ڈاکٹر اقبال ہمارے عصر کے نابغۂ اعظم تھے‘ جن کی شخصیت نصف صدی تک ہمارے ملک کے علم و ادب‘ ملت اسلامی کے افکار و تصورات اور شعر و سخن کی مجالس پر ابر رحمت بن کر چھائی رہی۔
آج وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کا فکر آج بھی پڑھے لکھے مسلمانوں کے خیالات کی رہنمائی کر رہا ہے اور مدت دراز تک کرتا رہے گا۔ اقبال اردو اور فارسی کا شیوا بیان شاعر‘ اتحاد عالم اسلامی کا انتھک مبلغ‘ دنیا کا ایک نامور فلسفی اور اسلام کے اقدار و معیارات کا بدیع المثال محافظ اور مفسر تھا اور یہ کہنا ذرا بھی مبالغہ میں شامل نہیں کہ مولانا روم کے بعد عالم اسلام میں اس شان کا شاعر اور مفکر صرف اقبال تھا۔
درخواست تلمذکا جواب
مجھے مدۃ العمر اقبال کی خدمت میں شرف نیاز حاصل رہا۔ ان کی شہرت اس صدی کے اوائل ہی میں قائم ہو چکی تھی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی نظمیں سننے کے لئے ہزاروں اشخاص جمع ہو جاتے تھے۔
1908ء میں میری عمر چودہ برس کی ہو گی کہ مجھے شعر کہنے کا شوق ہوا۔ میں نے علامہ اقبال کو تلمذ کے لئے خط لکھا‘ جس کے جواب میں انہوں نے تحریر فرمایا کہ ہر شخص کو طبیعت آسمان سے اور زبان زمین سے ملتی ہے اگر آپ کی طبیعت شاعرانہ ہے تو آپ خود بخود شعر گوئی پرمجبور ہوں گے۔ باقی رہی زبان! تو اس کے لئے میں موزوں استاد نہیں ہو سکتا۔ مثل مشہور ہے کہ شاعری ایک ’’بے پیرا‘‘ فن ہے۔
لوگ اس مثل کو شاعری کی تحقیر کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس میںحکمت پوشیدہ ہے۔ شعر کے لئے کسی پیر استاد کی ضرورت نہیں‘ لیکن اگر تلمذ پر مصر ہی ہو تو میں داغ کے دو قابل شاگردوں کے نام لکھتا ہوں۔ ان میں سے کسی سے رجوع کیجئے۔ منشی حیات بخش رسا شاعر دربار رام پوراور سید محمد احسن مار ہروی۔
انار کلی میں
اس کے بعد1912ء میں مجھے لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان دنوں آپ انارکلی بازار کے ا یک بالا خانے میں رہتے تھے جس کی جگہ اب شوکت مارکیٹ تعمیر ہو چکی ہے۔ اس زمانے میں بھی علامہ کی وضع یہی تھی کہ ایک آرام کرسی پر بنیان پہنے اور تہمد باندھے بیٹھے رہتے تھے۔ حقہ لگا رہتا تھا۔ سردیوں میں اس لباس پر ایک کشمیری دھسے کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ آس پاس کتابیں بکھری رہتی تھیں۔ کرسی کے ساتھ ہی ایک بستر لگا رہتا تھا۔
بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تو بستر پر استراحت فرماتے۔ منشی طاہر الدین( موجد ’’دل روز‘‘) ان کے منشی تھے جو وکالت میں ان کی مدد کرتے تھے۔خادم خاص علی بخش تھا جو آخر دم تک رہا اور اب بھی ’’جاوید منزل‘‘ ہی میںپڑا ہے(جب یہ مضمون لکھا گیا علی بخش زندہ تھا)۔ ڈاکٹر صاحب سرخ و سفید‘ وجیہہ و شکیل آدمی تھے۔ ان کا عام لباس ترکی ٹوپی یا پشاوری لنگی‘ چھوٹے کوٹ اور شلوار پر مشتمل تھا۔ عدالت جاتے وقت ا نگریزی سوٹ پہنتے لیکن اس کو پسند نہ کرتے تھے۔ اور گھر آتے ہی فی ا لفور اس سے چھٹکارا حال کرتے۔
درد وگداز
میں اکثر حاضر ہوتا اور ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے مستفید ہوتا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس برس سے کچھ کم تھی۔ لیکن نوجوانی کی رنگ رلیاں ترک کر چکے تھے اور اسلامیات کے وسیع مطالعہ اور قرآن حکیم پر تدبر و تفکر میں مصروف تھے۔
چونکہ اہل دل کی آغوش میں پرورش پائی تھی۔ اس لئے طبیعت میں سوزو گداز تھا۔ میں نے بار بار دیکھا کہ جوانی کے دور میں بھی جب کبھی دوران گفتگو میں حضور سرور کائنات ﷺ کی رافت و رحمت کا ذکر آ جاتا تو ڈاکٹر صاحب زار وقطار رونا شروع کر دیتے اور دیر تک طبیعت نہ سنبھل پاتی۔
مجھے نوٹس
اس کے بعد میں نے 1914ء میں پٹھانکوٹ سے رسالہ ’’فانوس خیال‘‘ جاری کیا۔ ایک دفعہ کسی اخبار میں ڈاکٹر صاحب کی ایک چھوٹی سی نظم نظر آئی جو میں نے ’’فانوس خیال‘‘ میں نقل کر لی۔ چند روز بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک رجسٹرڈ نوٹس دے دیا کہ میں نے آپ کو اپنا کلام اشاعت کے لئے نہیں دیا‘ پھر آپ نے میری نظم کیوں شائع کی۔ میں بے حد پریشان ہوا۔ والد محترم سے ذکر کیا۔
ان کے ایک دوست محمد فاضل پٹھانکوٹ میں ٹھیکیداری کرتے تھے اور سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ اتفاق سے ڈاکٹر صاحب کے بے تکلف دوست بھی واقع ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگے‘ تم فکر نہ کرو۔ اقبال کے دماغ میں قانون کا فتور ہے۔ اس دفعہ لاہور جاؤں گا تو اس فتور کا علاج کر دوں گا۔ چنانچہ انہوںنے لاہور آ کر ڈاکٹر صاحب کو اس حرکت پر ملامت کی۔
1915ء کے آواخر میں دوبارہ لاہور آیا اور اس وقت سے1938ء تک تئیس سال کی مدت میں کوئی ہفتہ بھی ایسا نہ گزرا کہ میں ایک دو دفعہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر نہ ہوا ہوں۔ 1921-22ء میں قید فرنگ کی وجہ سے محروم نیاز رہنا پڑا‘ لیکن جب واپس آیا تو ڈاکٹر صاحب اس تپاک اور خلوص سے ملے کہ میں بھی آب دیدہ ہو گیا اور وہ بھی اشک بار ہوئے اور دیر تک مجھے ’’الدنیا سجن المومن‘‘ کا مطلب سمجھاتے رہے۔
اس زمانے میں آپ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں منتقل ہو گئے تھے اور چوہدری محمد حسین مرحوم سے ارتباط بہت بڑھ گیا تھا جو صبح و شام حاضر ہوا کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب کو ان کی تصانیف کی ترتیب و تہذیب میں مدد دیا کرتے تھے۔ میرا اور مہر صاحب کا معمول یہی تھا کہ جب بھی وقت ملتا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر گھنٹوں بیٹھتے اور اکثر رات کے دس گیارہ بجے ڈاکٹر صاحب ہمیں اپنی غیر مطبوعہ نظمیں نہایت دلفریب ترنم میں سنایا کرتے ۔ یہ سعادت صرف ہم تینوں ہی کو حاصل تھی‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب اپنا کلام سنانے میں بے حد بخیل واقع ہوئے تھے۔
دلکش ترنم
میںنے متعدد بار ڈاکٹر صاحب کو عام مجمعوں میں نظمیں سناتے دیکھا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے چند اجلاسوں کے علاوہ ’’جواب شکوہ‘ ‘ موچی دروازے کے باہر باغ میں اور ’’طرابلس کے شہیدوں کا لہو‘‘ بادشاہی مسجد میں پڑھی گئیں۔ دونوں موقعوں پر میں موجود تھا۔
نظموں کو ترنم سے پڑھنے کا شعار سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب ہی نے اختیار کیا تھا اور چونکہ موسیقی کے مبادی سے باخبر ہونے کے علاوہ ان کی آواز میں شیرینی اور لہجے میں سوزو گداز تھا‘ اس لئے ہزاروں کا مجمع مسحور و مبہوت ہو جاتا تھا۔ بعض موقعوں پر میں نے دیکھا کہ شعر خانی کے دوران میں ڈاکٹر صاحب کے آنسو ان کے رخساروں پر بہہ رہے ہیں اور آواز کے سوز میں زیادہ گہرائی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کیفیت حاضرین مجلس تک متعدی ہو جاتی اور آہ فریاد کی آوازیں ہر طرف سے بلند ہونے لگتیں۔
قرآن‘ حدیث‘ فقہ
ڈاکٹر صاحب جدید و قدیم علوم کے جامع تھے۔ قرآن مجید سے ان کو عشق تھا۔ ہر روز صبح کے وقت خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور اکثر اشک بار ہو جاتے۔ قرآن کے معارف پر ژوف نگاہی سے غور کرتے اور ایسے ایسے بیش بہا نکات بیان فرماتے جو اس سے قبل کسی مفسر کو نہ سوجھے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ آج کل کے انسان میں معارف قرآنی کے فہم کی صلاحیت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
کیونکہ گذشتہ چودہ سو سال میں انسان نے فکری اور سائنسی علوم میں جو ترقی کی ہے اس نے قرآن کو آسان تر کر دیا ہے اور تسخیر کائنات کے سلسلے میں انسان جو کچھ کر رہا ہے وہی قرآنی تعلیمات کا منشا ہے۔
حدیث کے عاشق تھے کیونکہ ان کے عشق رسولﷺ کا طبعی تقاضا یہی تھا۔ حضورﷺ کی حکمت بالغہ کا تصور کر کے اکثر رو پڑتے ۔ البتہ قانونی اہمیت کی حدیثوں کے متعلق ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ اگر حضور ؐ نے کوئی قانونی فیصلہ کیا ہے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ فیصلہ کن حالات میں صادر ہوا اگر حالات وہی ہیں تو فیصلہ بھی وہی قائم رہے گا۔ اگر حالات مختلف ہیں تو فیصلہ بھی حدیث سے مختلف ہو گا‘ کیونکہ اختلاف زمان سے اختلاف احکام فقہا کا مسلمہ اصول ہے۔ ایسی صورت میں حدیث کے الفاظ کی جگہ اس کی روحیت اور معنویت پیش نظر رکھنی ہو گی۔
فقۂ اسلامی کے متعلق ڈاکٹر صاحب عمر بھر یہی کہتے رہے کہ بلاشبہ ہمارے فقہا و مجہتدین نے فقہ پر بڑی محنت کی ہے اور ان کی یہ محنت صرف قابل داد و تحسین ہی نہیں بلکہ اس سے ہر دور کے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہئے۔ لیکن آج کے دور میں ضرورت ہے کہ اصول فقہ کو زمانۂ حال کی ’’جیورس پروڈنس‘‘ کے انداز پر از سر نو مدون کیا جائے تاکہ ہم مسلمانوں کے لئے نہایت واضح نظام شریعت بھی مہیا کر سکیں اور دنیا کو یہ بھی بتا سکیں کہ ہمارا قانون دنیا بھر کے قوانین وشرائع پر ہزار وجوہ فضیلت رکھتا ہے۔
ادبیات کی رہنمائی
اسلامی روایات کا رخ بدلنے میں بھی ڈاکٹر اقبال کی خدمات بے حد قابل قدر ہیں۔ انہوں نے اردو کی شاعری کو مریضانہ زار نالی‘ حسرت و حرماں اور مایوسی وافتادگی سے نجات دلا کر حیات افروز اور جذبہ انگیز خیالات نظم کرنے پر آماد ہ کیا اور ’’ادب برائے ادب‘‘ کے نظر یہ کو باطل قرار دے کر ادب کے روابط زندگی کے ساتھ استوار کئے۔ فارسی اس ملک میں مر رہی تھی۔ اس کو چند سال کے لئے حیات تازہ دے دی اور اس زبان کے ذریعے سے ا پنے افکار و خیالات ساری دنیائے اسلام تک پہنچا دیے۔
جلیل القدر شاعر اور عظیم الشان فلسفی ہونے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں ظرافت اور تفنن کا ذوق بدرجۂ اتم موجود تھا۔ انقلاب کے ’’افکار وحوادث‘‘ کو بڑے شوق سے پڑھتے اور اکثر کہا کرتے کہ سالک کے افکار و حواث میں ایک ہی خرابی ہے کہ بہت کم ہوتے ہیں‘ مزا آنے لگتا ہے تو کالم ختم ہو جاتا ہے۔ آپ صبح سے شام تک بے شمار آنے والوں سے علمی‘ سیاسی‘ ادبی‘ فلسفیانہ موضوعات پر گفتگو کرتے اور معلومات کا دریا رواں رہتا۔ لیکن ان کی خوش طبعی ‘ بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی ان مذاکرات کو کبھی گراں بار اور غیر دلکش نہ ہونے دیتی۔
آواز بیٹھ گئی
مرنے سے چند سال پہلے آواز بیٹھ گئی تھی جو یونانی ڈاکٹری اور ریڈیائی غرض کسی علاج سے بھی درست نہ ہوئی اور اس بلبل ہزار داستان کے چہچہے ختم ہو گئے۔ زیادہ باتیں ہمیں لوگ کیا کرتے اور ڈاکر صاحب بہ تکلف چند فقرے ارشاد فرماتے۔ آخری دو تین سال کی مدت میں چودھری محمد حسین‘ میاں میں شفیع (جرنلسٹ) سید نذیر نیازی اور راجا حسن اختر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں اکثر حاضر رہتے ۔ مہر صاحب کبھی کبھی جاتے اور ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر مضطرب واپس آتے ۔
ڈاکٹر صاحب کی دلی خواہش تھی کہ حجاز جائیں اور فریضہ حج ادا کر کے اما کنِ مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوں لیکن روز افزوں بیماری کے باعث یہ مبارک ارادہ پورا نہ ہو سکا اور ڈاکٹر صاحب نے اپنے تصور ہی میں حجاز کا سفر اختیار کر کے اپنے تاثرات ’’ارمغان حجاز‘‘ میں بیان کر دیے جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی۔
میں ڈاکٹر صاحب کے متعلق متعدد مضامین لکھ چکا ہوں۔ اپنی ’’سرگزشت‘‘ میں جا بجا ان کا تذکرہ کر چکا ہوں بلکہ ’’بزم اقبال‘‘ کی فرمائش پر ان کی پوری سوانح عمری بھی ’’ذکر اقبال‘‘ کے نام سے تالیف کر چکا ہوں‘ اس لئے اس چھوٹے سے مضمون میں کوئی ایسی بات بیان نہیں کر سکتا جو پہلے نہ لکھی جا چکی ہو‘ اس لئے معذرت خواہ ہوں۔
خدا کی قدرت ہے کہ جو شخص عمر بھر مسلمانوں کی حریت ‘ اسلامی حکومت اور اتحاد المسلمین کی دعوت دیتا رہا اور جس نے مرنے سے سات سال پیشتر مسلمانوں کو پاکستان کا نصب العین بھی دے دیا‘ اپنے اس خواب کی تعبیر نکلنے سے نو سال پیشتر ہی اپنے پیدا کرنے والے کے دربار میں پہنچ گیا اور ’’نوائے پاکستان آزاد‘‘ کو لہراتا ہوا نہ دیکھ سکا لیکن جب تک پاکستان قائم ہے یہی جھنڈا لہرا لہرا کر پاکستانیوں کو اقبال کی یاد دلاتا رہے گا۔
The post علامہ محمد اقبال؛ مولانا روم کے بعد عالم اسلام کا سب سے بڑا شاعر اور مفکر appeared first on ایکسپریس اردو.