سندھ کی ’دوسری ثقافت‘ کو کہاں جگہ ملے گی؟
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
17 اپریل 2022ء کے اخبارات کے مطابق ’حکومت سندھ‘ نے گاڑیوں کے لیے ’سندھی اجرک‘ سے مزیّن نئی ’نمبر پلیٹ‘ کا باقاعدہ اجرا کر دیا ہے۔ یہ نمبر پلیٹ اپنے کچھ جدید وظائف کے ساتھ ساتھ اجرک کے توسط سے ’سندھی ثقافت‘ کی پرچارک بھی ہوگی۔۔۔ چلیے بہت اچھی بات ہے۔
بلاول زرداری کورونا کی وبا کے دوران ’اجرک‘ کے بنے ہوئے ماسک بھی بہت ذوق وشوق سے پہنتے رہے ہیں، اگر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سندھ کی ثقافت کو فروغ دینا چاہتی ہے، یہ اِس کا حق ہے، لیکن یہاں ہم جان کی امان پا کر بہ صد احترام کچھ باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں۔
سندھ میں 1972ء کے سندھی اردو تنازع کے بعد یہ طے کیا گیا تھا کہ صوبۂ سندھ باقاعدہ طور پر ’دو لسانی صوبہ‘ ہوگا، تبھی سے یہ روایت بھی پڑی کہ گورنر یا وزیراعلیٰ میں سے اگر ایک عہدہ سندھی کے پاس ہوگا، تو دوسرے پر مہاجر متعین ہوگا۔
مختلف حکومتیں بدلیں، لیکن یہ روایت نصف صدی سے اس طور پر قائم چلی آرہی ہے کہ گورنر کا عہدہ مہاجر کے حصے میں رہا، کیوں کہ وزارت اعلیٰ ہمیشہ سندھی بولنے والے ہی کو ملتی رہی، ہرچند کہ متعدد ترامیم کے بعد گورنر کے اختیارات محدود تر ہوتے چلے گئے۔
وہ ایک الگ بحث ہے، یہاں ہم شہری اور دیہی سندھ کے بالترتیب 40 اور 60 فی صد کے کوٹے کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں، کیوں کہ فی الحال ہمیں سندھ کی باقاعدہ طور پر طے شدہ دوسری ثقافت کو حرفِ غلط کی طرح غائب کر دینے کی طرف توجہ دلانی ہے، جس کی ایک تازہ نظیر صوبے کی یہ نئی نمبر پلیٹ بھی ہے۔
کہنے کو شاید یہ بہت معمولی سی بات لگے گی، لیکن لوگوں میں اس حوالے سے کافی بے چیانی پائی جاتی ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب سندھ ’دو لسانی صوبہ‘ ہے، تو آخر سندھ کی دوسری بڑی اِکائی کی ’مہاجر ثقافت‘ کو آج 50 برس بعد بھی سرکاری سطح پر کیوں جگہ نہیں مل سکی۔۔۔؟
آپ کراچی میں بانیٔ پاکستان اور بابائے قوم کے نام سے منسوب ’جناح میڈیکل یونیورسٹی‘ جیسے نام تک کو برداشت نہیں کر پاتے، اور اسے بھی ’’جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی‘‘ بنا کر ہی دَم لیتے ہیں، اور آپ ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیویسکولر ڈیزیز‘ المعروف ’کارڈیو‘ کو بھی ’نیشنل‘ سے ’سندھ انسٹی ٹیوٹ‘ کر دیتے ہیں۔ یہاں کراچی پریس کلب، کراچی آرٹس کونسل، کراچی بار کونسل اور کراچی چیمبر آف کامرس وغیرہ جیسے کراچی کے بڑے نمائندہ اداروں تک میں مہمانوں کو سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی پہنائی جاتی ہے۔
مانا کراچی بھی سندھ کا حصہ ہے، لیکن بھیا، یہ سوال تو بنتا ہے ناں کہ پھر کراچی والوں کی ثقافت کو کون سا مَنچ اور کون سا اسٹیج ملے گا۔۔۔؟ جب سندھ ’دو لسانی صوبہ‘ ہے، تو سندھ کی دوسری تسلیم شدہ ثقافت کا اظہار اِس کے اپنے شہر، اپنے محلے، اپنے فورم اور اپنے اداروں میں ہی نہ ہو تو بتائیے کہ کیا اِسے زیادتی نہیں کہیں گے۔۔۔؟
کوئی پیپلز پارٹی سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آخر آپ ہی کے بڑوں نے جو چیز طے کی تھی، آپ نے آج تک اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟ آپ سندھ کی تقسیم یا شہری سندھ صوبے کے مطالبے پر شدید ترین ردعمل تو دے دیتے ہیں، لیکن کبھی سنجیدگی سے یہ کوشش کیوں نہیں کرتے کہ سندھ کے مہاجروں کو ان کی مسلّمہ لسانی شناخت کے ساتھ سندھ کا باسی سمجھنے کی کوشش بھی کرلیں۔۔۔ آخر کیوں آج بھی جداگانہ مہاجر تشخص کے اوپر ’سندھی شناخت‘ کا لیبل لگا کر ہی سندھ کا اتحاد بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔؟
آخر کیوں سندھ کی ثقافت میں کبھی ’مہاجر ثقافت‘ کو ذرا سی بھی جگہ نہیں مل پاتی۔۔۔؟ ہر سال دسمبر میں سرکاری سطح پر ’یوم سندھی ثقافت‘ منانے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور پشتون سے لے کر سرائیکی قوم تک کے یوم ثقافت کی مبارک باد دینے والے بلاول زرداری صاحب نے آخر کیوں اپنے صوبے میں برابر کی ساجھے دار ’مہاجر قوم‘ کے ’یوم ثقافت‘ (24 دسمبر) پر کبھی اپنا دل بڑا نہیں کیا۔۔۔؟
آپ مہاجروں کے اپنے علاحدہ صوبے کے آئینی مطالبے پر تو خون کی ندیاں بہانے کی بات کر لیتے ہیں، لیکن سندھ کے مختلف سرکاری اداروں اور تقاریب میں ’مہاجر ثقافت‘ کو جگہ نہیں دیتے۔۔۔! کہ چلیے اگر آپ انھیں الگ صوبہ نہیں دینا چاہتے، تو ساتھ رکھنے کے لیے بھی تو کوئی اچھا راستہ نکالیے۔۔۔! انتہا یہ ہے کہ آپ کراچی جیسے شہر میں سندھی کے ساتھ انگریزی میں تو سرکاری بورڈ لکھ دیتے ہیں، لیکن اردو کو جگہ نہیں دیتے! جو اس ملک کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے صوبے کی ایک مستقل قوم کی مادری زبان بھی ہے، جب کہ آپ چاہیں تو انگریزی کی جگہ اردو بھی لکھ سکتے تھے، لیکن آپ نے نہیں لکھی۔
یہی وہ ساری باتیں ہوتی ہیں، جو پھر لوگوں کو سوال کرنے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی قوم اپنا عقیدہ اور مذہب تو بدل سکتی ہے، لیکن اپنا حسب نسب اور لسانی وقومی تشخص تبدیل کرنے پر بالکل قدرت نہیں رکھتی، لیکن نہ جانے کیوں اس ملک میں مہاجر تشخص کو آج تک کھل کر تسلیم ہی نہیں کیا گیا، جب بات کی گئی انھیں ’نئے سندھی‘ اور ’اردو بولنے والے سندھی‘ وغیرہ جیسے مضحکہ خیز اور ناقابل فہم انداز سے مخاطب کیا گیا۔۔۔ جب کہ پنجاب میں بہ آسانی علاحدہ سرائیکی حقوق کی بات کی جا سکتی ہے۔
صوبہ سرحد کا نام بدلتے ہوئے غیر پختون نمائندگی کے طور پر ’خیبر‘ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، بلوچستان میں پشتون اِکائی پر کسی کو بھی کوئی کلام نہیں، لیکن سارا مسئلہ ہے تو سندھ میں موجود مہاجر تشخص اور ان کے جداگانہ وجود پر ہے۔ وہ تشخص جس کو محمود الحق عثمانی اور رئیس امروہوی جیسے اکابرین نے ملک کی ’پانچویں قومیت‘ کے طور پر منوایا، آج ملکی آبادی میں پانچواں بڑا وجود رکھنے کے باوجودمہاجر قوم کے لیے بات کرنا اتنا معیوب بنا دیا گیا ہے کہ اکثر مہاجر دانش وَر بھی دوسروں کی ناراضی کے خوف سے اپنی قوم کی بنیادی سی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مہاجر کالم نگار، ادیب اور لکھاریوں کے اس رویے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں آج تک مہاجروں کو ان کی الگ شناخت کے ساتھ اس طرح قبولیت دی ہی نہیں گئی، جیسے دیگر بہت سی چھوٹی قوموں کے لیے موجود ہے۔ آپ چار لوگوں میں یہ بات کر کے دیکھ لیجیے، بہت سے بدلتے ہوئے تیور، مختلف طنز اور لب ولہجے ساری کہانی اپنے آپ کہہ دیں گے۔
اس لیے متعصب اور تنگ نظر کی چھاپ پا کر سب میں تنہا ہونے یا بریکٹ کیے جانے کے خوف سے منظر نامے سے ’مہاجر تشخص ‘ پس پا ہوتا جا رہا ہے، لیکن عوامی سطح پر یہ بیانیہ بدستور مستحکم تر ہے، تبھی کراچی والوں کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے لیے اسلام آباد سے بھی یہاں کوئی نمودار ہوتا ہے، تو گلی کوچوں میں توجہ حاصل کرنے کے لیے یہی دُکھتی رگ چھیڑتا ہے۔ عام لوگ سیاسی اور سماجی طور پر روا رکھے جانے والے دُہرے معیار پر بھی کھل کر بات کرتے ہیں اور زندگی کے عملی تجربات اور مشاہدات بھی انھیں بہت اچھی طرح بتا دیتے ہیں کہ اس ملک میں ان کا تشخص کیا ہے اور وہ کون ہیں؟
اس لیے بہتر ہوگا کہ اِس ملک میں جب مساوات اور تمام قوموں کی برابری کی بات کی جائے، تو ملکی سطح پر پانچویں اور سندھ میں تسلیم شدہ دوسری قوم کے تشخص کو بھی پوری پوری جگہ دی جائے کہ یہ وہ قوم ہے، جس نے اس ملک کے قیام کے لیے56 فی صد ووٹ دیے اور اِن کے شہر، ان کے صوبے اور قصبے کبھی اس ملک کے جغرافیے میں جگہ نہ پا سکے، لیکن آج اس ملک میں انھیں کم ازکم ان کے اپنے علاحدہ وجود اور تشخص کے ساتھ اور چار دوسری قوموں کی طرح ان کے مساوی حقوق کا کچھ تو مان سمّان رکھ لیں۔
تُو نے تو پی ہی نہیں۔۔۔!
ابوالکلام آزاد
چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق 1500ء برس سے استعمال کی جارہی ہے۔ لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہر لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے، جن جن ملکوں میں چین سے براہ راست گئی مثلاً روس، ترکستان، ایران، وہاں بھی کسی کو یہ خیال نہیں گزرا، مگر سترہویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے، تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انھوں نے دودھ ملا نے کی بدعت ایجاد کی اور چوں کہ ہندوستان میں چائے کا رواج انھی کے ذریعے ہوا اس لیے یہ بدعت سیہ یہاں بھی پھیل گئی۔
رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔ اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہوگئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن ان کے تخم فساد نے جو برگ و بار پھیلائے ہیں، انھیں کون چھانٹ سکتا ہے۔ لوگ چائے کی جگہ ایک سیال حلوا بناتے ہیں، کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے کہ؎
’ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں!‘
(’غبارِ خاطر‘ سے تلخیص)
’’نہیں، سردیوں
میں روزہ رکھنا۔۔۔!‘‘
مریم شہزاد، کراچی
’’امی کل لائبہ کی روزہ کشائی ہے، آپ میرا روزہ کب رکھوائیں گی۔۔۔؟ ‘‘
سارہ نے امی سے پوچھا، تو پچھلے سال کی طرح اس سال بھی یہی جواب ملا۔
’’بہت گرمی ہے، جب سردیاں آئیں گی، تب رکھنا!‘‘
لیکن امی اب تو میری سب سہیلیوں نے روزہ رکھ لیا، تو مجھے بھی اسی سال روزہ کشائی کرنی ہے۔
لیکن سارہ۔۔۔امی نے پھر کچھ کہنا چاہا، مگر سارہ نے سنی ان سنی کر دی اور کہا :
’’اگر آپ نے کل مجھے سَحری میں نہیں اٹھایا، تو میں بغیر کچھ کھائے روزہ رکھ لوں گی۔۔۔!‘‘
آخر ان کو سارہ کا روزہ رکھوانا ہی پڑا، سارہ نے بہت شوق سے روزہ رکھا، دن بھر دادی سے پوچھتی بھی رہی کہ میں اب روزے اور کیا عبادت کروں اور پھر جب سب سہیلیوں اور رشتے داروں کے ساتھ روزہ افطار کیا، تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔
بہت سی خواتین اپنے بچوں کی محبت میں اپنے اللّہ کی محبت کو بھول جاتی ہیں اور اس کے احکامات کو نظر انداز کر دیتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے دین کو ایک مشکل چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ خاص طور پر روزہ جو ایک فرضی عبادت ہے، اس سے بچوں کو ڈرانے کے بہ جائے ان میں شوق پیدا کرنا چاہیے، روزہ کشائی کی تقریب اس سلسلے میں کافی اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر پورے مہینے کا بجٹ ایک دن کی افطاری کی دعوت پر ختم کر دیں اور پھر پورا مہینا پریشان رہیں، روزے کا شوق بچوں میں اپنے بڑوں کو دیکھ کر بھی ہو جاتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کے سامنے ایسے الفاظ یا جملے نہ بولے جائیں کہ جن کی وجہ سے وہ روزے سے ڈرنے یا گھبرانے لگیں۔۔۔
’’ہائے ہائے اس بار تو رمضانوں میں بہت ہی گرمی ہے ۔۔۔!‘‘
’’آج تو پیاس سے حلق میں کانٹے پڑ رہے ہیں!‘‘
’’اف کتنی دیر رہ گئی روزہ کھلنے میں ؟‘‘
’’آج تو بہت روزہ لگ رہا ہے!‘‘
ایسے جملے بچوں کو روزے سے دور کر سکتے ہیں، اس کے برعکس اگر خوش دلی سے روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہیں اور عبادت اور تلاوت کا اہتمام رکھیں، تو بچوں میں بھی شوق بڑھتا ہے اور اس کے لیے پھر کسی باقاعدہ روزہ کشائی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، ساتھ ہی جب بچہ اس قابل ہو جائے کہ کچھ دیر بھوک پیاس برداشت کر سکے (روزہ فرض ہونے سے پہلے) تو اس کو دن میں دو دفعہ روزہ رکھوا کر عادت ڈالنی شروع کر دینی چاہیے کہ آج ناشتے کے بعد شام چار بجے تک کا روزہ ہے اور پھر کبھی ظہر سے مغرب تک کا روزہ ہے۔
اس طرح بچوں کا شوق بھی بڑھے گا اور عادت بھی ہوتی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر ہم ان کو ڈراتے رہیں گے کہ ابھی گرمی ہے ’’تم تو ابھی چھوٹے ہو!‘‘ یا ’’کیسے بھوک پیاس برداشت کرو گے؟‘‘ تو وہ بعد میں بھی روزے سے بھاگنے لگیں گے، اس لیے بچپن سے ہی دین کی طرف راغب کریں، تاکہ اچھے مسلمان بن سکیں۔
دوسری بات جو اہم ہے، وہ روزوں کی عبادات ہیں، روزے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ بھوکے پیاسے رہ کر سوتے رہیں، یا موبائل میں گُم رہیں۔ چوں کہ رمضان المبارک اللّہ کا مہینا ہے، اس لیے بچوں کو اچھی طرح سے ذہن نشین کرا دینا چاہیے کہ ہم اس میں اللّہ تعالیٰ کو کیسے خوش رکھ سکتے ہیں۔
یا وہ کون سے ایسے کام ہیں، جن سے اللّہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں، صرف یہ سوچ کر روزہ رکھنا کہ سَحری میں پراٹھے ملیں گے اور افطاری میں بچوں کی پسند کی چیزیں ہوں گی، بالکل غلط ہے۔ روزے کو روزہ ہی سمجھیں اور سمجھائیں، صرف فاقہ یا لذت کا یا کھانے پینے کا مہینا نہ بننے دیں۔ ساتھ ہی تراویح کا اہتمام، اور بیٹوں کو باجماعت نماز کی عادت ڈالیں، تاکہ نہ صرف رمضان بلکہ رمضان المبارک کے بعد بھی ان کو کو نمازوں کی پختہ عادت ہو جائے۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.