پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ان معدوے چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں عوام کو اشیائے خورونوش کی کمی اور قلت کا سامنا ہر وقت کرنا پڑتا ہے مگر مارنے اور مرنے کا سازوسامان انہیں ہر وقت اور ہر جگہ بہ آسانی وافر مقدار میں ملتا ہے۔
پاکستان کے عوام کو زندگی بہت مہنگی اور موت بہت سستی مل رہی ہے، جس کی ایک خاص وجہ ہمارے ہاں اسلحہ کلچر کا پروان چڑھنا ہے، ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں پس ماندہ مگر اسلحہ سازی کے شعبے میں دن بہ دن ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں کلاشن کوف اور دوسرے غیرقانونی ہتھیاروں کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں زیادہ تر اسلحہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں بل کہ زمانہ قدیم سے ان صوبوں کے عوام اسلحہ رکھنے کے شوقین رہے ہیں۔
جہاں تک خیبرپختون خوا میں اسلحے کی فراوانی کا تعلق ہے تو اس کا ایک اہم سبب یہ بھی ہوسکتاہے کہ پختون جس خطے میں آباد ہیں وہ تاریخ کے ہر دور میں بیرونی حملہ آوروں کا پہلا نشانہ رہا، متحدہ ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور اس کے شکار کے لیے بیرونی ممالک سے جو شکاری بھی اپنے لشکر سمیت آئے سب سے پہلے پختونوں سے ان کا پالہ پڑا، لہٰذا اپنے دفاع کی خاطر پختونوں کو ہر زمانے کا رائج اسلحہ اپنانا پڑا، پھر آپس کی قبیلوی دشمنیوں، تربورولی اور شکار سے زیادہ رعبت رکھنے کے باعث بھی پختون بچہ بچہ اسلحے کو اپنا زیور سمجھتا رہا، اس وقت ایک اندازے کے مطابق خیبرپختون خوا میں 32 لاکھ غیر قانونی کلاشن کوف موجود ہیں جب کہ رائفل اور پستول اس تعداد میں شامل نہیں، اسی طرح سابق قبائلی علاقوں میں پایا جانے والا اسلحہ بھی اس کے علاوہ ہے، جس کی تعداد بھی کئی لاکھ ہے۔
اسلحہ کی اس بھرمار کے باعث نہ صرف خیبرپختون خوا میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے لگا ہے بل کہ یہ غیر قانونی اسلحہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور فرقہ وارانہ حملوں میں بھی استعمال ہو رہا ہے، اس اسلحے پر قابو پانے کے لیے کسی بھی حکومت نے سنجیدہ اور ٹھوس عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اسلحہ آیا کہاں سے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خیبرپختون خوا میں مقامی سطح پر اسلحہ تیار ہوتا ہے جو پورے پاکستان میں پہنچ جاتا ہے، مگر حقیقت میں مقامی سطح پر تیار ہونے والے اسلحے کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے، جدید اسلحہ دراصل افغانستان سے ہمارے ہاں پہنچا اس وقت افغانستان میں جتنا غیرقانونی اسلحہ موجود ہے دنیا بھر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سابق سوویت یونین کے ساتھ جنگ اور پھر خانہ جنگی کے باعث افغانستان میں بڑی تعداد میں اسلحہ جمع ہونا شروع ہوا۔
افغانستان میں جنگ شروع ہوتے ہی سپر پاورز اور چین سے بڑی تعداد میں اسلحہ وہاں پہنچنے لگا جس میں بارودی سرنگیں اور زمین سے فضاء تک مار کرنے والے میزائل بھی شامل تھے، یہ اسلحہ دراصل ان افراد کو دیا گیا جو اس کا استعمال بھی نہیں جانتے تھے افغانستان کو اسلحہ فراہم کرنے میں امریکا پیش پیش رہا، جمی کارٹر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کمک پہنچانے کی خاطر اس وقت کے صدر رونالڈ ریگن نے ’’ریگن ڈاکٹرین‘‘ کے تحت افغانستان کو اسلحہ فراہم کیا۔
افغانستان سے سابق سوویت یونین کے انخلاء کو ممکن بنانے کے لیے اس وقت کے مجاہدین، بعد میں طالبان اور آج کے جنگجوؤں کو طرح طرح کا اسلحہ سپلائی کیا جاتا رہا، اس فیصلے کی منظوری دراصل امریکی کانگریس نے دی تھی، اس لیے یہ ذمہ داری بھی سی آئی اے کو سونپی گئی تھی، اس اسلحہ سے مجاہدین ہیلی کاپٹر اور فضائی حملوں کے خلاف بھی دفاع کرتے رہے۔ دسمبر 1979ء میں سوویت یونین کے آنے کے بعد افغان مجاہدین کے پاس بہت کم اسلحہ موجود تھا، اس کے پاس زیادہ تر 303 رائفلز تھیں، جب کہ چند ایک اے کے 47 بھی تھے۔
تاہم اس کے فوراً بعد انہیں جدید اسلحہ سپلائی ہونے لگا، 1980ء میں ان کے پاس اے کے 47 کے 74 ایس کے ایس 62، 7 ایم ایم، 62 سیون ایم ایم (ایرانی)، 9 ایم ایم اسٹین گن، شاٹ گن، چینی ساخت کی 56-1 رائفل اور مشین گنیں ہاتھوں میں آگئیں۔ 1985ء تک امریکا کی طرف سے روسی اسلحہ کی طرح کے ہتھیار فراہم کیے جاتے رہے، امریکا کے علاوہ سوویت یونین مخالف جتنی بھی قوتیں تھیں۔
ان سب نے سوویت یونین کو سبق سکھانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق ہر قسم کے کا اسلحہ فراہم کیا، 1986ء میں اسلحہ کی سپلائی نے اس وقت زور پکڑا جب سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ ویلیم کیسی نے امریکی کانگریس کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین کو امریکی ساخت کے طیارہ شکن سٹنگر میزائل دینے ہوں گے، تاکہ روسی طیاروں کو مار گرایا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان میں جاری جنگ کو تاجکستان اور ازبکستان جو اس وقت روس کی ریاستیں تھیں، تک پھیلا جائے۔
80ء کی دہائی میں سی آئی اے نے تمام مسلم ممالک سے سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے مسلمانوں کی بھرتی شروع کر دی تھی، اس میں مصر، سعودی عرب، سوڈان اور الجیریا تک سے لوگ بھرتی کیے گئے یہ وہ دور تھا جب صدر ریگن نے افغان مجاہدین کو وہائٹ ہاؤس میں دعوت دی اور انہیں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے بہادر حریت پسندوں کے القابات سے نوازا، اس دور میں دینی مدارس میں بھی جہاد کا جذبہ ابھارا گیا اور اس جذبہ جہاد کو گرمانے میں ہمارے ملک کی بعض مقتدر قوتوں نے جو کردار ادا کیا وہ اب کوئی خفیہ راز نہیں رہا۔
سی آئی اے کی کوشش تھی کہ وہ اس گوریلا فوج کی سربراہی کرنے کے لیے کسی سعودی شہزادے کی خدمات حاصل کر لے مگر وہ کام یاب نہ ہو سکی۔ تاہم بعد میں انہیں اسامہ بن لادن کی خدمات لینی پڑیں، انہیں امریکا کے مشورے سے شہزادہ ترکی الفیصل جو سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ تھے نے ایک بڑے عہدے پر فائز کیا، جس کے بعد اسامہ بن لادن نے1986ء میں پاک افغان سرحد کے قریب خوست میں سرنگ بنائی۔
اس منصوبے کے لیے امریکا نے فنڈز فراہم کیے، جہاں نہ صرف مجاہدین کے لیے میڈیکل سنٹر موجود تھا بل کہ ان کی تربیت کے ساتھ اسلحہ کا ایک بڑا ڈپو بھی موجود تھا۔ 1989ء میں یہ ایک بڑا ملٹری بیس بن گیا، جہاں بہت سے عرب باشندے رہنے لگے امریکا اور سعودی عرب نے 89-86ء تک افغانستان میں 3.5 ارب ڈالر کی رقم صرف کی، جس کا اعتراف سی آئی اے کے اعلیٰ عہدیدار ملٹ برڈن بھی کر چکے تھے۔ یوں یہ خطہ اسلحہ اور منشیات کا ایک مرکز بن گیا اور اسلحہ اور منشیات کے بڑے بڑے بیوپاریوں نے یہاں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔
سال 87ء میں سی آئی اے نے مجاہدین کو 66 کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کی، اس کا اثر افغانستان اور پاکستان پر پڑا اس دوران یہ منشیات کا بڑا خطہ بن گیا، افغان جنگ سے پہلے افغانستان اور پاکستان میں ہیروئن کی پیداوار کی شرح صفر تھی مگر اس کے بعد افیون کی پیداوار آہستہ آہستہ بڑھنے لگی، یونی ورسٹی آف اوٹاوا کے ماہر اقتصادیات پروفیسر مائیکل جو سوڈو سکی کے مطابق سی آئی اے کے اس خطے میں داخلے کے دو سال بعد پاک افغان سرحد ہیروئن پیدا کرنے کا سب سے بڑا خطہ بن گیا، وہاں افیون کا باقاعدہ ٹیکس لیا جانے لگا۔
جس سے سرد جنگ کے اخراجات پورے کیے جاتے رہے۔ سابق سوویت یونین کے انخلاء کے وقت وسطی ایشیاء میں دنیا کی 75 فیصد افیون پیدا ہوتی رہی، جس کی مالیت اربوں ڈالر کے برابر تھی یہ وہ زمانہ تھا جب افغانی اپنے کندھوں پر میزائل رکھ کر فائر کرنے لگے تھے اور اس اسلحہ کے استعمال میں کافی مہارت حاصل کر گئے تھے۔ 1989ء میں 150 اسٹنگر میزائل پہنچنے سے قبل مجاہدین زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل استعمال کر چکے تھے، بعد میں سی آئی اے نے ان تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد اس اسلحہ کو اکٹھا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اس کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکا کی سی آئی اے اور بعض پاکستانی ایجنسیوں نے اپنے جن بہادر مجاہدین کو اسلحہ فراہم کیا تھا وہ اسلحہ آج انہی کے خلاف استعمال ہورہا ہے اس طرح مجاہدین تک جو اسلحہ سپلائی کیا جاتا رہا وہ بیک وقت کئی راستوں سے گزرتا تھا، یوں ہر جگہ اس سے کچھ اسلحہ ادھر اُدھر ہوجانے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا تھا مگر سی آئی اے کے پاس اور کوئی دوسرا متبادل راستہ بھی نہیں تھا۔
یہ اسلحہ ٹرکوں، بحری جہازوں حتیٰ کہ جانوروں پر لاد کر اپنے مجاہدین تک پہنچایا جاتا تھا، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے کتنا اسلحہ راستے میں غائب ہو جاتا ہو گا، اکثر افغان مہاجرین جب پاکستان آئے تو وہ اپنے ساتھ اسلحہ بھی لاتے تھے مگر جب وہ واپس جاتے تو مفت میں ملنے والے اسلحے کو خیبرپختون خوا میں اونے پونے داموں پر فروخت کر دیتے۔ علاوہ ازیں خود افغانستان میں بھی چھوٹے اسلحہ کی تیاری کے یونٹس موجود تھے، افغان مہاجرین کے لیے یہ اسلحہ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا تھا۔
اس لیے بڑی تعداد میں اس صوبے کے اندر کلاشنکوفیں سمگل ہو کر آنے لگے، یوں یہاں کی منڈی میں اسلحے کی قیمت گرنے سے بھی یہاں اسلحہ میں اضافہ ہونے لگا، افغانستان کی اس صورت حال کے باعث جہاں یہ خطہ اسلحہ کا مرکز بن گیا، وہاں یہ منشیات سے بھی محفوظ نہ رہ سکا، اقوام متحدہ کے ڈرگ کنٹرول پروگرام کے اندازے کے مطابق 1979ء تک پاکستان میں ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد صفر تھی، جب کہ 85ء میں یہ تعداد 10 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ خیبرپختون خوا میں جوں جوں اسلحہ بڑھنے لگا یہاں جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب فرقہ واریت کو ہوا ملی، صوبے میں قتل، ڈاکہ، چوری، کار چوری، اغواء، اسمگلنگ اور عام نوعیت کے جرائم میں اضافہ ہوگیا۔
یہ اسلحہ ہی تھا جس میں اضافہ کے باعث خیبرپختون خوا اور سابق قبائلی علاقوں میں جرائم بڑھتے گئے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکا ابھی تک دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے، رپورٹ کے مطابق امریکا ہتھیاروں کی فروخت کی دوڑ میں سب سے آگے رہا جس میں سب سے زیادہ ہتھیار ترقی پذیر ممالک کو بیچے گئے۔ مگر آج پاکستان اور افغانستان میں اپنے پرانے بہادر حریت پسند مجاہدین کے خلاف امریکا کی پالیسی کودیکھ کر مرحوم مقبول عامر کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
مرے خلاف گواہی میں پیش پیش رہا
وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا
آج ہمارا پورا ملک جن خطرناک ہتھیاروں، جرائم پیشہ افراد، فرقہ واریت، عسکریت پسندوں اور جنگجوؤں کی لپیٹ میں ہے اس میں زیادہ تر حصہ خود امریکی سرکار کا رہا ہے، اس دل خراش جائزے کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بدامنی کی جو لہر ہے اس کا ’’کریڈٹ‘‘ امریکا کو ہی جاتا ہے، تو غلط نہ ہوگا، اور آج وہ خود ڈیزی کٹر بم، گولابارود بغل میں دبائے اور سر پر ایٹم بم کا ہیٹ ٹکائے دنیا میں امن کا ٹھیکے دار بن کر نکل کھڑا ہوا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلحے کی ایجاد، تیاری اور دنیا بھر میں پھیلانے کے ساتھ ساتھ اس کا سب سے زیادہ استعمال بھی امریکا نے ہی کیا، اور جاپان (ہیروشیما) میں جیتے جاگتے انسانوں پر ایٹم بم کا تجربہ کرنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی اسے ہی حاصل ہے، کسی انگریز دانش ور نے کہا تھا کہ ایک بندوق بنانے یا خریدنے کے بجائے اگر ایک پھول لگایا یا خریدا جاتا تو اس وقت دنیا بھر میں لہو کی بسان کے بجائے ایک دل فریب مہک ہوتی۔
مگر افسوس کہ آج انسان دوسرے کی بربادی میں اپنی آبادی تلاش کر رہا ہے، اور یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی شاید ہی کبھی تلافی ہو سکے اگر موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں بڑھتے ہوئے اسلحہ کلچر کا راستہ روکا جائے تو اس کے لیے زبانی جمع خرچ اور صرف سیاسی بیان بازی کے بجائے ایک جامع منصوبہ بندی اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔
The post ہتھیاروں کی بھرمار کا کون ذمے دار؟ appeared first on ایکسپریس اردو.