رمضان کریم کے آخری آیام ہیں اور یہ ماہ عظیم ہم سے رخصت ہُوا چاہتا ہے۔ آج اس ماہ رمضان کا آخری جمعۃ المبارک ہے۔ اس عظیم اور بابرکت دن ہمیں اپنے رب سے اپنے گناہوں پر معافی طلب کرنا چاہیے اور اس کی خوش نُودی کا طلب گار ہوکر دین اسلام کے ضابطوں پر زندگی گزارنے کا عہد کرنا چاہیے۔ قبولیت دعا کی ان گھڑیوں میں ہمیں اپنے رب سے عافیت طلب کرنی چاہیے۔ دعا کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جو ہمیں ملحوظ خاطر رکھنے چاہییں۔
قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ میں اﷲ نے اپنی معبودیت اور بندے کی عبدیت کے پیش نظر کتنے حسین انداز میں خود سے مانگنے کا طریقہ وضع فرمایا ہے:
’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کر، اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔‘‘
حدیث نبویؐ ہے: ’’بہتر ذکر لا الہ الا اﷲ اور بہترین دعا الحمد ﷲ ‘‘ ہے۔
دعا اپنے دوش پر بٹھا کر بندے کو خالق کی بارگاہ میں حضور پُرنور کے صدقے حاضر کرکے اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بندہ اپنی بھول، چوک اور خطائوں کی معافی کے لیے عرض کرنے کے ساتھ اﷲ کی دی گئی نعمتوں کا شکریہ بھی اﷲ کے حضور پیش کرتا ہے۔ بدلے میں اﷲ کی ذات خوش ہوکر بندے پر اپنی عنایت اور لطف و کرم نچھاور فرماتی ہے اور اس کے دل میں نور بھر دیتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ دعائے قنوت میں ہمیں کس حسین انداز میں وہ اعلیٰ دعا سکھلا رہا ہے۔ جس کی بنا پر اﷲ کی وحدانیت، رحمانیت، معبودیت، رحیمی، کریمی اور جلال اور بندے کی التجا سے دعا میں کیسے رنگ بھر جاتا ہے۔
دعا ئے قنوت کا مفہوم: ’’الہی! ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں اور تجھ سے معافی مانگتے ہیں اور تجھ پر ایمان رکھتے ہیں اور تجھ ہی پر بھروسا کرتے ہیں اور تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور تیرا شکر کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور الگ کرتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے، الہیٰ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری ہی طرف دوڑتے اور جھپٹتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔‘‘
دعا دل سے مانگنی چاہیے۔ دعا دل سے مانگنے کے لیے دل کو ہر قسم کے بغض، کینہ اور حسد سے پاک صاف ہونا لازمی ہے۔ دعا کی قبولیت کے لیے دوسری لازمی اور بڑی شرط یہ ہے کہ انسان کی رگ و پے میں رزق حلال سے بنا ہوا خون دوڑ رہا ہو۔
’’ اگر تیرے گلے میں حرام کا نوالہ ہے اور گلے میں حرام کی قمیض ہے تو اﷲ کو تیری نماز سے کیا لینا دینا۔‘‘
بہ حیثیت مسلمان ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ صرف زبان سے مانگی ہوئی نہیں بل کہ دل سے مانگی ہوئی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یاد رہے دلوں کی صفائی اور دلوں کا زنگ صرف اور صرف قرآن پاک کی تلاوت سے ذکر الہیٰ سے اور گناہوں سے دور رہنے سے ہی اترتا ہے۔ مگر آج امت مسلمہ کی یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ آج کا مسلمان قرآن مجید، فرقان حمید اور سیرت النبیؐ پر عمل نہ کرنے اور مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے دولت اور دنیا کی محبت کو اپنے دل میں سجا چکا ہے۔ وہ زندگی کے تمام معاملات کو مادی اور مالی نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہے۔ آج حلال اور حرام میں تمیز نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں اور دولت ہی معیار بن گئی ہے۔ معاشرہ زوال اور انحطاط کا شکار ہے۔ ان قباحتوں کی وجہ سے دل چوں کہ زنگ آلود اور پتھر ہوتے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ طویل دعائیں بھی اﷲ تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت سے محروم نظر آتی ہیں۔
اﷲ سے دعا کیجیے، رحمت ربّی طلب کیجیے، اﷲ کا قرب بہ ذریعہ تہجد، صدقہ، تلاوت کلام پاک اور استغفار سے حاصل کیجیے۔ دعائوں کے توسط سے زندگی کو مہلت سمجھتے ہوئے اﷲ کو پکار پکار کر اپنے گناہ بخشوا لیجیے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کا واضح اعلان ہے کہ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی اگر تُو مجھ سے مغفرت مانگے گا تو میں تجھے معاف کر دوں گا اور میں بے نیاز ہوں۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان: ’’ اے ابن آدم! جب تک تُو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے مغفرت کی امید رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا۔‘‘ (ترمذی)
آج ہم نے بہ حیثیت قوم غفلت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ تہجد، صدقے، تلاوت کلام پاک اور استغفار کو خیرآباد کہہ دیا ہے، قرآن حکیم کو سمجھنے اور پڑھنے کے بہ جائے طاق نسیاں میں سجا دیا ہے، حلال اور حرام میں تفریق ماند پڑ رہی ہے، سود اور سودی نظام نے ہمیں جکڑا ہوا ہے اور ہم نے اپنے دلوں میں حسد، کینہ، بغض اور انا کے بُت سجا رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعائیں بے اثر ہیں۔
دعا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ حضور پُرنورؐ کے صدقے ہماری دعائوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما کر ہمیں دنیا و آخرت کی عافیت نصیب فرمائے اور ہمیں ہر سال ماہ رمضان کی برکات کے لیے منتخب فرمائے۔ آمین
The post رخصت ہُوا یہ ماہ مبارک۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.