(ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد)
پہلی وحی کے نزول کے وقت غار حرا میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ ایک تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے اور دوسری کوئی چیز تھی تو وہ ستو کی صورت جو کی غذا موجود تھی، گویا جو کی غذا کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اسے نبی کریمﷺ کا نہ صرف لمس مبارک حاصل ہے بلکہ یہ پسندیدہ غذاؤں میں بھی شامل رہی ہے۔۔ اور یہی ایک نکتہ جو کی غذائی اہمیت کو قیامت تک اجاگر کرتا رہے گا، لیکن مقام تفکر ہے کہ آج جو کی غذا کو وہ مقام مرتبہ حاصل نہیں رہا جس کی یہ غذا متقاضی ہے، وجہ صرف اور صرف ہماری اپنی لاعلمی ہے کیوںکہ جن لوگوں کو جو کی فصل سے بننے والی اشیاء کا علم ہوجاتا اور اس کی افادیت محسوس ہوجاتی ہے تو وہ اس سے مستفید ہونے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جو کی غذا کوئی 8ہزار سال سے متقی اور پرہیز گار لوگوں کی من پسند اور مرغوب خوراک کے طور پر چلی آرہی ہے، لیکن اگر پاکستان میں اس جو کی فصل کا افقی پھیلاؤ دیکھیں تو اس فصل کا زیرکاشت سب سے زیادہ رقبہ 1995-96میں ریکارڈ کیا گیا تھا جو 171.6ہزار ہیکٹر تھا، جس میں خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ رقبہ شامل تھا جو 58 ہزار ہیکٹر تھا۔
دوسرے نمبر پر بلوچستان کا صوبہ تھا جہاں 47.1ہزار ہیکٹر رقبے پر جو کاشت کی گئی تھی اور پنجاب میں 42 ہزار ہیکٹر جب کہ صوبہ سندھ میں 23 ہزار ہیکٹر رقبہ تھا مگر مغرب زدہ سوفٹ فوڈز کی درآمد گی سے جو کی اس فصل کے زیرکاشت رقبہ سکڑ کر اس وقت تادم تحریر صوبہ پنجاب میں صرف 12ہزار ہیکٹر رہ گیا۔ اسی طرح دیگر صوبوں کا بھی یہی حال ہے اور آج عالم یہ ہے کہ لوگ اسے صرف مجبوری کے عالم میں ہی کاشت کر رہے ہیں کہ چلو گندم کا بیج ختم ہو گیا ہے اور کیارہ بھی ابھی خالی بچا ہے کیوں نہ یہاں پر جو کی کاشت کر لی جائے، کون سا اس فصل کو اتنا پانی لگنا ہے ، کون سی اس فصل میں کوئی کھاد یا گوڈی یا کسی قسم کا سپرے کی ضرورت پڑے گی، ڈھور ڈنگروں کے لئے چارہ بنتا رہے اور بس ۔۔۔!
قارئین کی دل چسپی کے لیے یہ بات رقم کرنا ضروری ہے کہ تحقیقاتی ادارہ برائے گندم،فیصل آباد میں جو کی تحقیق پر باقاعدہ آغاز 1980کی دہائی میں ہوا۔ پہلے پہل تو اسے میکسیکو اور شام سے جو کا مٹیریل پاکستان آتا تھا اور اس مٹیریل سے جو پودا پاکستانی ماحول اور موسم کے مطابق کسی قسم کی کوئی قوت مدافعت دکھاتا اس کا انتخاب کر لیا جاتا، اسی طرح قوت مدافعت کے حامل پودے اکٹھے ہوتے گئے بعد ازآں 2 متنوع پودوں کے اختلاط سے پاکستانی آب و ہوا اور ماحول کے عین مطابق چند اقسام تیار کرلی گئیں۔
جن میں جو 83- ، جو 87-، حیدر93- ، اور اب حال ہی میں تیار کی جانے والیجو17-، سلطان17- ، جو 21-، پرل21-اور تلبینہ21- جو کی اقسام شامل ہیں، قارئین کے لیے یہ بات بھی یقیناً دل چسپی کی حامل ہے کہ عہد رسالتﷺ میں گیہوں کی روٹی کو امارت یا دولت مندی کی نشانی سے تعبیر کیا جاتا تھا اور یہ روٹی عام لوگوں کی دسترس سے دور بھی تھی، مگر ارزاں ہونے کے ناتے جو کی روٹی فقط غریبوں اور ناداروں کی غذا تک محدود تھی، نبی کریمﷺ کو چوںکہ غرباء سے محبت تھی اور غربا میں ہی رہنا پسند فرماتے تھے۔
اس لیے غرباء کی خوراک کو پسند فرماتے۔ ان حالات میں غریبوں کے والیﷺ، یتیموں کے ماویٰ ﷺ اور بے سہاروں کے سہارے ﷺ نے جو کی غذا کو غریبوں کی بھوک مٹاتے دیکھ کر جو کے دانوں کو کچھ اس انداز سے اپنے دست مبارک میں لیا کہ قدرت کو اپنے محبوب معصوم ﷺ پر پیار آگیا، چناںچہ غریبوں کی خوراک جوکی جنس کے ساتھ اپنے محبوب اعظم ﷺ کا انہماک اور ادائے دلربا دیکھ کر رحمتِ حق جوش میں آئی اور اللہ عزوجل نے جو کی غذا کو نہ صرف اپنے سوہنے محبوب ﷺ کی پسندیدہ خوراک بنادی بلکہ اپنی مخلوق کے لیے دنیا جہاں کی شفاء بھی جو کے ان دانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ودیعت کردی ۔۔۔
یہ بات بھی محیرالعقول ہے کہ جو کے پودوں پر آنے والی صبح کی شبنم اور اس فصل کی توڑی یا بھوسے کے طبی فوائد بھی بے شما ر دیکھے گئے ہیں، چناںچہ جو کی فصل پر آنے والی شبنم کو اکٹھا کرکے اگر اس میں شریں کے پتے شامل کر لیں تو اس سے بننے والا پانی آنکھوں کے کالے اور سفید موتیے کے لیے بہترین ٹانک قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جو کی غذا کا انسانی بیماریوں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق دیکھا گیا ہے۔
نبیٔ رحمتﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کبھی بھی کوئی اگر تندرست نہ رہتا تو حکم دیا جاتا کہ جو کے دلیہ سے اسے ضرور تواضع کروائیں ۔۔۔ ایک بار کیا ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی نقاہت اور کم زوری سے ابھی تازہ تازہ شفایاب ہوئے ہی تھے اور وہ نبیٔ رحمت ﷺ کے ہمراہ بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے کہ جب دو چار کھجوریں کچھ زیادہ کھالیں تو نبیٔ رحمتﷺ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ تم ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہو لہذا انہیں زیادہ مت کھاؤ ۔۔۔ کچھ توقف کے بعد انہیں ایک ڈش پیش کی گئی جو چقندر اور جو کی غذا پر مشتمل تھی ، نبی ٔ رحمتﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے کھاؤ یہ تمھارے لیے اور تمھاری صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔
جو کی غذا کھانا سنت تو ہے ہی مگر اس کی فصل کو جس زمین پر کاشت کیا جاتا ہے یہ حیران کن امر ہے کہ وہ زمین بھی صحت یاب ہوئے بغیر نہیں رہتی، یعنی تندرست ہو جاتی ہے۔
بحیثیت زرعی سائنس داں، جب میں نے اس کی غذا کی طرف توجہ کی تو مجھے توانائی کا ایک انمول خزانہ اس کے اندر پنہاں نظر آیا اگر یہ غذا اگر کوئی بزرگ کھاتا ہے یا کوئی بیمار مریض کھاتا ہے تو توانائی کا یہ خزانہ جسم کے اندر جا کر انتڑیوں، شریانوں، وریدوں اور دل کی نالیوں کو صاف ستھرا کر کے ایسے کشادہ کر دیتا ہے کہ جس کے اندر سے جو خون بنتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے 20/22سال کے بچے کا تازہ خون ہوتا ہے۔
اسی طرح 21 احادیث مبارکہ کا حوالہ جو کی غذا سے منسلک ہے ایک حدیث کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ 100 کے قریب بیماریوں کا علاج جو کی غذا میں پنہاں ہے۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ جو ہے کیا۔ جو کے دانہ میں کیا چیز شامل ہے کہ اسے گندم کے آٹے کے متبادل کے طور پر اور اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہماری صحت کے لیے اہم ترین سمجھا جا رہا ہے، تو اس پر عرض ہے کہ جو کے دانے میں پانی، نائٹروجنی مرکبات، گوندھ، چینی اور چربی کی معمولی مقدار کے علاوہ 59 فی صد اس میں اسٹارچ ہوتا ہے جو بدن کے اندر کولیسٹرول کو کم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جو جسم کو فربہ یعنی موٹا نہیں ہونے دیتا اور جسم کو چست اور اسمارٹ رکھتا ہے جو کے دانے میں تانبا کی مقدار بھی شامل ہے جو بوڑھوں، بزرگوں اور کم زور لوگوں میں جوڑوں کے درد کو ختم کرتی ہے۔ پھر اس میں سیلینئم جیسا ایک ایسا دھاتی عنصر بھی شامل ہے جو انسان کو چھوٹی آنت کے سرطان سے تحفظ دیتا ہے جو کی غذا میں فاسفورس بھی ہوتا ہے جو ATP یعنی اڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ کی صورت جسم کو بھرپور توانائی بخشتا ہے۔
جو کی غذا کھانے سے خون کے اندرPlatelets قسم کے جو خلیے بنتے ہیں۔ اس سے خون میں پھٹکڑیاں نہیں بنتیں جو کے دانے میں ایک عنصر ایسا بھی ہے جو ریشہ دار مادے کی طرح ہوتا ہے اور جسے فائبرFiber بولتے ہیں۔
یہ آنتوں میں تیزی سے حرکت کرتا ہے جس سے خون ہر وقت تازہ اور شفاف بنتا رہتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جس بندے میں بے شک وہ بندہ بوڑھا ہے یا کم زور، اگر اس کا خون ہر وقت تازہ اور شفاف بنتا رہے اور پھر اس کے اندر پھٹکڑیاں بھی نہ بنیں تو کیا وہ کبھی کسی مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے! فائبر یا ریشے دار مادے کا جسم کے اندر ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ جسم سے Bile acid کا اخراج کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس سے پِتّے میں پتھری بننے کے امکانات خود بخود کم ہوجاتے ہیں جو کی غذا کھانے سے ام المرض یعنی قبض کا صفایا ہوجاتا ہے اور بندہ جسم میں فرحت و سکون محسوس کرتا ہے۔
جو کی غذا یعنی جو کے آٹے کی روٹی، جو کا دلیہ، جو کا پانی اور جو کے ستو وغیرہ کے متعلق میڈیکل سائنس مزید یہ کہتی ہے کہ بیٹا گلوکان اور حل پذیر ریشے (Soluble fiber) کے اعلیٰ ترین ذریعے کے ساتھ ساتھ 22 فیٹی ایسڈز (Faty acids) ، 18 امائنو ایسڈز ( Amino acids) اور ضروری امائنو ایسڈز (Essential amino acids) کی دنیا میں جتنی بھی مقدار ہے یعنی تمام 8 کے 8 ضروری امائنو ایسڈز Essential amino acids اس انداز میں اور اس ترتیب میں جو کی غذا میں شامل ہیں کہ جس سے بھرپور توانائی پھوٹتی ہے۔
ایک امائنو ایسڈز Lysine نام کا ایسا بھی جو کی غذا میں شامل ہے جو قد بڑھانے میں پیش پیش رہتا ہے، یعنی چھوٹے قد والے خواتین و حضرات بھی اگر جو کی غذا کو اپنے دسترخوان کا حصہ بنالیں تو ان کے قد میں بھی نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور حدیث شریف کے مطابق جو کی غذا کی حدت سے بندے کے اندر غلاظتیں، نجاستیں اور جو غلاظتیں ہوتی ہیں وہ ایسے بھاگتی ہیں جیسے شام کو تھکا ہارا بندہ گھر آکر منہ دھوئے تو منہ سے گرد دور ہوتی ہے۔
تازہ ترین تحقیق کے مطابق بلڈ پریشر، شوگر، ذہنی تناؤ اور کولیسٹرول جیسی چار بیماریوں کی زد میں آنے والے افراد اگر گندم کے آٹے کی روٹی کھانا بند کر دیں تو ان کی آدھی بیماری ختم ہوجاتی ہے۔
ابھی اس نے کوئی دوائی نہیں کھائی مگر گندم کے آٹے کی روٹی ترک کرنے سے آدھی بیماری جاتی رہتی ہے تو وہ کیا کھائے اس پر تحقیق کے مطابق یورپین ممالک نے دو طرح کے آٹے کی روٹیوں کے کھانے کی سفارش کی ہے ان میں سے ایک مکئی کا آٹا ہے اور دوسرا جو کا، لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم کون سا آٹا کھانا پسند کرو گے تو میں برملا نبی کریمﷺ کی نسبت والی روٹی کا نام لوں گا۔
اس بار ماہ صیام میں گرمی اور اوپر سے درجہ حرارت آئے دن بڑھتاجا رہا ہے، اس دوران اگر ہم جو کے آٹے کی ڈیڑھ روٹی سحری کے وقت کھالیں تو بندہ سارا دن بھوک پیاس سے ماوریٰ ہو جاتا ہے اور اگر نیم ٹھنڈے ستو سے افطاری کرلیں تو سارے دن کی نقاہت، کم زوری دور ہو کے جسم فوری طور پر ہشاش بشاش اور تازہ دم ہو جاتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جو کا دلیہ بچوں اور بزرگوں کی خوراک کے طور پر اس وقت بہترین تصور کیا جاتا ہے جب اسے نیم گرم کھایا جائے، فریج میں رکھا جانے والا دلیہ گرم کرکے کھانے سے زیادہ فائدہ مند نہیں رہتا، اس لیے یاد رکھیں کہ دلیہ جتنا کھانا اتنا ہی پکانا ۔۔۔اسی طرح جو کا پانی یا آب ِ جو عام دکانوں سے مل جاتا ہے لیکن وہ کیمیکلز سے بھر ا ہوتا ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی رہتا ہے مگر آپ گھر بیٹھے بھی آب ِ جو بنا سکتے ہیں۔
بغیر چھلکے کے جو ، جس کو پرل بارلے (Pearl barley) بھی کہتے ہیںایک کپ پرل بارلے کو 15کپ پانی کسی برتن میں ڈال کر ہلکی آنچ پر گرم ہونے کے لیے رکھ دیں، جب پانی ابل ابل کر سفید سا مائع بن کے ایک تہائی رہ جائے تو اسے نتھار لیں، لیجیے اس طرح بغیر کیمیکلز کے بہترین آب ِ جو گھر بیٹھے تیار ہو جاتا ہے۔
المختصر جو کی اہمیت اسی ایک بات سے بھی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اگر ہم آج کل کی بیماریوں کے نام گننا شروع کریں یعنی تپ دق ، ملیریا، ہیضہ، سرطان، یرقان، نمونیا، تو وہ کوئی 35 یا 40 بیماریوں کے نام گن پائیں گے لیکن حدیث شریف ﷺ کے مطابق 100 کے قریب بیماریوں کا علاج جو کی غذا میں شامل ہے، کے مصداق یہی عرض کی جاسکتی ہے کہ قیامت تک کی آنے والی بیماریوں کا علاج بھی جو کی غذا میں موجود ہے۔ میں نے بذات خود جو کی غذا سے فالج زدہ افراد ٹھیک ہوتے دیکھے ہیں۔ ہیپاٹائیٹس یعنی یرقان کے مریض شفا پاتے دیکھے گئے ہیں۔
لوگوں کے پتّے(Bile) سے پتھری بھی نکلتی دیکھی ہے جو کے آٹے سے خواتین میں رنگ گورا بھی ہوتا دیکھا گیا ہے۔ اس سے مردانہ وجاہت بھی ابھرتی ہے۔ یعنی جو کی غذا سے نہ صرف طبی فوائد ملتے ہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا یا جارہا ہے، کیوںکہ ذائقے میں شیریں، تاثیر میں سرد ہونے کے ساتھ ساتھ جو کی غذا بھوک مٹاتی اور پیاس بجھاتی ہے۔ جسم کے موٹے فضلات کو توڑتی ہے۔
ذہانت بڑھاتی اور غوروفکر کی سوچ کو تحریک دیتی ہے، آواز کو دل کش اور سریلا کرتی ہے، سماعت اور بصارت کو تقویت بخشتی ہے، زہریلی رطوبتوں کا اثر زائل کرتی ہے، موٹاپا دور کرتی ہے، جسم کی چربی کو پگھلاتی ہے اور خون کو خالص تر رکھتی ہے۔
The post جو کی غذا؛ ماہ ِ صیام میں اس کے استعمال کے فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.