22جنوری2021کی ایک روشن صبح ہماری گاڑی سڑک کے دونوں جانب آباد شہروں اور بستیوں کے مکینوں کومحو خواب چھوڑتے ہوئے موٹر وے پر دوڑ رہی تھی۔
شہروں کی بے ہنگم شور اور دوڑتی بھاگتی تیز رفتار زندگی سے چھٹکارہ پانے کے بعد اب ارد گرد کی فضا مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔ اسلام آباد کے پہلے انٹر چینج سے نکلتے ہی تا حد نگاہ گندم اور پھولی ہوئی سرسوں کے وسیع و عریض کھیتوں نے طبیعت کو تر وتازہ کر دیا۔
سیاہ تارکول کی کشادہ سڑک پر گاڑی کے انجن کو جو آسودگی نصیب ہوئی تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ایکسلیریٹر پر پاؤں دبتا چلا گیا اور رفتار بتانے والی سوئی 130کو چھونے لگی۔ گاڑی میں موجود اپنی فیملی کے خیال سے رفتار کو فوراً کم کیا۔
میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ صوابی ،بونیر اور دیر کے علاقے جو کچھ عرصہ پہلے تک طالبان اور دہشت گردی کی پہچان بنے ہوئے تھے اس قدر خوبصورت ہوں گے۔ ہمیں گھر سے نکلے پانچ چھ گھنٹے ہو چلے تھے جب دریائے سندھ کی قربت کا احساس ہوا تو گاڑی روک لی۔ گھر سے جو بریانی بنا کر ساتھ رکھی تھی سندھ ساگر کے حیات بخش پانیوں کو چھو کر آتی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کھائی۔ سندھ وہ قدیم دریا ہے جس نے نہ جانے کتنی انسانی بستیوں کو سیراب کیا، کتنی قدیم آبادیوں کھیتی باڑی کو ممکن بنایا اور کتنی تہذیبوں کی بربادی کا چشم دید گواہ بھی ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے جب آپ کرنل شیر خان انٹرچینچ سے شمال مشرق کا رخ کرتے ہیںتو موسم بدل سا جاتا ہے ۔آپکے دائیں بائیں آڑو ، مالٹا اور جاپانی پھل (پرسیمون) جسے وہاں مقامی زبان میں املوک کہا جاتا ہے ،کے باغات کثرت سے دکھائی دیتے ہیں جن کی ٰتراش خراش ایک ہی مخصوص انداز میں کی گئی ہے۔ یہ پھل پاکستان میں نہیں پایا جاتا تھا بلکہ اس کا اصل وطن جاپان نہیں بلکہ چین ہے جہاں سے یہ جاپان اور پھر پاکستان پہنچا۔
اس کے باغات آج کل برگ وبار سے عاری تھے کہ ان پہ پھل موسم بہار میں آ تا ہے ۔ایک اور بات کا بطور خاص ذکر کر نا چا ہوں گی ’جو ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والے لوگ محسوس کرتے ہیں‘ کہ یہاں سڑک کے دونوں طرف اعلی نسل کی گاڑیوں کے شو رومزہیں۔ جن میں سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں کوڑیوں کے بھاؤ بک رہی ہیں مگر جونہی یہ پنجاب میں آئیں گی ان کی قیمتیں آسمانو ں کو چھونے لگیں گی۔ ان گاڑیوں پر وہاں کے مکینوںکی اجارہ داری ہے۔ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ایک ہی ملک کے اندر ایسا تضاد نہیں ہونا چاہیے۔
وادی سوات انتہائی خوبصورت اور مختلف مذاہب کے حوالے سے مقدس ومعتبر خطہ ارضی ہے جو دریاؤں ،جھیلوں ،جھرنوں ،برف پوش چوٹیوں سے مالا مال ہے۔ بتاتی چلوں کہ وادی سوات کی ایک دوسری بڑی وجہ شہرت مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی آماجگاہ ہونا بھی ہے۔ وادی سوات اپنے دامن میں پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیبی آثا رکھتی ہے۔ جن میں سب سے پہلے میں ذکر کرتے ہیں ادھیانہ سلطنت کا ۔
ادھیانہ سلطنت
تبتی ادب کے مطابق ادھیانہ سلطنت بھارت کے شمال مغرب میں واقع ایک انتہائی خوبصورت اور مقدس سر زمین ہے۔کیونکہ ان کے (بدھ مت) دوسرے بدھا کا جنم اسی علاقے میں ہوا تھا اور یہیں سے بدھ مت مشرقی ایشیائی ممالک سے لے کر جاپان تک پہنچا۔ بدھ مت کے پیروکاروں کو اس زمین کے ذرے ذرے سے پیار ہے۔ڈاکٹر لوکا ماریہ جو ایک اطالوی ماہر آثار قدیمہ ہیں وہ گذشتہ ستائیس سال سے سوات میں کھدائی کے مشن کے انچارج ہیں۔
ان کے بقول، ادھیانہ سلطنت دراصل سوات کی ہی سر زمین تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ علاقہ کبھی ادھیانہ سلطنت کہلاتا تھا۔ اس بات کے آثار اب کہیں کہیں نظر آنا شروع ہو گئے تھے کیونکہ سڑک کے دونوں طرف جابجا لگے سائن بورڈز ان اسٹوپاز کی طرف رہنمائی کر رہے تھے جو سڑک کے دونوں طرف موجود تھے۔ یہ اسٹوپے بدھ مت کی خانقاہیں ہوا کرتیں تھیں جہاں بدھوں کی دینی و دنیا وی تربیت کی جاتی تھی۔
اگر بات کی جائے گندھارا تہذیب کی، توگندھارا بھی اسی علاقے کو کہا جاتا تھا جس کا مرکز ادھیانہ سلطنت ہی کے علاقے تھے ۔ گندھارا تہذیب مختلف تہذیبوں جیسے یونانی، ساکا پار تھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ تھی۔ جو یہیں سے نمو پا کر ایک طرف تو روس کے دریائے آمو تک جا پہنچی تو دوسر ی طرف خطہ پوٹھو ہار کو چھونے لگی ۔ قارئین! یہ اس وقت کی بات ہے جب کبھی پشاور’’پرش پور ‘‘اور چارسدہ ’’پشکلاوتی ‘‘کہلاتا تھا۔ اس وقت سکندر اعظم کی آمد ٓامد تھی (327ُّؑ قبل مسیح)۔
سہہ پہر کے تین بج رہے تھے ۔ منہ اندھیرے شروع ہونے والا سفر ابھی تک جاری تھا ۔املوک درہ اسٹوپہ کا سائن بورڈ ہمارا مرکز نگاہ ٹھہرا جس کا سڑک سے فاصلہ محض سات کلو میٹر تھا ۔ پہاڑی علاقوں کے فاصلوں پہ کبھی مت جائیے، میدانی علاقوں کے تین چار کلو میٹر پہاڑی علاقوں کے دس کلو میٹر بن جاتے ہیں۔ سڑک کی اچھی حالت دیکھتے ہوئے گاڑی املوک درہ کی طرف موڑ دی ۔ آدھے گھنٹے بعد پتا چلا کہ ابھی آدھا راستہ باقی ہے۔
اس کے ساتھ ہی گاڑی ایک گاؤں میں گھس گئی جس کا نام بھی شاید املوک درہ تھا۔ اس پہاڑی گاؤں کے تنگ مگر اونچے نیچے راستوں پر خوار قسم کی مشق کے بعد بالآخر ہم گاؤں سے باہرنکل آئے اور ایک پہاڑی نالے کا تنگ سا پل عبور کر کے نالے کے ساتھ ساتھ چلتے آگے بڑھے تو بالآخر املوک درہ اسٹوپہ کے آثار نظر آنے لگے۔ گاڑی ایک طرف پارک کی، پانی کی بوتل لی اور چل پڑے۔کچا پکا دس منٹ کا پیدل راستہ طے کرنا ابھی باقی تھا جس کے اطراف میں آڑو اور املوک کے باغات تھے، جنھیں دیکھ کر اس علاقے کے نام کی وجہ تسمیہ سمجھ آ رہی تھی ۔گاؤں کے جوان اور بچے بھی ہمارے پیچھے ہو لیے تھے۔
جنھیں دیکھ کر لگا کہ ہم شاید کوئی انوکھی مخلوق ہیں۔ موسم کے تیور بدلنے لگے تھے ،ویسے بھی سردیوں کے سورج کو ذرا جلدی ہوتی ہے۔ ہوا خاصی سرد ہونے لگی تھی اور ہمارا مختصرسا قافلہ میر کارواں (میرے شوہر ایڈووکیٹ آصف مسعود )کی رہنمائی میںرواں تھا۔ دس منٹ کی مسافت کے بعد ہم اسٹوپہ کے پاس تھے مگر یہ اسٹوپہ کا پچھلا حصہ تھا۔گھوم کر سامنے آئے تو احساس ہوا کہ اس کا ایک بڑا حصہ منہدم تھاجو غالباً خزانے کے متلاشی لوگوں کی کار ستانی تھی ۔
وہ بدھ جن کا مرکزی مذہبی نظریہ ہی مادیت پرستی کی نفی کرتا ہے وہ بھلا ان اسٹوپوں میں کیا خزانے چھپائیں گے۔ (دراصل بدھ مت میں دولت جمع کرنے کا رحجان اشوکاکے بدھ مت کوقبول کرنے کے بعدآیا)بدھ مت کے آغاز میں کسی بدھ بزرگ کے مرنے کے بعد اس کے کچھ اعضاء ایک جگہ دفن کر کے ان کے ارد گرد گول دائرہ بنا کر اوپر چتر بنا دیا جاتا تھا۔ جو بعد ازاں اسٹوپہ کی شکل اختیار کر گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اشوکا نے چوراسی ہزاراسٹوپے تعمیر کروائے۔ وادی سوات میں ان کی بھرمار دیکھ کر لگتا ہے کہ ان میں سے آدھے تو یہاں سوات ہی میں ہوں گے۔ حقیقت میں یہ اسٹوپے تاریخ کے اوراق پہ لگی وہ مہریں ہیں جو اس وقت کے مذہب اور تہذیب کی یہاں موجودگی کو سند بخشتی ہیں۔
سٹوپے کے سامنے کی طرف آ کر دیکھا تو املوک گاؤں کافی نیچے رہ گیا تھا اور آپ کے قدموں میںایک ایسی دنیا موجود تھی جو کبھی سانس لیتی تھی، اس کا بھی وجود تھا۔اسٹوپہ کے نیچے دامن میں بدھ بھکشوؤں کے رہائشی کمرے تھے جو اتنے چھوٹے تھے کہ ایک کمرے میں صرف ایک بھکشو اپنے گیان دھیان میں مصروف رہ سکتا تھا ۔سامنے دالان میں ایک حوض بنا ہوا تھا جس میں اب بارش کا پانی کھڑا تھا۔
ایک چیز کا خاص طور پر تذکرہ کروں گی کہ گندم پیسنے والی چکی کے پاٹ، جن کی قطر ایک روٹی کے سائز سے لیکر پن چکی کے پاٹ جتنا تھا وہاں بکثرت بکھرے پڑے تھے۔ شاید ان اناج پیسنے کا کام لیا جاتا ہو۔ تہہ در تہہ چپٹے پتھروں سے بنی یہ عمارت جہاں بدھا کے پیروکاوں کی اس سے دلی عقیدت کا پتہ دیتی تھی وہیں پر یہ پتھر گزری ہزار ہا صدیوں کے راز دار بھی تھے جنھیں دیکھ کر یہ خواہش جاگتی کہ کاش یہ بھی بول سکیںاور ہمیں کچھ بتلا پائیں ۔۔۔۔
وادی سوات کے ہی ایک شہرجہان آباد میں مہاتما بدھ کا طویل القامت مجسمہ بھی ہے جس کی اونچائی چھے میٹر ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کچھ سال پہلے تک یہاں پر بہت سے زائرین آیا کرتے تھے جن سے مقامی آبادی کو بہت فائدہ بھی پہنچتا تھا۔ ہم یہاں سے فوراً نکلنا چاہتے تھے کہ ہماری شب بسری کا سامان مینگورہ شہر میں تھا ۔مینگورہ قدرے گرم شہر ہے جو دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔ یہاں رات بھر کے قیام کے بعد اگلے روز ہماری منزل ’’مالم جبہ‘‘تھا ۔ ہم اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صبح سویرے نکل کھڑے ہوئے کہ حتی الامکاں رش سے بچا جا سکے ۔
صبح صبح مزے سے سفر جاری تھا ۔آ س پاس سے گھر گھر کر آنے والے بادل بار بار لپیٹ میں لے لیتے اور سکرین کو بھگو دیتے۔اس کے ساتھ ساتھ دریا کا شور اس خوبصورتی اور ہیبت ناکی میں اضافہ کر رہا تھا ۔
مینگورہ سے مالم جبہ کا فاصلہ 42کلو میٹر ہے۔ابھی آغاز سفر تھا کہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کی چھتیں برف سے لدی پھندی دیکھ کر دل میں ایک ہوک سی اٹھنے لگی کہ ہم مینگورہ میں خواب غفلت میں پڑے رہے اور مالم جبہ میں برف باری ہو گئی جو ہم اتنی دور سے دیکھنے آئے تھے۔ دل سے دعائیں نکل رہی تھیںکہ اللہ میاں یہ منظر دن میں بھی دکھا دینا،کہ پچھلی سیٹ سے شور بلند ہوا ،بھوک!بھوک!ناشتہ کب ملے گا؟سڑک پر کوئی ریسٹورینٹ نہ تھا۔
چھوٹے موٹے ہٹس تھے جہاں ناشتہ کا اہتمام تھا ۔ایک قدرے صاف سا ہٹ دیکھ کر رک گئے۔ دو بچے قریب آئے اور پوچھنے لگے ’’آپ ناشتہ میں کیا لیں گے‘‘۔ ہم حیران ہوئے کہ تم لوگ ناشتہ بنائو گے۔ بولے نہیں وہ نیچے ہماری ماما نے ناشتہ بنانا ہے۔
ہم نے کہا ،چلو !پراٹھا آملیٹ لے آئو۔آملیٹ تو بچے بنانے لگ گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ہٹ کے ساتھ نیچے سیڑھیاں اترتی تھیں ۔جہاں ایک ٹین کی چھت والی رسوئی میں خاتون کام میں مگن تھیں جو یقینا ہمارے لئے کھانے کا اہتمام کر رہی تھیں ۔
بادل بہت گھنے ہو رہے تھے سردی بھی بہت تھی۔ ہوا میں ہلکے ہلکے برف کے ذرات ہلکورے لے رہے تھے ۔ہم لوگ سڑک کے کنارے کرسیاں بچھائے مالم جبہ سے آنے والی برف سے لدی گاڑیوں کو حسرت سے دیکھ رہے تھے کہ ناشتہ آ گیا۔ایسے موسم میں گرم گرم ناشتہ اور چائے دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔ابھی چائے کا کپ پکڑا تھا کہ فضا میں موجود برف کے ذرات پھولنے سے لگے۔بھاری بلیک جیکٹس پر سفید گالے نظر آنے لگے۔
ایک میز بان بچہ بولا ،صاحب!اوپر برف باری شروع ہو گئی ہے۔ ہم نے چائے وہیں چھوڑی اور نکل کھڑے ہوئے مگر ابھی فاصلہ کافی تھا ۔ دریائے سوات نے بھی چپکے سے راستہ بدل لیا تھا ۔وہ اب ہمارا ہم راہی نہ تھا۔ برف سے اَٹے ہونے کے باعث درخت اپنی شناخت کھو چکے تھے۔ سڑک کے اطراف میں برف کے ڈھیر جمع تھے۔اس کے ساتھ ساتھ برف ہٹانے کا کام جاری تھا ۔
ابھی تقریباً دس کلو میٹر کا فاصلہ باقی تھا کہ سڑک کے اطراف میں پڑی برف کے باعث ٹریفک رک گئی۔ ہمارے آگے گاڑیوں کی لمبی قطار لگ گئی تھی، دیکھ کر پریشانی ہوئی۔ پتہ چلا کہ گاڑی کے ٹائروں پر چین چڑھائی جائے گی کیونکہ اس کے بغیر سفر نا ممکن ہے۔
چین والے نے دو ہزار روپے مانگے، مول تول کے بعد 1500 طے ہوئے۔ اس جھنجھٹ سے نکلے تو گویا آگے ایک برف کا ریگزار تھا اور بہت زیادہ رش تھا ۔ گاڑی کی پارکنگ کے لئے بہت مشکل سے جگہ ملی ۔مالم جبہ کی سطح سمندر سے اونچائی 9199فٹ ہے۔ مالم جبہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اپنی اچھی اونچائی کے باعث سردیوں میں مکمل طور پر برف سے ڈھک جاتا ہے۔اپنے اسکینگ کے مقابلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
یہ سیاحتی مقام مشہور سلسلہ کوہ ہندو کش میں واقع ہے۔مقامی لوگ اسے’’ ملم جبہ ‘‘بھی کہتے ہیں۔اب یہاں پہنچ کر اگلا مرحلہ چئیر لفٹ کے ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد ٹاپ پر جانا تھا ٹکٹ کائونٹر پر ایک لمبی لائن دیکھ کر اپنے خاتون ہونے کا فائدہ اٹھایا اور لیڈی کائونٹر سے ٹکٹس حاصل کر لیں۔ ایک ٹکٹ 800میں ملی جو میرے خیال میں مہنگی تھی ۔اس بارے میں محکمے کو سوچنا چاہئیے۔
مگر چئیرلفٹ کا اپنا ہی مزہ تھا۔جب آپ اتنی اونچائی پر اس طرح ہوا میں سفر کر رہے ہوں تو لگتا ہے شاید آپ سفید بادلوں کے اوپر پہنچ گئے ہیںاور زمین پر بھی کوئی سفید روئی کا بستر بچھ چکا ہے۔ برف پر اسکینگ کے مقابلے ہو رہے تھے ۔ جہاں مختلف ملکوں کی ٹیمیں تھیں۔ جو اپنے اپنے پرچم لگائے جیتنے کے لئے پر جوش تھیں۔
جب ٹاپ پر پہنچے تو وہاں ایک جم غفیر جمع ہو چکا تھا ۔یہاں بھی قدموں تلے سفید برف تھی۔ اوپر ہر طرف بلیک یا بلیو جینز کے ساتھ جیکٹس میں ملبوس مرد و خواتین ہلے گلے میں مصروف تھے۔
تقریبا ً پچانوے فیصد لوگوں کا لباس یہی تھا ۔یوں لگتا تھا جیسے سوئیٹزر لینڈ کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ٹاپ پر دو جگہوں پرپکوڑے اور آلو کے چپس فرائی ہو رہے تھے ۔موسم اور خوشبو ایسی تھی کہ دل خواہ مخواہ ہی کھانے کو مچل اٹھے۔بغیر دیکھے بھالے بس آرڈر دے دیا مگر جب پلیٹس ہمارے ہاتھ میں آئیں تو دل دھک سے رہ گیا کہ صرف پیاز اور بیسن کے پکوڑے ،وہ بھی گھٹیا آئل میں فرائی کیے ہوئے۔ حالانکہ آلو اور لوبیا ایسی سبزیاں ہیں جو پورے شمالی علاقہ جات میں کاشت ہوتے دیکھی ہیں۔لیکن یہاں وقت اور پیٹ کا تقاضہ تھا کہ کھا جائو ، سو ہم کھا گئے۔ زیادہ تر یونیورسٹیز کے ٹورز یا دفاتر کے گروپس تھے جو ادھر ادھر اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے تھے۔پوری ٹاپ مسلسل ایک پگڈنڈی نما ہے۔
لوگوں کی گنجائش کافی کم ہے۔یہاں بھی واکنگ ٹریکس ہیں جو اوپرکو جاتے ہیں۔ مگر لوگوں کے پائوں میں دب کر یہ برف پتھر سے بھی زیادہ سخت اور پھسلواں ہو چکی تھی ۔ ہر دوسرا بندہ اوپر ٹریکس پرجانے کی کوشش میں پھسلتا ہوانیچے آتا۔کئی جوڑوں کی ایسی درگت بنتے دیکھ کر ہم تو ایک سائیڈ پرہو کے بیٹھ گئے۔نظریں مسلسل آسمان کو دیکھ رہی تھیںکہ اللہ پاک کوہم پر رحم آ گیا اور سارے آسمان کا رنگ ایک دم بدل سا گیا ۔
فضا میں تیرتے ہلکے ہلکے برف کے ذرات یکدم پھر ہلکورے لینے لگے اور برفباری شروع ہو گئی اور پھر جو برف نے اپنے مزاج کے مخالف رنگ دکھا یا یعنی مزاج میں سردی نہیںگرمی بھردی تھی۔ نئی نسل نے اس سے بھر پور گولہ باری کی،بہت ہلہ گلہ کیا ۔
بچوں کے ہم سے شکوے دور ہو گئے اور ہم نے اللہ پاک کے حضور شکر ادا کیا ۔اب واپسی کا ارادہ ہوا ۔شام چھے بجے ہوٹل واپسی ہوئی تھوڑی دیر آرام کے بعد کھانا کھایا اور دریائے سوات کے کنارے کافی پیتے ہوئے ہم نے اپنی زندگی میں آنے والی اُس شام کو یاد کیا جب ہم وادی ہنزہ میں چیری کے درخت کے نیچے چوبی کرسیوں پر براجمان تھے۔
سامنے گہرائی میں دریائے ہنزہ شور مچاتا بہتا تھا اور سامنے دودھیا سی من موہنی راکا پوشی کی برف پوش چوٹی اپنے سے نظریں ہٹانے نہ دیتی تھی ۔یوں لگتا تھا گویا یہ آسمان سے اترنے والا وہ زینہ ہو۔ یا پھر وہ لمحات جب ہم دریائے کنہار کے کنارے سنگی فرش پر چوبی بنچوں پر بیٹھے تھے ۔
آدھی رات ڈھل چکی تھی ۔ ہم (میں اور میرے میاں) اتنا بولنے والے، خاموشی سے سامنے دریائے کنہار کے دوسری طرف چیڑ کے پیڑوں یوں نظریں جمائے ہوئے تھے جیسے واقعی آسمان سے اُترتی ان پریوں کا نظارہ کر رہے ہوں جو جھیل سیف الملوک میں اشنان کرتی ہیں۔ ہم میں بولنے کی سکت نہ تھی ۔ ایسی راتوں کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بولنے کی حاجت ہی نہیں ہوتی اور قدرت کے رعنائیاں آپ پر منکشف ہوتی چلی جاتی ہیں۔ فطرت آپ سے ہم کلام ہوتی ہے اور آپ اُس وقت اُس کا حصہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایک رات ہم نے وادی نیلم کے کیرن ریسٹورینٹ کے وسیع و عریض لان میں بیٹھے گزاری تھی جہاں سیب اور چیری سے لدے پھندے پیڑوں کی شاخیں پھلوں کے وزن بوجھل نیلم کے پانیوں میں ڈوبتی اور ابھر تی تھیں۔ دریا کے دوسری طرف بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں چند گھر دکھائی دیتے تھے اور ان گھروں کے بیچ ایک کمرہ نما عمارت پہ گنبد تھا جو اس ویرانے میں کی ایک ویران مسجد تھی عرصہ دراز سے جہاں اللہ اکبر کی صدا بلند نہیں ہوئی تھی۔
اگلی صبح واپسی تھی مگر واپسی سے پہلے ایک بہت زبر دست قسم کا پڑائو تھا ۔ بازیرہ کے آثار قدیمہ میں ۔ ۔ ۔
صبح نو بجے ریسٹورینٹ سے نکلے ۔سب سے پہلے سوات میوزیم کا رخ کیا ۔ مختلف عجائبات سے آشنائی ہوئی ۔اکثر نواردات ایسے تھے جو ہم نے ٹیکسلا میوزیم میں بھی دیکھ چکے تھے ۔لہذا محدود وقت کے پیش نظر وہاں سے جلدی نکل آئے کہ ابھی میاں صاحب کا اصرار تھا کہ وائٹ پیلس آف امیر سوات کو دیکھا جائے ۔بڑی مشکلوں سے وہاں پہنچے تو ایک پر شکوہ عمارت مگر بس کچھ نہ پوچھیے ۔جو وہاں پہنچ کر تاریخ کو پیروں تلے رلتے دیکھا۔
اس تاریخی عمارت کے کمروں کو ریسٹورنٹ کا درجہ دے کر پبلک کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ بڑے ہال کو شادی ہال کے طور پر استعمال کیا جا ہا تھا ۔ پاس گزرتے ندی نالے میں پانی تو مفقود تھا مگر گندگی کے پہاڑ موجودتھے ۔اف توبہ!اس حماقت پہ پچھتاتے ہوئے واپس بھاگے کہ اب اگلی منزل ہماری منتظر تھی ۔
بہت زیادہ رش کے باعث کافی لیٹ ہو گئے تھے اور پھر اسی عجلت میں ہمارا وہ راستہ بھی کھو گیا جو سیا حوں کو سلطان محمود غزنوی کی تعمیر کردہ ایک ہزار سال پرانی مسجد کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ پہلی بار سنا تھا کہ سلطان نے کوئی چیز تعمیر بھی کروائی ورنہ ابھی تک تو مسماری ،تباہی ہی سلطان کے نام معنون تھی ۔ بہت دل گرفتہ ہوئے مگر اس ر ش میں واپس مڑنا بھی مشکل تھا۔ دھول مٹی سے اٹے راستے پہ سفر جاری تھا کہ ہمارا مطلوبہ بورڈ نظر آ گیا ’’بازیرہ کے آثار قدیمہ‘‘بازیرہ مینگورہ سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
بازیرہ دراصل بری کوٹ کا پرانا نام ہے۔ بری کوٹ بہت پرانا شہرہے آپ اسے سوات کا گیٹ وے بھی کہہ سکتے ہیں۔ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ، اسے دوسری صدی قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا ۔ یہ ایک ہندو یونانی شہر تھا جس کا ثبوت یونانی مورخین کی تحریر وں میں بھی ملتا ہے۔ ایک طرف گاڑی کھڑی کر کے سڑک عبور کر تے ہوئے دوسری طرف پہنچے ۔ سارا راستہ سیمنٹ کے گملے اور پائپ بنانے والوں نے بند کیا ہوا تھا ۔
ان کے درمیان سے بچتے بچاتے بازیرہ کے آثار میں پہنچے ۔ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق جب اسکندر اعظم نے 326قبل مسیح میں اسی سرزمین پر حملہ کیا تو اوڈیگرام کے مقام پر مخالفین کو شکست دینے کے بعد سکندر نے ہی اس مقام پر شہر تعمیر کروایا اور یہ وہی شہر ہے۔ کئی روایات میں یہ بھی ہے کہ اس شہر کو سکندر نے تباہ کر دیا تھا ۔بہر حال یہ بھی ثابت ہے کہ سکندر کی آمد کے وقت بھی وہاں شہر آباد تھے۔
تاہم یونانیوں کے حملے کے بعد جو لوگ یہاں بس گئے ان کے مقامی لوگوں کے ساتھ اختلاط سے جو تہذیب وجود میں آئی اسے ہندو یونانی تہذیب کہا جاتا ہے۔ یونانیوں کے حملے کے اثرات تادیر قائم نہ رہ سکے اور ہماری یہ گندھارا تہذیب کے مراکز چندر گپت موریا کے زیر تسلط آ گئے۔ بعد میں جن کا وارث اشوک بنا ۔جس کے بدھ مت قبول کر لینے کے بعد بدھ مت کے یہ آثار ہمارے ورثے کا حصہ بن گئے۔
ڈاکٹر لوکا ماریہ کے مطابق،بازیرہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کانسی کے دور سے لے کر اسلام کی آمد تک مسلسل شہر آباد رہے ۔بہر حال آگے بڑھتے ہیں ،آثار میں سے گزر کر آگے جائیں تو علاقہ تھوڑا بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔وہاں کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو پورا نقشہ آنکھوںکے سامنے آ جاتا ہے۔جس کے چاروں طرف فصیل ہے اور اس پر حفاظتی چوکیوں کے آثار موجود ہیں۔ یہاں سے دریافت ہونے والے مٹی کے برتن ،زیورات اور کھلونے پہلے ہی سوات میوزیم میں دیکھ چکے تھے ۔
جب آپ گھریلو استعمال کی اشیاء سے بھی واقف ہوں اور گھروں کے آثار آپ کے سامنے ہوں تو وہاں کے مکینوں اور طرز بود و باش کی شبیہہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ کبھی اس شہرمیں بھی شام اترتی اورصبح طلوع ہوتی تھی ۔ ہندو یونانی تہذیب کی نشانیاں ، موٹے منکوں کی مالا ئیں پہنے ،خوبصورت قبائوں میں ملبوس خواتین یہاں لکڑی یا پھر شاید گوبر کے اوپلے سلگاتی ہوں گی اور کوئی جنگجو یہ سب تہس نہس کر دیتا ہو گا ۔
کتنی عجیب سی بات ہے کہ انسان ہمیشہ جستجو امن کی کرتا ہے مگر عمل اس کے خلاف کرتا ہے۔ جنگ و جدل شاید انسان کا خاصہ ہے وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ جیسے کہ ایک طرف اشوک جنگ کا لنگا میں لاکھوں لوگو ں کو مارتا ہے تو دوسری طرف (بدھ مت کے قبول کر نے کے بعد) جیوہتیا کا پیرو کار بن جانے کے بعد ایک چیونٹی کو بھی مارنے سے گریزاں ہو جاتا ہے۔
تاریخ کے اس سفر کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ۔بازیرہ کے آثارکا دوسرا حصہ ہے،’’بریکوٹ غنڈئی‘‘
غنڈئی پشتو زبان میں چھوٹے پہاڑ کو کہتے ہیں اور یہ غنڈئی بازیرہ کے ان آثار کے شمال مشرف میںواقع ہے۔ اس کی اونچائی تقریبا ً1200فٹ ہے ۔ اس ’غنڈئی‘ یعنی چھوٹے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے اس سرد موسم میں بھی گرمی کا احساس ہو رہا تھا ۔
بتاتی چلوںکہ یہاں اوپر جانے کے لئے کوئی مناسب راستہ نہیں ہے۔چٹانوں اور جھاڑیوں کے بیچوں بیچ، آپ کو گئے وقتوں کے قدموں کے نشانوں سے ہی رہنمائی لینی ہے۔ مگر اوپر پہنچتے ہی دلفریب منظر آپ کا دل موہ لیتا ہے۔ ایک طرف دریائے سوات کسی تنارو ذرخت کی جڑوںکی طرح کئی حصوںمیں بٹا ہوا وادی کے دلکش نظاروں میںاضافہ کرتا ہے، تو دوسری طرف ایلم پہاڑ برف کی چادر میں لپٹا نظر آتا ہے جس کی اونچائی تقریبا9200فٹ ہے۔
پروفیسر لوکا ماریا کے بقول ،یہ آثار تقریباچودہ سو سال پرانے ہیں۔آثار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں قلعہ نما عمار ت ہو گی جس کے اطراف میں ایک چوڑی اور مضبوط چار دیواری تھی ۔ماہرین کے مطابق اس دیوار کے کچھ حصے یونانی اور کچھ کشان دورکے ہیں۔ دونوں حصے انتہائی نفاست کے ساتھ چپٹے پتھروں سے بنے ہوئے ہیں۔ایک کونے میںحفاظتی چوکی یا واچ ٹاورکے باقیات بھی ہیں۔
ترک شاہیہ دور کا ایک مندر بھی ہے جس کی دیواروں میں بدھا کے مجسمے بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہاں پرحال ہی میںایک پانی کے حوض کے علاوہ وشنو کا مندر بھی دریافت ہوا ہے۔ جو ہندوفن تعمیرکی پہلی مثال بھی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب وادی سوات ایک وقت میں کئی مذاہب کا مرکز ہوا کرتا تھا، یعنی ایلم پہاڑ پر رام چندر جی (ہندو پیشوا) اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ تین سال کا بن باس لے رہے تھے ۔(ہندو دھرم کی دوسری مقدس کتاب ’’رامائن‘‘کے مطابق یہ بن باس چودہ سال کا تھا ۔
انھوں نے یہ وقت ڈنڈاک کے جنگلوں میں گزارا۔ یہ بن باس تین سال کا ہو یا چودہ سال کا، ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ جذبہ حسد ہمیشہ سے موجود ہے ۔اگرچہ رام چندر جی کا یہ بن باس ان کی سوتیلی ماں کیکئی کی جلن و حسد اور باپ کی بے بسی کا ہی نتیجہ تھا۔مگر ان کی فرمانبرداری نے انھیں ہندو ازم میں امر کر دیا۔ مقامی روایات کے مطابق کبھی ایلم پہاڑ پر بہت بڑا میلا لگتا تھا ،جہاں دنیا بھر سے ہندوئوں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی شرکت کرتے تھے اور سب میں پرشاد بانٹا جاتا تھا ۔ یہ یاتری یہاں پر بنے ہوئے کچے کمروں میںقیام بھی کرتے تھے۔مگر اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔سوائے ان چند کمروں کے آثار کے جنھیں یہاں کے مقامی چرواہوں نے اچھی حالت میں رکھا ہوا ہے۔)
یعنی پہاڑ کی چوٹی پر ہندو ازم پل رہا تھا،تو دامن میں بدھ مت نمو پا رہا تھا۔ سات تہذیبوں کے پروردہ اس شہر کا اختتام سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں غالباً 1020ء میں اس وقت ہوا ،جب یہاں ہندو شاہی کا دور حکومت تھا۔ سورج کی الوداعی کرنیں کوہ ایلم پر پڑ رہی تھیں جو اسے ایک دہکتا ہوا انگارا بنا رہی تھیں۔ہم بھی اب وادی سوات سے رخصت چاہتے تھے مگر سوات کے چپل کباب کھائے بغیر واپسی ممکن نہ تھی۔ ایک ہوٹل سے کھانا پیک کروایا جو پتہ نہیں لنچ تھا یا ڈنر۔ بہرحال جو بھی تھا شاندار تھا۔
The post بدھا کے دیس میں appeared first on ایکسپریس اردو.