اسلام آباد: آج سے تقریباً چار سو سال پہلے فرنگی ہندوستان پر قبضے کا منصوبہ بناتے ہیں اور جنگ آزادی /غدر کے بعد مکمل طور پر ہندوستان فرنگیوں کے قبضے میں چلا جاتا ہے – مغل بادشاہ کو ملک بدر کردیا جاتا ہے-
فرنگیوں کی کاری ضرب ہندوستان کے مذہبی ثقافتی اور سماجی نظریات پر پڑتی ہے انگریز صرف ہندوستان کی دولت لوٹ لیتے تو اس قدر غم نہ ہوتا لیکن وہ تو تہذیب کے بنیادیں ہی کھوکھلی کرتے چلے گئے –
خواتین بے پردہ اور مرد سرکاری نوکری اور پینشن کے لالچی ہوگئے – جن نوابوں کی ریاستیں انگریزوں نے لُوٹی تھیں جن نوابوں کو معمولی وظیفہ خوار بنا دیا تھا – وہ نواب بھی فرنگیوں کی تقلید میں برطانیہ جانے لگے – اپنے نوجوانوں کو اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے ولایت بھیجنے لگے –
ولایت جاکر نوجوان مادر پدر آزاد معاشرے کی چکا چوند سے آنکھیں خیرہ کرتے اور خوب عیاشی کرتے – ان میں سے کوئی کوئی ہی سر سید احمد خان اور علامہ محمد اقبال بن کر لوٹتا – اب ان سے ملنے جب نواب بیگمات جاتیں تو وہ بھی دنگ رہ جاتی – جو برقع اوڑھ کر جاتی تھیں وہ واپسی پر مردوں کی عقل پر پڑ جاتا اور بیگم صاحبہ صرف ساڑھی یا غرارے میں تشریف لاتی اور نواب صاحب پینٹ کوٹ میں – پھر یہ بیگمات نجی محفلوں میں فرنگیوں کی ترقی کے ایسے قصے سناتی کہ عورتیں دانتوں میں انگلیاں داب لیتی – اور اس طرح یہ ترقی یافتہ خواتین اپنی بے پردگی کا جواز گڑھ لیتی –
لیکن ان کے اثرات کا دائرہ کار محدود تھا معاشرے کی مجموعی فضا پر ان کے اثرات تو پڑے لیکن اخلاقی گراوٹ سے معاشرہ بہر حال محفوظ ہی رہا – نوابوں کی دیکھا دیکھی صاحب ثروت افراد بھی اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے انگلستان بھیجنے لگے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے – چلیے یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اب زمانہ بہت بدل چکا ہے – زمانے کے ساتھ ساتھ کہانی بھی بدل رہی ہے اور یہ بدلتی ہوئی کہانی کہاں جاکر رکے گی -سوچنا یہ ہے !
کہانی بدل رہی ہے اس لیے اب فرنگیوں کا طریقہ کار بھی بدل چکا ہے – عالمی منڈی اپنی تمام تر فحاشی اور عریانیت کے ساتھ ہمارے نوجوانوں کا استقبال کر رہی ہے –
ان کے بنائی ہوئی اخلاقیات ہماری نوجوں نسل اپنا رہی ہے –
گلوبل دنیا اور گلوبل وارمنگ کے اس دور میں الگ الگ اخلاقیات کے عفریت ہمارے معاشرے کو حصار میں لیے کھڑے ہیں – اصل مسئلہ اخلاقیات کا گُم ہو جانا ہے –
جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کے نام پر ہماری زندہ روایات و وراثت کو روندتے ہوئے مغرب سے اٹھنے والے ہیجان زدہ ثقافت کے بگولوں نے بہت حد تک ہماری مشرقی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ترقی، آزادی اور خوش حالی کے نام پر ہم مزید محکوم بنتے جارہے ہیں۔
ہمارے معاشرے کے ہر خاص وعام کے ذہن میں یہ سلوگن گونج رہا ہے کہ زندگی اپنی ہے تو پھر اسے اپنی مرضی سے جیسے چاہو جیو!
معاشرے کی سوچ اس تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کہ اخلاقی قدریں گرتی جارہی ہیں-آج خونی رشتوں میں مفاد پرستی عام ہورہی ہے –
استعماری قوتوں کا تو یہ وطیرہ رہا ہے
کہ استعماری قوتیں جمہوری قوتوں کو پنپنے نہیں دے سکتی- استعماری قوتوں کے اس جبری استبداد کا طریقہ بہت ہی بھیانک ہے – کسی ملک کی ثقافتی ، مذہبی اور اخلاقی اقدار کو یہ ایک سازش کے تحت تبدیل کرتی رہتی ہیں – تبدیلی کا یہ عمل ذہنی غلامی کی نا ختم ہونے والی شکل میں سامنے آتا ہے
-جب بھی نوآبادکار کسی ملک یا زمین کو اپنی کالونی بنانے کی سعی کرتے تھے تو وہاں پہلے سے موجود سارا نظامِ زندگی بدل کے رکھ دیتے تھے -برطانوی نوآبادکاروں نے بھی ہندوستان سے نا صرف اسباب اور وسائل لوٹ لیے بلکہ یہاں کا سماجی ڈھانچہ ایسا بدلا کہ آج ، ڈیڑھ دو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کو ’’ڈی-کلونیلائز‘‘ نہیں کرپائے۔ ہندوستانیوں سے صرف ان کی زبانیں چھینی نہیں گئی بلکہ مقامی زبانوں کو کم تر قرار دے کر ان زبانوں کو لسان ِ ممنوع بنانے کی کوششیں بھی کی گئی-
ان زبانوں کی جگہ غیرملکی زبان کو دے دی گئی مقامی سطح پر انگریزی سکول اور کالج قائم کر دیے گئے جن کا مقصد استعماری قوتوں کے اپنے مفادات میں تھا جن میں فرنگی تراجم کا سہارا لے کر انگریزی زبان و ادب کی تعلیم دینے لگے اور مقامی زبانوں کی تحقیر کا ایک سلسلہ بھی شروع کردیا گیا کہ ہندستان کی زبانوں کو جدیدیت سے عاری قرار دیا گیا اور فرسودہ کہا گیا –
نئی سیاسی حد بندیاں قائم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ رک نہیں سکا – نو آبادیاتی پھیلاؤ مابعد نو آبادیات میں منتقل ہوگیا اور ذہنی غلامی، احساس کمتری ، اپنی قومی زبان سے عدم دلچسپی بڑھتی گئی –
آج صورت حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کج فہمی کا شکار ہے – معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے -ٹیکنالوجی کی اس نئی یلغار میں اخلاقی قدریں ختم ہوتی جارہی ہیں- نئی نسل تک پہنچنے والا غیراخلاقی مواد، نامکمل علم، مکمل شخصی آزادی کا تصور، مذہبی اقدار سے دوری اس معاشرے کی کھوکھلی جڑوں کو تیزی سے کھا رہی ہے – خارجی ماحول کی شدت داخلی شخصیت کو ٹکروں میں بانٹ رہی ہے –
یہ سلسلہ ذاتی پسند ناپسند، لباس، اخلاق ہر معاملے پر اثرانداز ہورہا ہے۔ جدید رجحانات کے اتباع کی یہ شدت بظاہر مسائل کے حل کی کوششیں ہے لیکن در پردہ یہ دلدل میں اترنے کانام ہے – آج استبدادی قوتوں کا طریقہ کار بدل چکا ہے لیکن عزائم وہی ہیں جو آج سے کئی سو سال پہلے تھے یعنی حکومت کرنا۔
لیکن اس دفعہ ان کا نشانہ ہندوستان کے مغل حکم راں نہیں ہیں، ریاستوں کے نواب نہیں ہیں، ہندوستان کی دولت نہیں ہے بلکہ ہماری نئی نسل ہے – وہ نسل جس کی ذہنی بالیدگی از حد ضروری ہے۔
مابعد نو آبادیاتی معاشرتی صورت حال پست سے پست ہونے کی وجوہات اس احساس کم تری میں کہیں چھپی ہوئی ہیں جس کا شکار نئی نسل ہوتی جارہی ہے ٹیکنالوجی کی اس یلغار کے دور میں فرد واحد مزید تنہا ہوتا جارہا ہے – اس تنہائی اور کم مائیگی کے احساس کو کم کرنے کے لیے جو حل تلاش کیے جارہے ہیں ان کے نتائج ہماری اخلاقی قدروں سے متصادم ہیں – جو کہ سختی سے ناقابل قبول ہیں – انسیسٹ (Incest) جنسی ہرا سگی اور جنسی زیادتی جیسے واقعات نمودار ہو رہے ہیں – جن کا آغاز ممنوعہ ویب سائٹس پر اس نوعیت کا مواد اپ لوڈ کر کے کیا گیا ہے – مابعد نو آبادیاتی ایجنڈے کا ایک حصہ حیوانی شہوانیت کو آخری حد تک تسکین آور بنانا ہے – حُرمت کے رشتوں کی پامالی اسی ضمن کی ایک مکروہ سوچ ہے۔جس کو معاشرے میں پھیلایا جارہا ہے۔
ذہنی غلامی کی ایک شکل ڈالرز کی ترغیب ہے جو یوٹیوب اور دیگر کماؤ ایپس کے ذریعے دی جارہی ہے – معاشرے میں پیسے کا لالچ بڑھتا جارہا ہے اور حصول ِ تعلیم کا فقدان بھی دکھائی دے رہا ہے – بہت ہوشیاری سے ترغیبات کو ضروریات میں بدلا جارہا ہے اور پھر ان کو ترجیحات میں بدلا جارہا ہے -ان میں ہی فرد کو الجھا دیا گیا ہے – یہ ہی ما بعد نو آباد کاروں کو مروجہ طریقہ ہے –
غلام معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینا -اور اسی نئے ہتھکنڈے سے اقوام کو زیر کر نے کوشش کی جارہی ہے – ہمارے سب مسائل درحقیقت ایک مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں – معاشی بدحالی، مہنگائی، بے روز گاری ، معاشرتی بے حسی اور دیگر سماجی مسائل سے پیدا ہونے والی ٹینشن – اس ٹینشن کے اثر کو ختم کرنے کے لیے نیٹ کا بے دریغ غلط استعمال کیا جاتا ہے – تجربات کی شکل میں جرائم نمودار ہوتے ہیں – ہر فرد پریشان بے حال اور ناامید ہے –
قرضے دینے والے نام نہاد عالمی ادارے اپنا شکنجہ مزید کستے جارہے ہیں – کہانی بدل رہی ہے سماج کی سوچ بدل رہی ہے – ہماری ترجیحات بدل رہی ہیں لیکن ذہنی غلامی معاشی غلامی بدستور موجود ہے۔
The post استعماریت اور جمہوریت appeared first on ایکسپریس اردو.