’’تاریخ پہ تاریخ۔۔۔
تاریخ پہ تاریخ۔۔۔!‘‘
خانہ پری
ر۔ ط ۔ م
گذشتہ دنوں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم کے دوران قومی اسمبلی برخاست کیے جانے کے خلاف تعطیل کے روز معاملہ عدالت عظمیٰ گیا اور اسی روز کارروائی بھی شروع ہوگئی اور پھر اگلے ہفتے قومی اسمبلی بحال ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کرانے کے خلاف رات کے 12 بجے بھی عدالت لگانے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔۔۔
جس پر عدالتی راہ داریوں کے پھیرے لگاتے ہوئے سائلین نے بے ساختہ اِس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ رات گئے یا چھٹی کے روز نہ سہی، لیکن برسوں سے جاری عام مقدمات کے فیصلے کرنے کے لیے بھی کوئی ایسی پیش رفت ہو اور اس ملک کے شہریوں کے لیے انصاف کی راہیں آسان تر ہوتی چلی جائیں۔ ان کو اپنے مقدمات کی سماعت کے واسطے قریب کی تاریخیں ملیں، اور پھر ان کیسوں کی شنوائی بھی ہو، دونوں جانب کے وکلا حاضر ہوں اور عدالتوں کو مقدمات کو ایک معینہ مدت میں نمٹانے کا پابند کیا جائے۔
اس سے قبل 2014ء کے تحریک انصاف کے دھرنے کے حوالے سے ایک کیس میں چار مارچ 2022ء کو اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی یہ خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں تمام عدلیہ سے درخواست کروں گا، فیصلے بروقت ہوں، یہاں مقدمات نسلوں کے ساتھ چلتے رہتے ہیں، کیس چلتے رہتے ہیں گواہ مر جاتے ہیں، کاغذات کھو جاتے ہیں، یادداشتیں ختم ہو جاتی ہیں۔۔۔!‘‘
صدر مملکت کی بیان کردہ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سماج میں ’کورٹ، کچہری کو انتہائی ناپسندیدہ اور اعصاب شکن جگہ خیال کرتے ہوئے یہ دعا دی جاتی ہے کہ ’’اللہ تمھیں کورٹ کچہری سے محفوظ رکھے۔۔۔!‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ ’تاریخ پہ تاریخ‘ کی وجہ سے مقدمات کے فیصلے ہونے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ کوئی بھی اس ریاستی ستون کی مدد لینے سے پہلے دس بار ضرور سوچتا ہے۔
ایک مثل بھی ہے کہ ’’انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہوتی ہے!‘‘ آپ نے بھی خبروں میں دیکھا اور سنا ہوگا کہ عدالت نے کسی ملزم کو بَری کیا، تو اُسے دنیا سے گزرے ہوئے بھی عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔ یا عدالت نے کسی درخواست گزار کو برحق قرار دیا، لیکن تب تک پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، اور اس کے لیے اب یہ انصاف بے معنی سا ہو چکا تھا۔۔۔!
2007ء میں جب ملک بھر میں ’عدلیہ کی بحالی‘ کے نام پر ایک تحریک بپا ہوئی، تب یہ بازگشت سنائی دی تھی کہ عدالتی نظام کے حوالے سے بھی اصلاحات ہوں گی، جس کے بعد فیصلے جلد ہوا کریں گے۔
اس حوالے سے ایک رائے یہ سامنے آتی ہے کہ مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور ججوں کی تعداد کم ہے، جب کہ اس کے برعکس کسی نے تو یہ بھی کہا کہ اگر مقدمات جلد نمٹ جائیں، تو یہ مقدمات کا سارا بوجھ ہی بے معنی ہو جائے گا۔۔۔ بہرحال صورت حال جو بھی ہو، صدر مملکت عارف علوی کی طرح ہم بھی بطور عام شہری کے ضرور یہ خواہش ظاہر کریں گے کہ ہماری عدالتیں بروقت انصاف کریں۔ لوگوں کی عمریں اور نسلیں عدالت کی راہ داریوں کے چکر لگانے میں ختم نہ ہوا کریں۔
اس کے لیے اگر مقدمے کی اگلی شنوائی کسی نزدیکی تاریخ میں ہو۔۔۔ سماعت کی روزانہ کی فہرست میں شامل جو مقدمات باری نہ آنے پر ’ڈسچارج‘ ہوں، انھیں اگلی پیشی میں ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے۔۔۔ بہت سے سائلین یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ ’ارجنٹ درخواست‘ لگاتے ہیں، تاریخ ملتی ہے، لیکن پھر دوبارہ مقدمہ ڈسچارج۔۔۔! اس طرح مہینوں اور سال گزر جاتے ہیں کہ مقدمے کی سنوائی ہی نہیں ہو پاتی۔۔۔! کبھی تو اتنے آگے کا نمبر ہوتا ہے کہ محدود عدالتی وقت میں اس کی باری آنا ہی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔۔۔
اور اگلی کوئی تاریخ دیے بنا ہی مقدمہ ڈسچارج ہو جاتا ہے! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تاریخ ملتی ہے، لیکن کبھی وکیلوں کی ہڑتال ہو جاتی ہے، کبھی اس دن کوئی تعطیل پڑ جاتی ہے اور نتیجتاً پھر بار بار ارجنٹ درخواست کی مشقِ ستم سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔ اس میں بھی کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ’سندھ ہائی کورٹ‘ کے رجسٹرار آفس کا کمپیوٹرائزڈ نظام کسی تیکنیکی خرابی کے سبب معطل ہوتا ہے اور اپنے دفتروں سے وقت لے کر نکلنے والے سائلین انتظار کی غیر معینہ سزا بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔۔ یہ سب اذیتیں صرف وہی محسوس کر سکتا ہے، جو ان کٹھنائیوں سے گزر رہا ہو، یا کبھی گزرا ہو۔
پھر آپ ان ’افراد‘ کا سوچیے، جو قید کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، خدا خدا کر کے انھیں سماعت کی کوئی تاریخ ملتی ہے۔ پھر جھوٹے سچے مقدمات میں پھنسے ہوئے لوگوں کے اہل خانہ وغیرہ انصاف یا ضمانت منظور ہونے کی آس لیے عدالت کی چوکھٹ پر پہنچتے ہیں اور پھر وقت کی کمی یا اور کسی وجہ کی بنا پر مقدمہ ہی نہیں چل پاتا اور انھیں سخت گرمی میں ناکام ونامراد واپس لوٹنا پڑ جاتا ہے۔۔۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری عدالتیں مقدمات کی جلد شنوائی اور جلد فیصلے سے متعلق کوئی ایسی موثر حکمت عملی وضع کرلیں، جس میں ایک دو سماعتوں میں ہونے والے فیصلے زیادہ التوا کا شکار نہ ہوں، جس میں ایک مخصوص مدت کے اندر مقدمات نمٹانے کا کوئی طریقہ کار وضع ہو، جس میں پچھلی پیشیوں پر نہ چل سکنے والے مقدمات کو اگلی بار ترجیحی بنیادوں پر جگہ ملا کرے۔۔۔ جس میں معزز جج صاحبان فائل میں لگی ہوئی درجنوں ’ارجنٹ شنوائی‘ کی درخواستوں کا بھی نوٹس لیا کریں کہ آخر یہ مقدمہ کیوں نہیں سنا جا رہا۔۔۔؟
کاش، ایسا ہو سکے۔۔۔! کاش، چھٹی والے دن نہ سہی، شام ڈھلے اور رات گئے نہ سہی، بس عدالتی وقت کے اندر سائلین کے لیے سہولت کا کوئی ایسا نظام وضع ہو جائے، تو اس ملک کے مصائب زدہ عوام کے لیے یہ کسی انقلاب سے کم نہ ہوگا۔
کچھ تصوراتی کَتبے
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
فقہ ادب میں اہل ادب جیتے جی مر کر دیکھتے رہتے ہیں اور پھر مر کر جینے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ بھلے غالبؔ بہ خوفِ رسوائی اپنے مزار کے بہ جائے دریا میں غرق ہونے کو ترجیح دیں، مگر مردہ جب بدست زندہ ہو تو زندہ لوگ اسے دبا کر چل دیتے ہیں اور بعضے قبر پر کتبے بھی لگا دیتے ہیں۔ شعرا، ادبا اور دیگر شناسانِ سخن کے مزاروں پر یقیناً ایسے ہی کتبے جچتے ہوں گے۔۔۔
٭۔ اک شدید عاشق مزاج شاعر کی مرقد
غلام قیس ولد ناشاد انبالوی, عمر 65 سال
آشفتہ سری اور صحرا نوردی کے موجب کوڑھ اور آبلہ پائی کے امراض کا شکار ہو کر گوشہ نشیں ٹھیرے۔ ساتھ ہی ٹُک روتے روتے سونے کی عادت بھی پڑ گئی۔ بہت سے اغیار نے موقع غنیمت جان کر دشت کی سجادگی سنبھال لی۔ اپنے شہر کے مشاعروں میں بھی مدعو نہ کیے جانے پر سخت دل برداشتہ ہوئے اور درد ناک وفات پائی۔
٭اک شاعرہ کی تُربت کی لوح
محترمہ عندلیب گُل زوجہ مشکوک سلطان, عمر 93 سال
دختر نیک اختر کمال اور جمال کی شاعرہ تھیں۔ گل سے مل کر آہ زاریاںکرنے اور ذو معنی شعروں کی تخلیق و انتخاب کے باعث رسوا ہوئیں اور خاوند حقیقی سے بگاڑ بیٹھیں۔ آزمائش کی گھڑی میں خالق نے استقامت، صبر اور ایک جمیل بھی بخشا اور اپنا وقت آنے پر جہانِ فانی سے بطریقِ احسن رخصت ہوئیں۔
٭ ایک سرکاری ملازم ادیب کا کتبہ
فضل ِ رَبّی ولد خوش حال، خان عمر 55 سال
دنیائے سخن کی خوش نصیب شخصیت، جو کام نہ کرنے کی تنخواہ، کام کرنے کی رشوت اور ماتحتوں سے اپنے کلام بالجبرسنا کر داد وصول کرتے رہے۔ شکایت پر ’ایکٹ‘ لگا اور جامِ فراغت نوش کیا۔ سو نزولِ رحمت و فضلِِ ربی کے خاتمہ کے دکھ میں روح قفسِ عنصری و افسری سے پرواز کر گئی۔
٭ ایک حکیم ِبے بدل سخن شناس کی قبر کی تختی
حکیم حکمت خان دانش ولد حکیم علیل الزمان، عمر 67 سال
عمر مبارک سخن شناسی و ادب پروری میں گزری۔ شعرا کو دماغی عوارض، ضعفِ بصارت و بصیرت اور جملہ کمزوریوں کے مجرب نسخے فی سبیل اللہ فراہم کرتے رہے۔ آخری عمر میں خود علیل ہوئے اور اپنا علاج خود ہی کر بیٹھے۔ اسی شدتِ علاج سے فوراً وفات پائی۔
٭ ایک دائمی قریب الکتاب ادیب کی قبر کا کتبہ
درجنوں مسوّدے لکھے، مگر مالی عُسرت کی وجہ سے اشاعت نہ ہو سکی۔ گیارہویں مسوّدے کی طباعت کے لیے گھر کی اشیائے ضروریہ بیچتے ہوئے پکڑے گئے۔ بیوی (موجودہ بیوہ) سے تلخ کلامی اعضائے رئیسہ اور طبع ِنازک پر سخت گِراں گزری اور مستقبل کا عظیم متوقع نابغہ ملکِ عدم سدھار گیا۔ حیف کہ سسرال اور اہلِ خانہ کی بے حسی کی وجہ سے اعزاز سے دفنائے بھی نہ جا سکے۔
٭ جواں سال دل پھینک عاشق شاعر کا کتبہ،
نوجوان رومانوی شاعر، جن کی جوانی میں ہی دولتِ صبر و قرار لُٹ گئی، تو کاہل ہو کر کارِِ حیات سے بھی عاری ہوئے۔ گھر والوں کی طرف سے زجرو توبیخ، آتشِ عشق اور محبوبہ کے چوتھے عاشق کے حسد کی آگ میں جل کر راکھ ہوئے۔ برن سنٹر میں طویل کنوارگی کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مرحوم نے اپنے پیچھے والدین،ایک منگیتر، تین گرل فرینڈز، تین دوست، پان والا، ایک ادھورا دیوان، ٹچ فون سوگوار، جب کہ پانچ رقیب خوش گوار چھوڑے ہیں۔
٭ ایک عظیم عقل ِکل تجزیہ کار کی قبر کی لوح
وحیدالعصر، صحافت مآب جناب سخن فشار، عمر 68 سال
تمام عمر تنقید، غصے اور مایوسی میں گزری۔ پوری قوم میں اپنے پائے کا کوئی شخص نہ پا کر گالم نگاری اپنائی۔ غصیلے اثرات خون میں پھیل جانے سے آخری عمر میں غصے کی حالت میں ہی چل بسے۔
٭ ناشرِ کتب کے قبر کی تختی
خواجہ ناشر بد حالوی، عمر 72 سال
کتب بینی کا رجحان گھٹنے سے طباعتی دھندا چوپٹ ہوا۔ قرطاس کی گرانی اور محصولات فراوانی کے باعث معنک اور فارغ البال ہوگئے۔ غمِِ روزگار اور شدید مایوسی کے عالم میں دم گھٹنے سے رحلت فرمائی۔
٭ ایک متشاعر کی قبر کا کتبہ
رئیس المتشاعرین مرزا کامل نا شناس، عمر 40 سال
دل کے بُرے یعنی ’ہارٹ پیشینٹ‘ ہرگز نہ تھے، مگر قافیہ پیمائی میں کمال کی بد نظمیاں اور کج ادائیاں پائی جاتی تھیں۔ خدا داد صلاحیتوں اور سفارشوں سے ہر مشاعرے میں شریک رہے۔ اپنی اکلوتی کتاب کی اشاعت کے بعد اسے گھر گھر تقسیم کرتے ہوئے کھٹارا رکشے سے ٹکرا کر جاں بحق ہوئے اور کوئی سوگوار نہ چھوڑا۔
٭ روایتی مے کش شاعر کا کتبہ
جناب خُمار پھیپھڑ آبادی ولد غریب مینا ئی، عمر 66 سال
عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کے مے کش، بھنگ نوش اور پائوڈر کش تھے، جس کی وجہ سے اپنے گھر کا منہ شاذ ہی دیکھ پاتے۔ نشہ کی کثرت سے پھیپھڑوں، گردوں اور جگر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیز حریفوں کے ہاتھوں کئی مشاعرے چھِن جانے پر سخت رنجیدہ خاطر ہوئے اور اپنے جگری چرسی دوست کی بیٹھک میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
کچھ نے کہا چہرہ تِرا۔۔۔
مشتاق احمد یوسفی
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے اپنی دائیں ہتھیلی کا پسینا پونچھ کر ہاتھ مصافحہ کے لیے تیار کیا۔ سامنے کرسی پر ایک نہایت بارعب انگریز نظر آیا۔ سر بیضوی اور ویسا ہی صاف اور چکنا، جس پر پنکھے کا عکس اتنا صاف تھا کہ اس کے بلیڈ گنے جا سکتے تھے۔
آج کل کے پنکھوں کی طرح اس پنکھے کا وسطی حصّہ نیچے سے چپٹا نہ تھا، بلکہ اس میں ایک گائو دم چونچ نکلی ہوئی تھی، جس کا مصرف بظاہر یہ نظر آیا کہ پنکھا سر پر گرے تو کھوپڑی پاش پاش نہ ہو، بلکہ اس میں ایک صاف گائودم سوراخ ہو جائے۔
بعد میں اکثر خیال آیا کہ سر پر اگر بال ہوتے تو اس کی وجاہت دو بدبہ میں یقیناً فرق آجاتا۔ میز کے نیچے ایک ادھڑا ادھڑا ’’کیِمل‘‘ رنگ کا قالین بچھا تھا۔ رنگ میں واقعی اس قدر مشابہت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کوئی خارش زدہ اونٹ اپنی کھال فرش راہ کیے پڑا ہے۔ بھرے بھرے چہرے پر سیاہ فریم کی عینک۔ کچھ پڑھنا یا پاس کی چیز دیکھنی ہو تو ماتھے پر چڑھا کر اس کے نیچے سے دیکھتا تھا۔
دور کی چیز دیکھنی ہو تو ناک کی پھننک پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتا تھا۔ البتہ آنکھ بند کر کے کچھ دیر سوچتا ہو تو ٹھیک سے عینک لگا لیتا تھا۔ بعد میں دیکھا کہ دھوپ کی عینک بھی ناک کی نوک پر ٹکائے اس کے اوپر سے دھوپ کا معائنہ کرتا ہوا بینک آتا جاتا ہے۔ آنکھیں ہلکی نیلی جو یقیناً کبھی روشن روشن رہی ہوں گی۔ ناک ستواں ترشی ترشائی۔ نچلا ہونٹ تحکمانہ انداز سے ذرا آگے کو نکلا ہوا۔ سگریٹ کے دھوئیں سے ارغوانی، بائیں ابرو بے ایمان دکان دار کی ترازو کی طرح مستقلاً اوپر چڑھی ہوئی۔
گرج دار آواز۔ جسم مائل بہ فربہی، رنگ وہی جو انگریزوں کا ہوتا ہے۔ آپ نے شاید دیکھا ہوگا کہ چینیوں کا چہرہ عمر سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اور انگریزوں کا جذبات سے عاری، بلکہ بعض اوقات تو چہرے سے بھی عاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بالکل مختلف چہرہ تھا۔ ایک عجیب تمکنت اور دبدبہ تھا اس چہرے پر۔ کمرے میں فرنیچر برائے نام۔ نہ آرائش کی کوئی چیز۔ سارا کمرا اس کے چہرے سے ہی بھرا بھرا نظر آتا تھا۔ یہ مقابل ہو تو اور کوئی چیز۔ اس کا اپنا جسم بھی ۔ نظر نہیں آتا تھا۔
اس کا سراپا ہے یہ مصرع
چہرہ ہی چہرہ پائوں سے سر تک
ہم نے تیار شدہ ہاتھ مصافحہ کو بڑھایا، تو اس نے اپنا ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال لیا۔ کچھ دیر بعد ’’کریون اے‘‘ کا ’’کارک ٹپڈ‘‘ سگریٹ ڈبّے سے نکال کر الٹی طرف سے ہونٹوں میں دبایا۔ وہ بہت برے موڈ میں تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھائی اور دوسرے کانپتے ہوئے ہاتھ سے زیادہ کانپتے ہاتھ کو تھاما۔ کپ کی ڈگڈگی سی بجنے لگی اور چائے چھلک کر ہماری درخواست کو رنگین کر گئی۔
اب ایک دیا سلائی کو اپنے بہتر ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ کے اس پر ڈبیا رگڑنے لگا۔ لیکن وہ کسی طرح جل کر نہیں دیتی تھی۔ خواہ مخواہ کا تکلّف تھا، ورنہ چاہتا تو اسے اپنے بلڈپریشر پر رگڑ کے بہ آسانی جلا سکتا تھا۔
ماہ صیام سے کچھ سبق سیکھتے جائیے!
فرحی نعیم
ماہ صیام اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ رمضان المبارک کو اگر ہم ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں، تو یہ اللّہ کی طرف سے تقویٰ اختیار کرنے کا ایک چار ہفتے کا تربیتی کیمپ ہے۔ بقول ماہرین کسی شخص کی تربیت کے لیے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں۔ یہ تو پھر بھی چار ہفتوں کا سیشن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس ماہِ مبارک سے کچھ نہ کچھ عادات باقی سال کے لیے بھی سیکھتے جائیں۔
٭ روزے میں ہم تنہائی میں بھی کھانے پینے سے باز رہتے ہیں، کیسے کُلی کرتے ہوئے پانی احتیاط سے منہ سے باہر نکال دیتے ہیں۔ وہ کیا احساس ہوتا ہے کہ پانی حلق کے پاس تک تو جاتا ہے، لیکن نیچے نہیں اترتا۔ بس یہی وہ سبق ہے، جو ہمیں ساری زندگی اپنانا چاہیے، یہ احساس کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ٭ روزے کے وسیلے ہم اپنی بے وقت کی بھوک کو بہت حد تک قابو میں رکھ سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں مُٹاپا اور دوسری کئی بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، ایک کھانے سے دوسرے کھانے کے درمیان مناسب وقفے کی پابندی کو اپنایا جا سکتا ہے۔
٭ جتنی وقت کی پابندی اس ماہ ہوتی ہے اور کسی مہینے نہیں۔ یہی وقت کی صحیح قدر ہے۔ رمضان کے بعد نمازِ فجر سے کاموں کا آغاز کر کے بہت عمدگی سے گھر کے کام انجام دیے جا سکتے ہیں۔ ٭ روزے کے ذریعے ہماری روحاتی تطہیر ہوتی ہے، ہم کسی کو ردعمل دینے سے پہلے ہی نہیں سوچتے، بلکہ اپنے دل ودماغ کو بھی خیالِ بد سے محفوظ رکھتے ہیں۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.