(مضمون نگار کی زیرطبع کتاب “طوفان سے پہلے، طوفان کے بعد” سے ایک انتخاب)
انسانیت کی تاریخ میں طوفان نوح کے واقعے کو جس قدر اہمیت حاصل ہے شاید ہی کسی اور واقعے کو ہو۔ اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ دنیا کی ہر قدیم تہذیب اور ہر مذہب میں اس سے متعلق روایات پائی جاتی ہیں۔ سومیری تہذیب کا طوفان کا ہیرو اگر “زیوسدرا” ہے تو بابلی تہذیب میں “اتراحائسیس۔” یہ طوفان جیسے ساری انسانیت کی مشترکہ میراث ہو اور ہر نسل ان روایات سے متاثر ہوئی ہو۔
تینوں الہامی ادیان کے ہاں یہی ہستی حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ یہود کے ہاں طوفان سے ہٹ کر بھی حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق مختلف روایات پائی جاتی ہیں، لیکن میسو پوٹیمیا (عراق) کی سومیری تہذیب جو کے تحریر کے حوالے سے دنیا کی سب سے پرانی تہذیب کہلاتی ہے اور جسے عام طور پر اس کو فن تحریر کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے اس میں تو تاریخ کا تعین کرنے کے لیے جس تقویم کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ بہت ہی سادہ ہے “طوفان سے پہلے، طوفان کے بعد۔” طوفان سے پہلے ان کا دعویٰ ہے کہ بادشاہت کا مرکز شہر اریدو تھا جہاں پر بادشاہت ہزاروں سال قائم رہی اور پھر “بئرتبر یا باد طبریہ ” نامی شہر میں منتقل ہوگئی۔
وہاں ہزاروں سال قائم رہی اور بادشاہت کا مرکز “لاراک” نامی شہر بن گیا، وہاں ہزاروں سال قائم رہی اور پھر بادشاہی کا مرکز “سپار” نامی شہر بن گیا، سپار سے بادشاہت “شروپوک” میں منتقل ہوئی اور ہزاروں سال قائم رہی یہاں تک کے “طوفان” آگیا۔ کل ملا کر ان پانچ شہروں میں بادشاہت کا عرصہ 241،200 سال کا بنتا ہے۔
طوفان کے بعد بادشاہت کا دوبارہ نزول جب آسمان سے ہوا تو اریدو کی بجائے”کِش” شہر اس کا مرکز بنا۔ بادشاہوں کی عمریں کم ہوچکی تھیں اور یہ سومیر کے مختلف شہروں میں منتقل ہوتی رہی۔ تقریباً 134 بادشاہ جن کا دورِاقتدار 28876 سالوں سے زاید بتایا گیا ہے۔ سومیریوں کے بادشاہوں کی یہ فہرست ہمیں ایک ایسی نسل انسانی کا پتہ دیتی ہے جو کے لاکھوں سال پرانی ہے کسی بھی محتاط اندازے سے بڑھ کر! اور یہ قدیم ترین نسل سائنس کے میدان میں ترقی یافتہ ہو یا نہ ہو اخلاقیات کے میدان میں کسی سے پیچھے نہ تھی۔
“شروپوک شہر کی نصیحتیں” کے نام سے منسوب ایک سومیری لوح جس کی قدامت کا اندازہ ڈھائی ہزار تا تین ہزار ق-م کا ہے اور جو دنیا کی سب سے پرانی تحریر مانی جاتی ہے، ہمیں ان ہدایات یا وصیتوں کا حال سناتی ہے جو طوفان سے پہلے شروپوک کے آخری حکم راں “زیوسُدرا” کا باپ شروپوک اسے دیتا ہے۔
ان نصحتیوں میں جہاں ماضی کی جھلک ہے وہیں پر حکمت کے ایسے باب ہیں جن پر آج بھی غور کرنے سے عجیب طرز کی روحانی مسرت اور فہم حاصل ہوتی ہے۔ زیوسدرا سومیری تہذیب میں طوفان کی کہانی کا ہیرو بھی ہے جس کو دیوتا ایک عظیم الشان طوفان سے بچاتے ہیں۔ زیوسُدرا کا مطلب ہے لمبے دنوں کی عمر والا یا لمبی عمر والا۔”حیرت انگیز طور پر حضرت نوح علیہ السلام کے نام کا ایک معنی بھی یہی ہے۔ لیکن فی الحال ہم شخصیت کاحتمی تعین کیے بغیر ان نصحتیوں کا حال پڑھتے ہیں۔
“ان دنوں میں ، قدیم ایام میں، ان راتوں میں بہت قدیم راتوں میں، ان سالوں میں ان قدیم سالوں میں، اُس وقت جب ایک دانا جو جانتا تھا کہ ناصحانہ الفاظ میں کیسے بات کرنی ہے، زمین پر رہتا تھا۔ شروپوک دانا، جو جانتا تھا کہ ناصحانہ انداز میں کیسے بات کرنی ہے۔ شروپوک نے اپنے بیٹے کو نصحیت کی۔
شروپوک “اوبارا-توتو” کا بیٹااس نے اپنے بیٹے “زیوسُدرا” کو نصحیت کی۔ میرے بیٹے مجھے نصیحت کرنے دو۔ تم توجہ کرو، مجھے اجازت دو کہ تمہیں نصیحت کروں تمہیں دھیان سے سننا چاہیے۔ میری ان نصیحتوں کو نظرانداز مت کرنا۔ ان الفاظ کو بھول مت جانا جو میں تمہیں کہنے والا ہوں۔ ایک ضعیف العمر شخص کی نصیحتیں بہت قیمتی ہوتی ہیں تمہیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔
راستے پر کھیت مت بنانا، راستے پر کھیت میں ہل نہ چلانا۔ اپنے کھیت میں کنواں نہ بنانا ورنہ لوگ ترے دشمن بن جائیں گے۔ چوراہے پر گھر نہ بنانا وہ راستے کی رکاوٹ بن جائے گا۔ کسی کی ضمانت مت دینا، وہ بندہ تم پر قابو پالے گا، اور کسی سے اپنے لیے ضمانت نہ لینا وہ بندہ تمہیں دھوکا دے گا۔ جہاں جھگڑا ہو وہاں کھڑے مت ہونا، کسی جھگڑے کے گواہ مت بننا نہ اپنے آپ کو کسی جھگڑے میں الجھانا۔ کسی جھگڑے کی وجہ مت بننا۔ جھگڑے سے بچے رہنا اور اگر تجھے ذلت کا اندیشہ ہو تو راستہ بدل لینا۔
کبھی کوئی چیز نہ چُرانا۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈال لینا۔ کسی کے گھر میں زورزبردستی سے داخل نہ ہونا۔ چور ایک شیر کی مانند ہوتا ہے لیکن جب پکڑا جائے تو وہ ایک غلام بنا لیا جاتا ہے۔
(اس میں اشارہ ہے کہ غالباً اس وقت سومیری قوم میں چور کی یہ سزا تھی کہ اسے غلام بنا لیا جائے۔ ایک اور ترجمے کے مطابق “چور ایک اژدہے کی مانند ہوتا ہے لیکن جب پکڑا جائے تو ایک لونڈی کی مانند بن جاتا ہے)۔
میرے بیٹے! لوٹ مار نہ کرنا، اپنے آپ کو کلہاڑے کے ذریعے ہلاکت میں مت ڈال لینا
(یعنی اس کے دوران یا بعد میں سزا کے طور پر کلہاڑے سے مارے جاسکتے ہو)۔
کسی جوان شادی شدہ عورت کے پیچھے مت لگ جانا اس کا انجام بد ہوسکتا ہے۔ میرے بیٹے کبھی بھی شادی شدہ عورت کے ساتھ تنہائی مت اختیار کرنا۔
جھگڑالو بن کر اپنے آپ کو پست نہ کرلینا۔ جھوٹ نہ بولنا، نہ تکبر کرنا۔ تب تمہارے الفاظ قابل اعتبار ہوں گے۔ برائی کے منصوبے مت بنانا، بھاری نظر ناقابل برداشت ہوگی (نظر لگنے کی طرف اشارہ ہے)۔
چوری کا کھانا کبھی کسی کے ساتھ مل کر نہ کھانا۔ دغابازی والی گفتگو مت کرنا، یہ آخر کار تیرے لیے پھندا بن جائے گی۔
اپنے ہاتھوں کو خون ناحق سے آلودہ مت کرنا۔ یاوہ گوئی مت کرنا، یہ تمہارے لیے ایک پھندا بن جائے گی۔ اپنی بھیڑ کو نامعلوم چراگاہ میں مت چَرانا۔ رات کو سفر مت کرنا، اس میں اچھائی اور برائی دونوں چھپی ہوئی ہیں۔
لونڈی کے ساتھ مباشرت مت کرنا وہ تمہیں نچوڑ جائے گی (ایک اور ترجمے کے مطابق “وہ تجھے نظر انداز کردے گی)۔
کسی کو حددرجہ بددعا مت دینا یہ تم پر پلٹ آئے گی۔ جیسی چیز کسی پر پھینکو گے ویسی ہی تم پر پھینکی جائے گی (جیسا کرو گے ویسا بھرو گے)۔
کسی قرض خواہ کو دور مت کرنا، وہ تمہارا دشمن بن جائے گا۔ کسی متکبر شخص کے ساتھ گھر کی بنیاد نہ رکھنا وہ تمہاری زندگی کو ایک لونڈی کی زندگی کی مانند بنا دے گا۔ (اگر تم نے ایسا کیا) تم کسی جگہ آ جا نہ سکو گے، ماسوا اس کے کہ (تمہاری طرف) آوازے بلند ہوں گے کہ وہ گیا، وہ آیا۔ (یعنی تم پر مسلسل نظر رکھی جائے گی)۔
میرے بیٹے! سختی کا استعمال مت کرنا۔ کسی کی بیٹی کی عزت کی بے حرمتی مت کرنا ورنہ آنگن اسے جان لے گا (یعنی بدنام ہوجاؤ گے)۔
کسی طاقت ور شخص کو مت مارنا، اپنی فصیل کو کبھی نہ ڈھانا، کسی نوجوان بندے کو مار پیٹ کرکے شہر سے دور مت کرنا۔
بدخواہوں کی نگاہیں ہمیشہ تکلے کی مانند گھومتی رہتی ہیں، ایسوں کی صحبت مت اختیار کرنا، ان کی بدنگاہی کو یہ موقع مت دینا کہ وہ تم پر اثرانداز ہوجائے (بدنظری کی طرف اشارہ ہے)۔
جب میدان جنگ میں جانے والے ہو تو کوئی سودا مت کرنا۔ شراب خانوں میں شیخی خوروں کی مانند بڑھکیں مت مارنا۔ جب مردانگی کی عمر میں پہنچ جاؤ تو اپنے ہاتھ پر چھلانگ مت لگاؤ؟۔
جنگجو بندہ منفرد ہوتا ہے، وہ تنہا ہی کئی ایک پر بھاری ہوتا ہے۔ اتوو (ایک دیوتا کا نام) منفرد ہے ، وہ اکیلا ہی کئی ایک پر بھاری ہے۔ اپنی ساری زندگی جنگجو کی حمایت کرنا، اپنی ساری زندگی اتوو کی حمایت کرنا۔
نصیحتوں کے دوسرے حصے میں مزید کہا جاتا ہے:
“محل ایک بڑے دریا کی مانند ہوتے ہیں جن کا وسط چھید دینے والے بیل (کی مانند) ہے، ان کی آمدن تو بے مثل ہے لیکن ان کا خرچہ بھی نہ ختم ہونے والا ہے (یہاں محل سے مراد غالباً گھر ہیں کہ جتنا بھی خرچ کرلو گے خرچہ پورا نہ ہوسکے گا اور جو گھر سے باہر خرچ ہوگا وہ واپس نہ آئے گا۔ سومیری استعارے میں یہ کفایت شعاری کی تلقین لگتی ہے)۔
جب کسی اور کے مال کا معاملہ ہو تو یہ کہنا آسان ہے کہ “میں اسے تمہیں دوں گا، لیکن درحقیقت ایسی خیرات اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنا آسمان۔ اگر تم کسی ایسے بندے کے پیچھے جاؤ جس کا دعویٰ ہے کہ “میں تمہیں دوں گا ” تو تب وہ کہے گا کہ میں نہیں دے سکتا کیوںکہ روٹی ابھی ابھی سب ختم ہوگئی۔ (یعنی کسی کے مال پر خیرات مت کرو، اگر تم کسی کے مال کی بنیاد پر خیرات کا کسی سے وعدہ کرلو گے تو جس کے وعدے پر تم نے وعدہ کیا ہے جب تم اس سے لینے جاؤ گے تو وہ کہہ دے گا کہ ابھی ابھی مال ختم ہوگیا)۔
خوب صورت زبان تلاوت کرتی ہے، تلخ زبانی نالش کا سبب بنتی ہے، میٹھی زبان پھولوں کو اکٹھا کرتی ہے۔
مضبوط لوگ کسی سے بھی بچ نکلتے ہیں۔ بے وقوف لوگ سوتے میں لُٹ جاتے ہیں اور پھر فریاد کرتے ہیں کہ “مجھے مت باندھو ، مجھے زندہ رہنے دو۔ “(یعنی غفلت کی نیند مت سویا کرو ورنہ چور اور ڈاکو داخل ہوجائیں گے)۔
نادان لوگ (اپنی دانست میں) قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بے شرم لوگ اپنے کرتوتوں کو دوسروں کے زمرے میں (یہ کہہ کر ) ڈال دیتے ہیں “کہ میں تو ایسا ہوں میں تو قابل تعریف ہوں۔”
کم زور بیوی ہمیشہ قسمت کے رحم و کرم پر ہے؟
اگر تم کسی کو معاوضے پر کام پر رکھتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہی روٹی کھائے گا، وہ تمہارے ساتھ ہی تمہارا تھیلا خالی ہونے تک روٹی کھائے گا، اور اس کے بعد کام چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ “مجھے زندہ رہنے کے لیے کوئی کام تو کرنا ہے”، اور پھر وہ محل کی نوکری اختیار کرلے گا۔ (اس نصیحت کا جو مطلب میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہی ہے کہ تن خواہ دار ملازم آپ کے ساتھ تب ہی تک چلتا ہے جب تک کے آپ مال دار ہوتے ہیں اور جیسے ہی مال ختم ہوتا ہے وہ کہیں اور چل دیتا ہے)
ترا بیٹا پورے گھر کا تقاضا کرے گا لیکن بیٹی صرف ایک عورت کے حجرے کا۔ (اس فقرے کا مطلب واضح نہیں غالباً جائیداد کی بات ہورہی ہے اور بیٹی کی تعریف کی جارہی ہے)۔
نشے کی حالت میں کوئی فیصلہ مت کرو۔
اس چیز کے متعلق پریشان مت ہو جو گھر چھوڑ کر چلی گئی۔
جنت دور ہے زمین قیمتی ہے لیکن یہ جنت ہے جو تمہارے کرموں کا پھل دگنا کرتی ہے اور تمام زمینیں اسی کی برکت سے سانس لیتی ہیں۔
کٹائی کے زمانے میں اے میرے بیٹے! کسی لونڈی کی مانند محنت کرو، ملکہ کی طرح کھاؤ، لونڈی کی مانند محنت کرو، ملکہ کی مانند کھاؤ، دیکھو! ایسا ہی کرنا۔ (یعنی آج جتنی محنت سے زمین میں ہل چلاؤ گے ویسے ہی آرام سے بیٹھ کر کھاؤ گے)۔
ذلت محض جسم کو نقصان پہنچاتی ہے لیکن لالچی آنکھیں مار سکتی ہیں (بدنظری کی طرف اشارہ ہے غالباً)۔ جھوٹا آنسو بہاتے ہوئے اپنے کپڑے بھی پھاڑ لیتا ہے (اپنے مکر میں زور پیدا کرنے کے لیے، جھوٹے آدمیوں کی ایک صفت بیان کی جارہی ہے)۔ متکبرانہ گفتگو آگ کی مانند ہے یا ایسی جڑی بوٹی کی مانند جو کے معدے کو خراب کردے (حیران کن امر ہے کہ سومیری متکبرانہ گفتگو کا معدے پر اثر جانتے تھے!)۔
دعا کے الفاظ خوش حالی لاتے ہیں، دعا ٹھنڈے پانی کی مانند ہے جو دلوں کو ٹھنڈا کرتی ہے، لیکن بددعا اور بے وقوفانہ گفتگو ایسی چیز ہے جس سے ملک والوں کو پرہیز کرنا چاہیے۔
تیسری بار مزید نصحتیں کی جاتی ہیں:
“کسی کسان کے بیٹے کو مت مارنا وہ ترا آب پاشی کا رستہ خراب کردے گا۔ طوائف کو مت خریدنا وہ تیز دانتوں والے منہ کی مانند ہے (یعنی طوائف سارا مال کھا جاتی ہے )
قسمت ایک پھسلواں کنارے کی مانند ہے کوئی بھی پھسل سکتا ہے۔
تمہارا بڑا بھائی باپ کی مانند ہے اور بڑی بہن ماں کی مانند۔ چناںچہ اپنے بڑے بھائی کی بات سنو اور اپنی بڑی بہن کے یوں تابع دار رہو جیسے اپنی ماں کے۔
صرف اپنی آنکھوں سے کام نہ لو، اور نہ ہی تم محض باتوں کے بل بوتے اپنی جائیداد بڑھا سکتے ہو۔ سست آدمی اپنے گھر کو ڈبو دیتا ہے۔ گاؤں ہو تو وہ سردار کے لیے بچھڑے مہیا کرتا ہے لیکن بڑا شہر اسے محل بھی فراہم کرتا ہے۔
شادی شدہ بندہ مال دار ہوتا ہے اور غیرشادی شدہ بندے کا بستر گویا گھاس (کانٹوں) کا بچھونا ہو۔
اگر کوئی گھر کی تعمیر کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے اگر کوئی اس کی بربادی کی خواہش رکھتا ہے تو برباد کرسکتا ہے (گھر کی بربادی یا خوش حالی اہل خانہ کے ہاتھ میں ہے)۔
جیسے کسی بڑے بیل کی گردن تھامے تم دریا پار کرجاتے ہو ویسے ہی شہر کے کسی طاقتور بندے کا ساتھ تمہارے اعزاز میں اضافہ کرے گا۔
جب تم کسی لونڈی کو پہاڑ سے خرید کر لاتے ہو تو وہ اچھائی اور برائی اپنے ساتھ لیے آتی ہے۔ اس کی اچھائی اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور اس کی برائی اس میں دل میں (پوشیدہ)۔ دل سمندر کی مانند ہے (جس میں ہر طرح کا جان دار ہوتا ہے ) دل سے نہ کبھی اچھائی ختم ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کبھی بدی سے پاک ہوتا ہے۔
برے انسان کو کشتی سمیت ڈوبنے دو۔
ایک محبت بھرا دل خاندان کی تعمیر کرتا ہے، ایک نفرت بھرا دل خاندان تباہ کرلیتا ہے۔ طاقت رکھنا اور استقامت پر قائم رہنا شہزادوں والی مقدس صلاحیتیں ہیں۔ معززین کے تابع دار رہو، طاقت وروں (حکم راں مراد ہیں شاید) کے سامنے عاجز رہو۔ میرے بیٹے! تب تم بے ایمانوں کے خلاف جدوجہد کرسکو گے۔
کسی میلے ٹھیلے کے دوران کسی عورت کا بطور بیوی انتخاب مت کرنا (کیوںکہ) اس کا ظاہر مصنوعی ہے اس کا باطن مصنوعی ہے۔ اس نے جو چاندی پہن رکھی ہے وہ مستعار لی ہوئی ہے، اس نے جو لاجورد زیب تن کررکھا ہے وہ مستعار شدہ ہے، اس کے زیورات مستعار لیے ہوئے ہیں اس کا لباس مستعار شدہ ہے۔ اس کا لٹھے کا لباس مستعار شدہ ہے۔ (راہ چلتی عورت سے شادی کی ممانعت کی جارہی ہے)
مرد ایک زرخیز کھیت کی مانند اچھی عورت کا انتخاب کرتا ہے۔ جس عورت کی اپنی جائیداد ہو وہ گھر کو تباہ کردیتی ہے (غالباً اپنے مال پر تکبر کی وجہ سے )۔
شرابی فصل تباہ کردیتا ہے۔ کوئی بھی چیز زندگی سے زیادہ اہم نہیں، چیزوں کی خدمت مت کرنا بلکہ چیزوں کو تمہاری خدمت کرنی چاہیے (آج سے پانچ ہزار سال پہلے مادہ پرستی کا توڑ!)۔
اپنی بیوی کو قید میں مت ڈالو، اسے مت رلانا۔ مت مارنا، وہ بچہ ہے جو پیدا (۔۔۔۔) مت مارنا (۔۔۔) مت باندھنا۔
دودھ پلانے والیاں عورتیں کے حجروں میں آقا کی قسمت کا فیصلہ کردیتی ہیں۔
اپنی ماں سے گستاخانہ لہجے میں بات مت کرنا یہ تم سے نفرت کا سبب بن جائے گا۔ اپنی ماں اور خدا کی باتوں پر سوال مت اٹھانا۔ ماں “اتوو” کی مانند مرد کو جنم دیتی ہے، اور باپ خدا کی مانند اس کی پرورش کرتا ہے۔ باپ آقا کی مانند ہے اس کے الفاظ قابل اعتبار ہیں۔ اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔
گم راہ ہوجانا (راستہ بھول جانا ) کسی کتے کے لیے محض برا ہے لیکن انسان کے لیے تو بہت ہی افسوس ناک ہے۔ انجانی جگہ خوف ناک ہوتی ہے اور گم راہ ہوجانا شرم ناک۔”
ہدایات کے اس مجموعے کو باقاعدہ قوانین تو نہیں کہا جاسکتا لیکن یہی وہ اخلاقیات ہیں جو آگے جا کر سومیریوں کے تمام قوانین کی بنیاد بنیں۔ نصیحتوں کا یہ مجموعہ دنیا کی دو قدیم ترین تحاریر میں سے ایک ہے جو واضح طور پر نشان دہی کرتا ہے کہ سومیریوں کی اخلاقیات نہ تو مظاہرفطرت کے مطالعے سے پھوٹی تھی اور نہ ہی اس پر موسمی تہواروں کا کوئی اثر تھا، بلکہ یہ صدیوں کا ایک معاشرتی و دینی تجربہ تھا جو نسل درنسل منتقل ہورہا تھا۔
سومیریوں کا معاشرہ گو کہ ان کے توہم پرست دین سے پھوٹا تھا لیکن وہ اس معاشرتی آموزش کا انکار نہیں کرسکتے تھے جو حکمت کے دروازے انسان پر کھولتی ہے۔ انہوں نے کمال عقیدت سے انسانی فہم و شعور پر استوار اس معاشرتی علم کو بھی دیوتاؤں سے منسوب کردیا۔ اور پھر اپنے ہر دینی و موسمی تہوار پر ان کو دہرانے لگے تاکہ انسانی شعور میں اخلاقیات کا ایک میعار قائم رہے اور معاشرہ مجموعی طور پر دنیاوی طور پر خیر پر کاربند رہے۔ چند ایک اور متفرق اقوال جن کا زمانہ قدامت 200 ق۔م اور اس کے تھوڑا بعد کا ہے وہ بھی کچھ ایسی ہی تصویر پیش کرتے ہیں:
“غریب آدمی کے لیے تو زندگی سے موت اچھی ہے، اگر اس کے پاس روٹی ہو تو نمک نہیں، نمک ہو تو روٹی نہیں۔ اگر اس کے پاس گوشت ہو تو میمنا نہیں، میمنا ہو تو گوشت نہیں۔”
“غریب آدمی کے سارے گھر والے اطاعت کیش نہیں ہوتے۔ ”
“زیادہ جو (اناج) رکھنے والا شاید خوش رہتا ہو ، مگر نیند اسے ہی آسکتی ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ”
“دولت مشکل سے پاس آتی ہے لیکن مفلسی ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔ ”
“اسراف سے موت یقینی ہے، کفایت شعاری سے طویل زندگی ملتی ہے۔ ”
“مال و متاع اڑتی ہوئی چڑیاں ہیں جنہیں اترنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ ”
“اسے اب نہ توڑ، یہ بعد میں پھل لائے گا ”
“مجھے یہ نہ بتا کہ تجھے ملا کیا ہے، مجھے صرف یہ بتا تو نے کھویا کیا ہے۔ ”
میٹھا بول سب کا دوست ہوتا ہے۔ ”
“کھلے ہوئے منہ میں مکھی چلی جاتی ہے۔ ”
“دوستی ایک دن کی ہوتی ہے، رشتے داری دائمی۔ ”
“جوتا انسان کی آنکھ ہے، بیوی انسان کا مستقبل ہے ، بیٹا انسان کی پناہ گا ہ ہے، بیٹی انسان کی نجات ہے۔ ”
“جو ملک اسلحہ میں کم زور ہوگا، دشمن کو اس کے دروازوں سے بھگایا نہ جاسکے گا۔”
جس شہر میں (رکھوالے) کتے نہیں ہوتے وہ بھیڑیوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ”
میں جنگلی سانڈ سے بچ نکلا تو جنگلی گائے سے پالا پڑ گیا۔”
“(میرے بیٹے) اب تو انسان بن جا، چوک میں کھڑا مت ہو یا سڑک پر آوارہ گردی مت کر، گلی میں چلتے وقت ادھر ادھر مت دیکھنا، منکسر المزاج رہ اور اپنے نگراں سے ڈر۔ جب تو ڈرے گا ترا نگراں تجھے پسند کرے گا۔ اگر تو چوکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا تو کیا کام یاب ہوسکے گا؟ گزری ہوئی نسلوں کا سراغ لگا، اسکول جا، یہی تیرے لیے بہتر ہے۔
میرے بیٹے گزری ہوئی نسلوں کا سراغ لگا، ان کے بارے میں علم حاصل کر۔ اے میرے آوارہ بیٹے! میں ترا نگراں باپ ہوں اگر میں تیری نگرانی نہ کروں تو پھر میں انسان نہیں۔ تجھ جیسے آوارہ اپنے رشتہ داروں میں کوئی اور نہیں ہے۔۔۔۔۔تیری شکایات کی وجہ سے میں قریب المرگ ہوگیا ہوں، تو نے مجھے قبر کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، میں نے اپنی زندگی میں تجھ سے کبھی سرکنڈے اور گھاس نہیں اٹھوائی۔ نوجوان اور چھوٹے لڑکے سرکنڈے اور گھاس اٹھاتے ہیں لیکن میں نے تجھ سے کبھی نہیں کہا کہ میرے مویشیوں کی دیکھ بھال کر، میں نے تجھے کھیت میں کام کرنے کے لیے، ہل چلانے کے لیے کبھی نہیں بھیجا، میں نے تجھے کبھی کسی کھیت میں کھدائی کے لیے نہیں بھیجا۔
اپنی زندگی میں کبھی تجھے مزدور کی طرح کام کرنے کے لیے نہیں بھیجا کہ جا کام کر اور میرا سہارا بن۔ تیری طرح کے دوسرے نوجوان کام کرکے اپنے ماں باپ کا سہارا بنتے ہیں۔ تیرا ہر رشتے دار دس گرجو کماتا ہے حتٰی کے ہر چھوٹا لڑکا بھی اپنے باپ کو دس گرجو کما کر دیتا ہے۔ اور اپنا حال دیکھ تو ان کے مقابلے پر انسان ہی نہیں ہے!۔”
سو میریوں کا سب سے بڑا کارنامہ تحریر کا آغاز ہے۔ ان میں تحریر کا آغاز کیوںکر ہوا اس کے بارے میں تاریخی ذرائع میسر نہیں۔ لیکن یہ قیاس یکسر غلط ہے کہ ان کے پروہتوں نے اپنی عبادت گاہوں کے خرچے کا دھیان رکھنے کے لیے تحریر کا آغاز کیا۔ تحریر اگر سومیریوں کی ایجاد تھی تو بالیقین ان کے ہاں اس کی قدروقیمت بھی بہت زیادہ ہوگی۔ ایک نئی دریافت ایک قوم پر جو جوش کی حالت طاری کردیتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
The post شروپوک کی نصیحتیں appeared first on ایکسپریس اردو.