Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

جییں گے اب سب سو سو سال

$
0
0

جنوری کی ایک خوب صورت اور سرد صبح، جب کہ اسپرومونٹے کی پہاڑیوں پر برف چمک رہی تھی اور قریبی درختوں پر لگے ہوئی نارنگیاں اس حسین منظر کی دل کشی میں اضافہ کررہی تھیں، گسیپی پسارینو اپنی چھوٹی سی وین میں اٹلی کے انتہائی جنوبی علاقے کیلابریا کی ایک پہاڑی سڑک پر رواں دواں تھا۔

اس کا رُخ پہاڑی کی چوٹی کی جانب تھا۔ پھل دار درختوں کے جھنڈ کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے گسیپی جوکہ ماہر جینیات ہے، برابر والی نشست پر براجمان اپنے دوست موریزو بیراڈیلی سے بات چیت بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ موریزیو علم پیری پر دسترس رکھتا ہے۔ ان کی منزل دوردراز واقع مولوچیو نامی گاؤں تھا۔ اس گاؤں میں دو ہزار نفوس آباد تھے جن میں سے چار افراد کی عمریں 100 کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں جب کہ چار ایک سال کے بعد سینچری مکمل کرنے والے تھے۔

جلد ہی وہ گاؤں کی حدود میں داخل ہوگئے اور ان کی ملاقات 106سالہ سلواتورے کروسوسے ہوئی جو قصبے کے مضافات میں تعمیر شدہ اپنے گھر میں بیٹھا اخبار کے مطالعے میں گُم تھا۔ اس کے قریب ہی آتش دان روشن تھا جو کام یابی سے سردی کی شدت کو زائل کررہا تھا۔ اس کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی فریم شدہ نقل آتش دان کے قریب ہی موجود تھی جس پر اس کی تاریخ پیدائش 2 نومبر 1905ء درج تھی۔

کروسو نے ان محققین کو بتایا کہ وہ پوری طرح صحت مند ہے اور اس کی یادداشت بھی بالکل صحیح کام کررہی ہے۔ اسے اپنی زندگی کے تمام واقعات یاد تھے مثلاً یہ کہ 1913ء میں اس کے باپ کی موت واقع ہوئی تھی جب کہ وہ اسکول میں زیرتعلیم تھا؛ اور یہ کہ 1918-19ء میں پھوٹ پڑنے والی انفلوئنزا کی وبا کے دوران اس کی ماں اور بھائی کیسے لقمۂ اجل بنے تھے؛ یا یہ کہ 1925ء میں حادثاتی طور پر ٹانگ ٹوٹ جانے کے بعد اسے کیسے فوج سے نکال دیا گیا تھا۔ جب موریزیونے کروسو سے پوچھا کہ اس کی طویل العمری کا راز کیا ہے تو بوڑھے شخص نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،’’میں تمباکو، شراب، سگریٹ اور عورت سے ہمیشہ دور رہا ہوں۔‘‘ کروسو نے مزید کہا کہ بچپن سے جوانی تک انجیر اور پھلیاں اس کی خوراک کا حصہ رہیں۔ گوشت کا استعمال وہ بہت کم کیا کرتا تھا۔ دونوں سائنس دانوں نے اسی طرح کی باتیں 103سالہ ڈومینیکو رومیو اور 104 سالہ ماریا روزا کروسو سے بھی سنی تھیں۔

کوسینزا میں واقع لیبارٹری کی طرف واپس جاتے ہوئے بیرارڈیلی نے کہا کہ یہ لوگ سبزیوں اور پھلوں ہی کو اپنی طویل العمری کا راز بتاتے ہیں۔ اس پر پسارینو نے خشک لہجے میں جواب دیا کہ وہ پھلوں اور سبزیوں کو ترجیح اس لیے دیتے تھے کہ ان کے پاس کھانے کو یہی کچھ ہوتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ پھل اور سبزیاں ہی کھانے پر مجبور تھے۔

اگرچہ بیسویں صدی میں کیلابریا جیسے غربت زدہ علاقوں میں رہنے والے دست یاب غذا ہی کھانے پر مجبور تھے، تاہم عشروں تک کی جانے والی مختلف تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ غذا میں یکسانیت اور طویل العمری کے مابین تعلق موجود ہے۔ تاہم آنے والے دور میں مزید سائنسی تجربات نے اس نظریے کو باطل ثابت کردیا۔ حالیہ برسوں میں کیے جانے والے متعدد تحقیقی مطالعات نے درازیٔ عمر اور محدود نوعیت کی کیلوریز کے درمیان تعلق کو جھٹلادیا ہے۔

بہرصورت پسارینو عمر کی صدی مکمل کرنے والوں کی خوراک سے زیادہ خود ان کی ذات میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ طویل العمری ایک ایسا تحقیقی میدان ہے جس میں مبالغہ آرائی کی حدوں کو چُھوتے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں نے طویل العمری کا راز جاننے کے لیے طاقت ور جینومی ٹیکنالوجیز، بنیادی مالیکیولی ریسرچ، اور سب سے اہم یہ کہ جینیاتی طور پر مختلف اور الگ تھلگ رہنے والے لوگوں کے گروہوں کا مطالعہ شروع کردیا ہے۔ کیلابریا، ایکواڈور، ہوائی اوربرونکس جیسے شہروں میں ہونے والے تحقیقی مطالعات کی بنیاد پر مالیکیولی اور کیمیائی طریقہ ہائے کار وضع ہونے لگے ہیں جو بالآخر ہر ذی نفس کی طویل عمر تک بہترین صحت کی برقراری کے ضامن بنیں گے۔

طویل العمری سے جُڑے سوالوں کے جواب کی تلاش نے بین الاقوامی سائنسی توجہ نکولس انازکو جیسے لوگوں کی طرف مبذول کردی ہے۔ انازکو کی عرفیت Pajarito ہے۔ اس ہسپانوی لفظ کا مطلب ’’چھوٹا پرندہ‘‘ ہے۔

کئی صورتوں میں انازکو ایک عام سا نوجوان یا ٹین ایجر ہے۔ وہ کمپیوٹر گیمز اور فٹبال کھیلتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایکواڈور کے صوبے ایل اورو میں چار کمروں کے ایک مکان میں رہتا ہے۔ انازکو کا گھر ایک خوب صورت دیہی علاقے میں ہے۔ سترہ سالہ یہ نوجوان کاشت کاری میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ انازکو کو ’’لٹل برڈ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا قد صرف تین فٹ نو انچ ہے اور دیکھنے میں وہ ایک آٹھ سال کا بچہ نظر آتا ہے۔ اس کوتاہ قامتی کا سبب ایک جین میں ہونے والی خرابی تھی۔ جینیاتی خرابی کے سبب جنم لینے والی بیماری نے جسے Laron syndromeکہا جاتا ہے، انازکو کی جسمانی نشوونما کو تو متاثر کیا ہے، لیکن یہ بیماری اس نوجوان کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے جن کا عمر بڑھنے کے ساتھ سا تھ انسان شکار ہوتا ہے۔ ان میں سرطان اور ذیابیطس جیسی خطرناک بیماریاں بھی شامل ہیں۔

اگرچہ اس سلسلے میں کچھ مبالغہ آرائی بھی نظر آتی ہے مگر غیرمعمولی طور پر صحت مند یا طویل العمر لوگوں کے گروپوں کے جینوم پر تحقیق میں محققین کی دل چسپی بڑھ رہی ہے۔ ان گروپوں کا باقی دنیا سے کٹ کر رہنا، ان کا جغرافیہ یا ثقافت سائنس دانوں کے لیے ان کی دراز عمری، ان میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت اور اچھی صحت کے جینیاتی اسباب تلاش کرنا آسان بنادیتا ہے۔

ایسا ہی ایک سائنس دان ’لٹل برڈ‘ کا معالج جیمی گوویرا ہے جوکہ ایل اورو صوبے ہی میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے 1987ء میں ان کوتاہ قد افراد کا مطالعہ کرنا شروع کیا تھا اور ربع صدی کے دوران وہ جنوبی ایکواڈور میں Laron syndrome سے متاثرہ ایک سو کے لگ بھگ لوگوں کی شناخت کرنے میں کام یاب رہا۔

چالیس سالہ اکیلی ماں Meche Romero Robles بھی گویرا کے زیرعلاج مریضوں میں شامل ہے۔ چار فٹ سے کچھ ہی اونچے قد کی روبلز اپنی نوعمر بیٹی سمانتھا کے ساتھ پناس کے پہاڑی قصبے میں ٹین کی چادروں والے گھر میں رہتی ہے۔ گوویرا کا کہنا ہے کہ روبلز کی خاندانی تاریخ اور اس کے جسمانی mass index کے پیش نظر اسے ذیابیطس میں مبتلا ہونا چاہیے تھا مگر وہ اس بیماری سے محفوظ ہے۔ گوویرا کو ان کوتاہ قامت لوگوں کی اس خاصیت کا ادراک 1994ء میں ہوا تھا۔

اُس وقت گوویرا کی اس بات پر کوئی یقین نہیں کرتا مگر2005 ء میں صورت حال تبدیل ہوئی جب جنوبی کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں خلیاتی حیاتیات کے ماہر والٹر لونگو نے اسے اپنی تحقیق پیش کرنے کے لیے مدعو کیا۔ اس سے ایک عشرہ قبل لونگو نے سادہ جان داروں جیسے یک خلوی خمیر کے جینز کے ساتھ ’چھیڑ چھاڑ‘ شروع کردی تھی۔ اس نے انھیں کچھ خصوصیات سے محروم کردیا تھا جس کی وجہ سے ان جان داروں کی طبعی عمر بڑھ گئی تھی۔ اس کی وجوہات مختلف تھیں۔ ان میں سے کچھ خلیات عام خلیوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز سے اپنے ڈی این اے کی مرمت کرسکتے تھے۔ جب کہ کچھ خلیوں نے تکسیدی عاملین سے پہنچنے والے نقصانات کے اثر کو کم سے کم کرنے کا بھی مظاہرہ کیا۔ دیگر خلیات ڈی این اے کو پہنچنے والے اس نقصان کا ازالہ کرنے میں کام یاب ہوگئے جو انسانوں میں سرطان کا باعث بنتا ہے۔

مزید سائنس داں بھی اسی طریقۂ کار کا مطالعہ کررہے تھے۔ 1996ء میں جنوبی الینوائس یونی ورسٹی کے سائنس داں Andrzej Bartke نے چوہوں کے ان جینز میں تبدیلیاں کیں جو نشوونما کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کے تجربات سے ظاہر ہوا کہ نشوونما کرنے والے ہارمون کے راستے کی بندش کی وجہ سے چوہوں کی جسامت چھوٹی رہ گئی تھی۔ یہ کوئی غیرمتوقع بات نہیں تھی، حیران کن امر یہ تھا کہ ان چوہوں کی عمر عام چوہوں کی نسبت 40 فی صد بڑھ گئی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل انسانوں کے ضمن میں بھی کارگر ہوسکتا ہے؟ کیا جینیاتی بے قاعدگیاں بڑھتی عمر کے باعث لاحق ہونے والے امراض سے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟ اسرائیلی endocrinologist، Zvi Laron ، جس نے 1966ء میں پہلی بار سائنسی بنیادوں پر کوتاہ قامتی کو بیان کیا تھا، نے وسطی اور مشرقی یورپ میں ایسے درجنوں لوگوں سے ملاقات کی تھی جو اس نایاب بیماری کا شکار تھے۔ لونگو کا خیال تھا کہ گویرا کے مریض فطرت کے ایک تجربے کا اظہار ہیں، یعنی دنیا سے کٹے ہوئے اور ایسی بیماری میں مبتلا لوگ جو جینیات کا تعلق طویل عمری سے جوڑتے ہیں۔

محققین کو یقین ہے کہ ایکواڈور میںsyndrome Laronمیں مبتلا لوگ پندرھویں صدی کے اواخر میں بھی موجود تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب جزیرہ نما ابیرین سے یہودی مغربی کرہ ہوائی یا ’’نئی دنیا‘‘ کی جانب عازم سفر ہوئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ایک بہت ہی خاص جینیاتی بگاڑ لے کر آئے تھے۔ یہ بگاڑ نشوونما کے ذمہ دار ہارمون کے ریسیپٹر جینز میں تھا جو جسم کی نشوونما کے اشارات موصول کرنے والے مالیکیول پیدا کرتے ہیں۔ جینیاتی کوڈ میں یہ بگاڑ اسرائیل میں بھی پایا جاتا ہے۔

نیویارک سٹی میں قائم البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن میں ماہرجینیات ہیری اوسٹرر کہتا ہے،’’تصور یہ ہے کہ یہودی عدالت احتساب کی وجہ سے اسپین اور پرتگال چھوڑنے کے لیے بے تاب تھے۔ لہٰذا وہ شمالی افریقا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی یورپ کی طرف چلے گئے۔ بہت سوں نے مغربی کرہ ہوائی کا رُخ بھی کیا مگر وہاں بھی عدالت احتساب نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ لہٰذا یہ ان کے حق میں بہتر تھا کہ وہ لیما اور کیٹو جیسے شہروں سے نکل جائیں جہاں چرچ کا غلبہ بہت زیادہ تھا۔

چناں چہ وہ دیہی ایکواڈور کے 75 مربع میل کے علاقے میں چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات میں جابسے، جہاں 1980ء کی دہائی تک چند ایک ہی سڑکیں تھیں جب کہ فون اور بجلی کا کوئی وجود نہیں تھا۔

گذشتہ صدیوں میں عمل تغیر انسانی آبادی میں پھولا پھلا ہے، اور اسے تفرید اور داخلی تولید کی وجہ سے بڑھاوا ملا ہے۔

گوویرا اور لونگو نے 2006ء میں مشترکہ طور پر تحقیق کا آغاز کیا تھا۔ گوویرا نے ایک علاقے میں انسانوں کا ایسا ہم جنس گروپ تلاش کرلیا تھا جن میں ایک معلوم جینیاتی تغیر پایا جاتا تھا جو ان میں انفرادی طور پر ذیابیطس اور سرطان جیسی بیماریوں کا راستہ روکتا نظر آتا تھا۔ Laron گروپ میں ذیابیطس کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا، صرف ایک فرد کے جسم میں رسولی بن گئی تھی لیکن یہ بھی غیرمہلک تھی۔ ہم عمر لوگوں کے ایک گروپ میں گوویرا اور لونگو نے دیکھا کہ پانچ فی صد ذیابیطس میں مبتلا ہوئے اور بیس فی صد سرطان کے ہاتھوں موت کا شکار ہوگئے۔ بعدازاں جنوبی کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں لونگو نے جو تجربات کیے ان سے ظاہر ہوا کہ ایکواڈورین مریضوں سے حاصل کردہ خون انسانی جسم کے خلیوں کی لیبارٹری میں پیدا کردہ سرطان سےحفاظت کررہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان کے خون میں ایسے کون سے کرشماتی اجزاء شامل تھے؟

لونگو کہتا ہے کہ خون میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ درحقیقت اس کا سبب ایک ہارمون کی غیرموجودگی تھی جسے IGF-1 کہا جاتا ہے۔ لونگو کہتا ہے کہ یہ خون اس لیے ایک محافظ کی سی حیثیت اختیار کرگیا تھا کہ اس میں IGF-1 کی سطح انتہائی کم تھی۔ یہ ہارمون بچوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم یہی ہارمون سرطان کا سبب بھی بنتا ہے اور میٹابولزم یا خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ کیا انسانی خون میں ایک ہارمون کی موجودگی پر کنٹرول حاصل کرلینے سے بڑھتی عمر کے امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے؟ غالباً یہ اتنا آسان نہیں ہے، تاہم انسولین اور IGF-1 کا تعلق طویل العمر پر تحقیق کے دوران بار بار سامنے آتا ہے۔

کیلابریا میں ان مخفی مالیکیولوں اور میکانزم کی تلاش، جو سالواتورے کروسو جیسے افراد کو لمبی عمر عطا کرتے ہیں، Luzzi کے ایک گاؤں کے سول رجسٹری آفس سے شروع ہوتی ہے۔ یہ گاؤں قرون وسطی سے آباد ہے۔ اس دفتر کی کھڑکیوں سے شمال میں برف پوش چوٹیوں کے دل کش نظارے دکھائی دیتے ہیں، مگر جینیاتی ماہرین کے نقطۂ نظر سے اس سے کہیں زیادہ دل کش مناظر اس دفتر کی الماریوں میں رکھی ہوئی فائلوں میں پوشیدہ ہیں۔ ان میں سب سے پرانی فائل پر 1866 ء کی تاریخ درج ہے۔ بدنظمی اور بدانتظامی کے لیے شہرت رکھنے کے باوجود اطالوی حکومت نے ملک کی وحدت کے فوراً بعد 1861ء میں ہر کمیونٹی اور ٹاؤن شپ میں پیدائش و اموات اور شادیوں کا ریکارڈ رکھنے کے احکامات جاری کردیے تھے۔

1994ء سے کیلابریا یونی ورسٹی کے سائنس داں علاقے کی 409 کمیونٹیوں کا غیرمعمولی سروے مرتب کرنے کے لیے ان ریکارڈز میں سَر کھپاتے آرہے ہیں۔ خاندانی تاریخ، نقائص کی سادہ طبعی پیمائش اور جدید ترین جینومی ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے وہ طویل العمری سے جُڑے بنیادی سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ طویل العمری میں جینیات کا کتنا دخل ہے؟ ماحول کا اس میں کیا کردار ہے؟ اور کیسے یہ دونوں عوامل آپس میں مل کر عمر کو بڑھاوا دیتے ہیں یا یہ کہ طویل العمری کے عمل کو کیسے تیزرفتار کرتے ہیں؟ان تمام سوالوں کے جواب دینے کے لیے سائنس دانوں کو ٹھوس آبادیاتی ڈیٹا سے آغاز کرنا ہوگا۔

گسیپی پسارینو کا ساتھی مارکو گیارڈانو ایک سبز لیجر کو کھولتے ہوئے اس میں درج ریکارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے،’’فرانسسکو ڈی اماٹو کی پیدائش 3مارچ 1905 کو ہوئی، جب کہ انتقال کا سال 2007 ء درج ہے۔ مارکو ڈی اماٹو کو وسیع شجرۂ نسب کا مرکز سمجھتا ہے۔ مارکو نے ساتھی محققین البرٹو مونٹیسانٹو اور سنزیا مارٹینو کے ساتھ مل کرکیلابریا کے 202 ایسے افراد کا شجرہ تشکیل دیا ہے جن کی عمریں 90سے 100کے درمیان اور 100 سے اوپر تھیں۔ اس ریکارڈ میں نہ صرف سو برس تک زندہ رہنے والے افراد کے بہن بھائیوں بلکہ ان (بہن بھائیوں) کے جیون ساتھیوں کے بارے میں بھی تفصیلات موجود ہیں۔ ان تمام معلومات نے پسارینو اور ان کے ساتھیوں کو اس قابل بنادیا کہ وہ طویل العمری پر ایک قسم کی تاریخی تحقیق کرسکیں۔ گیورڈانو کہتا ہے،’’ہم نے ڈی اماٹوکے بھائیوں اور بہنوں کی عمروں کا ان کے جیون ساتھیوں کی عمروں سے موازنہ کیا۔ انھیں بھی اسی طرح کا ماحول، وہی خوراک اور وہی دوائیں میسر تھیں۔ ان کی ثقافت بھی ایک جیسی تھی مگر ان کے جینز میں مماثلت نہیں تھی۔‘‘ 2011ء میں ان محققین نے ایک تحقیقی مقالے میں حیرت انگیز نتیجہ پیش کیا۔ تحقیق کے مطابق اگرچہ کم ازکم 90 برس تک زندہ رہنے والے افراد کے والدین اور بہن بھائیوں نے بھی عام لوگوں کی نسبت زیادہ عمر پائی، تاہم جینیاتی عنصر خواتین کے بجائے مردوں کو زیادہ فائدہ پہنچاتا نظر آیا۔ سائنس دانوں کے پیش کردہ نتائج اس امر کا ایک اور اشارہ دیتے ہیں کہ طویل العمری کا سبب بننے والے جینیاتی تغیر اور موڑ غیرمعمولی طور پر پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلے یورپ میں کی جانے والی بہت سی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کے سو برس تک زندہ رہنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ تاہم کیلابریا کے محققین کی تحقیق اس کے برعکس نتائج ظاہر کررہی تھی۔

پسارینوکے یونی ورسٹی میں واقع دفتر کے باہر کئی فریزرز میں عمر کی صدی پوری کرنے والے لوگوں کے خون کے نمونوں سے بھری ٹیوبیں رکھی ہوئی ہیں۔ خون کے ان نمونوں کے علاوہ بافتوں کے نمونوں سے حاصل کردہ ڈی این اے نے کیلابریا گروپ کے بارے میں اضافی معلومات افشا کی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ جن کی عمر 90 سال یا اس سے زاید تھی، ان میں جین کا مخصوص ورژن موجود تھا جو ذائقے کی حس اور ہاضمے کے لیے اہم ہوتا ہے۔ یہ ورژن نہ صرف لوگوں کو پولی فینول نامی مرکبات سے بھرپور تلخ غذائیں چکھنے کے قابل بناتا ہے، بلکہ آنتوں کے خلیات کو عمل انہضام کے دوران غذا سے غذائی اجزا زیادہ مؤثر انداز سے کشید کرنے کے بھی قابل بناتا ہے۔

پسارینونے عمر کی صدی پوری کرنے والے افراد میں ایک جین کا غیرمعمولی طور پر فعال ورژن دریافت کیا جو uncoupling protein کہلاتا ہے۔ پروٹین یا لحمیات میٹابولزم میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں جس کا اثر عمر پر پڑتا ہے (انسانی جسم جس طرح توانائی استعمال کرتا ہے اور جس طرح اپنا درجۂ حرارت برقرار رکھتا ہے وہ عمل میٹابولزم کہلاتا ہے)۔ پسارینو کے مطابق انھوں نے اُن پانچ یا چھے طریقوں کا عمیق جائزہ لیا ہے جو طویل العمری پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ پسارینو اور اس کے ساتھی اب اس نکتے پر ریسرچ کررہے ہیں کہ ماحولیاتی اثرات کیسے جینز کی سرگرمی میں تغیر کا سبب بن سکتے ہیں کہ وہ ( جینز) طویل العمری میں کمی بیشی کی وجہ بنیں۔

آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کے محققین ایک پروجیکٹ کے تحت مختلف خطوں میں کئی برسوں سے سو برس کی عمر کو پہنچنے والے افراد کے بارے میں معلومات جمع کررہے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر انھوں نے دیکھا کہ اشکنازی افراد میں HDL (کولیسٹرول کی بہت اچھی صورت) کی سطح بہت اونچی تھی، اور ان کے بچوں میں یہ سطح ان سے بھی زیادہ بلند تھی۔ ان نتائج نے محققین کو ایک سو کے لگ بھگ کولیسٹرول میٹابولزم سے متعلق جینز کے ڈی این اے کا تجزیہ کرنے پر مجبور کیا۔ اس تجزیے کے نتیجے میں ایک متغیر؛ ایک جین کی ذیلی قسم ان کے علم میں آئی جسے CETP (cholesteryl ester transfer protein) کہا جاتا ہے۔ یہ جین دوسرے لوگوں کے بجائے ان طویل العمر افراد میں زیادہ مشترک تھا۔

جب انھوں نے طویل العمر افراد ا میں پائے جانے والے CETP جین پر تحقیق کی تو ان پر ماضی میں کی گئی ریسرچ کی توثیق ہوگئی کہ جین کی یہ ذیلی قسم دل کے امراض سے بچاتی ہے اور پھر محققین نے تجربات سے یہ بھی ظاہر کیا یہ اس جین کے حامل افراد شعوری کام جیسے چلتے ہوئے گفتگو کرنا وغیرہ بہتر طور پر انجام دیتے ہیں۔

برازیلائی اور ان کے ساتھیوں نے عمر کی صدی پوری کرنے والے افراد کے مائٹوکونڈریا پر بھی توجہ دی ہے۔ مائٹوکونڈریا خلیے کا پاور پلانٹ ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا ڈی این اے، اپنے جینز اور جینیاتی متغیرات ہوتے ہیںِ، جو میٹابولزم کے عمل میں کلیدی افعال انجام دیتے ہیں۔ برازیلائی اور اس کی ٹیم نے متعدد مائٹوکونڈریائی لحمیات دریافت کی ہیں۔ ان لحمیات کو سائنس دانوں نے mitochinesکا نام دیا ہے۔ ان کا تعلق ان افراد سے ہوتا ہے جن کی عمر 90 برس سے اوپر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق جانوروں پر تجربات کے دوران ان میں سے ایک مالیکیول خاص طور پر دل چسپی کا حامل نظر آیا جو humanin کہلاتا ہے۔ محققین کے مطابق ذیابیطس میں مبتلا چوہے کو جب humanin کی ایک خوراک دی گئی تو اس کے جسم میں گلوکوز کی سطح نارمل ہوگئی اور چند ہی گھنٹوں میں اس میں سے ذیابیطس کی تمام علامات ختم ہوگئیں۔ اس مالیکیول نے زیرتجربہ چوہوں کو شریانوں میں رکاوٹ اور الزائمر کے مرض سے بچایا اور دل کے امراض سے حفاظت میں بھی معاون ثابت ہوا۔

آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کا طویل العمری کے راز دریافت کرنے کا منصوبہ انسانی جینیاتی ریسرچ میں بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے، جہاں گذشتہ دو عشروں سے زیادہ زور بیماریوں کا سبب بننے والے جینز کی دریافت پر ہے۔ برازیلائیکا کہنا ہے ، ’’ ہر کوئی ذیابیطس اور مٹاپے کی وجہ بننے والے جینز کی تلاش میں ہے، مگر میرے خیال میں ان کے ابھی تک دریافت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں حفاظتی جینز بھی موجود ہوتے ہیں۔‘‘ بیشتر محققین کی نگاہیں اب ان حفاظتی جینز کی تلاش پر مرکوز ہیں۔

حفاظتی جینز پر کیلی فورنیا کے Scripps Translational Science Institute میں بھی تحقیق جاری ہے۔ جہاں فزیشن ایرک ٹوپول اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک ہزار کے لگ بھگ افراد کے ڈی این اے کا جائزہ لے رہا ہے۔ ان تمام لوگوں کی عمریں 80 برس سے اوپر ہیں اور انھیں کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے۔

طویل العمری کی کلید کی تلاش میں سائنس دانوں نے رحم مادر پر بھی تحقیق کی ہے۔ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ہماری طویل العمری کا راز رحم مادر میں پوشیدہ ہو۔ اس مفروضے پر کام کرتے ہوئے فرانسن آئن اسٹائن اور جان گریلی برونکس میں پیدا ہونے والے بچوں کی آنول نال کا سائنسی تجزیہ کرتے آرہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ چھوٹی جسامت اور بڑی جسامت کے نوزائیدہ بچوں میں ڈی این اے کی ترتیب عام جسامت کے نوزائیدہ بچوں سے بہت مختلف تھی۔ برازیلائی کے مطابق رحم مادر میں وہ اثرات موجود ہوسکتے ہیں جو جینیاتی میکانزم کو متاثر کرتے ہیں اور آپ کی عمر بڑھنے کی شرح مقرر کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ صرف جینز ہی طویل العمری کے تمام رازوں کو افشا کرسکیں۔ مثال کے طور پر چوہوں کے اکتالیس مختلف جینیاتی نمونوں پر کیے گئے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ خوراک میں تنوع کو محدود کردینے سے مختلف اور متضاد نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ ان میں سے نصف کے قریب چوہے اپنی اوسط عمر سے زیادہ عرصے تک زندہ رہے ، جب کہ کچھ اپنی اوسط عمر سے بھی کم وقت تک زندہ رہ پائے۔ دوسری جانب National Institute on Aging کے سائنس دانوں نے بندروں پر جو تجربات کیے ان سے ظاہر ہوا کہ ان جانوروں کو 25 برس تک محدود کیلوریز دینے سے بھی ان کی عمر میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پسارینو کا کہنا ہے،’’بات اچھے اور بُرے جینز کی نہیں ہے، بلکہ بات مخصوص وقت پر مخصوص جینز کی ہے۔ اور آخر میں، میں یہ کہوں گا کہ طویل العمری میں جینز کا حصہ غالباً ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں ماحول بھی بہت اہمیت رکھتا ہے، مگر یہ دونوں عوامل بھی طویل العمری کے رازوں کو پوری طرح افشا نہیں کرتے۔‘‘

107سالہ سالواتورے کروسو اب بھی مکمل طور پر صحت مند ہے۔ 88 برس قبل اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور اسی بنیاد پر اسے فوج سے خارج کردیا گیا تھا۔ کروسو کے مطابق اس کے یونٹ کو جنگ عظیم دوم کے دوران روس کے محاذ پر بھیجا گیا تھا اور اس کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں آسکا تھا۔ یہ بھی ایک یاد دہانی ہے کہ اگرچہ مالیکیول اور مختلف طریقۂ ہائے کار ایک روز ایسی ادویہ کی تیاری کا سبب بن جائیں گے جو ہمیں طویل عمر تک صحت مند رکھ سکیں گی تاہم طویل العمری کے لیے قسمت کا ساتھ بھی لازمی ہوگا۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>