہے جسے اِن دنوں، معالجین کی ہدایت پر خوب استعمال کیا جارہا ہے یعنی ’فادری‘ زبان میں Brown sugar۔ کہیے کیسا Surpriseہے؟؟ بات کی بات ہے کہ ہم نے اپنے بچپن سے گڑیا چینی کا استعمال بھی خو ب کیا اور اس کا یہ نام بھی خوب سنا، مگر آج اس مضمون کے لیے متعدد لغات دیکھیں تو یہ نام کہیں نہ دکھائی دیا، یعنی یہ کسی خاص علاقے یا شہر کی مخصوص بولی میں رائج نام ہے۔
اب یہاں راقم قیاس ہی کرسکتا ہے کہ غالباً راجستھان میں چینی کی اس قسم کو یہ نام دیا گیا ہوگا۔ (اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارا آبائی تعلق تو ہاپڑ، میرٹھ [ہندوستان] سے ہے، مگر ہمارے والدین وہاں پیدا نہیں ہوئے۔ میرے والد صاحب نے بچپن کا کچھ عرصہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں گزارا، خاص کر آخری دو سال راجستھان کی ایک چھوٹی سی ریاست ’کوٹہ‘ میں بسر کیے، جہاں اُن کی پھوپھی کا گھرانا آباد تھا۔
میں نے اپنے تایا سے بھی لفظ گڑیا چینی خوب سنا جو والدصاحب سے اٹھارہ بیس سال بڑے تھے اور اُن سے زیادہ اُس علاقے میں رہ چکے تھے، لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہ لفظ اس علاقے کی مقامی اردو میں زیادہ مستعمل ہو)۔ یہ ہے اردو کا حسن کہ لفظ کہیں کا بھی ہو، اسے قبول عام مل جائے تو کوئی ’’خاص‘‘ بھی تب تک رَد نہیں کرسکتا جب تک کوئی لسانی اصول پامال نہ ہورہا ہو۔
اب گُڑ کے گُر بھی دیکھ لیے جائیں تو کیسا۔ گنّے کے رَس سے تیار ہونے والا یہ میٹھا مواد کئی شکلوں میں گھریلو، دوائی اور تجارتی استعمال کے لحاظ سے نہایت مفید ہے۔ کچھ عرصہ قبل میرے ایک سسرالی رشتہ دار پنجاب سے تشریف لائے۔ ماشاء اللہ تعلیم یافتہ اور سرکاری ملازم ہیں۔ بے چارے خواہ مخواہ اِس حقیر پُرتقصیر سے بہت زیادہ مرعوب دکھائی دیے۔
اثنائے گفتگو استفسار فرمایا کہ ہاضمے کے لیے کوئی خاص چیز یا دوا ہوتو بتائیے، بڑا مسئلہ رہتا ہے، ریاحی۔ خاکسار نے اپنی ہنسی اور حیرت ضبط کرتے ہوئے کہا، حیرت ہے، آپ کا تعلق دیہات سے ہے اور آپ کو گُڑ کے فوائد کا پتا نہیں۔ ہر کھانے پر ایک ٹکڑا گُڑ کا کھالیا کریں، ان شاء اللہ شفاء ہوگی۔ وہ بہت ممنون ہوئے اور بندہ حیران و پریشان ہوا کہ الہٰی! کیا دور آگیا ہے۔ پہیا اُلٹا چل رہا ہے۔ گاؤں کی قدیم دانش کہاں گئی، شہر ی کو یہ بات بتانی پڑگئی جو اُس شریف آدمی کو معلوم ہونی چاہیے تھی۔ یہ ہے نتیجہ مدنیت کے حد سے زیادہ فروغ (Urbanization) [ کا کہ لوگ نہ صرف خاندانی پیشے بھول گئے، بلکہ لوک روایات بھی دم توڑنے لگی ہیں۔ ………..گڑ کا استعمال پیٹ کی خرابی کے علاج کے لیے حُقے کے ذریعے بھی کیا جاتا تھا اور شاید اب بھی کہیں یہ روا ج ہو۔ یہ کوئی ٹوٹکا نہیں، بلکہ اطِباء کا تجویزکردہ، باقاعدہ علاج ہے۔ گڑ کا پانی گرمی مارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
گُڑ کی شیرینی میں کیری یا آم ڈال کر ایک حرِیرہ بنایا جاتا ہے جسے ’گڑانبہ۔‘ یا ۔ علاقائی تلفظ میں گُڑَمبہ کہتے ہیں۔ اس کا رواج کم ہے، مگر ہم نے تو اپنے والدین کو دیکھا کہ پکے ہوئے آموں کا گودا اور رس نکال کر، اس میں تھوڑا سا مسالا یا پِسی ہوئی مرچ ڈالی اور سالن کے طور پر، روٹی سے کھالیا اور اُسے بھی گڑمبہ کہا کرتے تھے۔ اب ہمارے یہاں بھی یہ چیز بنے ہوئے مدت ہوگئی۔…………………چھوٹے گلگلے کو گلگلی کہتے ہیں۔ [https://www.express.pk/story/849400/]
گُڑ سے شروع ہونے والے دیگر محاورات یہ ہیں:
گُڑ بھرا ہنسیا، نہ نگلتے بن پڑتا ہے نہ اگلتے: نہ کیے ہی بنتی ہے نہ چھوڑتے
گڑسے مَرے تو زہر کیوں دیجئے: نرمی سے کام نکلے تو سختی کیو ں کریں
گڑ کھائے گی تو اَندھیری میں آئے گی: جو لالچ کرے گا ،وہ کام کرنے پر مجبور بھی ہوگا۔
گڑنہ دے، گڑ کی سی بات تو کہے (کرے): کام نہ کرسکے تو نرمی سے بات تو کرے۔
گڑہوگا تو مکھیاں بہت: دولت ہو تو کام کرنے والے بہت۔
گڑہوگا تو مکھیاں بہت آجائیں گی: غرض پوری کرنے کا سامان ہو تو غرض والے بہت آجائیں گے۔n
The post زباں فہمی؛ گُڑکھائیں، گُلگُلوں سے پرہیز appeared first on ایکسپریس اردو.