انڈیا میں 16ویں لوک سبھا (ایوان زیریں) کے انتخاب کے لیے9 مراحل میں انتخابات کا آغاز ہوچکا ہے۔ 7اپریل 2014سے 12مئی 2014تک ہونے والے یہ الیکشن ملکی تاریخ کے سب سے طویل عام انتخابات ہیں جن میں لوک سبھا کے 543 ارکان منتخب کیے جائیں گے۔ نتیجے کا اعلان 16مئی کو ہوگا۔
543 منتخب ارکان کے ایوان میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کو حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 ارکان کی ضرورت ہوگی۔
اس بار انڈیا کے عام انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں استعمال کی جارہی ہیں جن میں پہلی بار ووٹر کو ’’کوئی نہیں‘‘ کا بٹن استعمال کرنے کا اختیار بھی ہوگا، یعنی وہ بیلٹ پیپر پر درج کسی بھی جماعت یا امیدوار کے حق میں نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق 2014 کی الیکٹرول آبادی81.45 کروڑ ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں دس کروڑ نئے اہل ووٹرز کا اضافہ ہوچکا ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن کے مطابق یہ انڈیا کی تاریخ کے سب سے منہگے الیکشن ہیں، جن پر حکومتی خزانے سے 35ارب انڈین روپے خرچ ہوں گے۔ ان میں وہ اخراجات شامل نہیں ہیں جو سیکیوریٹی مقاصد پر خرچ کیے گئے ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات شامل ہیں۔ توقع ہے کہ سیاسی جماعتیں ان عام انتخابات میں 305ارب روپے (لگ بھگ پانچ ارب امریکی ڈالر) خرچ کریں گی۔
انڈیا کے عام انتخابات کے چند اہم نکات
٭سب سے زیادہ ووٹرز: یہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات ہیں، جن میں 81.45 کروڑ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انڈیا میں ووٹنگ میں حصہ لینے والوں کی یہ تعداد ریاست ہائے متحدہ امریکا اور مغربی یورپ کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ انڈیا کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق اس ملک میں اس پیمانے کے انتخابات ایک دن میں نہیں ہوسکتے، اس لیے یہ الیکشن نو بلاکس میں پانچ ہفتوں کی مدت میں مکمل ہوں گے جن کے لیے نو لاکھ تیس ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔
٭ملکی معاشی صورت حال: ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ حکم راں جماعت کی نہایت ناقص معاشی کارکردگی کے باعث ان میں زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے۔ انڈیا کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں، وہ معاشی ترقی کے خواہش مند ہیں، ملک میں امن و امان چاہتے ہیں، اسی لیے وہ قیادت میں تبدیلی چاہتے ہیں، تاکہ نئی منتخب حکومت انہیں مشکلات سے نکال سکے اور ان کے لبوں پر آسودگی بکھیر سکے۔ اس وقت اس ملک کی جی ڈی پی کی شرح پانچ فی صد سے بھی کم ہے۔ ساتھ ہی افراط زر نے صورت حال کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی کی تیز ترقی کے بعد یہاں غربت کی صورت حال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکی ہے۔ اسی لیے آج بھی انڈیا دنیا کے غریب ترین ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔
٭بی جے پی اور مودی لہر: ان انتخابات میں بی جے پی اور ان کے لیڈر نریندر مودی نے کسی حد تک بھارتی ووٹرز کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے جس کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس بار لوک سبھا میں زیادہ نشستیں حاصل کرلے گی۔ ساتھ ہی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ جماعت دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ اسے حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں سے اتحاد کرنا ہوگا۔ بی جے پی کے نریندر مودی وزیراعظم کے عہدے کے مضبوط امیدوار ہیں۔ وہ ملک کی معاشی ترقی اور اس کے لیے اچھے نظم و نسق کا نعرہ لگاکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کام یاب ہورہے ہیں۔ انڈیا کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ مودی کی کاروبار دوست مہم ان کی پارٹی کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی فتح سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مودی ایک متنازع شخصیت ہیں۔
وہ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ہندو قوم پرستوں میں بڑے مضبوط آدمی قرار دیے جاتے ہیں۔ لیکن دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے ساتھ ان کے مضبوط رابطوں اور ان کی آمرانہ طبیعت کے باعث ان پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ حالاں کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے انہیں 2012 کے غلط اقدامات اور ان کے نتائج میں ہونے والے ہنگاموں اور فسادات سے بری کردیا ہے، تاہم بعض لوگ اب بھی مودی کو 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان فسادات میں ایک ہزار سے زاید افراد جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، ہلاک کردیے گئے تھے۔ اس پر دنیا بھر میں نریندر مودی کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا۔ شاید اسی وجہ سے 2005ء میں امریکا کے یو ایس ڈیپارٹمنٹ نے انہیں اپنے ملک کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن بعد میں مارچ میں امریکا نے اپنی پالیسی بدلی اور کہا کہ اگر مودی الیکشن میں فتح یاب ہوئے تو ہم انہیں امریکا میں خوش آمدید کہیں گے۔
٭کانگریس میں اعتماد کا فقدان: اس وقت کے انتخابی تناظر میں کانگریس میں اعتماد کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔ ایک تو معاشی زوال، اوپر سے مستقل افراط زر اور ساتھ ہی کرپشن اسکینڈلز کی بھرمار، ان سب نے کانگریس کے لیے ووٹرز کی ہم دردی اور توجہ کم کردی ہے۔ کانگریس بھارت کی سب سے قدیم جماعت ہے جو حکم راں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، مگر اب وہ ووٹرز پر اپنا اثر کھوتی جارہی ہے۔ راہول گاندھی اس وقت نہرو گاندھی خاندان کے وارث ہیں اور وزیراعظم کے لیے پارٹی کی واحد چوائس ہیں۔ انہیں ایک ہٹ دھرم لیڈر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، اسی لیے بعض سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس ملکی تاریخ میں پہلی بار لوک سبھا میں کم ترین نشستیں حاصل کرے گی۔ کانگریس جماعت نے بی جے پی کی پالیسیوں کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے اور اس نے اپنا سارا زور سماجی بہبود کے پروگراموں پر دیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ یہ جماعت غریبوں کی مدد پر توجہ مرکوز کرے گی۔
٭خاندانی وراثت: راہول گاندھی اور نریندرمودی کے درمیان مقابلہ انڈیا کی سیاسی تاریخ میں ایک عوامی ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔راہول گاندھی انڈیا کے سابق وزیراعظموں کے خاندان سے ہیں۔ ان کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ وہ ایک نخریلے اور لاڈلے نوجوان ہیں، جن تک ہر ووٹر کی رسائی نہیں ہے۔ دوسری جانب مودی کی انتخابی مہم میں سارا زور ان کے ابتدائی حالات پر دیا گیا ہے، جب وہ بچپن میں اپنے والد کے ٹی اسٹال پر کام کرتے تھے اور ہر ایک کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ مودی اپنے اس سابقہ امیج سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ انڈیا کی سیاست میں آج بھی خاندانی وراثت اور شخصیت نمایاں ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ کے لگ بھگ 30 فی صد ارکان سیاسی خانوادوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭انڈیا کا سیاسی پلیٹ فارم اور جرائم: انڈیا کی سیاست میں جرائم کی لہر کسی وبا کی طرح پھیل چکی ہے۔ موجودہ پارلیمانی چہروں میں 30فی صد کے خلاف مجرمانہ الزامات لگائے گئے ہیں۔ امیدواروں کی نئی فصل کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نئی پارلیمنٹ میں بھی صورت حال بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ آنے والوں میں ایسے لوگ شامل ہوں گے جن پر یا جن کے خاندان پر کسی نہ کسی صورت میں مجرمانہ الزامات لگائے جاچکے ہیں یا لگائے جارہے ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انڈین سیاست میں انتخابی مہمات پر بڑھتے ہوئے اخراجات کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر دولت مندوں کی اکثریت پارلیمنٹ میں پہنچے گی، جو ظاہر ہے عام لوگوں کے نمائندے نہیں ہوگے۔ ان لوگوں کو ووٹرز ان کے اچھے کردار کی وجہ سے پسند نہیں کریں گے، بلکہ یہ نمائندے اپنی دولت کے بل پر لوک سبھا میں جابیٹھیں گے۔
٭نوجوان ووٹرز اور سوشل میڈیا کا کردار:مبصرین کا اندازہ ہے کہ پہلی بار ووٹ کاسٹ کرنے والے نوجوانوں میں سے کم و بیش دس فی صد ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انڈیا کی نوجوان آبادی 65فی صد35 سال سے کم عمر کی حامل ہے۔ ان نوجوانوں کا دبائو آنے والی حکومتوں کو اچھی معاشی پالیسیاں بنانے پر مجبور کردے گا۔ انہی نوجوانوں کی وجہ سے انتخابی مہمات میں سوشل میڈیا کی اہمیت بھی بڑھ رہی ہے۔
٭عام آدمی پارٹی کی لہر: عام آدمی پارٹی یا اے اے پی کہاں سے آگئی؟ 2011-2012 میں جب ملک بھر میں عام آدمی پارٹی کے بینر تلے کرپشن کے خلاف احتجاجی سلسلہ شروع ہوا تو اس جماعت نے اسی دوران دہلی اسمبلی کے لوکل الیکشن میں نمایاں کام یابی حاصل کرکے سیاسی تجزیہ نگاروں کو حیران کردیا۔ 70میں سے 28 نشستیں جیت کر AAPنے تہلکا مچادیا۔ اس کے سرگرم لیڈر اروند کجریوال کو دہلی کا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔ یہ تو سچ ہے کہ AAP نے مڈل کلاس نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف کھینچا، لیکن ایک احتجاجی مہم سے ایک گورننگ فورس میں تبدیل ہونے کا فن اس جماعت کو ابھی نہیں آیا۔ یہی وجہ تھی کہ کجریوال اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کرسکے اور انہوں نے صرف 49دن بعد ہی دہلی کی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ توقع کی جارہی ہے کہ عام آدمی پارٹی ان انتخابات میں زیادہ ووٹ حاصل کرسکے گی اور مخلوط حکومت کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرے گی۔
٭ خواتین کی آواز: ان عام انتخابات میں انڈیا کی خواتین پہلے سے زیادہ سرگرم اور متحرک ہیں۔ اس بار ماضی کی طرح خواتین الیکشن سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بجائے اپنے خاندان کے مرد ارکان کے ساتھ اپنا الیکٹرونک ووٹ کا حق استعمال کرسکیں گی۔ اب انہوں نے پہلے سے زیادہ اپنے ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرلیا ہے اور وہ اسے ضرور استعمال کریں گی۔ ویسے تو ان انتخابات میں اپنا حق استعمال کرنے والی خواتین کی شرح 48.5فی صد بنتی ہے، لیکن بعض مقامات پر وہ مردوں پر سبقت لے گئی ہیں۔ افراط زر ،لاقانونیت نے خواتین کو زیادہ متاثر کیا ہے، کیوں کہ گھریلو اخراجات کے امور وہی نمٹاتی ہیں اور منہگائی جیسے مسائل کا انہی کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تشدد کا شکار بھی وہی ہوتی ہیں، چناں چہ انڈیا کے سماجی ماہرین کے مطابق خواتین اپنے مسائل کے ذمے دار عناصر کو پہچان چکی ہیں، اس لیے وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے اپنی مشکلات کو کم کرنا چاہتی ہیں۔
٭علاقائی جماعتوں کا بنیادی کردار: 1989سے اب تک انڈیا میں کوئی بھی پارٹی مرکز میں قطعی اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اس سال بھی یہی صورت حال ہوسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ علاقائی پارٹیاں ہی حکومت سازی میں بی جے پی یا کانگریس کی مدد کریں گی۔ انڈیا کی پانچ بڑی ریاستوں اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، تامل ناڈو اور اڑیسہ پر علاقائی جماعتوں ہی کا کنٹرول ہوتا ہے۔ لوک سبھا میں ان پانچوں ریاستوں کی مجموعی نشستوں کی تعداد 200بنتی ہے۔ان علاقائی جماعتوں کے ایجنڈے بھی منفرد اور مختلف ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے ساتھ مل کر ملک کے مستقبل کی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔انڈیا کا مستقبل اب کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ اس کا فیصلہ انتخابات کے نتائج کریں گے۔