Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

’’ترجیحات ٹھیک کر کے معیار زندگی بہتر کر سکتے ہیں‘‘

$
0
0

ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی ایک خاص ڈگر پر گزار دیتے ہیں۔

بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو زندگی میں کچھ نیا کرنے کا سوچتے ہیں اور اپنے ’کمفرٹ زون‘ سے باہر نکل کر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا حوصلہ ان میں ہوتا ہے۔ محمد نوید مرزا نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز پاکستان ایئر فورس میں ایرواسپیس انجینئر کے طور پر کیا، جہاں انہوں نے بڑی شاندار خدمات انجام دیں۔

قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے دیار غیر میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، اپنے آپ کو نئے چیلنجز کے لیے تیار کر کے سیلز کے شعبے میں قدم رکھا اوراس میں بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ پھر ان کی عملی زندگی کا تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے، جس میں بطور ’لیڈرشپ کوچ‘ اور مصنف ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔

اس میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے معمول کی سوچ سے ہٹ کر اپنے نظریے اور زندگی بھر کے تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’بہت سے لوگ ہیں جو صرف موٹیویشنل اسپیکر بننا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں سیکھے ہوتے۔ اگر آپ زندگی بھر کے تجربے کے ساتھ لوگوں کو اپنے خیالات میں شریک کرتے ہیں تو بہت الگ سطح کی موٹیویشن ہوتی ہے۔‘‘

محمد نوید مرزا، قیادت کے روایتی تصور کے بجائے اس میں خدا کی ذات پر یقین کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں 85 فیصد لوگ یقین رکھنے والے ہیں اور کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایک آدمی کی جسمانی شخصیت ہے اور دوسری روحانی شخصیت، اگر اس میں کسی بھی پہلو کو نظرانداز کیا جائے تو وہ کمزور رہ جاتا ہے۔ میں ہر انسان کو لیڈر مانتا ہوں، کسی نہ کسی موقع پر آپ اپنی قیادت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔

اس لیے ہر انسان میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ایک بااختیار قائد بنے اور اپنی دنیا و آخرت کی زندگی کو شاندار بنائے۔ قیادت کے تصور میں یقین کی بہت اہمیت ہے، جسے میں ’’فیتھ ایمپاورڈ لیڈرشپ‘‘ کا نام دیتا ہوں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کے سب سے بڑے رہنما انبیاء ؑ تھے، کیونکہ ان کا اللہ پر یقین مثالی تھا۔ ان کی زندگی اور تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی اور دنیا کو بدل سکتے ہیں۔‘‘

لیڈرشپ اور منیجمنٹ کو وہ اپنے لیے نیا شعبہ قرار نہیں دیتے، کیونکہ زمانہ طالب علمی اور ایئرفورس کی ملازمت کے دوران بھی اس کردار کو بخوبی انجام دیا۔ کہتے ہیں، ’’انجینئرنگ کی تعلیم کے آخری برسوں میں مجھے ہاسٹل میں 50 فیصد طلبہ کا لیڈر منتخب کیا گیا اور ان کے کھیل کے مقابلوں اور دوسری ہم نصابی سرگرمیوں کی قیادت سونپی گئی۔ بطور انجینئر بھی لیڈر اور منیجر کا کردار ادا کیا، کیونکہ انجینئر دوسروں کی رہنمائی اور پراجیکٹ کی نگرانی کرتا ہے۔ میری پہلی تقرری میں ہی میرے نیچے تین سو لوگ تھے، ہم نے تکنیکی طور پر جہاز کو مینٹین اور پائلٹس کو منیج کرنا ہوتا ہے۔

ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے کیونکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں کم سے کم ڈائون ٹائم ہوتا ہے۔ کامرہ میں بھی ہمارا یہی کردار تھا، کسی چیز کی منظوری دینی ہے، حکومت سے معاملات طے کرنے ہیں وغیرہ۔ تو اس عملی تجربے نے بہت کچھ سکھایا جو لیڈرشپ کوچنگ میں میرے کام آ رہا ہے۔‘‘ اپنے ٹریننگ پروگرام کے متعلق بتایا، ’’پہلے میں لیڈرشپ میں دوسروں کے پروگرام پر عمل پیرا تھا، اس میں ان کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔

لیکن اب میں اپنی کتاب کو بنیاد بناتے ہوئے ٹریننگ پروگرام ترتیب دوں گا کیونکہ میرے نزدیک رہنمائی کی صلاحیت ’’یقین‘‘ سے متعلق ہے۔ میں چاہتا ہوں لوگ انبیاء ؑ کی زندگی کے بارے میں پڑھیں اور ان کی پیروی کریں۔ اس کے سوا باقی کچھ سٹینڈرڈ چیزیں ہیں جو ہر لیڈرشپ پروگرام میں بتائی جاتی ہیں۔‘‘

2009ء میں پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے ’’کامیاب پاکستان‘‘ کے نام سے ایک این جی او بنائی۔ ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی جڑ گئے۔ انہوں نے اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک خاص علاقے میں زرعی تحقیق کے بعد لوگوں کی رہنمائی کی کہ وہ اپنی بنجر زمینوں میں کون کون سی کھیتی اگا سکتے ہیں اور اس طرح اپنے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ پیدا کر سکتے ہیں۔

کہتے ہیں، ’’ہمارا جو لوئر کلاس اور غریب طبقہ ہے، ان کو جب تک آپ اوپر نہیں لے آئیں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جب تک تعلیمی اداروں اور ان میں ہونے والی تحقیق میں عوام کی ضروریات کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا، آپ جتنے مرضی پی ایچ ڈی بنا لیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تعلیمی اداروں اور صنعتوں کو ایک دوسرے سے منسلک ہونا چاہیے۔ کیونکہ لوگوں کے پاس سکلز ہیں لیکن آگاہی موجود نہیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔

اس این جی او کے ذریعے ہم نے یہ کام کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں کینیڈا چلا گیا، اب ارادہ ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے لوگوں کو اس طرح کی باقاعدہ آگاہی اور رہنمائی فراہم کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر نوجوانوں کی رہنمائی کی جائے تو اس کے بہت مثبت اثرات معاشرے پر ہوں گے۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے ہم سب کو معاشرے کی بہتری کے لیے کسی نہ کسی طرح کنٹری بیوٹ کرنا چاہیے۔‘‘

محمد نوید مرزا چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی ترجیحات کو ٹھیک کریں اور ان کے مطابق زندگی بسر کریں، اس سے ان کا معیار زندگی بہتر ہو گا۔ ان کے مطابق، ’’بندے کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق سب سے پہلے آتا ہے۔

چنانچہ یہ آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے کہ ہر عمل خالق کائنات کے احکام کے مطابق اور اس کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ دوسرے نمبر پر آپ کے تعلقات اور فیملی ہے، جس میں والدین، شوہر/بیوی، بہن بھائی اور بچوں کے ساتھ تعلق شامل ہے۔ تیسرے نمبر پر معاش اور پھر آپ کی صحت ہے۔

آپ نے ان سب پر توجہ دینی ہے اور ان میں ایک بہترین توازن قائم کرنا ہے۔ لیکن پہلی ترجیح یعنی اپنے رب کے ساتھ تعلق کو پہلے نمبر پر ہی رکھنا ہے، اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ آپ لوگوں کی مدد کریں، اللہ آپ کو نوازے گا اور آپ کی زندگی میں فراوانی آئے گی۔‘‘

حالات زیست
خاندان نے مشرقی پنجاب سے لاہور ہجرت کی تھی۔ والد ڈاکٹر تھے، جو بعد میں آرمی سے منسلک ہو گئے۔ ان کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا۔ محمد نوید مرزا نے 1953ء میں مری میں آنکھ کھولی۔ تعلیم کا آغاز گلاسکو میں ہوا،کیونکہ والد تربیت کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔ 60ء کی دہائی میں والد کی تعیناتی سی ایم ایچ جہلم میں ہوئی، چنانچہ ان کا کچھ وقت جہلم میں گزرا، جہاں کانوینٹ سکول کے طالب علم رہے۔

پھر ملتان تبادلہ ہوا تو کچھ کلاسز لاسال ہائی سکول میں پڑھیں۔ 1965ء کی جنگ سے کچھ پہلے والد کی ترقی ہوئی اور وہ بطور ونگ کمانڈر ایئرفورس سے وابستہ ہو گئے۔ نوید مرزا کیڈٹ کالج حسن ابدال چلے گئے، جہاں پانچ برسوں میں آٹھویں جماعت سے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں آل رائونڈر طالب علم تھا، بہت سے طلبہ صرف اپنی پڑھائی پر فوکس کرتے ہیں، لیکن کئی ایسے ہوتے ہیں جو دوسری سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔

فٹ بال پسندیدہ کھیل تھا، جمناسٹک میں حصہ لیا اور دوسری ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی متحرک تھا۔ ہم نصابی سرگرمیاں طلبہ کے لیے مفید ہیں کیونکہ وہ ان میں مختلف صلاحیتیں پیدا کرتی ہیں، جو آگے زندگی میں ان کے کام آتی ہیں۔ اس کے ساتھ میں اتنا اچھا طالب علم ضرور تھا کہ کسی بھی اچھے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لے سکوں۔‘‘

1971ء میں ایف ایس سی کے بعد مغلپورہ انجینئرنگ کالج میں داخلہ ہو گیا، لیکن ہڑتالوں اور غیریقینی صورتحال کی وجہ سے اسے چھوڑ کر پاکستان ایئر فورس کے ایروناٹیکل انجینئرنگ کالج کورنگی کریک میں داخلہ لیا اور ایئرواسپیس انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔

پھر وہ بطور ایرواسپیس انجینئر پاکستان ایئرفورس کی سرگودھا بیس میں چلے گئے۔ ابتدائی تین برس کومبیٹ کمانڈرز سکول کے میراج اسکواڈرن کے انجینئرنگ آفیسر رہے، بعدازاں دوسری ذمہ داریاں نبھائیں۔ سرگودھا بیس میں چھ سال خدمات انجام دینے کے بعد تھوڑا عرصہ کراچی ایئرفورس کمپلیکس میں کام کیا۔ اس وقت کامرہ میں ایروناٹیکل انجینئرنگ کمپلیکس بن رہا تھا۔ انہوں نے فرانس میں چھ سات مہینے کی تربیت حاصل کی اور 1982ء میں کامرہ آ گئے۔ باہر سے حاصل کیے ہوئے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے جدید طیاروں کے انجن پر کام شروع کیا۔

بتاتے ہیں، ’’جن چیزوں کی بنیاد اس وقت رکھی، سات آٹھ سال میں وہ چیزیں ہم بنانے لگ گئے، اگر اس وقت نہ سوچتے تو آج تک باہر سے منگوا رہے ہوتے جس سے قیمتی زرمبادلہ ضائع ہوتا۔ وہ ابتدائی دور تھا، بہرحال ہم نے آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہمارے سپروائزر، سینئرز اور ڈی جی ڈائریکٹر جنرل سب بہت اچھے تھے۔ مجھے پہلا پراجیکٹ منیجر بنایا گیا اور اس سلسلے میں امریکا کی پہلی تقرری پر بھی بھیجا گیا۔ اس وقت ہمیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا اختیار مل گیا تو ایئر فورس میں پندرہ برس ملازمت کرنے کے بعد میں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی، یوں نئی زندگی کا آغاز ہوا۔‘‘

ملازمت کو خیرباد کہنے کے بعد وہ اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا چلے گئے۔ نئے ملک میں قدم جمانے اور خاندان کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہاں ایرواسپیں انجینئر سے زیادہ لائسنس انجینئرز کی ضرورت تھی۔

محدود ملازمتیں دستیاب تھیں اور ان میں بھی اتار چڑھائو رہتا، چنانچہ انہوں نے اپنے شعبے سے ہٹ کر کچھ کرنے کا سوچا۔ اس ضمن میں انہوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا، ’کمفرٹ زون‘ سے باہر نکل کر نئے چیلنجز کا سامنا کیا اور اپنی شخصیت پر کام کیا۔

اس حوالے سے بتایا، ’’یقین اور خوف تو دو متضاد انتہائیں ہیں، درمیان میں محدود کرنے والے خیالات (limiting beliefs) آتے ہیں، یعنی میں فلاں چیز نہیں کر سکتا وغیرہ۔ اگر آپ اپنی پسند کا کام کر رہے ہیں لیکن اس میں ترقی رک گئی ہے تو آپ کمفرٹ زون میں آ گئے ہیں۔ میں نے خود پر جبر کیا کہ اپنے آپ کو ’ان کمفرٹیبل‘ کروں۔ میں نے سیلز کے شعبے میں آنے کا فیصلہ کیا اور خود میں مطلوبہ صلاحیتیں پیدا کیں۔ جب تک آپ ان لوگوں سے بات نہیں کرتے جو بزنس کر رہے ہیں آپ بزنس نہیں کر سکتے۔

یہاں ہم سیلزمین کو تھوڑا سا نیچے دیکھتے ہیں، لیکن سیلزمین ہی ہے جو پرافٹ لاتا اور کمپنی چلاتا ہے۔ اس لیے باہر سیلزمین سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ہوتے ہیں۔ یہ صرف نمبر گیم ہے، آپ کا پراڈکٹ اور سروس اچھی ہے تو پھر یہ نمبر ہی ہیں جس سے آپ کی کامیابی جانچی جاتی ہے۔ آپ نے اپنی پروڈکٹ کے صارفین ڈھونڈنے ہیں جو ہر کاروبار کے الگ الگ ہوتے ہیں۔

گاہک تو لاکھوں میں ہیں، آپ نے دروازہ کھٹکھٹانا ہے اور کسی ریفرنس سے لوگوں تک پہنچنا ہے۔ میں نے ایسی چیزیں سیکھیں جو اس شعبے میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔‘‘

سیلز کے شعبے میں اپنے تجربے کے متعلق کہتے ہیں، ’’ملازمت میں منیجر سوچتا ہے کہ ماتحت کی تنخواہ اس سے کم ہو، جبکہ سیلز میں ایسا نہیں۔ اس میں کوئی حد نہیں، آپ جتنا زیادہ محنت کریں گے اور پیسے کمائیں گے اتنا ہی کمپنی خوش ہو گی۔وہ آپ کی ٹریننگ بھی کریں گے۔

اس میں آپ ’سیلف ایمپلائیڈ‘ ہوتے ہیں، ایک پروڈکٹ سے نکلے تو دوسری کمپنی میں چلے جائیں۔ بہت سے پڑھے لکھے، دوسرے پیشوں سے وابستہ لوگ سال میں دو تین ماہ یہ کام کر کے اچھے پیسے کما لیتے ہیں۔

سیلز میں ایرانیوں، افغانیوں کی سکلز بہت اچھی ہیں، وہ ملازمت پر اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں نوجوانوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہوئے اس طرف آئیں۔ مجھے اس میں مزہ آ رہا تھا کیونکہ میں اپنی آمدنی خود تخلیق کر رہا تھا۔ پھر ہم برٹش کولمبیا چلے جاتے تھے جو بہت خوبصورت صاف شفاف علاقہ ہے۔ فطرت کے قریب رہ کر سکون ملتا ہے اور انسان خدا کے قریب ہو جاتا ہے۔‘‘

نائن الیون کے بعد حالات تبدیل ہوئے تو نوید مرزا اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ وہ دراصل اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے تھے۔ اسے وہ اپنی زندگی کا زبردست وقت قرار دیتے ہیں، جو ان کے نزدیک ایک بہت بڑا مقصد تھا۔

2012ء میں والدہ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ دو سال بعد والد بھی چل بسے۔ اسی دور میں انہوں نے ’’لیڈرشپ اور منیجمنٹ ٹریننگ‘‘ کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ پھر کینیڈا واپس چلے گئے اور مختلف اداروں میں خدمات انجام دیں۔ 2019ء میں وہ اپنی کمپنی کی طرف سے ایک کاروباری دورے پر چین گئے جہاں اتفاقی طور پر وہ شدید بیماری کی زد میں آ گئے۔ انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا، مختلف قسم کے ٹیسٹوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک خطرناک بیماری (Pulmonary embolism) میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

اسی دوران طبیعت مزید بگڑ گئی، ان کے دل نے بھی کام چھوڑ دیا، ڈاکٹرز نے انھیں مصنوعی تنفس (CPR) دیا اور خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی اور چند دنوں میں یہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے، مگر اس ’’قریب المرگ‘‘ تجربے نے انہیں زندگی کی ناپائیداری اور خالق کے ساتھ روحانی تعلق کے بارے میں اہم سبق دیا۔

پھر وہ سنجیدگی سے اپنی کتاب کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوئے، جس میں انہوں نے لیڈرشپ پر اپنے خیالات کے ساتھ بتایا کہ ’’یقین‘‘ کا ان کی زندگی کی کامیابی میں کیا کردار رہا ہے۔ یہ کتاب ’’فیتھ ایمپاورڈ لیڈرشپ‘‘ 2021ء میں کینیڈا میں شائع ہوئی، جبکہ اس کا اردو ترجمہ ’’پریقین قیادت‘‘ کے نام سے رواں برس نئی سوچ پبلشرز (غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور) نے شائع کیا ہے۔

The post ’’ترجیحات ٹھیک کر کے معیار زندگی بہتر کر سکتے ہیں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>