امام الہند ابو الکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اقتدار، عہدے اور مرتبے کا طواف کرنے والی ’’سیاست‘‘ کا رخ اور ہوتا ہے اور جہاں اس کا امکان نہ ہو، وہاں یک سر الگ ہی داستان سنائی دیتی ہے۔
زمانۂ اقتدار میں ’’سیاست‘‘ کی ’اُٹھان‘ ہی الگ ہوتی ہے، ہر قدم پر، ہر پتھر کے نیچے سے تین، تین ’نظریاتی کارکن‘ برآمد ہو رہے ہوتے ہیں، جسے دیکھیے وہ کسی نہ کسی ’اقتدار‘ ہمارا مطلب ہے سیاسی بُت کا پجاری ہے اور مُصر بھی ہے کہ وہ بغیر کسی مفاد کے خالصتاً اپنے ضمیر اور دل کی آواز پر یہ سب کر رہا ہے اور پھر اکثر ایسے ہی لوگ عہدے اور مرتبے پا کر کیا کیا گُل نہیں کھلاتے، سب ہی کچھ عیاں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقتدار والی سیاست کے لیے کارکنان تو کارکنان، صحافی، ادیب، استاد، ڈاکٹر، انجینئر سے لے کر تاجروں تک، ہر شعبہ ہائے زندگی میں تھوک کے حساب سے ’ہمدرد‘ اور ’حامی نما‘ افراد مل جاتے ہیں۔ اب جیسے ہی اقتدار ختم، ویسے ہی یہ سارے نام نہاد ’ہمدردان‘ اور ’’کارکنان‘‘ ایک ’مشکل‘ میں، کہ ان کے ’’قبلے‘‘ کی طرف منہ کرکے تو اب ’’نماز‘‘ ہی نہیں ہو رہی۔۔۔ الٹا، لوگ ’شیطان‘ سمجھ کر کنکریاں ہی مار رہے ہیں۔۔۔!
گویا ’روزہ‘ طویل ہوا جا رہا ہے، لیکن ’افطار‘ ہے کہ ہو کے نہیں دے رہا۔ بہت سے لوگ یہ سہار نہیں پاتے اور جھٹ اپنا ’قبلہ‘ بدل لیتے یہں، جب کہ کچھ ظہر، اور کچھ عصر کے وقت اپنے ’روزے‘ توڑ ڈالتے ہیں، کہتے ہیں کہ اب ان کا ’’ضمیر جاگا‘‘ ہے۔
کہتے ہیں سوکھی ہڈی کو تو کتا بھی نہیں پوچھتا اور بے ثمر اور اجڑے پیڑ کی تو ذرا بھی وقعت باقی نہیں رہتی۔ بس کچھ یہی حال ’بغیر اقتدار کی سیاست‘ کا بھی ہوتا ہیِ، بالخصوص جب اقتدار کا بہت دور دور تک کچھ پتا نہ ہو، تو اتنی ہمت اور ظرف شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ خزاں رسیدہ پیڑ کے ساتھ کھڑا رہا جائے۔
یہاں ساری سیاست برائے خدمت اور نظریاتی جدوجہد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پُھوٹ جاتی ہے اور ساری دنیا اقتدار کے لیے وفاداریاں بدلنے والے ’لوٹوں‘ کا تماشا دیکھتی ہے، لیکن یہ تو ’’بے چارے‘‘ شناسا چہرے ہوتے ہیں، جو خبروں میں مذکور ہو کر ساری لعنت ملامت سہتے ہیں، دراصل ’لوٹے‘ سیاست دانوں سے کارکنان اور ان سے نیچے نام نہاد ہمدردوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہی موقع ہے کہ جب ہم پر اقتدار اور سیاست کا مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے اول الذکر کا سارا دَم خم اقتدار ہی کے مرہون منت تھا، تو اسے ’سیاست‘ کہنا بھی دراصل سیاست کی توہین ہے۔
اب رہ گئے ہم صحافی، تو ہمہ وقت ہی ایک مشکل میں پڑے رہتے ہیں، کیوں کہ ’بھاڑے‘ اور ’بِن بھاڑے‘ کے بہت سے ٹَٹو تو اپنی وفاداری بدل کر کہیں نہ کہیں ’پناہ گزین‘ ہو جاتے ہیں، لیکن ’پَترکار‘ کو تو کل بھی مشکل رہتی تھی اور آج بھی۔ وہ اس لیے کہ کل جب وہ ہمارے بہت سے سوالوں کو ’عقیدتی اندھے پن‘ کا شکار ہو کر ناپسند اور رد کرتا تھا، تب ہم اسے یاد دلاتے تھے کہ دھیان رکھیے کہ ہم آپ کی جماعت کے ہمدرد ہیں اور نہ کارکن! یہی صورت ان کے ’قبلہ‘ بدلنے کے بعد ہوتی ہے، لیکن بدستور سوالات اور بہت سے حقائق پر تیوریاں چڑھتی ہیں اور لگ بھگ وہی رویہ دکھایا جاتا ہے، جو اُس وقت سخت سوالات پر دکھایا جاتا تھا۔ ہوتا کیا ہے کہ ہم تب بھی ’برے‘ بنتے ہیں اور اب والے بھی ہمیں ’بکاؤ‘ تک کہنے سے نہیں چُوکتے، یہ سب شاید ساری کوچۂ صحافت ہی کی ’سوغات‘ ہے!
کتنی عجیب بات ہے ابھی کچھ عرصے پہلے تک جو اپنی سیاست میں اس قدر سخت اور درشت تھے کہ اپنے ’قائد‘ کو کسی غلطی سے بھی قطعی مستثنا سمجھتے تھے، اُن پر ذرا سی تنقید تو کیا کوئی سخت سوال بھی ناگوار محسوس کرتے تھے، اب وہ اپنی وفاداریاں بدل کر اپنے تئیں خود کو پچھلے سارے ’’گناہوں‘‘ سے ’بری الذمہ‘ کر چکے اور بضد ہیں کہ اب وہ بالکل پاک پَوتر ہیں، ان پر اب کسی بھی ’الزام‘ کا کوئی دوش نہیں۔ چلیے یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن جب اسی زمانے کی ’اچھائیوں‘ کا وہ خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، تو سارا تضاد اور دُہرا معیار کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ’میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو!‘
اگر آپ اب بھی نہیں سمجھے، تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ مارچ 2016ء میں جنم لینے والی ’پاک سرزمین پارٹی‘ (پی ایس پی) کا ذکرِ خیر ہے۔ ممتاز سینئر سیاسی کارکن بیرسٹر صبغت اللہ قادری (مرحوم) ہمیں اپنے انٹرویو میں اس پر تعجب کا اظہار کر چکے کہ ’جب آپ (کمال) نے دبئی میں یہ جان لیا تھا کہ ’بانی متحدہ‘ ملک دشمنی میں ملوث ہیں، تو آپ تو اس کے بعد بھی ساتھ رہے اور تب سے اب تک کی ساری خرابیوں میں آپ بھی تو برابر کے شریک ہیں، وہ لندن سے یہاں آکر تو کچھ نہیں کرتے تھے۔۔۔!‘ آج ’پی ایس پی‘ کے قیام کو چھے برس ہونے کو ہیں، مندرجہ ذیل میں اب تک کی صورت حال کا ایک مختصر جائزہ قارئین کی نذر ہے:۔
2013ء کا پرتشدد واقعہ اور ’پی ایس پی‘ کا قیام
سیاسی مشکلات اور تنظیمی بحران کی ملی جلی کیفیت کے دوران عام انتخابات کے بعد مئی 2013ء میں جب ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے مرکز ’نائن زیرو‘ پر کمیٹی ’کارکنان‘ کے زبردست اشتعال کا ’شکار‘ ہوئی تھی، اور ڈاکٹر فاروق ستار، واسع جلیل اور دیگر ارکان کے ساتھ مصطفیٰ کمال کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی۔ اس واقعے کے کچھ وقت بعد وہ اور انیس قائم خانی دبئی چلے گئے، جہاں سے وہ باضابطہ طور پر مستعفی ہوگئے اور نجی مصروفیات کو وقت دینے لگے، بقول مصطفیٰ کمال، کہ اس دوران ’سوشل میڈیا‘ پر ان کے نام سے سامنے آنے والی کسی بات سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کے بعد یکایک 3 مارچ 2016ء کو وہ کراچی آئے اور ڈیفینس ’خیابانِ سحر‘ میں قائم ایک بنگلے میں اپنی الگ سیاست کا اعلان کر دیا۔
انھوں نے 2013ء میں نائن زیرو کے اس واقعے کے حوالے سے کہا تھا کہ جب آپ کسی ’کمانڈر‘ کو اسی کے ’سپاہیوں‘ سے پٹوا دیں گے، تو کل کمانڈر اس سے کیسے کام لے سکے گا؟ اگرچہ ان کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ وہ سینٹیر اور اپنے کلیدی تنظیمی عہدے چھوڑ کر گئے، تاہم ان کی سوچ بدلنے میں 2013ء کے اس پرتشدد واقعے ہی نے اصل کردار ادا کیا تھا۔
بعضے مبصرین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی اچانک آمد جلدبازی میں قیادت سنبھال لینے کی ایک کوشش تھی، کیوں کہ ایسی ’’مصدقہ‘‘ اطلاعات دی گئی تھیں کہ منظر سے غائب ’بانی متحدہ‘ طبی اعتبار سے قیادت کے بالکل بھی قابل نہیں رہے، ایک ٹی وی میزبان مبشر لقمان نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ذیابیطس کے باعث ان کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی ہے!‘ پیپلز پارٹی اور متحدہ کے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے بھی کہا تھا کہ اُن کے جسم سے ناگوار مواد بہتا رہتا ہے، لیکن درحقیقت ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
کارکنان کے ’معافی‘ کے طلب گار
مصطفیٰ کمال ’متحدہ‘ سے علاحدگی کے روزِ اول سے یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ’ایم کیو ایم‘ سے وابستہ لڑکے دراصل الطاف حسین کی وجہ سے وغیرہ وغیرہ ’جرائم‘ میں ملوث ہوئے، اس لیے ایسے تمام لوگوں کو ’معافی‘ کا ایک موقع دیا جائے۔ اس دوران ’متحدہ‘ کے بہت سے مقدمات کے ملزم کارکنان ان کی چھتری تلے آئے اور بہت سے لاپتا کارکنان بھی بازیاب ہوئے اور ’پی ایس پی‘ کا حصہ بنے۔
یہی وجہ ہے کہ ناقدین کی جانب سے ’پی ایس پی‘ کو ’ڈرائی کلینر‘ قرار دیا گیا کہ جہاں آکر پچھلے سارے ’’گناہ‘‘ صاف ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ماضی میں ایک ہی جماعت میں باہم شیر وشکر رہنے والے کارکنان، ذمہ داران، راہ نما مبینہ طور پر اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ باقاعدہ ایک دوسرے کی ’مُخبریاں‘ کرتے ہیں، پھر ان کی رہائی یا بازیابی کے لیے ’پی ایس پی‘ کوششیں کرتی ہے اور ظاہر ہے۔
ایسے میں یہ لوگ باقاعدہ ’پی ایس پی‘ کے لیے ایک نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔ یہاں یہ عجیب سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’بانی متحدہ‘ سے انسیت بھی اور پھر کمال کے ساتھ بھی؟ ایسا کیوں کر۔۔۔؟ تو ہم کہتے ہیں کہ ماضی میں ’’میرے قائد، میرے قائد‘‘ کی گردان کرنے والے مصطفی کمال نے پھر یک دم کیا رخ اختیار کیا، تو ’سیاسی بساط‘ پر کیا کچھ ممکن نہیں ہو سکتا۔
دوسری طرف اگر وہ ’خرابیوں‘ کی درستی کے دعوے دار ہیں، تو ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ’پی ایس پی‘ کا حصہ بننے والے لڑکے بھی جامعہ کراچی میں اساتذہ سے بدتمیزیاں کرتے ہیں اور گلی محلّوں میں ان کی جانب سے مبینہ طور پر مہینے اور ہفتے کے ’’حساب کتاب‘‘ کی اطلاعات بھی موجود ہیں، تو پھر کہاں کی توبہ تائب۔۔۔؟
’ایم کیو ایم‘ کو دفن کرنے کا مشن
مصطفیٰ کمال تواتر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے مارچ 2016ء میں واپس آکر الطاف حسین کا ’بُت‘ توڑا۔۔۔ تو جناب ہمارے خیال میں ایسا کوئی دعویٰ اگر کوئی کر سکتا ہے، تو وہ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہی ہو سکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال کے ملک دشمنی سے لے کر دہشت گردی اور وغیرہ وغیرہ الزامات ذوالفقار مرزا کی اسی پریس کانفرنس ہی کا تو چربہ تھے، جو وہ پانچ، چھے برس پہلے بہت بلنگ آہنگ میں کر چکے تھے اور اس وقت تو الطاف حسین کا سورج سوا نیزے پر تھا، البتہ جب کمال اور انیس قائم خانی منحرف ہوئے، تو تین سال سے ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ایک اچھا خاصا آپریشن جاری تھا۔
ایک سال پہلے ’نائن زیرو‘ پر چھاپہ بھی پڑ چکا تھا اور چھے ماہ پہلے الطاف حسین کے خطابات شایع اور نشر کرنے پر بھی مکمل پابندی عائد ہو چکی تھی۔ تب اچانک یہ تین مارچ 2016 ء کو تشریف لائے اور گاہے گاہے ’ایم کیو ایم‘ کے لوگ توڑ توڑ کر اپنے ساتھ شامل کرتے گئے، تحریک انصاف کی فوزیہ قصوری اور رکن صوبائی اسمبلی حفیظ الدین اور ’اے پی ایم ایل‘ کی مرکزی رکن آسیہ اسحٰق کے سوا اور کوئی قابل ذکر نام ایسا نہ تھا، جو ’ایم کیو ایم‘ کے سوا کسی اور جماعت سے ان کے پاس آیا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ مصطفیٰ کمال اعلانیہ کہتے رہے ہیں کہ وہ ’ایم کیو ایم‘ اور ان کے انتخابی نشان ’پتنگ‘ کو دفن کرنے آئے ہیں۔
واضح رہے مصطفیٰ کمال کے انحراف سے پورے تین ماہ قبل ہی دسمبر 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں ’پتنگ‘ نے کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مضبوط ’دو جماعتی اتحاد‘ کو بھی شکست دی تھی۔
اراکین اسمبلی کو مبینہ طور پر دھمکیاں
’پی ایس پی‘ میں اراکین کی ’شمولیتوں‘ کے بارے میں مقتول رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی نے بھی دباؤ کا تذکرہ کیا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ چاہے انھیں جان سے مار دیں، لیکن وہ ’پی ایس پی‘ میں نہیں جائیں گے۔ 15 اپریل 2018ء کو ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ اراکین صوبائی اسمبلی جمال احمد اور نشاط ضیا نے بھی ایک جذباتی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ انھیں ’پی ایس پی‘ میں نہ جانے پر قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
مصطفیٰ کمال کے انحرافی سلسلے کے بعد 22 اگست 2016ء کے ریاست مخالف نعروں کے بعد جب ’بانی متحدہ‘ سے ان کی اپنی جماعت نے بھی علاحدگی اختیار کرلی، تو بڑی دل چسپ صورت حال پیدا ہوئی کہ اصل فرق تو ’مائنس ون‘ یعنی ’بانی متحدہ‘ ہی کا تھا، اب بغیر بانی کی ’متحدہ‘ کے سامنے باقی کیا رہ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ پھر نومبر 2016ء میں دونوں جماعتوں کو جوڑنے کی ایک ناکام کوشش بھی کی گئی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اپنے بانی سے علاحدگی کے بعد بھی رکن اسمبلی آصف حسنین کی ’پی ایس پی‘ میں شمولیت ہوئی، پھر منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ کے نام کی بازگشت سنی گئی، تو ایک دن وہ بھی مصطفیٰ کمال کے ساتھ آکر بیٹھ گئے، اور سینٹ انتخابات میں جگہ نہ ملنے پر بد دل رکن ’رابطہ کمیٹی‘ شبیر قائم خانی نے بھی 14 اپریل 2018ء کو ’’بہادر آباد‘‘ کو خیرباد کہہ کر مصطفیٰ کمال کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
سینٹ الیکشن 2018ء میں ووٹوں کی ’’فروخت‘‘
ابتداً جو بھی اراکین صوبائی وقومی اسمبلی وغیرہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ چھوڑ کر ’پی ایس پی‘ میں جا رہے تھے، وہ اپنی اپنی نشستوں سے بھی مستعفی ہو رہے تھے اور باقاعدہ اس کا اخلاقی اور اصولی جواز بھی دے رہے تھے کہ انھوں نے تو ’ایم کیو ایم‘ کی جانب سے انتخاب لڑا تھا۔ یہ سلسلہ بھی کچھ عرصے بعد جاری نہ رہ سکا۔ سمیتہ افضال، نائلہ لطیف اور دیگر اراکین صوبائی اسمبلی نے ’پی ایس پی‘ میں شمولیت کے باوجود اپنی رکنیت نہ صرف برقرار رکھی، بلکہ اچانک تین مارچ 2018ء کو سینٹ انتخابات کے موقع پر ایوان میں جا کر ووٹ بھی ڈالا، جس کے نتیجے میں ’ایم کیو ایم‘ کی جگہ ’فنکشنل لیگ‘ کے امیدوار سابق وزیراعلیٰ سندھ مظفر حسین شاہ سینٹیر منتخب ہوئے اور انھوں نے باقاعدہ ’پی ایس پی‘ کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔
’پی ایس پی‘ کا داخلی بحران
2016ء میں اِدھر اُدھر کی شمولیتوں سے نمو پانے والی ’پی ایس پی‘ کو بھی جلد ہی اپنے ذمہ داران اور راہ نماؤں کی علاحدگی کے مرحلے سے گزرنا پڑ گیا، یہاں تک کہ سابق صوبائی وزیر اور مرکزی سیکریٹری جنرل رضا ہارون بھی بڑی خاموشی سے ’پی ایس پی‘ سے کنارہ کش ہو گئے، سابق رکن قومی اسمبلی سلمان مجاہد نے بھی فاروق ستار گروپ میں واپسی کا اعلان کیا۔ انیس ایڈووکیٹ، ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم آفتاب، سلیم تاجک اور سیف یار خان نے تو باضابطہ اپنا ایک الگ ’گروپ‘ بھی بنایا ہوا ہے، جو اِن دنوں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ’نزول‘ اور پھر ان کی چھتری تلے کسی ’نئے سیاسی سلسلے‘ کا شدت سے منتظر دکھائی دیتا ہے۔
دوسری طرف مخصوص نشستوں پر رکن سندھ اسمبلی رہنے والی سمیتہ افضال بھی ’پی ایس پی‘ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ سابق رکن ’پی ایس پی‘ کہہ کر اپنا تعارف نہیں کراتے، بلکہ ’ایم کیو ایم‘ سے سابقہ نسبت ہی کو اپنا حوالہ بناتے ہیں۔
عام چناؤ سے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات تک۔۔۔
’پی ایس پی‘ کو اپنے قیام کے دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات 2018ء میں کوئی نشست نہ مل سکی، لیکن پھر متوقع بلدیاتی انتخابات کے لیے خاطر جمع کی گئی، اپریل 2021ء میں بلدیہ ٹاؤن میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں مصطفیٰ کمال بہ نفس نفیس خود ’ایم کیو ایم‘ اور ’تحریک انصاف‘ سے زیادہ ووٹ اور مجموعی طور پر چوتھی پوزیشن لے کر مبصرین کی توجہ مبذول کرا لی۔
تاہم ستمبر 2021ء میں ’کنٹونمنٹ بورڈز‘ کے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد ’پاک سرزمین پارٹی‘ کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اتنے بوکھلائے کہ کہنے لگے کہ ’اللہ ہی (دیگر جماعتوں کی صورت میں) عوام پر ’عذاب‘ مسلط رکھنا چاہتا ہے!‘ یہ وہی انتخابات تھے، جہاں کراچی میں ایک حلقہ ایسا بھی تھا کہ جہاں ’پی ایس پی‘ کے کونسلر کے امیدوار کے حق میں صرف ایک ووٹ نکلا تھا۔
’پی ایس پی‘ اور ’’حقیقی‘‘
1992ء میں جیسے آفاق احمد اور عامر خان نے ’ایم کیو ایم‘ میں شگاف ڈال کر ’ایم کیو ایم‘ (حقیقی) بنائی تھی اور بدر اقبال اور امین الحق جیسے مرکزی اراکین سمیت بہت سے نام ان کے ساتھ ہوگئے تھے، بالکل ایسے ہی 2016ء میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے بھی ’ایم کیو ایم‘ سے انحراف کیا، لیکن انھوں نے ’ایم کیو ایم‘ کے بہ جائے اپنا ایک الگ نام اختیار کیا، دوسرا یہ کہ یہ ساری ٹوٹ پھوٹ ان معنوں میں نہایت ’پرامن‘ طریقے سے ہوگئی کہ کوئی بڑا تصادم رونما نہیں ہوا۔
اگرچہ 1992ء کی طرح اب بھی ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ایک سخت آپریشن جاری وساری تھا، لیکن اِس بار ’پی ایس پی‘ اور ’متحدہ‘ کے مابین ہلکی پھلکی سی تلخیوں اور کشیدگی کے سوا کوئی انتہائی نوبت نہیں آئی۔ تاہم اراکین کی شمولیت کرانے کے لیے زور زبردستی کی شکایات خاصی عام رہیں۔ ’حقیقی‘ اور ’پی ایس پی‘ دونوں کو عوامی پذیرائی نہ ملنے کے حوالے سے بھی مماثلت موجود ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ چھے برس کی ’’کوششوں‘‘ کے بعد بھی ایسے ’بندوبست‘ عوامی پذیرائی نہیں پا سکے ہیں۔
مبینہ طور پر ’سیاسی انجنیئرنگ‘ کے ذریعے سامنے آنے والی ایسی سیاسی جماعتوں کی پذیرائی ہونے کا براہ راست مقصد ’انجینئرنگ‘ کرنے والوں کی فتح ہوتی ہے، کیوں کہ دراصل اس ساری کارفرمائی کے پیچھے یہی منشا ہوتی ہے کہ اختیار اور اقتدار اب اپنی مرضی کے لوگوں کو سونپا جائے۔
The post کیا ’پی ایس پی‘ ’’ایم کیو ایم، حقیقی‘‘ کا تسلسل ثابت ہوئی۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.