تحریر: فریڈی ولکنسن
چاروں اَور پھیلی گہری تاریکی میں منگما گائلجے شرپا نے ایک بار پھر اپنی پیشانی پر بندھے برقی لیمپ سے پھوٹتے روشنی کے دائرے پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی جو اس سے چند قدم آگے برف پر پڑ رہا تھا، مگر یخ بستہ سردی اس کے خیالات پر غالب آگئی۔
سردی کی متوقع شدت کے پیش نظر منگما نے کوہ پیمائوں کے، ایک کے بجائے دو مخصوص گرم لباس پہنے ہوئے تھے۔ سلنڈر میں بھری آکسیجن کے باعث اسے سانس لینے میں کسی دشواری اور مشقت کا سامنا نہیں تھا۔ یوں اسے بالکل ٹھیک ہونا چاہیے تھا۔ اب تک وہ کئی بار پہاڑی چوٹیاں سَر کرچکا تھا، شدیدبرفانی طوفانوں اور ہوا کے جھکڑوں کا بھی اسے سامنا رہا، مگر اس بار گرتا ہوا درجۂ حرارت اسے ہمیشہ سے بڑھ کر اپنا احساس دلارہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے خون جمادینے والی سردی اس کے دہرے گرم لباس کو چیرتے ہوئے ہڈیوں میں سرایت کرتی جارہی ہو۔ اس بار یہ موسم منگما کو کسی اور ہی دنیا کا معلوم ہورہا تھا۔
منگما محسوس کرسکتا تھا کہ اس کا جسم جواب دے رہا ہے۔ اس کے جسم کے بائیں حصے نے یخ بستہ ہوائوں کی ضربیں سہی تھیں، ہر تھپیڑے کے ساتھ وہ کپکپا اٹھتا تھا اور لگتا تھا جیسے برفانی ہوا کی تلوار اس کے اعضا کو چیرے دے رہی ہو۔ اس کے سیدھے پائوں کی حالت بالخصوص ناگفتہ بہ تھی۔ پہلے اس میں جھنجھناہٹ سی ہورہی تھی، پھر منگما کو اس میں شدید جلن کا احساس ہوا اور اب اس کے جسم کا یہ حصہ بے حس ہوچکا تھا۔ یہ فراسٹ بائٹ کی ابتدائی علامت تھی۔ منگما جانتا تھا کہ ان سنگین ترین حالات میں اس کا جسم دیگر اعضا کو نظرانداز کرکے اعضائے رئیسہ کو محفوظ اور گرم رکھنے کے لیے انھیں زیادہ خون فراہم کرنے لگا تھا۔
منگما کو یہ بدترین صورت حال آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر اس علاقے میں قدم رکھنے سے پہلے ہی درپیش ہوچکی تھی جو ’ ڈیتھ زون‘ کہلاتا ہے، جہاں آکسیجن کی قلت کی وجہ سے کوہ پیمائوں کی دماغی حالت متاثر ہوجاتی ہے، پھیپھڑوں میں پانی بھرجاتا ہے اور وہ خودحفاظتی کی جبلی خاصیت سے بھی بیگانہ ہوجاتے ہیں۔
اچانک منگما جی (وہ اسی نام سے معروف ہے) کے ذہن میں خیال آیا اور اس نے اپنے ریڈیو کی ناب گھمائی اور زور زور سے پکارنے لگا،’’داوا تینجن؟َ داوا تینجن؟‘‘ مگر اسے ہوا کے شور کے سوا کچھ سنائی نہ دیا۔ اوپر اسے اپنی ٹیم کے کئی ساتھیوں کے ہیڈلیمپ سے پھوٹتی مدھم روشنی دکھائی دے جاتی تھی جو بے ترتیبی کے ساتھ، بدقت تمام چوٹی کی جانب حرکت کررہے تھے۔ منگما کے ذہن میں خیال گزرا کہ یا تو ہر شخص اپنے اپنے ہدف پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے یا پھر اسی کی طرح انتہائی سنگین حالات سے دوچار اور اسے جواب دینے سے قاصر ہے۔
موسم گرما کے مہینوں میں بھی، جب کہ موسم قدرے بہتر ہوتا ہے، 28251 فٹ اونچی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہلاکت خیز روپ اختیار کرلیتی ہے۔ اگرچہ مائونٹ ایورسٹ کی اس سے اونچائی فٹبال کے دو میدانوں کی مجموعی وسعت سے بھی زیادہ ہے مگر اسے سَر کرنے کے لیے کہیں زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے اور غلطی کی صورت میں بچت کا امکان بھی نہ ہونے کے مساوی ہے۔ امریکی کوہ پیما جارج بیل نے 1953ء میں کے ٹو کو سَر کرنے کی ناکام مہم کے بعد کہا تھا، ’’ کے ٹو ایک خونخوار پہاڑ ہے جو آپ کو زندگی سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
’’ خونخوارپہاڑ‘‘ کی یہ عرفیت کے ٹو کے ساتھ چپک سی گئی ہے کیوں کہ ہر پانچ میں سے ایک کوہ پیما اسے سَر کرنے کی کوشش کے دوران جان سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے۔
مگر، اب جب کہ موسم گرما گزرے چار ہفتے بیت چکے تھے، اور شمالی نصف کرہ سورج کی حیات بخش گرماہٹ سے بعید ترین فاصلے پر تھا، کے ٹو کا موسم بدترین رُوپ اختیار کرچکا تھا۔ ان دنوں پہاڑی کے اوپری حصوں پر چلتی ہوا کا درجۂ حرارت منفی تیس ڈگری سیلسیئس تک گرجاتا ہے۔ اس کے باوجود اسی ناموافق موسم میں کے ٹو کو سَر کرنا منگما جی کا دیرینہ خواب تھا۔
منگما فراسٹ بائٹ کے اثر سے پائوں کو بچانے کے لیے ٹھوس برف کے ایک ٹکڑے پر پوری قوت سے ٹھوکریں مار رہا تھا۔ مگر اس عمل کے دوران بھی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹیم کے کچھ ارکان آگے بڑھنے کے لیے موزوں جگہوں پر میخیں ٹھونکنے اور ان سے رسّی باندھنے کی کوشش کررہے تھے۔ بیشتر تجربہ کار کوہ پیمائوں کے نزدیک سردیوں میں کے ٹو سَر کرنے کا خیال پاگل پن سے کم نہیں۔
موسم سرما میں کے ٹو سَر کرنے کی چھے سنجیدہ مہمات ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ کوئی بھی ٹیم چوٹی کے قریب پہنچنے میں بھی کامیاب نہیں ہوپائی تھی۔
اس موسم میں کے ٹو کو سَر کرنے کی راہ میں گوں ناگوں مشکلات اور چیلنج حائل ہوجاتے ہیں۔ اچانک طوفانی جھکڑ چلنے لگتے ہیں جو ایک جھٹکے میں رسّی سے بندھے کوہ پیمائوں کو موت کے منہ میں اُچھال دیتے ہیں۔ کوہ پیما توپ سے نکلے گولے کی سی تیزی سے نیچے آتی چٹان یا برفانی تودے کی زد میں بھی آجاتے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری، بلندی پر ہوا کی کمی سے دماغی خلجان کا خطرہ، اور سب سے بڑھ کر کوہ پیمائوں کو بے رحم سرد موسم کا سا منا ہوتا ہے۔ انتہائی سخت اور ناموافق موسمی حالات میں تجربہ کار کوہ پیمائوں پر مشتمل ٹیمیں بھی خطرات اور دبائو کا شکار ہوکر ذاتی اختلافات اور لیڈرشپ کے تنازعات میں گھرتی رہی ہیں۔
2020 ء کے آخری مہینوں میں لگ بھگ 60کوہ پیما کے ٹو کے ’ قدموں‘ میں واقع گوڈون آسٹن گلیشیئر پر پہنچے۔ یہ گلیشیئر قراقرم کے سلسلۂ کوہ کے اس حصے میں ہے جو پاکستان کی حدود میں آتا ہے۔ تمام کوہ پیما کوہ پیمائی کے میدان میں مشکل ترین سمجھی جانے والی اس مہم میں کامیابی کے لیے پُرعزم تھے۔ تاہم منگما جی اور اس کے دیگر نو ہم وطنوں کے لیے یہ مہم ذاتی کامیابی حاصل کرنے سے بھی بڑھ کر تھی۔
منگما اور اس کے ساتھیوں کے لیے یہ ثابت کرنے کا نادرموقع تھا کہ نیپالی قوم ، جس کی سرزمین پر فلک بوس چوٹیاں سر اٹھائے کھڑی ہیں، کے جانباز وہ حاصل کرسکتے تھے جو متعدد لوگوں کے خیال میں ناممکن تھا۔ منگما جی نے صورت حال کا جائزہ لیا۔ کے ٹو کی ’ سر کش‘ چوٹی اب پہنچ سے بہت زیادہ دور نہیں تھی۔ مگر اسے فتح کرنے کی قیمت کیا ہوسکتی تھی؟ منگما جی جانتا تھا کہ ایک شدید جسمانی چوٹ اس کی بقیہ زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل کرسکتی تھی۔ اس کے والد بھی شرپا (کوہ پیمائوں کے گائیڈ) تھے۔
مائونٹ ایورسٹ پر ایک مہم میں ان کی آٹھ انگلیاں شدید ترین سرد موسم کی نذر ہوگئی تھیں۔ جب انھوں نے ایک غیرملکی کوہ پیما کے جوتے کا تسمہ باندھنے کے لیے اپنے دستانے اتارے تو انگلیاں فراسٹ بائٹ کی زد میں آگئی تھیں۔ ’’اگر کوئی ساتھی ہاتھ یا پائوں سے محروم ہوگیا، یا جان سے چلاگیا تو؟ کیا یہ مہم اتنی اہم ہے کہ اس کے لیے یہ قربانی دی جائے؟‘‘ منگما جی کے ذہن میں خیال گزرا۔ منگما جی اور اس مہم کے دیگر اراکین، جو اس مہم سے جُڑے خطرات اور خوفناک سرد موسم کی ہلاکت خیزی سے آگاہ تھے، کے پاس ان سوالوں کا یکساں جواب تھا، ’ہاں ‘!
گذشتہ صدی کے وسط میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند تمام14 چوٹیاں سَر کی جاچکی تھیں۔ پہلے 1950ء میں نیپال کی ایناپورنا I سَر کی گئی۔ اس کے بعد 1953ء میں مائونٹ ایورسٹ اور پاکستان کی نانگا پربت انسانی قدموں سے روشناس ہوئیں۔ کوہ پیما بلند ترین چوٹیوں پر فتح کے جھنڈے گاڑتے رہے، یہاں تک کہ 1964ء میں تبت کی شیشاپانگما بھی سَر کرلی گئی۔
اگرچہ بیشتر چوٹیاں ایشیائی ممالک میں واقع تھیں مگر انھیں سَر کرنے کا سہرا زیادہ تر یورپی ٹیموں کے سر رہا۔ اس زمانے میں کوہ پیمائی کی ہر مہم میں مقامی افراد جیسے شرپا، تبتی اور بلتی کلیدی کردار ادا کرتے تھے، وہ سامان پہلے بیس کیمپ اور پھر ٹیم کے ساتھ ساتھ پہاڑ پر لے جاتے تھے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں ان کے کردار کو نظرانداز کردیا گیا ہے یا پھر قرارواقعی اہمیت نہیں دی گئی۔
جب یہ تمام بلندترین چوٹیاں سَر کی جاچکیں تو پولینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما آندریج ژوادا نے ایک نیا چیلینج پیش کیا۔ آٹھ ہزار میٹر سے اونچی تمام چوٹیاں موسم گرما میں ’ فتح‘ کی گئی تھیں جب کہ موسمی حالات موزوں ترین ہوتے ہیں۔ آندریج کا کہنا تھا کہ ان چوٹیوں کو شدید سرد موسم میں سَر کرنا بے حد مشکل ہوگا۔ 1980ء میں زوادا کی سربراہی میں کوہ پیمائوں کی ٹیم نے موسم سرما میں مائونٹ ایورسٹ سَر کرنے کی ٹھانی۔ اس مہم میں دو کوہ پیمائوں نے انتہائی ناموافق سرد موسم میں ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر تاریخ رقم کردی۔
بعدازاں یکے بعد دیگر دوسری بلند ترین چوٹیوں پر بھی سرما میں کامیابی کے جھنڈے لہرا دیے گئے، مگر پاکستانی چوٹیاں شدید سرد موسم میں ناقابل شکست بنی رہیں۔ نیپالی چوٹیوں کے شمال میں آٹھ درجے عرض بلد پر واقع قراقرم کے سلسلۂ کوہ کا موسم، سرما میں انتہائی سرد ہوجاتا ہے اور یہاں تیز ہوا کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ 2016ء میں کوہ پیما 31ویں کوشش میں نانگا پربت کی چوٹی پر پہنچ سکے۔ اب صرف کے ٹو باقی رہ گئی تھی۔
پہاڑی چوٹیوں کی بات آئے تو ذرائع ابلاغ میں اکثر ایورسٹ کا چرچا ہوتا ہے مگر سنجیدہ کوہ پیما کے ٹو کو ایورسٹ سے زیادہ بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ جزوی طور پر اس کی وجہ کے ٹو کا آبادی سے بعید ترین فاصلے پر واقع ہونا بھی ہے۔1856 ء میں جب برطانیہ کی سروے ٹیم نے قراقرم کے سلسلۂ کوہ کی پہلی چوٹی کی نشاندہی کی تھی تو انھوں نے اپنے سروے میں اس کا نام مقامی نام سے تبدیل کردیا تھا، جیسے کے ون کو مقامی باشندے ’ماشر برم‘ کہتے تھے، مگر کے ٹو قریب ترین قصبے ’’اسکولی‘‘ سے بھی دکھائی نہیں دیتی تھی، اس لیے اسے کوئی مقامی نہیں دیا جاسکا تھا۔
اسکولی سے چار روز کی دشوارگزار مسافت کے بعد جنوبی سمت سے کے ٹو کی اہرام نما شکل سامنے آتی ہے۔ کے ٹو انتہائی ڈھلوان ہے۔ اس کی یہ خاصیت کوہ پیمائوں کی نگاہوں میں فوراً آجاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس پہاڑی پر چڑھتے ہوئے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کسی بھی غلطی کا نتیجہ انتہائی خطرناک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی بھی وجہ سے پھسل جانے کی صورت میں ہزاروں فٹ کی گہرائی میں موجود گلیشیئر سے ٹکرا جانا یقینی ہے۔
سرما میں چوںکہ غلطی کی گنجائش مزید محدود ہوجاتی ہے لہٰذا کامیابی….بلکہ بقا کا انحصار بدترین حالات کے لیے منصوبہ بندی پر آٹھہرتا ہے۔ ایورسٹ او رکے ٹو جیسی عظیم الشان چوٹیاں شاذ ہی ایسے سَر ہوپاتی ہیں کہ کوہ پیما بس ایک سیدھ میں چڑھتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ٹیموں کو عموماً کہیں کہیں بلندی سے نشیب میں بھی آنا پڑتا ہے اور موزوں و محفوظ مقام پر قیام کرکے حکمت عملی ازسرنو بھی ترتیب دینی پڑتی ہے۔
حالیہ برسوں میں تیزتر اور سہل انداز سے کوہ پیمائی کے تصور نے فروغ پایا ہے، مگر موسم سرما میں کے ٹو سے آنکھیں چار کرنے کے لیے پرانے انداز کی اجتماعی کوشش درکار ہوتی ہے جس میں ٹیم کا ہر فرد خطرناک راہ گزر پر بھاری وزن لے کر چلتا ہے۔
منگما جی کا قد پانچ فٹ نو انچ ہے۔ یوں وہ ایک عام شرپا سے بلند قامت ہے۔ چوڑے شانوں کا مالک 33 سالہ یہ شرپا مخاطب کی آنکھوں میں دیکھ کر گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ منگما جی ایورسٹ کے مغرب میں رول والنگ نامی تنگ وادی میں پلا بڑھا۔ اس وادی نے کئی نام وَر شرپا پیدا کیے ہیں۔ پرورش کے مدارج طے کرتے ہوئے منگما جی کے کانوں میں اپنے والد، چچا، ماموں وغیرہ کی باتیں پڑتی رہتی تھیں۔ ان سب کا پیشہ کوہ پیمائوں کی رہبری کرنا تھا۔ موسم سرما کی یخ بستہ راتوں میں یہ سب باورچی خانے کے چولہے کے پاس بیٹھ کر مائونٹ ایورسٹ کے قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
2006ء میں جب منگما جی نے عمر کے انیسویں برس میں قدم رکھا تو چچا اسے اپنے ہمراہ مناسلو سَر کرنے کی مہم پر لے گئے۔ اگلے برس منگما جی کوہ پیمائوں کو جملہ سامان و اسباب فراہم کرنے والے ایک فرانسیسی شخص کے لیے ملازمت کے دوران مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچا۔ پھر 2011ء میں وہ اپنی مہمات ترتیب دینے لگا۔ یہ مشکل سال تھے۔ 2001ء سے 2008ء تک نیپال مائو باغیوں کی کارروائیوں کی زد میں تھا۔ ان حالات میں غیرملکی کوہ پیما نیپال کا رُخ کرنے سے گریزاں تھے۔ چناںچہ جو چند کوہ پیما نیپال آنے کی جرأت کرپاتے تھے ان کا رہبر بننے کے لیے شرپائوں کے درمیان مقابلہ سخت ہوجاتا تھا۔
2019-2020 کے موسم سرما میں منگما جی نے کے ٹو سَر کرنے کے لیے بڑی جدوجہد سے اپنی ٹیم تشکیل دی۔ تین کوہ پیمائوں نے ٹیم میں شمولیت کے لیے منگما کو معاوضہ بھی ادا کیا تھا۔ دوران مہم جب ٹیم 16272 فٹ کی بلندی پر واقع بیس کیمپ پر پہنچی تو منگما جی کو سینے میں انفیکشن نے آلیا جس کے نتیجے میں اسے مہم سے دست بردار ہونا پڑا۔ صحت یاب ہوتے ہی اس نے اپنے دیرینہ خواب کو تعبیر دینے کے لیے کمر کَس لی، لیکن پھر کووڈ 19 اس کے ارادوں کی راہ میں حائل ہوگیا۔ کورونا کی وجہ سے ہمالیہ کے پورے پہاڑی سلسلے میں ہزاروں گائیڈ، پورٹر اور باورچی بیروزگار ہوگئے۔
کے ٹو کی ادھوری مہم سے واپسی کے بعد، چند ہی ہفتوں میں سال بھر کوہ پیماؤں کی رہبری سے حاصل شدہ آمدنی گویا ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ اب اس کی آمدنی کا ذریعہ محض ایک چھوٹا سا کاروبار رہ گیا تھا۔ اس نے کچھ دوستوں سے دوبارہ کے ٹو کی مہم کے لیے بات کرنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی صرف بیس کیمپ تک جانے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے دس ہزار ڈالر خرچنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے علاوہ دوران مہم مزید ہزاروں ڈالر کے اخراجات بھی ہوتے۔
منگما جی نے سرما میں کے ٹو سَر کرنے کے خیال سے دستبرداری کا سوچا مگر کوئی شے اسے اس خیال کو عملی جامہ پہنچانے سے روکتی رہی۔ نیپالی شرپا تینزنگ نارگے ایورسٹ سَر کرنے والے دو اولین افراد میں سے ایک تھا۔ نیپال میں تینزنگ نارگے کو قومی ہیرو کی حیثیت حاصل ہے اور اس کی تصاویر بھی ان گنت گھروں میں لگی ہوئی ہیںِ، تاہم ایورسٹ کو ’ فتح‘ کرنے والا دوسرا شخص نیپالی نہیں تھا۔ ایڈمنڈ ہلیری کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا۔ نیپالی کوہ پیما دیگر یادگار اور اہم ترین مہمات کا حصہ بھی رہے ہیں مگر اب تک مکمل طور پر نیپالی کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم کوئی بھی مہم سَر نہیں کرسکی تھی۔
منگما جی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’وکی پیڈیا کے ذریعے میں نے جانا کہ کوئی بھی نیپالی موسم سرما میں آٹھ ہزار میٹر سے اونچی چوٹی سَر نہیں کرسکا، مجھے محسوس ہوا کہ اگر ہم کے ٹو سے شکست کھاگئے تو پھر دوسری تمام چوٹیاں بھی ہمارے ہاتھوں سے پھسل جائیں گی۔‘‘ منگما جانتا تھا کہ اسے ایک بڑی رقم درکار ہوگی چا ہے اس کے لیے اسے اپنی ملکیتی اراضی ہی کیوں نا رہن رکھنی پڑتی جو اس نے کٹھمنڈو میں خرید رکھی تھی۔
خاصی تگ و دو کے بعد منگما جی دو بھائیوں کیلو پیمبا اور داوا تینجن کو اس مہم کے لیے راضی کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ دونوں بھائی اس کے ہم عمراور کوہ پیمائی کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ تاہم اہل خانہ کو دونوں بھائیوں کی اس خطرناک مہم میں شمولیت پر تحفظات تھے۔
’’کیلو اور داوا کی بیگمات کو راضی کرنا میرے لیے بے حد مشکل ثابت ہوا تھا،‘‘ منگما جی نے ذہن پر زور دیتے ہوئے بتایا،’’وہ کہتی تھیں اگر ان کے شوہر جان سے گئے تو پھر ہم تمھارے گھر پر آکر رہیں گی اور تمھیں ہمارا اور ہمارے بچوں کا خرچا اٹھانا ہوگا۔ ان کی باتوں سے میں تھوڑا سا ڈر بھی گیا تھا۔‘‘
منگما جی کے لیے ایک مشکل اور بھی تھی۔ کووڈ 19 کے باعث فراغت کی طویل مدت کے دوران اس کا وزن بڑھ گیا تھا۔ مہم کے لیے اضافی وزن سے چھٹکارا پانا ضروری تھا۔ چند ہفتوں کی سخت مشقت کے بعد وہ اپنے جسم کو مطلوبہ ہیئت دینے میں کام یاب ہوگیا۔
منگماجی کے ٹو پر نگاہ رکھنے والا واحد شرپا نہیں تھا۔ ان میں ’ سیون سمٹ ٹریکس‘ نامی کوہ پیمائی کی سہولتیں مہیا کرنے والی کمپنی کے تین مالکان بھائی کے دلوں میں بھی یہی خواہش جاگزیں تھیں۔ اپنی مغربی حریف کمپنیوں سے کہیں کم دام لے کر یہ کمپنی کوہ پیمائی کی ٹیموں کی تشکیل کرتی ہے۔ اور ہر سیزن میں ایورسٹ کے لیے کم از کم ایک کوہ پیما ٹیم روانہ کرتی ہے۔
کووڈ 19 کے باعث مہمات منسوخ ہونے کی وجہ سے ان تینوں بھائیوں کو بھی مالی خسارے کا سامنا تھا۔ ان حالات میں انھوں نے گذشتہ مارچ میں سوشل میڈیا پر موسم سرما میں کے ٹو کو سَر کرنے کی مہم کی تشہیر کی۔ جلد ہی اس مہم کے لیے ان سے روس، اسپین، آئرلینڈ، ترکی اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں نے رابطہ کرلیا۔
21دسمبر 2020ء کو موسم سرما کے باقاعدہ آغاز کے پہلے ہی روز منگما اور اس کے دو ساتھیوں نے کے ٹو کی انتہائی بلندیوں کی جانب سفر کی ابتدا کی ۔ چند ہفتوں کے بعد انھوں نے 22600فٹ کی بلندی پر اس مقام سے نیچے کیمپ لگایا جو ’’ سیاہ مخروط‘‘ ( Black Pyramid) کہلاتا ہے۔ یہ کم زور چٹانوں کا قریب قریب عمودی ٹکڑا ہے جسے کے ٹو سَر کرنے کی مہم کا پہلا بڑا تیکنیکی چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ یہ حصہ کوہ پیماؤں کی احتیاط پسندی اور صبر کا امتحان لیتا ہے۔ سیاہ مخروط سے گزر کر کوہ پیما کیمپ تھری میں پہنچتے ہیں۔ اس مقام سے صحیح معنوں میں کے ٹو سَر کرنے کی کٹھن مہم شروع ہوتی ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد منگما اور اس کے ساتھی ایک مشکل سے دوچار ہوگئے۔ ان کے پاس رسّی کم پڑگئی تھی۔
منگما کو علم تھا کہ نیچے کیمپوں میں کئی ٹیمیں سستانے کے لیے رُکی ہوئی ہیں۔ ان میں ایک دوسری نیپالی ٹیم بھی شامل تھی جس کی رہنمائی اسپیشل فورس کا سابق فوجی نرمل نمس پرجا کررہا تھا۔ منگما اور نرمل کی پہلے ملاقات ہوچکی تھی۔ یہ 2019 کے وسط کی بات تھی جب نرمل چھے ماہ میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند تمام چوٹیاں سَر کرنے کے ’ مشن ‘ پر تھا۔ منگماجی کی طرح وہ بھی ایک بہترین کوہ پیما اور زبردست ٹیم لیڈر تھا۔ منگماجی اس سے مسابقت محسوس کرتا تھا اور شاید نمس کے دل میں بھی منگماجی کے لیے اس سے مختلف جذبات نہیں تھے۔
اس کے باوجود منگما نے نمس سے ریڈیو پر رابطہ کرکے رسّی لے آنے کی درخواست کردی تھی۔ اگرچہ نمس کی ٹیم کو کوہ پیمائی شروع کیے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور وہ لوگ ماحول سے مانوس بھی نہیں ہوئے تھے، پھر بھی انھوں نے منگما اور اس کے ساتھیوں کو اضافی رسّی فراہم کرنے کی ہامی بھرلی تھی۔
اگلی صبح نمس کی ٹیم بھی ’سیاہ مخروط‘ سے کچھ ہی نشیب میں واقع کیمپ میں پہنچ گئی۔ دونوں ٹیمیں چائے سے لطف اندوز ہونے کے لیے بیٹھیں تو انکشاف ہوا کہ نمس کی ٹیم میں بھی کوئی غیرنیپالی کوہ پیما نہیں تھا۔ وہ سب کسی غیر کے لیے نہیں صرف اپنے لیے کے ٹو سَر کرنے آئے تھے!
اگلے روز نمس اپنی ٹیم سمیت کچھ اور سستانے کے لیے واپس بیس کیمپ لوٹ گیا۔ اسی شام اس نے نئے سال کی خوشی منانے کے لیے اپنے دو ساتھی بھیج کر منگما کو نیچے آنے پر مجبور کردیا۔ سنجیدہ مزاج منگما کے برعکس نمس خوش مزاج تھا۔ اس کی شخصیت سے کھلنڈرا پن بھی جھلتا تھا۔ نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہوئے انھون نے بیس کیمپ میں خوب ہلا گلا کیا۔ اسی دوران ، منگما اور ان کے ساتھیوں نے دونوں ٹیموں کو ضم کرکے مشترکہ طور پر یہ مہم جوئی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ منگما جی کا کہنا تھا کہ جب ہم سب کا مقصد مشترک تھا تو پھر ایک ٹیم ہونے سے اس مقصد کے حصول کی جانب تیزتر پیش قدمی ممکن ہوجاتی۔ چنانچہ دونوں ٹیمیں یکجا ہوگئیں۔
کوہ پیمائی کے پیشے سے جُڑے شرپاکے بارے میں یہ عام تصور ہے کہ وہ سیدھے سادے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے ہوتے ہیں کسی کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرتے، مگر یہ پیشہ ان سیدھے سادے لوگوں سے بعض اوقات بھاری خراج وصول کرتا ہے۔ مہم جوئی کے دوران پہنچنے والی جسمانی تکالیف کے علاوہ ہر ایک اپنے کسی نہ کسی دوست یا عزیز سے محروم ہوچکا ہے۔
گذشتہ سات سال خاص طور سے بے رحم ثابت ہوئے۔ 2014ء میں 16 سب سے زیادہ تجربہ کار شرپا برفانی تودے کی زد میں آکر ایورسٹ پر قربان ہوگئے۔ پھر 2019ء میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ایورسٹ کے بیس کیمپ میں 19 کوہ پیما اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ زلزلے سے ملک بھر میں نوہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور اب کورونا کی وبا نے انھیں ایک سال سے روزگار سے محروم کر رکھا تھا۔
شرپا اپنے پیشے سے جُڑی اس تلخی سے بھی بخوبی آشنا ہیں جو انھیں اپنی محنت کو تسلیم نہ کیے جانے پر محسوس ہوتی ہے۔ منگما جی کہتا ہے،’’بہت کم غیرملکی ہماری رہنمائی، مدد اور محنت کو بس اس حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے مضامین میں نام لیے بغیر پہاڑی گائیڈ یا پورٹر کے طور پر ہمارا تذکرہ کردیتے ہیں۔ اکثریت اپنی مہم جوئی کو بیان کرتے ہوئے ہمارا وجود ہی فراموش کردیتی ہے۔ غالباً یہ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ ہم ان کے تحریرکردہ مضامین نہیں پڑھتے۔‘‘
پھر مقامی اور غیرملکی کمپنیوںکے مابین کوہ پیمائی کی مہمات ممکن بنانے کے پُرکشش کاروبار کے حوالے سے تناؤ پیدا ہوتا چلا گیا۔ اس بارے میں منگما کہتا ہے،’’ہم مقامی باشندے ہیں اور غیرملکیوں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ منگما یہ حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ نیپالی اور غیرملکی کمپنیوں کے درمیان اس شعبے میں سخت مقابلہ ہے، مگر بیرونی کوہ پیما غیرملکی کمپنیوں ہی پر اعتماد کرتے ہیں۔
موسم سرما میں پہلی بار کے ٹو سَر کرنے سے یہ پیغام جاتا کہ نیپالی، کوہ پیمائی کی دنیا میں نہ صرف شریک کار بلکہ لیڈر کے طور پر بھی اپنا جائز مقام حاصل کررہے ہیں۔ نمس نے بعد میں کہا تھا کہ ہم یہ مہم صرف اپنے لیے کامیاب بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے دونوں ٹیموں کو یکجا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی۔
سال نو کے پہلے روز منگماجی بیدار ہوا تو اس کے سر میں درد تھا۔ غالباً یہ گذشتہ شب نئے سال کی آمد کی خوشی میں کی گئی مے نوشی کا اثر تھا۔ منگماجی خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھا تھا کہ اچانک ریڈیو سے نشر ہوتی نمس کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی جو اسے اپنے کیمپ میں چائے کی دعوت پر مدعو کررہا تھا۔ چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انھیں آگے کا لائحہ عمل بھی طے کرنا تھا۔
شرپاؤں کا عقیدہ ہے کہ پہاڑ کو بخوشی کوہ پیماؤں کو اپنی چوٹی پر پہنچنے اور پھر صحیح سلامت واپس آنے کی اجازت دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ میں کوہ پیمائی کی کسی بھی مہم کے آغاز پر پوجا کی رسم انجام دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد پہاڑوں کے دیوتاؤں سے پیش قدمی کی اجازت اور محفوظ راستہ طلب کرنا ہوتا ہے۔ تاہم 2021ء کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ کے ٹو اپنی چوٹی پر کسی انسان کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کئی روز تک سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے برفانی ہوائیں چلتی رہیں اور بیس کیمپ پر درجۂ حرارت صفر سے کئی درجے نیچے چلاگیا۔ اس ناموافق موسم میں ہر شخص اپنے خیمے تک محدود رہنے پر مجبور تھا۔
جب ہوا کی تیزی میں قدرے کمی آئی تو نمس کی ٹیم اپنے سازوسامان کی جانچ کے لیے فوری کیمپ ٹو پہنچی۔ اس منظر کے بارے میں نمس نے انسٹاگرام پر لکھا تھا،’’ہر طرف جیسے تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ مہم کا ضروری سامان بشمول سلیپنگ بیگز، مخصوص جوتوں کے بیٹری سے گرم رہنے والے تلے، دستانے اور گاگلز کو طوفانی ہوا اڑا لے گئی تھی۔‘‘
محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق 14 جنوری سے ہواؤں کی شدت میں کمی آتی۔ طوفانی ہواؤں کی بیس کیمپ ٹو میں اس ’واردات‘ کے بعد نئے سامان اور آلات کے لیے بیس کیمپ ہی میں انتظار کیا گیا۔ سیون سمٹ ٹریکس سے وابستہ سونا شرپا نامی نیپالی مطلوبہ سامان لے کر ان سے آن ملا۔
اسی دوران منگما جی اور نمس نے چوٹی تک پہنچنے کے لیے اپنے منصوبے کا ازسرنو جائزہ لیا۔ منصوبے میں جزوی تبدیلی کرتے ہوئے انھوں نے کیمپ فور میں ایک سخت رات گزارنے کے بجائے ایک ہی دن میں پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع کیمپ تھری پہنچنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگر سب کچھ ان کی امیدوں کے مطابق ٹھیک رہتا اور کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہوتی تو وہ پندرہ تاریخ کو چوٹی پر پہنچ جاتے۔
بعدازاں بیس کیمپ میں موجود کچھ دوسرے کوہ پیماؤں نے ان پر صرف نیپالیوں پر مشتمل ٹیم کے ساتھ چوٹی سَر کرنے کے ارادوں کو خفیہ رکھنے کا الزام عائد کیا۔ اس الزام کو منگما جی نے بخوشی تسلیم کیا۔ پہاڑی مہمات سے متعلق ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے منگما نے کہا تھا،’’فٹبال ورلڈ کپ ہو تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک شکست کھا جائے؟…… آپ کبھی یہ نہیں چاہیں گے۔ جیت کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے کوچ اور ٹیم اپنی حکمت عملی کو ہمیشہ خفیہ رکھتے ہیں۔ اس مہم کے دوران ہم بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے۔‘‘
تیرہ جنوری کی شام کو جب نیپالی لگ بھگ تئیس ہزار فٹ کی بلندی پر تھے، منگما اور اس کے ساتھیوں کی یہ حکمت عملی راز نہ رہی اور نیچے موجود کئی ٹیمیں ان کے پیچھے پیچھے ہولیں۔ اگلی صبح جب یہ ٹیمیں بیس کیمپ ٹو میں آرام کررہی تھیں تو نیپالی کیمپ تھری کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ’’ موسم نے ہمارے ساتھ بڑا کھیل کھیلا،‘‘ منگما جی نے بتایا،’’کیمپ تھری سے نیچے سخت ہوا چل رہی تھی مگر کیمپ کے اوپر یہ تیزی ندارد تھی۔‘‘
پندرہ جنوری کو منگماجی اور اس کے تین ساتھیوں نے کیمپ تھری سے اوپر میخیں ٹھونک کر ان میں رسیاں باندھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں سے وہ پہاڑ کے اس حصے کی جانب پیش قدمی کرتے جو ’’شولڈر‘‘ کہلاتا ہے۔ اچانک برف کی دبیز تہہ میں ایک شگاف نمودار ہوگیا اور ان کی پیش قدمی رک گئی۔ اس مقام سے کیمپ فور کچھ ہی اوپر تھا۔ متبادل راستہ تلاش کرنے میں کئی گھنٹے صرف ہوگئے۔ یہ بڑی حوصلہ شکن اور تھکادینے والی صورت حال تھی۔ اکثر ان حالات میں کوہ پیما مہم ادھوری چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں، مگر منگماجی اور اس کی ٹیم اس مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کیے ہوئے تھی۔
متبادل راستہ مل جانے کے بعد منگماجی اور تینوں ساتھیوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے ’’شولڈر‘‘ تک میخوں میں رسیاں منسلک کردیں۔ اس اہم کام کی انجام دہی کے بعد وہ چاروں کیمپ تھری لوٹ آئے۔ کچھ گھنٹوں تک آرام کرنے کے بعد وہ سب ’’ شولڈر‘‘ کی جانب بڑھنے کے لیے تیار ہوتے۔
سولہ جنوری کی نصف شب ٹیم کیمپ تھری کو خیرباد کہنے کی تیاریاں کرنے لگی۔ سوائے ایک کے تمام لوگوں نے پہلی بار آکسیجن ماسک پہن لیے تھے کیوں کہ یہاں سے آگے سانس لینے میں دشواری ہوسکتی تھی۔ نمس آکسیجن ماسک کا سہارا لیے بغیر یہ مہم سَر کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ یہ کرپاتا تو یہ کوہ پیمائی کی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل کہلایا جاتا۔ ان لمحات کے بارے میں نمس کا کہنا ہے،’’میں پوری طرح ماحول سے ہم آہنگ نہیں ہوپایا تھا۔ میری تین انگلیاں شدید سردی سے متاثر ہوئی تھیں۔ اپنی صلاحیتوں سے ناواقفیت پوری ٹیم کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتی ہے مگر مجھے خود پر اعتماد تھا کہ میں یہ کرسکتا ہوں۔‘‘
کیمپ تھری سے یہ تمام کوہ پیم ان رسّیوں کے سہارے ’’شولڈر‘‘ کی طرف بڑھنے لگے جو منگما جی نے ٹیم کے دیگر تین ارکان کے ساتھ مل کر سخت مشقت کے بعد میخیں گاڑ کر ان سے منسلک کی تھی۔ منگما جی کہ یہ سخت مشقت رنگ لائی تھی۔ گذشتہ روز جو فاصلہ انھوں نے آٹھ گھنٹوں میں طے کیا تھا وہ شب کی اس تاریکی میں وہ تین گھنٹوں میں طے کرگئے تھے۔ مگر اب تند و تیز ہوا چلنے لگی تھی۔
پاؤں کے فراسٹ بائٹ سے متاثر اور تنہا رہ جانے کے شدید احساس کے زیراثر ایک بار تو منگماجی اپنی مہم سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوگیا تھا، مگر جب کسی نے اس کی ریڈیو کال کا جواب نہ دیا تو پھر اس نے آخری آپشن اختیار کرتے ہوئے پاؤں میں حرارت پیدا کرنے کے لیے اسے ٹھوس برف پر مارنا شروع کردیا تھا۔ کچھ لمحات کے بعد منگماجی اس وقت انتہائی حیران ہوا جب اسے اپنا پاؤں اور انگلیاں محسوس ہونے لگیں۔ اس کی ترکیب کارگر رہی تھی اور پاؤں میں خون کی روانی بڑھ گئی تھی۔ حیرانی کے احساس کے بعد اب منگما جی پر پاؤں کے بچ جانے کی خوشی غالب آگئی تھی۔
نیپالی کوہ پیما ’’شولڈر‘‘ تک پہنچے تو صبح صادق کا وقت تھا۔ کچھ ہی لمحوں بعد سورج کی حیات بخش کرنیں ان کے جسموں کو گرما رہی تھیں۔ ہوا تھم چکی تھی اور پارہ نقطۂ انجماد سے گرنے کے باوجود یہ ایک موافق دن تھا۔
یہاں سے انھیں اپنی منزل بخوبی نظر آرہی تھی، مگر وہاں تک رسائی کے لیے انھیں مزید ایک رکاوٹ عبور کرنی تھی۔ یہ برف کی دبیز تہہ کے ڈھلوان کٹاؤ کے اوپر موجود کنگرا نما تودہ تھا۔ اس سے پرے ہموار ڈھلانیں ہیں جو اوپر چوٹی تک چلی جاتی ہیں۔ اگر کنگرے نما تودے سے کوئی ٹکڑا علیٰحدہ ہوکر نیچے آتا تو یہ براہ راست اس کی زد میں آجاتے۔
منگما تینزی اور داوا تینجن نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس پُرخطر مقام سے آگے نکلنے کے لیے میخوں اور رسیوں کی مدد سے راستہ بنایا۔ آگے بڑھتے ہوئے چٹانوں سے گاہے بگاہے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ٹوٹ کر گرتے رہے۔ ان کے ہیلمٹ سے بھی ٹکرائے مگر کسی کو کوئی سنگین نقصان نہیں پہنچا۔ انھوں نے یہ خطرہ مول لیتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی۔
جب یہ گروپ چوٹی کے قریب پہنچا تو منگماجی اور نمس پیچھے رہ گئے تھے۔ اس موقع پر چھتیس سالہ منگما تینزی نے کمان سنبھال لی۔ آخری چند گھنٹوں میں وہ میخوں اور رسیوں کی مدد سے باقی ساتھیوں کی چوٹی کی جانب پیش قدمی ممکن بناتا رہا۔ آگے ہونے کے سبب وہ سب سے پہلے چوٹی پر پہنچ سکتا تھا مگر عین چوٹی کے نیچے پہنچ کر وہ ٹھہر گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے باقی تمام افراد اس کے پاس پہنچ گئے۔ آکسیجن ماسک سے گریز کے باعث نمس کو خاصی مشقت کرنی پڑرہی تھی۔ ہر قدم کے بعد وہ دو تین گہرے سانس لیتا تھا۔
سورج کی کرنیں کے ٹو کی برف پوش چوٹی سے ٹکرا کر منعکس ہورہی تھیں اور کام یابی کی خوشی سے سرشار نیپالی ایک گروپ کی صورت میں اکٹھے ہورہے تھے۔ پھر سب نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے چوٹی کی جانب قدم بڑھادیے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے تاریخ رقم کرکے اپنے وطن کا نام بلند کردیا تھا۔ بے ساختہ ان کے لبوں پر نیپال کا قومی ترانہ جاری ہوگیا۔
(بشکریہ نیشنل جیوگرافک میگزین)
The post جب نیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کی… appeared first on ایکسپریس اردو.