ماہ رمضان کے حوالے سے ممتاز عالم دین و امیر عالمی اتحاد اھل السنۃ و الجماعۃمولانا محمد الیاس گھمن نے ’’ایکسپریس فورم‘‘ سے خصوصی گفتگو کی جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
مولانا محمد الیاس گھمن
(امیر عالمی اتحاد اھل السنۃ و الجماعۃ )
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزہ کا فلسفہ تقویٰ بتایا ہے، یعنی خدا خوفی۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر وہ کام کرے جس سے اللہ خوش ہوتے ہیں اور ہر اس کام سے بچے جس سے اللہ ناراض ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ صرف اس کام سے خوش ہوتے ہیں جو اللہ کا حکم ہو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو، اور ان کاموں سے ناراض ہوتے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں آتے ہوں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔
اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں بلکہ) اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔
یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔
حدیث مبارک میں اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ رمضان المبارک کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے کئی خوبیوں کا حامل بنایا ہے ان میں سے پہلی یہ ہے کہ اسے شہر الصبرقرار دیاگیا ہے۔
یعنی صبر کا مہینہ۔ صبر کے متعلق قرآن کریم کی تعلیمات کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں پر اپنی نصرت و مدد نازل فرماتے ہیں،ان کو اپنی معیت خاصہ نصیب فرماتے ہیں، اپنی طرف سے خوشخبری کا مستحق قرار دیتے ہیں،ان کی اس خوبی کو اولو العزم رسولوں کا شیوہ قرار دیتے ہیں،ان کو رہنمائی کا امام قرار دیتے ہیں،ان کو غالب فرماتے ہیں،ان کو فرشتوں کی سلامتی کا حقدار ٹھہراتے ہیں۔
ان کوعاجزی کرنے والوں میں شمار فرماتے ہیں،ان کواحسان کرنے والوںمیں شمار فرماتے ہیں اور ان کے اجر کو ضائع نہیں ہوتے دیتے،ان کے لیے آخرت میں مغفرت کا اعلان فرمائیں گے،ان کو بے حساب اور عظیم اجر عطا فرمائیںگے،ان کو جزاء کے طور پرجنت کے محلات، بالا خانے، نہریں اور اس کی تمام نعمتیں عطا فرمائیں گے۔دوسری یہ ہے کہ اس کو شہر المواساۃ یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔
اب ذرا غم خواری کے متعلق فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: جن کے دلوں میں انسانیت کے لیے رحم نہیں وہ لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے،رحم دلی اور غم خواری کرنے والوں پر خدا رحمن اپنی رحمت نازل کرے گا۔
زمین والوں پر تم رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ اسے مبارک مہینے کو رزق میں برکت والے اضافے کا مہینہ قرار دیا گیا ہے،آج ہم سب رزق کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہم مسلمان رمضان المبارک کی قدر کرتے ہوئے اخلاص نیت کے ساتھ اس کو گزاریں اس ماہ کی جتنی عبادات ہیں ان کو اپنے وقت پر مسنون طریقے کے مطابق ادا کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور ہماری اس پریشانی کو دور فرما دیں گے۔
چوتھی خوبی یہ ہے کہ حدیث مذکور میں رمضان المبارک کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اس کے پہلے عشرہ کو رحمت،دوسرے عشرہ کو مغفرت جبکہ تیسرے عشرہ کو جہنم سے آزادی کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔ گناہوں کی وجہ سے اس وقت پوری امت مسلمہ ایک سخت آزمائش سے گزر رہی ہے اور ایسی آزمائش جس میں انسان اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو وہ آزمائش عذاب کی ایک شکل ہوتی ہے۔
آج دیکھ لیا جائے کہ گناہوں کے باوجود اللہ کی طرف رجوع نہیں ہے،صحیح غلط، جائز ناجائز بلکہ حلال حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے، ایسے وقت میں ہمیں اللہ کی رحمت ہی اپنے آغوش میں لے کر بچا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے پہلے دس دنوں میں اپنی رحمت کا عشرہ قرار دیا ہے اور دعوت دی ہے کہ گناہوں کی نحوست، وبال اور عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہو تو رمضان کے مبارک مہینے میں مجھے راضی کرو۔ میں اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا۔ اور جس پر اللہ کی رحمت نازل ہو جائے اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جاتے ہیں۔
دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے کہ جتنے گناہ ہم نے کیے ہیں اللہ ان سب کو اپنے کرم سے معاف فرما دے۔مغفرت ہر انسان کی ضرورت ہے چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور مغفرت کے بعد سب سے بڑی کامیابی ہے جہنم سے نجات پانا۔ قرآن کریم میں ہے کہ جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا یہی شخص سب سے بڑی کامیابی حاصل کرنے والا ہے۔
ایکسپریس: روزہ داروں کو اللہ تعالیٰ کیا عطا فرماتے ہیں؟
مولانا محمد الیاس گھمن: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ رمضان میں میری امت کو پانچ ایسے انعامات عطافرماتا ہے جو پہلے کسی امت کو نہیں دیے۔ پہلا یہ کہ اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ سے آنے والی بُو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔دوسرا یہ کہ روزہ داروں کی بخشش کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار کے وقت تک اللہ سے دعا مانگتی رہتی ہیں۔
تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ روزہ داروں کے لیے روزانہ جنت کو سجاتے ہیں اور اسے فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے خود سے مشقتوں اور تکالیف کو دور کر کے تیرے اندر آنے والے ہیں۔چوتھا یہ کہ اس میں سرکش شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے وہ رمضان میں ان برائیوں تک نہیں پہنچ سکتے جن برائیوں میں رمضان کے علاوہ میں پہنچ سکتے ہیںاور پانچواں یہ کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یہ مغفرت والی رات شب قدر ہی ہے ناں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! بلکہ دستور دنیا یہی ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔
ایکسپریس: قرآن و سنت کی روشنی میں رمضان المبارک کا کوئی خاص عمل اور وظیفہ بتا دیں؟
مولانا محمد الیاس گھمن:حدیث مبارک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کی دو دعائیں اور دو وظیفے ذکر فرمائے ہیں۔ دو دعائیںیہ ہیں: پہلی جنت کو طلب کرنے کی اور دوسری جہنم سے پناہ مانگنے کی۔ پورے رمضان المبارک میں یہ ضرور مانگنی چاہئیں۔اسی طرح دو وظیفے بھی ذکر فرمائے ہیں:پہلا کثرت کے ساتھ کلمہ طیبہ کا ورد کرنا اور دوسرا استغفار یعنی استغفراللہ استغفراللہ کا ورد کرتے رہنا۔
ایکسپریس:آپ نے بہت قیمتی باتیں ارشاد فرمائی ہیں اب یہ بھی بتا دیں کہ ہم رمضان کو کیسے گزاریں، شیڈول کیا بنایا جائے؟
مولانا محمد الیاس گھمن: اس حوالے سے میں ترتیب وار چند باتیں ذکر کر دیتا ہوں ان کو ملحوظ رکھ کر ہم رمضان گزاریں تواس کے وہ فضائل، فوائد اور ثمرات حاصل ہوں گے جن کا تذکرہ قرآن و سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ اوصاف بھی عطا فرما دیں گے جو رمضان المبارک سے مقصود و مطلوب ہیں۔ قرآن کریم میں اسے تقویٰ اور احادیث مبارکہ میں رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کہا گیا ہے۔
1:جونہی ہم ماہ رمضان کے چاند کو دیکھیں توچاند دیکھنے کی دعا پڑھیں،اَللّھُمَّ أَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالیُمْنِ وَالْإِیْمَانِ وَالسَّلامَۃِ وَالإِسلامِ رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللہ۔’’اے اللہ! اس چاند کو ہم پر برکتِ ایمان، خیریت اور سلامتی والا کردے اور (ہمیں) توفیق دے اس(عمل) کی جو تجھے پسند اور مرغوب ہو (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔‘‘ اب ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم پورا مہینہ اس ماہ مبارک کی دل و جان سے قدر کریں اور اس کے تقاضوں کو شرائط و آداب کے ساتھ پورا کریں۔2:اللہ کا شکر کثرت سے کریں۔3: ذوق شوق سے تراویح کی بیس رکعات اد ا کریں۔4: تین رکعات وتر اد اکریں۔
5: خوب دعائیں مانگ کر جلد سوجائیں تاکہ صبح سحری کے وقت اٹھنے میں دِقَّت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔6: سوتے وقت کی دعااللھم باسمک اموت واحییٰ پڑھیں۔7:سورۃ ملک پڑھیں، آخری دو سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھیں۔8:آیۃ الکرسی بھی پڑھ لیں۔9: سنت کے مطابق دائیں پہلو پر سوجائیں۔10: جب سحری کا وقت آجائے ہشاش بشاش ہو کرچستی سے اٹھ جائیں۔11: گھر والوں کے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹائیں۔12: وضو کریں۔13: تہجد ادا کریں، بلکہ کوشش کریں کہ تہجد ہمارا زندگی بھر کا معمول بن جائے، حدیث پاک میں ہے: فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے۔14: سحری ضرور کھائیں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تاکید کے ساتھ ہمیں حکم دیا ہے اور اس کو برکت والا کھانا قرار دیا ہے۔
بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں صحابہ کرام کی زندگی میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ 15:تلاوتِ قران کریں۔16: ذکر اذکار کریں۔17:توبہ استغفار کریں۔18: دعاؤں کا اہتمام کریں۔19: مرد مساجد میں آکر تکبیر اولیٰ کے ساتھ نمازیں ادا کریں۔ 20:اگر مسجد میں درس قرآن یا خلاصۃ القرآن کی ترتیب ہو تو اس میں ضرور شرکت کریں ورنہ باہمی مشاورت سے کسی مستند عالم سے درخواست کریں کہ وہ آپ کو روزانہ درس قرآن دے۔21:نمازِ فجر کے بعد اشراق تک ذکر اذکار میں مصروف رہیں۔22: نماز اشراق پڑھیں، حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا اجر ایک مکمل حج یا عمرے کے برابر ہے۔
23:مساجد میں شور و غل سے پرہیز کریں کیونکہ یہ عمل نیکیوں کو ایسے ختم کردیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ 24:مسجد سے واپس آکر اپنے کام کاج میں مصروف ہوجائیں۔25: کوشش کریں آپ کی زبان سے کوئی غلط بات نہ نکلے، بلکہ حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ اگر کوئی آپ کو غلط بات کہہ بھی دے لڑائی جھگڑا کرنے کی کوشش کرے تو آپ کہہ دیں کہ میں روزے سے ہوں۔
26:پورا دن اپنی زبان، آنکھ، کان اور تمام اعضاء کی حفاظت کریں۔ 27:زبان کو جھوٹ، غیبت، بہتان، چغلی، الزام تراشی، گالم گلوچ، گانے اور فضول گوئی سے پاک رکھیں اور نہ ہی زبان کے نشتر سے کسی کا دل دکھائیں، کسی کی ہتک عزت، بے عزتی او ر رسوائی نہ کریں۔28: آنکھ کو حرام امور سے بچائیں۔فلم، گانے، میوزک، ڈانس، بد نظری، نامحرم کی طرف دیکھنے سے پاک رکھیں۔ 29:کان کو غیبت سننے، گانا سننے، فضول گوئی سننے اور نامحرم کی باتیں بلا وجہ سننے سے پاک رکھیں۔
30:دل کو حسد، بغض، کینہ، عداوت، نفرت، تکبر، غرور اور بڑائی سے صاف رکھیں، باہمی رنجشیں دور کریں، کسی سے بول چال ختم ہے تو اس سے شروع کریں۔31: قطع رحمی سے باز آئیں، صلہ رحمی کو عام کریں۔32:دن بھر تلاوت قرآن کثرت سے کریں، حقوق وآداب کی مکمل رعایت رکھ کر تلاوت کریں۔ مستحب یہ ہے کہ باوضو ہوکر، خوشبو لگاکر قبلہ رو ہوکر با ادب سوچ سمجھ کر تلاوت کریں۔
33: سجدہ تلاوت وغیرہ امور کو بالکل نظر انداز نہ کریں اگر آپ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہوں تو علماء حق کی تفاسیر سے استفادہ کریں۔34:آپ کے گھروں، دفاتر اور زمینوں پر جو ملازمین ہیں ان کے کام میں نرمی اور تخفیف کریں۔35: تمام نمازیں وقت پر ادا کریں۔ 36: افطاری تیار کرنے میں گھر والوں کے ساتھ مل کر کام کریں، ان کو بالکل نہ ڈانٹیں، بلکہ اگر کبھی خلاف مزاج کوئی معاملہ سامنے آئے تو عفو و درگزر سے کام لیں۔37: افطار کرانے کا معمول بنائیں، حدیث میں اس کی بہت فضلیت آئی ہے۔
38:افطار کے وقت شور و غل اور بچگانہ حرکتیں مساجد کے تقدس کو پامال کرتی ہیں اس سے سختی سے پرہیز کریں۔ 39:نماز مغرب کے بعد چھ رکعات اوابین کا معمول بنائیں۔حدیث مبارک میں ہے جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔40: بلکہ حفاظ صاحبان کے لیے اوابین میں اپنی منزل پڑھ لینا زیادہ بہتر ہے۔41:نماز عشاء کی مکمل تیاری کریں۔42: اذان ہوتے ہی مسجد میں پہنچ جائیں۔43: خشوع وخضوع سے نماز اداکریں۔44:نماز تراویح کے لیے تیز رفتار حفاظ کی بجائے خوش الحان ٹہرٹہر کر پڑھنے سے والے قاری صاحبان کو منتخب کریں۔ کیونکہ تراویح رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے۔
اس سے جی نہ کترائیں،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا بیس رکعات کامعمول بھی تھا اوراس پر اجماع بھی۔ 45: خوب گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں، اپنے لیے، گھر والوں کے لیے، اپنے ملک کے لیے، پوری قوم بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے۔46: اس کے بعد جلد گھر واپس آئیں، اپنی حاجات طبیعہ سے فارغ ہوکرسونے کی تیاری کریں۔ 47: سونے سے قبل تھوڑی دیر کے لیے اپنا محاسبہ کریں، پورے دن میں جتنے اچھے کام کیے ہیں اس پر اللہ کا شکر اد اکریں اور جو خلاف شرع کام سرزد ہوئے ان سے توبہ کریں۔ یعنی ندامت کے احساس کے ساتھ وہ کام فی الفور چھوڑ دیں آئندہ نہ کرنے کا پکا عزم کریں۔ 48:جلد سو جائیں تاکہ صبح جلد اٹھیں اور اپنے معمولات صحیح طور پر ادا کر سکیں ۔ 49:رمضان میں صدقہ خیرات دل کھول کر کریں۔
50: اگر زکوٰۃ واجب ہے تو زکوٰۃادا کریں۔51: آخری عشرہ میں اعتکاف کریں، سب سے زیادہ بہتر یہ ہے اپنے شیخ اور مرشد کے ہاں جاکر اعتکاف کریں تاکہ اجر و ثواب بھی ملتا رہے اور ظاہری و باطنی ترقیات بھی نصیب ہوں، شیخ کی صحبت بھی زیادہ میسر ہو۔ 52:لیلۃ القدر تلاش کریں۔ لیلۃ القدر کی تلاش میں بہتر عمل اعتکاف ہے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کریں۔53: صدقہ فطر اورزکوٰۃ کے حوالے سے مستحقین کو ضرور یاد رکھیں۔54: نماز عید الفطر کی تیاری کریں، خود بھی نئے اور اچھے کپڑے سلوائیں اور بچوں کے لیے بھی، نماز عید الفطر اد اکریں اور خوب دعائیں کریں۔55:اگر استطاعت ہے تو رمضان میں عمرہ کریں، حدیث پاک میں ہے کہ رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے۔
ایکسپریس: کوئی شخص روزہ نہ رکھے تو اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
مولانا محمد الیاس گھمن: اگر روزہ کسی عذر کی وجہ سے چھوڑا ہے مثلاایسا دائمی مریض /شدید بیماریا معذور ہے جس کے صحت یاب ہونے کی بالکل امید نہیں تو اس کے لیے شریعت نے یہ رخصت دی ہے کہ وہ روزہ رکھنے کے بجائے اس کا فدیہ دے۔ ایک روزے کا فدیہ ایک آدمی کے صدقۃ الفطر کے برابر ہے۔ رمضان کے 29 یا 30 روزے ہوں تو صدقۃ الفطر کو 29 یا 30 سے ضرب دیں جو جواب نکلے وہ پورے رمضان کے روزوں کا فدیہ بنے گا۔ یہاں بھی یہ ملحوظ رہے کہ فدیہ میں اپنی حیثیت کا ضرور خیال کریں۔ گندم کے علاوہ جو، کشمش یاکھجور کے حساب سے فدیہ ادا کریں۔ اور اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر نہیں رکھتا تو بہت بڑا گناہ ہے، رحمت، مغفرت سے محرومی والی بات ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
ایکسپریس: ہمارے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیںگے؟
مولانا محمد الیاس گھمن: دنیا بہت مختصر اور عارضی ہے اس کے مقابلے میں آخرت بہت لمبی اور دائمی ہے۔ جہاں جتنا رہنا ہے اس کی اتنی محنت کریں، دنیا میں مختصر رہنا ہے تو محنت مختصر اور آخرت میں ہمیشہ رہنا ہے تو اس کے لیے محنت بھی اسی قدر کریں۔ اس لیے رمضان المبارک کی قدر کریں،مسنون اعمال کی پابندی کریں، گناہوں سے بچیں، اگر گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کریں۔ دنیا، قبر، آخرت کے عذاب سے پناہ مانگیں، ہر حال میں عافیت مانگیں،غریبوں اور ضرورتمندوں کا خاص خیال رکھیں۔ جہاں تک ممکن ہو ان کو اپنی خوشیوں میں شریک رکھیں، ہر طرح کی تفرقہ بازی، اسلام اور ملک دشمنی پر مبنی تمام باتوں اور کاموں سے بچیں۔ یہ ملک اللہ نے ہمیں رمضان المبارک میں عطا فرمایا تھا۔ اس ماہ مبارک میں وطن عزیز کی سا لمیت استحکام اور بقاء کے لیے خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے۔
The post ماہ رمضان صبر اورغم خواری کا مہینہ ہے، عبادات سے رحمتیں سمیٹ لیں! appeared first on ایکسپریس اردو.